دس بلین سال کے بعد آغازِ شب
Page 1 of 1
دس بلین سال کے بعد آغازِ شب
ہماری کہکشاں میں ایک سو بلین ستارے نور افشاں ہیں اور ان میں سے ہر ایک کا انجام متعین ہے، دس بلین سال کے بعد جو ستارے ہم دیکھتے ہیں سب کے سب نظروں سے اوجھل ہوچکے ہوں گے، یہ سب حر حرکیات کے دوسرے قانون کا شکار ہو کر ایندھن کی کمی کے ہاتھوں بجھ چکے ہوں گے.
لیکن ملکی وے یا ثریا پھر بھی دمکتی رہے گی، کیونکہ جہاں ستارے موت سے ہمکنار ہوتے ہیں وہاں، ساتھ ساتھ، نئے ستارے بھی جنم لیتے ہیں، کہکشاں کے مرغولہ نما بازوؤں میں میں سے ایک میں ہمارا نظامِ شمسی بھی ہے، گیسے کے بادل اکٹھے ہوتے ہیں، بھنچتے ہیں، تجاذب کے زیرِ اثر ایک نقطے کے گرد دب کر اکٹھے ہوتے ہیں اور ٹکڑے ہوکر نومولود ستاروں کی آبشاریں بناتے ہیں، اورین نامی جھرمٹ (Constellation of Orion) میں ستاروں کی ایسی ہی ایک نرسری نظر آتی ہے، اورین کی تلوار کے مرکز میں روشنی کا دھندلا سا جو دھبہ نظر آتا ہے ستارہ نہیں بلکہ ایک نیبیولا ہے، نیبیولا غبار اور گیس سے بھرا بہت بڑا علاقہ ہوتا ہے جس میں نئے ستارے جڑے ہوئے نظر آتے ہیں، جب اس نیبیولا کا مرئی روشنی کی بجائے انفراریڈ روشنی میں مشاہدہ کیا گیا تو ایسے ستارے نظر آئے جو اپنی تشکیل کے پہلے مرحلے میں تھے اور ابھی تک ان کے گرد وہ گیس اور گرد موجود تھی جس نے انہیں چھپا رکھا تھا.
جب تک گیس کی مناسب مقدار موجود ہے ہماری کہکشاں کے مرغولہ نما بازوؤں میں نئے ستارے بنتے رہیں گے، یہ گیس دو ذرائع سے وجود میں آئی، کچھ گیس تو آغازِ کائنات کے وقت سے موجود ہے یعنی یہ ابھی تک ستارے نہیں بنی، اور کچھ گیس وہ ہے جو سپر نووا دھماکوں، ستاروں کی آندھیوں، ستاروں کی زندگی کے مخصوص مراحل میں بیرونی جانب دھماکوں اور کچھ دوسرے عملوں سے وجود میں آتی رہتی ہے.
ظاہر ہے کہ ایک ہی مادے کا بار بار استعمال لامحدود مدت تک جاری نہیں رہ سکتا، جب پرانے ستارے مرتے ہیں اور مسمار ہوکر سفید بونے، نیوٹران ستارے یا بلیک ہول بن جاتے ہیں تو وہ بین ستاروی یا ستاروں کے درمیان پائی جانے والی گیس کو مادے کی رسد فراہم نہیں کر سکتے، ابتدائے کائنات سے موجود مادہ بھی رفتہ رفتہ ستاروں میں شامل ہوتا چلا جائے گا اور بالآخر مفقود ہوجائے گا، آخری ایام کے یہ ستارے جب اپنی زندگی کے مختلف مراحل سے گزرتے دم توڑیں گے تو کہکشاں سنگینی کی حد تک مدھم ہوجائے گی، سب سے چھوٹے اور آخری نوجوان ستاروں کو اپنا نیوکلیائی ایندھن خرچ کرنے اور سفید بونے بننے میں کئی بلین سال لگیں گے، لیکن ایک سست اور تکلیف دہ قطعیت کے ساتھ اس لازوال رات کو بہرحال چھا جانا ہے.
ہر لحظہ وسعت پذیر خلاء میں ہر طرف پھیلی دوسری کہکشاؤں کو بھی اس خاتمے کا سامنا کرنا ہوگا، کائنات جو نیوکلیائی سرچشے سے نکلتی وافر توانائی سے تاباں اور درخشاں ہے بالآخر اپنے اس ناگزیر ماخذ سے محروم ہوجائے گی، روشنی کے دور کو بالآخر ہمیشہ کے لیے ختم ہونا ہے.
لیکن روشنی کے ختم ہوجانے کا مطلب کائنات کا اختتام نہیں ہے، کیونکہ توانائی کا ایک اور منبع ابھی باقی ہے جو نیوکلیائی توانائی سے بھی زیادہ طاقتور ہے، قوتِ تجاذب جو ایٹمی سطح پر کمزور ترین قوت ہے جب فلکیاتی پیمانے پر آتی ہے تو غالب ترین قوت بن جاتی ہے، اپنے اثرات میں ہوسکتا ہے یہ اتنی شدید نہ ہو لیکن یہ بہرحال مطلق طور پر دائمی ہے، کئی بلین سال تک ستارے اس قوت کے خلاف اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے نیوکلیائی ایندھن جلاتے ہیں لیکن اس سارے عمل کے دوران تجاذب منتظر رہتا ہے اور بالآخر انہیں لے ڈوبتا ہے.
ایک ایٹم کے نیوکلیئس میں دو پروٹانوں کے درمیان پائی جانے والی تجاذبی قوت طاقتور نیوکلیائی قوت (Strong Nuclear Force) کا واں حصہ ہوتی ہے، لیکن تجاذب جمعی خاصیت رکھتا ہے، ستارے میں شامل ہونے والا ہر نیا پروٹان اس کے وزن کو بڑھاتا ہے.
تجاذب کی قوت کو بیان کرنے کے لیے سب سے بہتر وضاحتی مثال بلیک ہول کی ہے، یہاں قوتِ تجاذب مکمل فتح حاصل کرچکی ہوتی ہے.
ستارے کو کچل کر عدمِ وجود کی منزل تک پہنچا دیا گیا ہوتا ہے، اور اس ستارے کا واحد نشان اس کے گرد کا زمان ومکاں ہے جو لامحدود زمانی کجی یا بگاڑ کی شکل میں موجود ہوتا ہے، بلیک ہول کے بارے میں ایک فکر انگیز خیالی تجربہ بیان کیا جاتا ہے، فرض کیجیے ایک چھوٹا سا جسم ہے، جیسے 100 گرام وزنی ایک گیند وغیرہ، جو کافی دور سے بلیک ہول کے اندر گر رہا ہے، گیند اس بلیک ہول میں گرے گا اور پھر کبھی نہ ملنے کے لیے کھو جائے گا، تاہم اس بلیک ہول کی ساخت میں یہ اپنے سابقہ وجود کا ایک سراغ ضرور چھوڑ جائے گا، کیونکہ گیند نگلنے کے بعد وہ خفیف سا بڑا ہوجائے گا، حساب لگایا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اگر جسم کافی دور سے گرایا جائے تو اس بلیک ہول کی کمیت میں گیند کی اصل کمیت کے برابر اضافہ ہوگا کیونکہ مادے اور توانائی سمیت کوئی بھی چیز بلیک ہول سے فرار نہیں ہوسکتی.
اب ایک اور تجربے پر غور کریں جس میں وزن کو بلیک ہول کے اندر رفتہ رفتہ اتارا جا رہا ہے، اس مقصد کے لیے جسم کے ساتھ ایک ڈوری باندھی جاسکتی ہے جو ایک پلی پر سے گزر کر ایک ڈرم کے گرد لپٹی ہو، اس ڈوری کے لپیٹ کھول کر اسے بتدریج بلیک ہول کے اندر اتارا جاسکتا ہے، جب وزن نیچے کی جانب حرکت کرتا ہے تو یہ توانائی پیدا کرتا ہے جس کی ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ وہ ڈرم کے ساتھ منسلک ایک جنریٹر گھما کر بجلی پیدا کرے، یہ وزن بلیک ہول کی سطح کے جتنا قریب ہوگا اتنی زیادہ قوتِ تجاذب اس پر عمل کرے گی، نیچے کی جانب عمل کرنے والی قوت جوں جوں بڑھتی ہے وزن جنریٹر بھی توں توں زیادہ کام کرتا ہے، سادہ سے عمل سے حساب لگایا جاسکتا ہے کہ جب جسم بلیک ہول کی سطح تک پہنچے گا تو وہ جنریٹر پر کتنا کام کر چکا ہوگا، ایک مثالی صورتِ حال میں اس کا جواب یہ نکلتا ہے کہ جنریٹر پر لگائی گئی توانائی اس جسم کی کل ساکن کمیت توانائی کے برابر ہوگی.
ایک خیالی تجربے میں وزن کو پلی سے گزرتی ڈوری سے باندھ کر بلیک ہول کی طرف لٹکایا گیا ہے، وزن نیچے جاتے ہوئے کام کرتا ہے اور پچھلے ڈبے کو توانائی فراہم کرتا ہے، بلیک ہول کی سطح تک پہنچنے تک وزن اپنی سکونی کمیت کے برابر () توانائی فراہم کرچکا ہوتا ہے.
شکل 5.1
آئن سٹائن کے فارمولے کو یاد کریں جو ہمیں بتاتا ہے کہ کمیت m کے اندر موجود توانائی کے برابر ہوتی ہے، اصولی اعتبار سے کسی جسم میں موجود یہ کُل توانائی قابلِ حصول ہے، جسم کی کمیت کے سو گرام ہونے کی صورت میں یہ توانائی بجلی کے تین کلو واٹ آور کے برابر ہے، تقابلی اعتبار سے دیکھا جائے تو سورج جب اسی سو گرام کو نیوکلیائی فیوژن سے توانائی میں تبدیل کرتا ہے تو مندرجہ بالا مقدار کا ایک فیصد سے بھی کم حصہ خارج کرتا ہے، چنانچہ اصولی اعتبار سے تجاذب کا اخراجِ توانائی نیوکلیائی فیوژن کے مقابلے میں کم از کم سو گنا زیادہ توانائی خارج کرتا ہے، اور ستاروں میں توانائی نیوکلیائی فیوژن سے پیدا ہوتی ہے.
بے شک جو صورتِ حال بیان کی گئی ہے مکمل طور پر غیر حقیقی ہے، بلا شبہ اجسام متواتر بلیک ہولوں میں گرتے ہیں لیکن ان کے ساتھ توانائی کے حصول کا کوئی پلی سسٹم اور جنریٹر نصب نہیں ہوتا، عملی طور پر یہ ہوتا ہے کہ جسم کی ساکن کمیت توانائی کا صفر سے لے کر سو فیصد تک کوئی بھی حصہ خارج ہوسکتا ہے، اب توانائی کا کتنا حصہ خارج ہوتا ہے اس کا انحصار طبیعی حالات پر ہے، پچھلی دو دہائیوں سے سائنس دان کوشش کر رہے ہیں کہ وہ مرغولوں کی صورت بلیک ہول میں اترتی گیس کے رویے کو سمجھیں اور خارج ہونے والی توانائی کی مقدار اور طرزِ اخراج کا حساب لگائیں، اس مقصد کے لیے وہ کمپیوٹر کے نمونہ جاتی پروگراموں اور ریاضیاتی ماڈلوں سے کام لے رہے ہیں، اس میں ملوث طبعی عمل بہت پیچیدہ ہیں، تاہم اس قدر ضرور واضح ہے کہ اس طرح کے عملوں میں تجاذبی قوت کی بہت بڑی مقدار خارج ہوتی ہے.
ایک مشاہدہ ہزاروں حسابی عملوں کی سی اہمیت رکھتا ہے، سائنسدان ایسے اجسام کی تلاش میں وسیع پیمانے پر کام کر رہے ہیں جن کے بلیک ہول ہونے کا امکان ہو اور وہ بیرون سے مادہ نگلنے کے عمل سے گزر رہے ہوں، ابھی تک کسی ایسے جسم کا مشاہدہ نہیں کیا جاسکا جس کے بارے میں قائل کردینے والے دلائل دیے جاسکیں کہ یہی بلیک ہول ہے، لیکن ایک نظام جس کے بارے میں سائنسدان کافی پر امید ہیں مجمع النجوم سگنس (Cygnus Constellation) میں واقع ہے اور اسے Cygnus X-1 کا نام دیا گیا ہے، اس نظام میں شامل ستارے کو عام دور بین یعنی Optical Telescope سے دیکھا جاسکتا ہے، اس کے رنگ کی وجہ سے اسے "نیلا جن” قسم کے ستاروں میں رکھا جاتا ہے، سپیکٹرو سکوپ کی مدد سے کیا گیا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ ستارہ اکیلا نہیں ہے، اس ستارے میں آگے پیچھے کی حرکت نظر آتی ہے جو با آہنگ ہے یعنی بے قاعدہ نہیں ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ستارہ کسی دوسرے جسم کی قوتِ تجاذب کے زیرِ اثر ہے جو اسے باقاعدہ خاص وقفوں کے بعد ارتعاش میں لاتا ہے، ظاہر ہے کہ ستارہ اور کوئی دوسرا جسم باہم بہت قریب ایک دوسرے کے مداروں میں موجود ہیں، لیکن بصری دور بین میں وہ دوسرا ساتھی نظر نہیں آتا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ دوسرا جسم یا تو "سیاہ” ہے یعنی کوئی توانائی خارج یا منعکس نہیں کرتا یا پھر بہت ٹھوس اور کم روشن ستارہ ہے، اس سے بلیک ہول کا اشارہ تو ملتا ہے لیکن کوئی ثبوت نہیں.
ایک اور سراغ اس سیاہ جسم کی کمیت سے بھی ملتا ہے، جب ہمیں نیلے ستارے کی کمیت معلوم ہو تو نیوٹن کا قانون استعمال کر کے ہم دوسرے ستارے کی کمیت معلوم کر سکتے ہیں، اب کسی ستارے کی رنگت اور اس کی کمیت کا بھی آپس میں ایک باہمی تعلق ہے، نیلے ستارے گرم ہوتے ہیں اور اس لیے ان کی کمیت بھی زیادہ ہوتی ہے، حسابی عمل سے پتہ چلتا ہے کہ اس دوسرے غیر مرئی ساتھی ستارے کی کمیت کئی سورجوں کے برابر ہے، چنانچہ اتنا واضح ہے کہ یہ کوئی عام چھوٹا اور مدھم ستارہ نہیں ہے، بلکہ یہ سفید بونا، نیوٹران ستارہ یا پھر بلیک ہول ہے، لیکن کچھ بنیادی طبیعاتی وجوہات ہیں جن کی بناء پر اس کمیت کا ٹھوس جسم سفید بونا یا نیوٹران ستارہ نہیں ہوسکتا، ہمارا مسئلہ اس شدید قوتِ تجاذب سے متعلق ہے جو جسم کو کچلنے کی کوشش کرتی ہے، کچلے جانے کے نتیجے میں بلیک ہول بننے سے بچنے کی ایک ہی صورت ہے کہ مرکز سے باہر کی طرف عمل کرنے والی کوئی قوت موجود ہو جو تجاذب کی بھینچنے والی قوت کو متوازن کر سکے، لیکن اگر مسمار ہوتا ہوا ستارہ کئی سورجوں کی کمیت کا حامل ہے تو پھر کوئی معلوم قوت ایسی نہیں جو کچلتی ہوئی تجاذبی قوت کو متوازن کر کے اس کی مزاحمت کر سکے، اور پھر اگر ستارے کا مرکز اتنا کثیف اور سخت ہو کہ وہ اس تجاذبی دباؤ کو برداشت کر جائے اور کچلا نہ جاسکے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ مرکز میں آواز کی رفتار روشنی کی رفتار سے زیادہ ہوگی، اور چونکہ یہ امر آئن سٹائن کے مخصوص نظریہ اضافیت سے متصادم ہے اس لیے زیادہ تر فلکیات دان اور طبیعات دانوں کا یقین ہے کہ ان حالات میں بلیک ہول کی تشکیل نا گزیر ہے.
سگنس X-1 میں بلیک ہول کے موجود ہونے کی ایک ناقابلِ تردید شہادت ایک اور مشاہدہ سے بھی ملتی ہے، اسے X-1 کا نام ہی اسی لیے دیا گیا تھا کہ اس سے ایکس ریز بے پناہ شدت سے خارج ہوتی ہیں جن کا سراغ مصنوعی سیاروں پر موجود آلات نے لگایا تھا، بنائے گئے نظری ماڈلوں کی مدد سے ان ایکس رے شعاعوں کی توضیح صرف اس صورت میں ہوسکتی ہے اگر مذکورہ بالا نظام میں ایک بلیک ہول کا ہونا مان لیا جائے، حسابی عمل سے اس بلیک ہول کا تجاذبی میدان اتنا طاقتور ہے کہ وہ اس نیلے ستارے سے مادہ جذب کرتا ہے، جب نیلے ستارے سے اغواء کی گئی گیس بلیک ہول کی طرف گرتی ہے تو نظام کی گردش کے باعث یہ بلیک ہول کے گرد گھومنے لگتی ہے اور ایک پلیٹ بنا دیتی ہے، لیکن اس طرح کی گیسی پلیٹ مستحکم نہیں ہوتی، اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ پلیٹ کا جو حصہ بلیک ہول کے قریب ہوتا ہے کناروں پر موجود گیس کی نسبت زیادہ تیزی سے گردش کرتا ہے، اب لزوجی قوت (Viscous Force) اس رفتاری فرق کو دور کرنے کی کوشش کرے گی، نتیجہ کے طور پر گیس گرم ہوکر نہ صرف روشنی بلکہ ایکس رے بھی خارج کرے گی، اس طرح توانائی کا ضیاع ہوگا اور گیس کم ہوتے ہوئے قطر کے دائروں میں گھومتی بلیک ہول میں گر جائے گی.
چنانچہ سگنس X-1 میں بلیک ہول موجود ہونے کی شہادت دلائل کے ایک سلسلے پر مبنی ہے جن میں مشاہداتی جزئیات اور نظریاتی ماڈل دونوں شامل ہیں، یہ تحقیق آج کل ہونے والی زیادہ تر فلکیاتی تحقیق کا مثالی نمونہ ہے، اگرچہ کوئی ایک دلیل قطعیت سے فیصلہ کرنے میں مدد نہیں دیتی لیکن سگنس X-1 اور ایسے ہی دوسرے نظاموں کا مطالعہ کیا جائے تو نتائج کے مشترک تجزیے سے اس جگہ ایک بلیک ہول ہونے کے قوی امکانات ظاہر ہوتے ہیں.
بڑے بلیک ہولوں کی سرگرمیوں کے نتیجے میں اور بھی عجیب اثرات مشاہدے میں آتے ہیں، ان سے پتہ چلتا ہے کہ بہت سی کہکشاؤں کے مرکز میں عظیم کمیتی (Super-massive) بلیک ہول پائے جاتے ہیں، ان کہکشاؤں کے مرکزوں میں ستاروں کی حرکت سے ایسے بلیک ہولوں کی موجودگی کا پتہ چلتا ہے، ستارے اس طرح کے رویے کا اظہار کرتے ہیں جیسے انہیں نہایت کثیف اور اونچی کشش کا حامل کوئی جسم اپنی طرف کھینچ رہا ہے، ایسے ممکنہ اجسام کی کمیت دس ملین سے کئی ملین سورجوں کے برابر ہوسکتی ہے، اتنی کمیت اور نتیجہ کے طور پر اتنے تجاذب کے باعث یہ گرد وپیش میں موجود مادے کو ہڑپ کرنے کو تیار رہتے ہیں، ستارے، سیارے، گیس اور گرد ہر چیز ان دیوؤں کی بھوک کا ایندھن بن جاتی ہے، ان کے اندر مادے کے گرنے کی یہ ہنگامہ خیزی ساری کہکشاں کے نظام میں گڑبڑ کرتی ہے، فلکیات کے ماہر کہکشاؤں کے مراکز کی سرگرمیوں کے اعتبار سے قسم بندی کرتے ہیں، کچھ کہکشائیں پھٹ کر بکھرتی نظر آتی ہیں اور بہت سی ریڈیو لہروں، ایکس ریز اور توانائی کی دوسری اقسام خارج کرتی ہیں، لیکن سب سے منفرد کہکشاؤں کی وہ قسم ہے جن سے گیس کے بہت بڑے بڑے دھارے پھوٹتے ہیں، یہ دھارے ہزاروں لاکھوں نوری سال لمبے ہوتے ہیں، ان اجسام میں سے کچھ کا توانائی کا اخراج حیران کن ہے، مثال کے طور پر بہت زیادہ فاصلے پر کواسرز (Quasars) ہزاروں کہکشاؤں کے برابر توانائی اتنے حصے سے خارج کرتے ہیں جو ایک نوری سال سے زیادہ بڑا نہیں ہوتا، غالباً اپنی چھوٹی جسامت کی وجہ سے ہی یہ بظاہر ستارے لگتے ہیں.
بہت سے فلکیات دانوں کا خیال ہے کہ اتنی شدت سے پھٹتے ہوئے ان اجسام کی کار گزاری کے ذمہ دار بہت بڑے بڑے بلیک ہول ہیں جو اپنے گرد گھومتے رہتے ہیں، یہ اپنے گرد وپیش میں موجود مادہ نگلتے رہتے ہیں، ان کے حلقہ اثر میں داخل ہونے والا کوئی بھی سیارہ یا تو تجاذب کے زیرِ اثر ٹکڑے ہو کر بکھر جاتا ہے یا پھر دوسرے ستاروں سے ٹکرا کر ٹوٹ جاتا ہے.
سگنس X-1 کے نمونے پر، لیکن بہت بڑے پیمانے پر یہ مادہ امکانی طور پر گرم گیس کے ایک چھلے کی صورت بلیک ہول کے گرد گردش کرے گا اور رفتہ رفتہ اس میں غرق ہوجائے گا، مئی 1994 میں رپورٹ دی گئی کہ ہبل دوربین (Hubble Space Telescope) نے کہکشاں M87 کے مرکز میں تیزی سے گھومتی ہوئی ایک گیسی پلیٹ دریافت کی ہے.
ہوسکتا ہے کہ اس گیسی ڈسک سے بے پناہ توانائی خارج ہو کر بلیک ہول کی طرف جا رہی ہے اور وہ اسے ہول کے گھماؤ کے محور کے متوازی حرکت دیتی ہو اور نتیجے کے طور پر مخالف سمتی فواروں کا جوڑا جنم لیتا ہو، اس قسم کے فوارے مشاہدے میں بھی آئے ہیں، توانائی کے اخراج کے اس طرزِ اخراج کے تشکیل میں برقی مقناطیسی، نروجی اور دوسری قوتوں کے ساتھ ساتھ تجاذب کا بھی ہاتھ ہوتا ہے، اس موضوع پر ابھی بہت سا مشاہداتی اور نظریاتی کام ہونا باقی ہے.
ہماری کہکشاں یعنی ثریا (Milky way) کا کیا بنے گا؟ کیا یہ امکان موجود ہے کہ اسے بھی بالآخر پھٹ جانا ہے؟ اس کا مرکز تیس ہزار نوری میل دور مجمع النجوم سیجی ٹیریس (Sagittarius Constellation) میں ہے، اگرچہ اس میں گیس اور غبار کے بہت بڑے بڑے بادلوں کی موجودگی کے باعث مشاہدہ مشکل ہے لیکن ایکس ریز، گیما ریز، اور انفرا ریڈ آلات کی مدد سے کیے گئے مطالعہ سے یہاں بہت کثیف (Compact) اور توانا مرکز Sagittarius A کی موجودگی کے بالواسطہ شواہد ملتے ہیں، اگرچہ یہ جسامت میں صرف چند بلین کلو میٹر ہے (جو فلکیاتی فاصلوں کے حوالے سے واقعی چھوٹا سا فاصلہ ہے) لیکن یہ ہماری کہکشاں میں ریڈیو شعاعوں کا سب سے طاقتور مرکز ہے، اس کا محلِ وقوع انفرا ریڈ شعاعوں کے ایک طاقتور مرکز کے ساتھ منطبق ہے، ایکس ریز کا ایک مرکز بھی اس کے قریب پایا جاتا ہے، اگرچہ صورتحال کافی پیچیدہ ہے لیکن یہاں کسی بلیک ہول کے موجود ہونے کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں جو مشاہدے میں آنے والے کچھ مظاہر کی وجہ اور منبع خیال کیا جاتا ہے، تاہم اس کی کمیت صرف دس ملین سورجوں کے برابر ہے، بہ اعتبارِ کمیت یہ بلیک ہولوں کی فہرست میں سب سے نیچے آتا ہے، توانائی اور مادے کا جیسا شدید اخراج دوسری کہکشاؤں کے مرکزوں میں ہو رہا ہے اس قسم کے اخراج کی کوئی شہادت نہیں ملی، لیکن اس بلیک ہول کا ابھی ابتدائی مرحلے میں ہونا بھی اس کی وجہ ہوسکتی ہے، لیکن مستقبل میں ہوسکتا ہے کہ یہ بھی بھڑک اٹھے اور ایسا غالباً گرد وپیش سے گیس کی مناسب سپلائی ملنے کی صورت میں ہوگا، لیکن اس کی شدت کسی بھی صورت دوسرے معلوم نظاموں کی سی نہیں ہوگی، ابھی یہ واضح نہیں ہوسکا کہ اس طرح کی شعلہ فشانی کہکشاں کے بازوؤں میں موجود ستاروں اور سیاروں پر کیا اثرات مرتب کرے گی.
جب تک کسی بلیک ہول کے گرد اس کی بھوک مٹانے کے لیے مادہ موجود رہے گا اس کی ساکن کمیتی توانائی خارج ہوتی رہے گی، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بلیک ہول زیادہ سے زیادہ مادہ نگلتا جائے گا اور ہول زیادہ بڑے اور زیادہ بھوکے ہوتے چلے جائیں گے، حتی کہ ہول کے مدار میں موجود بہت دور دراز کے ستارے بھی اس کی زد میں آجائیں گے، اس کی وجہ ایک بہت کمزور لیکن بالآخر فیصلہ کن قوت ہے جسے تجاذبی شعاعیں کہتے ہیں.
1915 میں اضافیت کے عمومی نظریے کی تشکیل کی کچھ مدت بعد آئن سٹائن نے تجاذبی میدان کی ایک اہم خصوصیت دریافت کی، اس نظریے کی میدانی مساواتوں کے مطالعے سے اس نے موج نما تجاذبی اہتزاز کی پیش گوئی کی، اس تجاذبی موج کی رفتار خلاء میں روشنی کے برابر تھی، اگرچہ تجاذبی لہریں بھی توانائی کی اچھی خاصی مقدار کی حامل ہوتی ہیں لیکن، برقی مقناطیسی لہروں کے برعکس، مادے کے ساتھ ان کا تعامل مختلف ہوتا ہے، ریڈیو لہریں تار کے جال میں بھی جذب ہوجاتی ہیں لیکن تجاذبی موجوں یا لہروں کا تعامل اتنا کمزور ہے کہ یہ زمین میں سے بھی گزر جائیں تو ان میں کوئی قابلِ ذکر تبدیلی نہیں آتی، اگر تجاذبی لہروں کی لیزر بنائی جاسکے تو پانی کی ایک کیتلی ابالنے کے لیے ایک ٹریلین کلو واٹ شعاع کی ضرورت ہوگی، اتنا ہی کام ایک کو واٹ بجلی کے کوائل سے بھی کیا جاسکتا ہے، تجاذبی موجوں کی اس تقابلی کمزوری کو اس حقیقت سے بھی منسلک کیا جاسکتا ہے کہ فطرت کی تمام معلوم قوتوں میں سے تجاذب کمزور ترین قوت ہے، ایک ایٹم میں برقی اور تجاذبی قوت کی نسبت ایک اور کی ہے، تجاذب کے منظر پر آنے کی وجہ اس کا مجتمع Cumulative ہونا ہے، چنانچہ سیاروں اور دوسرے بڑے اجسام میں یہ دوسری قوتوں پر غالب آجاتی ہے.
اصولی طور پر جب مادے کی کسی بھی حالت میں تبدیلی لائی جاتی ہے یعنی کہ اس میں حرکی حالت کا بگاڑ پیدا کیا جاتا ہے تو تجاذبی شعاعیں پیدا ہوتی ہیں، مثلاً زمین سورج کے گرد دورانِ گردش مسلسل تجاذبی لہریں پیدا کرتی ہے لیکن ان کی مجموعی طاقت ملی واٹ میں ہوتی ہے، توانائی کا یہ اخراج زمین کے مدار میں زوال کا سبب بنتا ہے، ہر چند یہ زوال ناپید ہونے کی حد تک کم شرح سے ہوتا ہے یعنی کہ ہر دس سال کے بعد سینٹی میٹر کے ایک ہزار ٹریلین حصوں میں سے ایک.
لیکن جب معاملہ بہت بھاری اجسام کا ہو جو روشنی کی رفتار یعنی کہ رفتارِ نور سے قابلِ تقابل رفتاروں سے حرکت کر رہے ہوں تو صورتحال ڈرامائی طور پر بدل جاتی ہے، دو طرح کے مظہر ہیں جو اہم تجاذبی اشعاع کاری اثرات لا سکتے ہیں، ان میں سے ایک اچانک اور پُرہنگام (Violent) طور پر وقوع پذیر ہوتا ہے یعنی سپر نووا، اس میں کوئی ستارہ منہدم ہوکر بلیک ہول کی شکل اختیار کر جاتا ہے، یوں تجاذبی موجوں کی ایک لہر پیدا ہوتی ہے جو عام طور پر جول توانائی کی حاصل ہوتی ہے اور صرف چند مائیکرو سیکنڈ تک خارج ہوتی رہتی ہے، تقابل کی غرض سے سورج پر غور کریں جو جول فی سیکنڈ خارج کرتا ہے، دوسرے مظہر ایک دوسرے کے گرد مداروں میں تیز رفتاری سے گردش کرنے والے بھاری اجسام ہیں، مثلاً دو ایسے ستاروں کا ایک نظام جسے ثنائی نظام کہتے ہیں تجاذبی شعاعوں کا مسلسل دھارا خارج کرتا ہے، اس نظام کی کارکردگی اس وقت خصوصاً زیادہ ہوتی ہے جب گردش کرنے والے اجسام منہدم شدہ اجسامِ فلکی ہوں یعنی کہ نیوٹران ستارے یا بلیک ہول ہوں، مجمع النجوم Aquila میں دو نیوٹران ستارے ایک دوسرے کے گرد گردش میں ہیں اور ان کا درمیانی فاصلہ محض چند ملین کلو میٹر ہے، ان کے تجاذبی میدان اتنے طاقتور ہیں کہ ہر ستارہ اپنا مداروی چکر صرف آٹھ گھنٹے کے اندر اندر مکمل کر لیتا ہے، ان ستاروں کی مداروی رفتار کا رفتارِ نور یعنی روشنی کی رفتار سے تقابل کیا جاسکتا ہے، اس غیر معمولی رفتار کی وجہ سے تجاذبی لہروں کی شرح اخراج بڑھ جاتی ہے اور ان کے مدار کے انحطاط میں بھی قابلِ پیمائش کمی آتی ہے، ہر ایک چکر کے بعد ان کا دورانیہ 75 مائیکرو سیکنڈ کم ہوجاتا ہے، ان ستاروں کو تقریباً تین سو ملین سال کے بعد باہم مدغم ہوجانا ہے.
ماہرینِ فلکیات کے حساب کے مطابق فی لاکھ سال فی کہکشاں ایسا ایک واقعہ رونما ہوتا ہے، یہ اجسام اتنے ٹھوس ہیں اور ان کے تجاذبی میدان اتنے شدید ہیں کہ ٹکرانے سے پہلے آخری لمحات میں یہ ایک دوسرے کے گرد فی سیکنڈ ہزاروں چکر لگاتے ہیں، تجاذبی لہروں کی فریکوینسی تیزی سے بڑھتی ہے، یہ تیکھی تیزی اسی طرح کے واقعات کے ساتھ وابستہ ہے، آئن سٹائن کے فارمولے سے نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اس آخری مرحلے میں طاقت کا اخراج بہت زیادہ ہوجاتا ہے اور مدار میں تیزی سے زوال آتا ہے، اس باہمی تجاذبی کشش کے بہت زیادہ ہونے کا نتیجہ سیاروں کے بگاڑ کی شکل میں نکلے گا، دونوں ستارے دیوہیکل سگاروں کی شکل اختیار کر جاتے ہیں جو ایک دوسرے کے گرد چکر لگا رہے ہیں.
یہ اہتزازات بھی تجاذبی شعاعوں کی خاص مقدار خارج کریں گے جو اس جسم سے توانائی کو مزید نچوڑنے کا سبب بنیں گے، حتی کہ جسم ساکت ہوجائے گا اور ہر طرح کی سرگرمی ختم ہوجائے گی.
ہر چند کہ توانائی کی شرح اخراج بہت کم ہے لیکن تجاذبی لہروں کے اخراج کا کائناتی ساخت پر دور رس اثرات مرتب کرنے کا قوی امکان ہے، Aquila کے ثنائی ستاروی نظام (Binary Star System) کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ اس کا مداروی انحطاط آئن سٹائن کے نظریے کے عین مطابق ہے، چنانچہ یہ نظام تجاذبی لہروں کے اخراج کی براہ راست شہادت مہیا کرتا ہے، لیکن زیادہ فیصلہ کن امتحان کے لیے ضروری ہے کہ ان لہروں کا سراغ زمین پر موجود کسی تجربہ گاہ میں لگایا جاسکے، محققین کے کئی گروہوں نے ایسے آلات بنائے ہیں جن کا مقصد مختصر وقفہ کے لیے گزرنے والی تجاذبی لہر کی اس دھار کا سراغ لگانا ہے، لیکن تاحال کوئی بھی آلہ اتنا حساس ثابت نہیں ہوا کہ وہ یہ کام کر سکے، لگتا ہے کہ ان لہروں کا سراغ لگانے اور ان کے وجود کی تجربی تصدیق کے لیے ہمیں سراغ کنندوں کی ایک نئی نسل کے معرضِ وجود میں آنے کا انتظار کرنا ہوگا.
مذکورہ بالا ادغام سے یا تو زیادہ بڑا نیوٹران ستارہ بنتا ہے یا پھر بلیک ہول معرضِ وجود میں آتا ہے، لیکن اگر ادغام ایک نیوٹران ستارے اور بلیک ہول کا ہوتا ہے یا دو بلیک ہولوں کا ہوتا ہے تو ہر دو صورتوں میں ایک بلیک ہول ہی بنتا ہے، اس عمل میں تجاذبی موجی قوت کا اخراج ہوتا ہے، پھر Wobbling اور Ringing کا پیچیدہ عمل ہوتا ہے جو رفتہ رفتہ تجاذبی لہروں کے ذریعے سے ہونے والی توانائی کے ضیاع کے ہاتھوں ختم ہوجاتا ہے.
دو بلیک ہولوں کے ادغام سے تجاذبی توانائی کے اخراج کی زیادہ سے زیادہ ممکن مقدار کا نظریاتی مطالعہ دلچسبی سے خالی نہیں، 70 کی دہائی کے اوائل میں راجر پن روز (Roger Penrose)، سٹیفن ہاکنگ (Stephen Hawking)، بیرنڈن کارٹر (Brandon Carter)، ریمو رفینی (Remo Ruffini)، اور لیری سمار (Larry Smarr) نے ان عملوں پر نظریاتی کام کیا، اگر تو بلیک ہول گھماؤ میں نہیں اور ان کی کمیت یکساں ہے تو کُل ساکن کمیت توانائی کا 29 فیصد توانائی کی صورت خارج ہوجائے گا، اگر کوئی ایسا طریقہ موجود ہو کہ ان بلیک ہولوں پر باہر سے اثر انداز ہوا جاسکے اور ان کے عمل میں مداخلت کی جاسکے تو لازم نہیں کہ ساری توانائی تجاذبی قوت کی صورت خارج ہو، لیکن اپنی فطری حالت میں، جس میں مداخلت ابھی محض دور از کارِ تخیل ہے، زیادہ تر توانائی اسی غیر واضح شکل میں ہوگی، لیکن اگر ستارے ایک دوسرے سے الٹے گھماؤ کی حالت میں ہیں اور رفتار طبیعات کے قوانین کی حدود میں زیادہ سے زیادہ ہے یعنی کہ رفتارِ نور کے قریب ہے تو ان کی ساکن حالت کمیت کا پچاس فیصد تجاذبی لہروں کی صورت توانائی بن کر خارج ہوجائے گا، لیکن توانائی کے زیادہ سے زیادہ اخراج کی ایک نظریاتی حد تک جہاں تک مذکورہ بالا توانائی ابھی تک نہیں پہنچی، بلیک ہول برقی چارج کا حامل بھی ہوسکتا ہے، چارج شدہ ہول برقی اور مقناطیسی دونوں میدانوں کا حامل ہوگا، ہر دو توانائی کا ذخیرہ کر سکتے ہیں، اگر مثبت چارج کے حامل بلیک ہول کا ادغام منفی چارج کے بلیک ہول سے ہوتا ہے تو ایک "ڈسچارج” ہوگا اور برقی مقناطیسی اور تجاذبی دونوں صورتوں میں توانائی خارج ہوگی.
چونکہ بلیک ہول کے زیادہ سے زیادہ برقی چارج کی ایک حد ہے، اس لیے یہ ڈسچارج بھی لامحدود نہیں ہوگا، اگر ایک بلیک ہول گھماؤ کی حالت میں نہیں ہے تو اس کے چارج کی حد کا اندازہ لگانے کے لیے مندرجہ ذیل امور کو زیرِ غور لانا ہوگا، فرض کیجیے کہ دو بلیک ہولوں پر یکساں چارج ہے، ان کے تجاذبی میدانِ کشش باہمی کھنچاؤ پیدا کریں گے جبکہ برقی میدانوں کے باعث دافع قوت عمل میں آئے گی کیونکہ ایک جیسے چارج قوتِ دافع لگاتے ہیں، جب چارج کمیت کی نسبت ایک خاص حد تک پہنچتی ہے تو دونوں قوتیں متوازن ہو کر ایک دوسرے کو منسوخ کرتی ہیں اور کوئی حاصل قوت نہیں بچتی ہے، یہی وہ شرط ہے جو کسی بلیک ہول کے زیادہ سے زیادہ چارج کی حد متعین کرتی ہے، اگر بلیک ہول پر چارج اس سے زیادہ کرنے کی کوشش کی جائے تو کیا ہوگا؟ چارج بڑھ جائے گا لیکن برقی دافع قوت پر قابو پانے کے لیے کام کرنا پڑے گا جس میں توانائی لگے گی، یہ توانائی بلیک ہول کو ملے گی اور اس کی کمیت میں اضافہ ہوجائے گا () چنانچہ بلیک ہول کی کمیت بھی بڑھے گی اور حجم بھی، سادہ سا حساب کتاب ظاہر کرے گا کہ چارج میں جتنا اضافہ ہوگا اس سے زیادہ اضافہ کمیت میں ہوگا، چارج اور کمیت کی نسبت بجائے بڑھنے کے کم ہونا شروع ہوجائے گی، چنانچہ زیادہ سے زیادہ چارج کی حد سے بڑھنے کی کوشش ناکام ہوجائے گی.
بلیک ہول پر موجود چارج کا اس کی کمیت میں بھی حصہ ہوتا ہے، اگر کسی بلیک ہول پر چارج زیادہ سے زیادہ حد تک موجود ہو تو اس کی کُل کمیت کا نصف برقی چارج کی وجہ سے ہوتا ہے، اگر بلیک ہول گھماؤ میں نہیں اور اس پر مخالف چارج ہیں تو ان کے درمیان قوتِ کشش تجاذبی اور برقی مقناطیسی دونوں قوتوں کا جمعی حاصل ہوگی، ان کے ملنے کی صورت میں برقی چارج معتدل ہوجائے گا اور برقی توانائی کُل کا ساکن کمیتی توانائی کے پچاس فیصد کے برابر ہوگی.
اس طرح کے حصولِ توانائی کی مطلق آخری حد کی شرائط یہ ہیں کہ دونوں ہول گھماؤ میں ہوں اور ان پر مخالف چارج زیادہ سے زیادہ حد تک ہو، اس صورت میں خارج شدہ توانائی کُل ساکن کمیت توانائی کے دو تہائی کے برابر ہوگی، بلا شبہ یہ تمام تر تفصیلات صرف نظری دلچسبی کے حامل ہیں کیونکہ عملی طور پر بلیک ہولوں پر اتنا چارج نہیں ہوتا اور نہ ہی بلیک ہول اس انداز میں مدغم ہوتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ توانائی کے لیے درکار نمونے کا اتباع ہوسکے، ایسا تو صرف کوئی بہت ترقی یافتہ نسل کرواسکتی ہے، لیکن اگر ان کا یہ ادغام اتنے مؤثر انداز میں نہ ہو تو بھی ان کی کُل ساکن کمیت توانائی کا قابلِ ذکر حصہ فوراً خارج ہوجائے گا، یہ توانائی مقدار میں ستاروں سے خارج ہونے والی توانائی سے کچھ کم نہیں ہوگی جو اپنی کئی بلین سال کی زندگی میں اپنی کُل کمیت کا صرف ایک فیصد توانائی کی صورت خارج کرتے ہیں.
ان تجاذبی عملوں کی اہمیت یہ ہے کہ جلا ہوا ستارہ بطور منہدم Cinder کے اپنے تھرمو نیوکلیئر مرحلے سے زیادہ توانائی خارج کر سکتا ہے حالانکہ تب وہ گیس کا دہکتا ہوا گولہ تھا، جب کوئی بیس برس پہلے اس حقیقت کا انکشاف ہوا تو اصطلاح "بلیک ہول” کے خالق جان وہیلر (John Archibald Wheeler) نے ایک فرضی تہذیب کی نقشہ کشی کی جو توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے ہاتھوں اپنے ستارے کو چھوڑ کر ایک گھومتے ہوئے بلیک ہول کے گرد آباد ہوگئے تھے، یہ آبادی ہر روز اپنا کوڑا کرکٹ گاڑیوں میں لاد کر احتیاط سے منتخب کیے گئے راستے پر بلیک ہول کی طرف روانہ کردیتے ہیں، ہول کے نزدیک کوڑا کرکٹ ہول کی طرف انڈیل دیا جاتا ہے یعنی کہ اس سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا پالیا جاتا ہے، جب یہ کوڑا ہول کے گھماؤ کی الٹ سمت چکردار راستے پر گھومتا ہوا گرتا ہے تو اس پر ایک طرح کی بریک کا اثر ہوتا ہے، اس سے ستارے کی گھماؤ کی قوت خارج ہوتی ہے اور وہ آبادی اس توانائی کو قابو کر کے استفادہ کرتی ہے.
اس عمل کا دہرا فائدہ ہوتا ہے، کوڑے سے بھی نجات مل جاتی ہے اور توانائی کا مسئلہ بھی حل ہوجاتا ہے، یوں بوقتِ ضرورت یہ آبادی مردہ ستارے سے اس سے بھی زیادہ توانائی حاصل کر سکتی ہے جتنی وہ زندہ حالت میں فراہم کر سکتا تھا.
اگرچہ بلیک ہول سے خارج ہونے والی توانائی قابو کرنا سائنس فکشن کا منظر لگتا ہے لیکن بلیک ہول میں تمام مادہ بہرحال غائب ہوجاتا ہے، مردہ ستارے کے اپنے مادے کے علاوہ ہول کے قریب آنکلنے والا کوئی ملبہ وغیرہ اس میں ہمیشہ کے لیے غائب ہوجاتا ہے، میں جب بھی بلیک ہول پر لیکچر دیتا ہوں تو لوگ ہمیشہ جاننا چاہتے ہیں کہ اس مادے کے ساتھ بالآخر کیا ہوتا ہے، اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ ہم نہیں جانتے!! بلیک ہول پر ہمارا جتنا بھی اور جیسا بھی علم ہے سب نظری غور وفکر اور ریاضیاتی ماڈلوں پر مبنی ہے، در حقیقت بلیک ہول کی جو تعریف کی جاتی ہے اس کی رو سے ہی ہم بلیک ہول کے اندرون کا مشاہدہ نہیں کر سکتے، بفرضِ محال ہماری بلیک ہول تک مشاہداتی رسائی ہو بھی تو ہم دیکھ نہیں سکتے کہ اندر کیا ہو رہا ہے، تاہم نظریہ اضافیت جو بلیک ہول کے وجود کی پیش گوئی کا ذمہ دار ہے، اس کے اندر گرنے والے خلاء نورد پر گزرنے والی کیفیات پر کچھ روشنی ڈالتا ہے، ذیل میں نظریاتی استخراج کا ایک سادہ بیان دیا جارہا ہے.
بلیک ہول کی سطح کوئی حقیقی ساخت نہیں ہے بلکہ صرف ریاضیاتی ماڈل ہے، وہاں محض خالی جگہ ہے، جب خلاء نورد اس سطح سے گزر کر بلیک ہول کے اندرون کی طرف بڑھتا ہے تو اسے کسی خاص فرق کا پتہ نہیں چلے گا، لیکن اس سطح کی اپنی طبعی بلکہ ڈرامائی بھی اہمیت ہے، ہول کے اندر تجاذب اتنا شدید ہے کہ یہ روشنی کے فوٹون کو بھی پکڑ لیتا ہے اور باہر نہیں جانے دیتا، مطلب یہ ہوا کہ روشنی اس کے اندر سے باہر نہیں جاسکتی یہی وجہ ہے کہ یہ سیاہ نظر آتا ہے، چونکہ کوئی بھی جسم یا چیز رفتارِ نور سے زیادہ تیز نہیں ہوسکتی اس لیے جب کوئی جسم ایک مرتبہ اس میں پھنس جاتا ہے یعنی یہ حد عبور کر لیتا ہے تو کبھی باہر فرار نہیں ہوسکتا، بلیک ہول کے اندر رونما ہونے والے واقعات بیرونی دنیا کے علم میں کبھی نہیں آتے، یہی وجہ ہے کہ ہول کی سطح کو وقوعی افق (Event Horizon) کہتے ہیں، یہ سطح ہول کے بیرون اور اندرون میں ہونے والے واقعات کے ما بین حدِ فاصل کا کام کرتی ہے، بیرون میں ہونے والے واقعات اندر سے دیکھے جاسکتے ہیں، لیکن جو واقعات اس سطح کے اندر کی طرف ہوتے ہیں باہر سے نہیں دیکھے جاسکتے، چنانچہ جو خلاء نورد اس حدِ فاصل کے اندر ہول کی جانب موجود ہے بیرونی دنیا کو دیکھ سکتا ہے جبکہ باہر سے کوئی شخص اس خلاء نورد کو نہیں دیکھ سکتا.
جوں جوں خلاء نورد اندر ہول کی طرف بڑھتا ہے اس پر قوتِ تجاذب بڑھتی چلی جاتی ہے، اس کا ایک اثر جسم کا ظاہری بگاڑ ہے اب اگر خلاء نورد پاؤں کے بل ہول میں گر رہا ہے تو سر کی نسبت پاؤں ہول کے نزدیک ہوں گے، اس لیے سر کی نسبت پاؤں پر زیادہ قوتِ تجاذب عمل کرتی ہے، نتیجہ کے طور پر جسم کھنچتا ہے اور لمبائی میں بڑھ جاتا ہے، دونوں کندھوں پر لگنے والی دو قوتیں ایک نقطے یعنی کہ ہول پر ملتی ہیں، اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ خلاء نورد کا جسم چوڑائی کے رخ سکڑے گا، لمبائی میں اضافہ اور چوڑائی میں کمی کے اس عمل کو "سویاں بننے کا عمل” کہا جاسکتا ہے.
نظریاتی حساب بتاتا ہے کہ بلیک ہول کے مرکز میں تجاذب لا انتہاء طور پر بڑھتا ہے، تجاذبی میدان اپنا اظہار ایک خمیدہ خط یا مکان وزمان کے بگاڑ کی صورت کرتا ہے، اس لیے تجاذبی میدان کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ زمان ومکان کا لپیٹ لا انتہاء طور پر بڑھتا ہے، ریاضی دان اس خصوصیت کو زمان ومکان کی یکجائی یا وحدانیت (Singularity) کہتے ہیں، یہی وہ حد یا کنارہ ہے جس سے آگے زمان ومکان کا روایتی تصور ختم ہوجاتا ہے، بہت سے طبیعات دانوں کا یقین ہے کہ بلیک ہول کے اندر یہ یکجائی یا وحدانیت زمان ومکان کے خاتمے کو ظاہر کرتی اور اس سے دوچار ہونے والا مادہ معدوم ہوجاتا ہے، اگر ایسا ہے تو پھر خلاء نورد کے جسم کے ایٹم تک اس وحدانیت میں معدوم ہوجائیں گے.
اگر بلیک ہول کی کمیت دس ملین سورجوں کے برابر ہے، جیسا کہ ثریا یعنی ہماری کہکشاں میں پائے جانے والے بلیک ہول کی ہے، اور یہ گھومتا نہیں تو خلاء نورد کو وقوعی افق سے نیست ونابود کردینے والی وحدانیت تک سفر میں تین منٹ لگیں گے، یہ آخری تین منٹ بہت تکلیف دہ ہوں گے، یہاں تک جانے سے بہت پہلے بے چارہ خلاء نورد سویاں بننے کے عمل کے ہاتھوں مرچکا ہوگا، اس آخری مرحلے میں بھی خلاء نورد کسی طرح بھی اس مہلک وحدانیت کو دیکھ نہیں سکے گا کیونکہ وہاں سے روشنی باہر کی جانب نہیں آتی، اگر زیرِ بحث بلیک ہول کی کمیت سورج کے برابر ہے تو اس کا نصف قطر تین کلو میٹر ہوگا اور خلاء نورد کو وقوعی افق سے وحدانیت تک جانے میں محض چند مائکرو سیکنڈ لگیں گے.
خلاء نورد کے حوالے کے فریم میں اس کی تباہی میں جتنا وقت صرف ہوتا ہے بہت تیزی سے گزرتا ہے لیکن ہول میں وقت کی لپیٹ اس نوعیت کی ہے کہ باہر سے دیکھنے پر یہ آخری وقت کی حرکت بہت سست نظر آتی ہے.
خلاء نورد جیسے جیسے وقوعی افق کے قریب ہوتا جاتا ہے، دور دراز سے مشاہدہ کرنے والے کے لیے واقعات کی رفتار کم تر ہوتی چلی جاتی ہے، اصل میں تو خلاء نورد کو اس وقوعی افق تک پہنچ جانے میں لا انتہاء وقت لگے گا چنانچہ دور دراز سے جو حرکت ابدی نظر آئے گی وہی خلاء نورد کے لیے مائکرو سیکنڈ میں ختم ہوجائے گی، یوں بلیک ہول کائنات کے اختتام کی طرف ایک دروازہ ہے، چنانچہ بلیک ہول کائنات کا ایسا چھوٹا علاقہ ہے جہاں وقت ختم ہوجاتا ہے، جو کائنات کے انجام پر متجسس ہے بلیک ہول میں چھلانگ کر خود براہ راست مشاہدہ کر سکتا ہے.
اگرچہ تجاذب فطرت کی معلوم قوتوں میں سے کمزور ترین ہے لیکن اس کا مجموعی اثر نہ صرف اجرامِ فلکی بلکہ بحیثیتِ مجموعی کائنات کے مقدر کا تعین کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کرے گا، وہی قوت جو ایک ستارے کو بھینچ سکتی ہے وہ کائنات کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کرے گی، اس کائناتی کشش کی مقدار اور
ممکنہ کردار کا انحصار خود کائنات کے وزن پر ہے، چنانچہ ہمیں قوتِ تجاذب کے فیصلہ کن کردار کا تعین کرنے کے لیے کائنات کا وزن کرنا ہوگا.
لیکن ملکی وے یا ثریا پھر بھی دمکتی رہے گی، کیونکہ جہاں ستارے موت سے ہمکنار ہوتے ہیں وہاں، ساتھ ساتھ، نئے ستارے بھی جنم لیتے ہیں، کہکشاں کے مرغولہ نما بازوؤں میں میں سے ایک میں ہمارا نظامِ شمسی بھی ہے، گیسے کے بادل اکٹھے ہوتے ہیں، بھنچتے ہیں، تجاذب کے زیرِ اثر ایک نقطے کے گرد دب کر اکٹھے ہوتے ہیں اور ٹکڑے ہوکر نومولود ستاروں کی آبشاریں بناتے ہیں، اورین نامی جھرمٹ (Constellation of Orion) میں ستاروں کی ایسی ہی ایک نرسری نظر آتی ہے، اورین کی تلوار کے مرکز میں روشنی کا دھندلا سا جو دھبہ نظر آتا ہے ستارہ نہیں بلکہ ایک نیبیولا ہے، نیبیولا غبار اور گیس سے بھرا بہت بڑا علاقہ ہوتا ہے جس میں نئے ستارے جڑے ہوئے نظر آتے ہیں، جب اس نیبیولا کا مرئی روشنی کی بجائے انفراریڈ روشنی میں مشاہدہ کیا گیا تو ایسے ستارے نظر آئے جو اپنی تشکیل کے پہلے مرحلے میں تھے اور ابھی تک ان کے گرد وہ گیس اور گرد موجود تھی جس نے انہیں چھپا رکھا تھا.
جب تک گیس کی مناسب مقدار موجود ہے ہماری کہکشاں کے مرغولہ نما بازوؤں میں نئے ستارے بنتے رہیں گے، یہ گیس دو ذرائع سے وجود میں آئی، کچھ گیس تو آغازِ کائنات کے وقت سے موجود ہے یعنی یہ ابھی تک ستارے نہیں بنی، اور کچھ گیس وہ ہے جو سپر نووا دھماکوں، ستاروں کی آندھیوں، ستاروں کی زندگی کے مخصوص مراحل میں بیرونی جانب دھماکوں اور کچھ دوسرے عملوں سے وجود میں آتی رہتی ہے.
ظاہر ہے کہ ایک ہی مادے کا بار بار استعمال لامحدود مدت تک جاری نہیں رہ سکتا، جب پرانے ستارے مرتے ہیں اور مسمار ہوکر سفید بونے، نیوٹران ستارے یا بلیک ہول بن جاتے ہیں تو وہ بین ستاروی یا ستاروں کے درمیان پائی جانے والی گیس کو مادے کی رسد فراہم نہیں کر سکتے، ابتدائے کائنات سے موجود مادہ بھی رفتہ رفتہ ستاروں میں شامل ہوتا چلا جائے گا اور بالآخر مفقود ہوجائے گا، آخری ایام کے یہ ستارے جب اپنی زندگی کے مختلف مراحل سے گزرتے دم توڑیں گے تو کہکشاں سنگینی کی حد تک مدھم ہوجائے گی، سب سے چھوٹے اور آخری نوجوان ستاروں کو اپنا نیوکلیائی ایندھن خرچ کرنے اور سفید بونے بننے میں کئی بلین سال لگیں گے، لیکن ایک سست اور تکلیف دہ قطعیت کے ساتھ اس لازوال رات کو بہرحال چھا جانا ہے.
ہر لحظہ وسعت پذیر خلاء میں ہر طرف پھیلی دوسری کہکشاؤں کو بھی اس خاتمے کا سامنا کرنا ہوگا، کائنات جو نیوکلیائی سرچشے سے نکلتی وافر توانائی سے تاباں اور درخشاں ہے بالآخر اپنے اس ناگزیر ماخذ سے محروم ہوجائے گی، روشنی کے دور کو بالآخر ہمیشہ کے لیے ختم ہونا ہے.
لیکن روشنی کے ختم ہوجانے کا مطلب کائنات کا اختتام نہیں ہے، کیونکہ توانائی کا ایک اور منبع ابھی باقی ہے جو نیوکلیائی توانائی سے بھی زیادہ طاقتور ہے، قوتِ تجاذب جو ایٹمی سطح پر کمزور ترین قوت ہے جب فلکیاتی پیمانے پر آتی ہے تو غالب ترین قوت بن جاتی ہے، اپنے اثرات میں ہوسکتا ہے یہ اتنی شدید نہ ہو لیکن یہ بہرحال مطلق طور پر دائمی ہے، کئی بلین سال تک ستارے اس قوت کے خلاف اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے نیوکلیائی ایندھن جلاتے ہیں لیکن اس سارے عمل کے دوران تجاذب منتظر رہتا ہے اور بالآخر انہیں لے ڈوبتا ہے.
ایک ایٹم کے نیوکلیئس میں دو پروٹانوں کے درمیان پائی جانے والی تجاذبی قوت طاقتور نیوکلیائی قوت (Strong Nuclear Force) کا واں حصہ ہوتی ہے، لیکن تجاذب جمعی خاصیت رکھتا ہے، ستارے میں شامل ہونے والا ہر نیا پروٹان اس کے وزن کو بڑھاتا ہے.
تجاذب کی قوت کو بیان کرنے کے لیے سب سے بہتر وضاحتی مثال بلیک ہول کی ہے، یہاں قوتِ تجاذب مکمل فتح حاصل کرچکی ہوتی ہے.
ستارے کو کچل کر عدمِ وجود کی منزل تک پہنچا دیا گیا ہوتا ہے، اور اس ستارے کا واحد نشان اس کے گرد کا زمان ومکاں ہے جو لامحدود زمانی کجی یا بگاڑ کی شکل میں موجود ہوتا ہے، بلیک ہول کے بارے میں ایک فکر انگیز خیالی تجربہ بیان کیا جاتا ہے، فرض کیجیے ایک چھوٹا سا جسم ہے، جیسے 100 گرام وزنی ایک گیند وغیرہ، جو کافی دور سے بلیک ہول کے اندر گر رہا ہے، گیند اس بلیک ہول میں گرے گا اور پھر کبھی نہ ملنے کے لیے کھو جائے گا، تاہم اس بلیک ہول کی ساخت میں یہ اپنے سابقہ وجود کا ایک سراغ ضرور چھوڑ جائے گا، کیونکہ گیند نگلنے کے بعد وہ خفیف سا بڑا ہوجائے گا، حساب لگایا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اگر جسم کافی دور سے گرایا جائے تو اس بلیک ہول کی کمیت میں گیند کی اصل کمیت کے برابر اضافہ ہوگا کیونکہ مادے اور توانائی سمیت کوئی بھی چیز بلیک ہول سے فرار نہیں ہوسکتی.
اب ایک اور تجربے پر غور کریں جس میں وزن کو بلیک ہول کے اندر رفتہ رفتہ اتارا جا رہا ہے، اس مقصد کے لیے جسم کے ساتھ ایک ڈوری باندھی جاسکتی ہے جو ایک پلی پر سے گزر کر ایک ڈرم کے گرد لپٹی ہو، اس ڈوری کے لپیٹ کھول کر اسے بتدریج بلیک ہول کے اندر اتارا جاسکتا ہے، جب وزن نیچے کی جانب حرکت کرتا ہے تو یہ توانائی پیدا کرتا ہے جس کی ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ وہ ڈرم کے ساتھ منسلک ایک جنریٹر گھما کر بجلی پیدا کرے، یہ وزن بلیک ہول کی سطح کے جتنا قریب ہوگا اتنی زیادہ قوتِ تجاذب اس پر عمل کرے گی، نیچے کی جانب عمل کرنے والی قوت جوں جوں بڑھتی ہے وزن جنریٹر بھی توں توں زیادہ کام کرتا ہے، سادہ سے عمل سے حساب لگایا جاسکتا ہے کہ جب جسم بلیک ہول کی سطح تک پہنچے گا تو وہ جنریٹر پر کتنا کام کر چکا ہوگا، ایک مثالی صورتِ حال میں اس کا جواب یہ نکلتا ہے کہ جنریٹر پر لگائی گئی توانائی اس جسم کی کل ساکن کمیت توانائی کے برابر ہوگی.
ایک خیالی تجربے میں وزن کو پلی سے گزرتی ڈوری سے باندھ کر بلیک ہول کی طرف لٹکایا گیا ہے، وزن نیچے جاتے ہوئے کام کرتا ہے اور پچھلے ڈبے کو توانائی فراہم کرتا ہے، بلیک ہول کی سطح تک پہنچنے تک وزن اپنی سکونی کمیت کے برابر () توانائی فراہم کرچکا ہوتا ہے.
شکل 5.1
آئن سٹائن کے فارمولے کو یاد کریں جو ہمیں بتاتا ہے کہ کمیت m کے اندر موجود توانائی کے برابر ہوتی ہے، اصولی اعتبار سے کسی جسم میں موجود یہ کُل توانائی قابلِ حصول ہے، جسم کی کمیت کے سو گرام ہونے کی صورت میں یہ توانائی بجلی کے تین کلو واٹ آور کے برابر ہے، تقابلی اعتبار سے دیکھا جائے تو سورج جب اسی سو گرام کو نیوکلیائی فیوژن سے توانائی میں تبدیل کرتا ہے تو مندرجہ بالا مقدار کا ایک فیصد سے بھی کم حصہ خارج کرتا ہے، چنانچہ اصولی اعتبار سے تجاذب کا اخراجِ توانائی نیوکلیائی فیوژن کے مقابلے میں کم از کم سو گنا زیادہ توانائی خارج کرتا ہے، اور ستاروں میں توانائی نیوکلیائی فیوژن سے پیدا ہوتی ہے.
بے شک جو صورتِ حال بیان کی گئی ہے مکمل طور پر غیر حقیقی ہے، بلا شبہ اجسام متواتر بلیک ہولوں میں گرتے ہیں لیکن ان کے ساتھ توانائی کے حصول کا کوئی پلی سسٹم اور جنریٹر نصب نہیں ہوتا، عملی طور پر یہ ہوتا ہے کہ جسم کی ساکن کمیت توانائی کا صفر سے لے کر سو فیصد تک کوئی بھی حصہ خارج ہوسکتا ہے، اب توانائی کا کتنا حصہ خارج ہوتا ہے اس کا انحصار طبیعی حالات پر ہے، پچھلی دو دہائیوں سے سائنس دان کوشش کر رہے ہیں کہ وہ مرغولوں کی صورت بلیک ہول میں اترتی گیس کے رویے کو سمجھیں اور خارج ہونے والی توانائی کی مقدار اور طرزِ اخراج کا حساب لگائیں، اس مقصد کے لیے وہ کمپیوٹر کے نمونہ جاتی پروگراموں اور ریاضیاتی ماڈلوں سے کام لے رہے ہیں، اس میں ملوث طبعی عمل بہت پیچیدہ ہیں، تاہم اس قدر ضرور واضح ہے کہ اس طرح کے عملوں میں تجاذبی قوت کی بہت بڑی مقدار خارج ہوتی ہے.
ایک مشاہدہ ہزاروں حسابی عملوں کی سی اہمیت رکھتا ہے، سائنسدان ایسے اجسام کی تلاش میں وسیع پیمانے پر کام کر رہے ہیں جن کے بلیک ہول ہونے کا امکان ہو اور وہ بیرون سے مادہ نگلنے کے عمل سے گزر رہے ہوں، ابھی تک کسی ایسے جسم کا مشاہدہ نہیں کیا جاسکا جس کے بارے میں قائل کردینے والے دلائل دیے جاسکیں کہ یہی بلیک ہول ہے، لیکن ایک نظام جس کے بارے میں سائنسدان کافی پر امید ہیں مجمع النجوم سگنس (Cygnus Constellation) میں واقع ہے اور اسے Cygnus X-1 کا نام دیا گیا ہے، اس نظام میں شامل ستارے کو عام دور بین یعنی Optical Telescope سے دیکھا جاسکتا ہے، اس کے رنگ کی وجہ سے اسے "نیلا جن” قسم کے ستاروں میں رکھا جاتا ہے، سپیکٹرو سکوپ کی مدد سے کیا گیا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ ستارہ اکیلا نہیں ہے، اس ستارے میں آگے پیچھے کی حرکت نظر آتی ہے جو با آہنگ ہے یعنی بے قاعدہ نہیں ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ستارہ کسی دوسرے جسم کی قوتِ تجاذب کے زیرِ اثر ہے جو اسے باقاعدہ خاص وقفوں کے بعد ارتعاش میں لاتا ہے، ظاہر ہے کہ ستارہ اور کوئی دوسرا جسم باہم بہت قریب ایک دوسرے کے مداروں میں موجود ہیں، لیکن بصری دور بین میں وہ دوسرا ساتھی نظر نہیں آتا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ دوسرا جسم یا تو "سیاہ” ہے یعنی کوئی توانائی خارج یا منعکس نہیں کرتا یا پھر بہت ٹھوس اور کم روشن ستارہ ہے، اس سے بلیک ہول کا اشارہ تو ملتا ہے لیکن کوئی ثبوت نہیں.
ایک اور سراغ اس سیاہ جسم کی کمیت سے بھی ملتا ہے، جب ہمیں نیلے ستارے کی کمیت معلوم ہو تو نیوٹن کا قانون استعمال کر کے ہم دوسرے ستارے کی کمیت معلوم کر سکتے ہیں، اب کسی ستارے کی رنگت اور اس کی کمیت کا بھی آپس میں ایک باہمی تعلق ہے، نیلے ستارے گرم ہوتے ہیں اور اس لیے ان کی کمیت بھی زیادہ ہوتی ہے، حسابی عمل سے پتہ چلتا ہے کہ اس دوسرے غیر مرئی ساتھی ستارے کی کمیت کئی سورجوں کے برابر ہے، چنانچہ اتنا واضح ہے کہ یہ کوئی عام چھوٹا اور مدھم ستارہ نہیں ہے، بلکہ یہ سفید بونا، نیوٹران ستارہ یا پھر بلیک ہول ہے، لیکن کچھ بنیادی طبیعاتی وجوہات ہیں جن کی بناء پر اس کمیت کا ٹھوس جسم سفید بونا یا نیوٹران ستارہ نہیں ہوسکتا، ہمارا مسئلہ اس شدید قوتِ تجاذب سے متعلق ہے جو جسم کو کچلنے کی کوشش کرتی ہے، کچلے جانے کے نتیجے میں بلیک ہول بننے سے بچنے کی ایک ہی صورت ہے کہ مرکز سے باہر کی طرف عمل کرنے والی کوئی قوت موجود ہو جو تجاذب کی بھینچنے والی قوت کو متوازن کر سکے، لیکن اگر مسمار ہوتا ہوا ستارہ کئی سورجوں کی کمیت کا حامل ہے تو پھر کوئی معلوم قوت ایسی نہیں جو کچلتی ہوئی تجاذبی قوت کو متوازن کر کے اس کی مزاحمت کر سکے، اور پھر اگر ستارے کا مرکز اتنا کثیف اور سخت ہو کہ وہ اس تجاذبی دباؤ کو برداشت کر جائے اور کچلا نہ جاسکے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ مرکز میں آواز کی رفتار روشنی کی رفتار سے زیادہ ہوگی، اور چونکہ یہ امر آئن سٹائن کے مخصوص نظریہ اضافیت سے متصادم ہے اس لیے زیادہ تر فلکیات دان اور طبیعات دانوں کا یقین ہے کہ ان حالات میں بلیک ہول کی تشکیل نا گزیر ہے.
سگنس X-1 میں بلیک ہول کے موجود ہونے کی ایک ناقابلِ تردید شہادت ایک اور مشاہدہ سے بھی ملتی ہے، اسے X-1 کا نام ہی اسی لیے دیا گیا تھا کہ اس سے ایکس ریز بے پناہ شدت سے خارج ہوتی ہیں جن کا سراغ مصنوعی سیاروں پر موجود آلات نے لگایا تھا، بنائے گئے نظری ماڈلوں کی مدد سے ان ایکس رے شعاعوں کی توضیح صرف اس صورت میں ہوسکتی ہے اگر مذکورہ بالا نظام میں ایک بلیک ہول کا ہونا مان لیا جائے، حسابی عمل سے اس بلیک ہول کا تجاذبی میدان اتنا طاقتور ہے کہ وہ اس نیلے ستارے سے مادہ جذب کرتا ہے، جب نیلے ستارے سے اغواء کی گئی گیس بلیک ہول کی طرف گرتی ہے تو نظام کی گردش کے باعث یہ بلیک ہول کے گرد گھومنے لگتی ہے اور ایک پلیٹ بنا دیتی ہے، لیکن اس طرح کی گیسی پلیٹ مستحکم نہیں ہوتی، اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ پلیٹ کا جو حصہ بلیک ہول کے قریب ہوتا ہے کناروں پر موجود گیس کی نسبت زیادہ تیزی سے گردش کرتا ہے، اب لزوجی قوت (Viscous Force) اس رفتاری فرق کو دور کرنے کی کوشش کرے گی، نتیجہ کے طور پر گیس گرم ہوکر نہ صرف روشنی بلکہ ایکس رے بھی خارج کرے گی، اس طرح توانائی کا ضیاع ہوگا اور گیس کم ہوتے ہوئے قطر کے دائروں میں گھومتی بلیک ہول میں گر جائے گی.
چنانچہ سگنس X-1 میں بلیک ہول موجود ہونے کی شہادت دلائل کے ایک سلسلے پر مبنی ہے جن میں مشاہداتی جزئیات اور نظریاتی ماڈل دونوں شامل ہیں، یہ تحقیق آج کل ہونے والی زیادہ تر فلکیاتی تحقیق کا مثالی نمونہ ہے، اگرچہ کوئی ایک دلیل قطعیت سے فیصلہ کرنے میں مدد نہیں دیتی لیکن سگنس X-1 اور ایسے ہی دوسرے نظاموں کا مطالعہ کیا جائے تو نتائج کے مشترک تجزیے سے اس جگہ ایک بلیک ہول ہونے کے قوی امکانات ظاہر ہوتے ہیں.
بڑے بلیک ہولوں کی سرگرمیوں کے نتیجے میں اور بھی عجیب اثرات مشاہدے میں آتے ہیں، ان سے پتہ چلتا ہے کہ بہت سی کہکشاؤں کے مرکز میں عظیم کمیتی (Super-massive) بلیک ہول پائے جاتے ہیں، ان کہکشاؤں کے مرکزوں میں ستاروں کی حرکت سے ایسے بلیک ہولوں کی موجودگی کا پتہ چلتا ہے، ستارے اس طرح کے رویے کا اظہار کرتے ہیں جیسے انہیں نہایت کثیف اور اونچی کشش کا حامل کوئی جسم اپنی طرف کھینچ رہا ہے، ایسے ممکنہ اجسام کی کمیت دس ملین سے کئی ملین سورجوں کے برابر ہوسکتی ہے، اتنی کمیت اور نتیجہ کے طور پر اتنے تجاذب کے باعث یہ گرد وپیش میں موجود مادے کو ہڑپ کرنے کو تیار رہتے ہیں، ستارے، سیارے، گیس اور گرد ہر چیز ان دیوؤں کی بھوک کا ایندھن بن جاتی ہے، ان کے اندر مادے کے گرنے کی یہ ہنگامہ خیزی ساری کہکشاں کے نظام میں گڑبڑ کرتی ہے، فلکیات کے ماہر کہکشاؤں کے مراکز کی سرگرمیوں کے اعتبار سے قسم بندی کرتے ہیں، کچھ کہکشائیں پھٹ کر بکھرتی نظر آتی ہیں اور بہت سی ریڈیو لہروں، ایکس ریز اور توانائی کی دوسری اقسام خارج کرتی ہیں، لیکن سب سے منفرد کہکشاؤں کی وہ قسم ہے جن سے گیس کے بہت بڑے بڑے دھارے پھوٹتے ہیں، یہ دھارے ہزاروں لاکھوں نوری سال لمبے ہوتے ہیں، ان اجسام میں سے کچھ کا توانائی کا اخراج حیران کن ہے، مثال کے طور پر بہت زیادہ فاصلے پر کواسرز (Quasars) ہزاروں کہکشاؤں کے برابر توانائی اتنے حصے سے خارج کرتے ہیں جو ایک نوری سال سے زیادہ بڑا نہیں ہوتا، غالباً اپنی چھوٹی جسامت کی وجہ سے ہی یہ بظاہر ستارے لگتے ہیں.
بہت سے فلکیات دانوں کا خیال ہے کہ اتنی شدت سے پھٹتے ہوئے ان اجسام کی کار گزاری کے ذمہ دار بہت بڑے بڑے بلیک ہول ہیں جو اپنے گرد گھومتے رہتے ہیں، یہ اپنے گرد وپیش میں موجود مادہ نگلتے رہتے ہیں، ان کے حلقہ اثر میں داخل ہونے والا کوئی بھی سیارہ یا تو تجاذب کے زیرِ اثر ٹکڑے ہو کر بکھر جاتا ہے یا پھر دوسرے ستاروں سے ٹکرا کر ٹوٹ جاتا ہے.
سگنس X-1 کے نمونے پر، لیکن بہت بڑے پیمانے پر یہ مادہ امکانی طور پر گرم گیس کے ایک چھلے کی صورت بلیک ہول کے گرد گردش کرے گا اور رفتہ رفتہ اس میں غرق ہوجائے گا، مئی 1994 میں رپورٹ دی گئی کہ ہبل دوربین (Hubble Space Telescope) نے کہکشاں M87 کے مرکز میں تیزی سے گھومتی ہوئی ایک گیسی پلیٹ دریافت کی ہے.
ہوسکتا ہے کہ اس گیسی ڈسک سے بے پناہ توانائی خارج ہو کر بلیک ہول کی طرف جا رہی ہے اور وہ اسے ہول کے گھماؤ کے محور کے متوازی حرکت دیتی ہو اور نتیجے کے طور پر مخالف سمتی فواروں کا جوڑا جنم لیتا ہو، اس قسم کے فوارے مشاہدے میں بھی آئے ہیں، توانائی کے اخراج کے اس طرزِ اخراج کے تشکیل میں برقی مقناطیسی، نروجی اور دوسری قوتوں کے ساتھ ساتھ تجاذب کا بھی ہاتھ ہوتا ہے، اس موضوع پر ابھی بہت سا مشاہداتی اور نظریاتی کام ہونا باقی ہے.
ہماری کہکشاں یعنی ثریا (Milky way) کا کیا بنے گا؟ کیا یہ امکان موجود ہے کہ اسے بھی بالآخر پھٹ جانا ہے؟ اس کا مرکز تیس ہزار نوری میل دور مجمع النجوم سیجی ٹیریس (Sagittarius Constellation) میں ہے، اگرچہ اس میں گیس اور غبار کے بہت بڑے بڑے بادلوں کی موجودگی کے باعث مشاہدہ مشکل ہے لیکن ایکس ریز، گیما ریز، اور انفرا ریڈ آلات کی مدد سے کیے گئے مطالعہ سے یہاں بہت کثیف (Compact) اور توانا مرکز Sagittarius A کی موجودگی کے بالواسطہ شواہد ملتے ہیں، اگرچہ یہ جسامت میں صرف چند بلین کلو میٹر ہے (جو فلکیاتی فاصلوں کے حوالے سے واقعی چھوٹا سا فاصلہ ہے) لیکن یہ ہماری کہکشاں میں ریڈیو شعاعوں کا سب سے طاقتور مرکز ہے، اس کا محلِ وقوع انفرا ریڈ شعاعوں کے ایک طاقتور مرکز کے ساتھ منطبق ہے، ایکس ریز کا ایک مرکز بھی اس کے قریب پایا جاتا ہے، اگرچہ صورتحال کافی پیچیدہ ہے لیکن یہاں کسی بلیک ہول کے موجود ہونے کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں جو مشاہدے میں آنے والے کچھ مظاہر کی وجہ اور منبع خیال کیا جاتا ہے، تاہم اس کی کمیت صرف دس ملین سورجوں کے برابر ہے، بہ اعتبارِ کمیت یہ بلیک ہولوں کی فہرست میں سب سے نیچے آتا ہے، توانائی اور مادے کا جیسا شدید اخراج دوسری کہکشاؤں کے مرکزوں میں ہو رہا ہے اس قسم کے اخراج کی کوئی شہادت نہیں ملی، لیکن اس بلیک ہول کا ابھی ابتدائی مرحلے میں ہونا بھی اس کی وجہ ہوسکتی ہے، لیکن مستقبل میں ہوسکتا ہے کہ یہ بھی بھڑک اٹھے اور ایسا غالباً گرد وپیش سے گیس کی مناسب سپلائی ملنے کی صورت میں ہوگا، لیکن اس کی شدت کسی بھی صورت دوسرے معلوم نظاموں کی سی نہیں ہوگی، ابھی یہ واضح نہیں ہوسکا کہ اس طرح کی شعلہ فشانی کہکشاں کے بازوؤں میں موجود ستاروں اور سیاروں پر کیا اثرات مرتب کرے گی.
جب تک کسی بلیک ہول کے گرد اس کی بھوک مٹانے کے لیے مادہ موجود رہے گا اس کی ساکن کمیتی توانائی خارج ہوتی رہے گی، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بلیک ہول زیادہ سے زیادہ مادہ نگلتا جائے گا اور ہول زیادہ بڑے اور زیادہ بھوکے ہوتے چلے جائیں گے، حتی کہ ہول کے مدار میں موجود بہت دور دراز کے ستارے بھی اس کی زد میں آجائیں گے، اس کی وجہ ایک بہت کمزور لیکن بالآخر فیصلہ کن قوت ہے جسے تجاذبی شعاعیں کہتے ہیں.
1915 میں اضافیت کے عمومی نظریے کی تشکیل کی کچھ مدت بعد آئن سٹائن نے تجاذبی میدان کی ایک اہم خصوصیت دریافت کی، اس نظریے کی میدانی مساواتوں کے مطالعے سے اس نے موج نما تجاذبی اہتزاز کی پیش گوئی کی، اس تجاذبی موج کی رفتار خلاء میں روشنی کے برابر تھی، اگرچہ تجاذبی لہریں بھی توانائی کی اچھی خاصی مقدار کی حامل ہوتی ہیں لیکن، برقی مقناطیسی لہروں کے برعکس، مادے کے ساتھ ان کا تعامل مختلف ہوتا ہے، ریڈیو لہریں تار کے جال میں بھی جذب ہوجاتی ہیں لیکن تجاذبی موجوں یا لہروں کا تعامل اتنا کمزور ہے کہ یہ زمین میں سے بھی گزر جائیں تو ان میں کوئی قابلِ ذکر تبدیلی نہیں آتی، اگر تجاذبی لہروں کی لیزر بنائی جاسکے تو پانی کی ایک کیتلی ابالنے کے لیے ایک ٹریلین کلو واٹ شعاع کی ضرورت ہوگی، اتنا ہی کام ایک کو واٹ بجلی کے کوائل سے بھی کیا جاسکتا ہے، تجاذبی موجوں کی اس تقابلی کمزوری کو اس حقیقت سے بھی منسلک کیا جاسکتا ہے کہ فطرت کی تمام معلوم قوتوں میں سے تجاذب کمزور ترین قوت ہے، ایک ایٹم میں برقی اور تجاذبی قوت کی نسبت ایک اور کی ہے، تجاذب کے منظر پر آنے کی وجہ اس کا مجتمع Cumulative ہونا ہے، چنانچہ سیاروں اور دوسرے بڑے اجسام میں یہ دوسری قوتوں پر غالب آجاتی ہے.
اصولی طور پر جب مادے کی کسی بھی حالت میں تبدیلی لائی جاتی ہے یعنی کہ اس میں حرکی حالت کا بگاڑ پیدا کیا جاتا ہے تو تجاذبی شعاعیں پیدا ہوتی ہیں، مثلاً زمین سورج کے گرد دورانِ گردش مسلسل تجاذبی لہریں پیدا کرتی ہے لیکن ان کی مجموعی طاقت ملی واٹ میں ہوتی ہے، توانائی کا یہ اخراج زمین کے مدار میں زوال کا سبب بنتا ہے، ہر چند یہ زوال ناپید ہونے کی حد تک کم شرح سے ہوتا ہے یعنی کہ ہر دس سال کے بعد سینٹی میٹر کے ایک ہزار ٹریلین حصوں میں سے ایک.
لیکن جب معاملہ بہت بھاری اجسام کا ہو جو روشنی کی رفتار یعنی کہ رفتارِ نور سے قابلِ تقابل رفتاروں سے حرکت کر رہے ہوں تو صورتحال ڈرامائی طور پر بدل جاتی ہے، دو طرح کے مظہر ہیں جو اہم تجاذبی اشعاع کاری اثرات لا سکتے ہیں، ان میں سے ایک اچانک اور پُرہنگام (Violent) طور پر وقوع پذیر ہوتا ہے یعنی سپر نووا، اس میں کوئی ستارہ منہدم ہوکر بلیک ہول کی شکل اختیار کر جاتا ہے، یوں تجاذبی موجوں کی ایک لہر پیدا ہوتی ہے جو عام طور پر جول توانائی کی حاصل ہوتی ہے اور صرف چند مائیکرو سیکنڈ تک خارج ہوتی رہتی ہے، تقابل کی غرض سے سورج پر غور کریں جو جول فی سیکنڈ خارج کرتا ہے، دوسرے مظہر ایک دوسرے کے گرد مداروں میں تیز رفتاری سے گردش کرنے والے بھاری اجسام ہیں، مثلاً دو ایسے ستاروں کا ایک نظام جسے ثنائی نظام کہتے ہیں تجاذبی شعاعوں کا مسلسل دھارا خارج کرتا ہے، اس نظام کی کارکردگی اس وقت خصوصاً زیادہ ہوتی ہے جب گردش کرنے والے اجسام منہدم شدہ اجسامِ فلکی ہوں یعنی کہ نیوٹران ستارے یا بلیک ہول ہوں، مجمع النجوم Aquila میں دو نیوٹران ستارے ایک دوسرے کے گرد گردش میں ہیں اور ان کا درمیانی فاصلہ محض چند ملین کلو میٹر ہے، ان کے تجاذبی میدان اتنے طاقتور ہیں کہ ہر ستارہ اپنا مداروی چکر صرف آٹھ گھنٹے کے اندر اندر مکمل کر لیتا ہے، ان ستاروں کی مداروی رفتار کا رفتارِ نور یعنی روشنی کی رفتار سے تقابل کیا جاسکتا ہے، اس غیر معمولی رفتار کی وجہ سے تجاذبی لہروں کی شرح اخراج بڑھ جاتی ہے اور ان کے مدار کے انحطاط میں بھی قابلِ پیمائش کمی آتی ہے، ہر ایک چکر کے بعد ان کا دورانیہ 75 مائیکرو سیکنڈ کم ہوجاتا ہے، ان ستاروں کو تقریباً تین سو ملین سال کے بعد باہم مدغم ہوجانا ہے.
ماہرینِ فلکیات کے حساب کے مطابق فی لاکھ سال فی کہکشاں ایسا ایک واقعہ رونما ہوتا ہے، یہ اجسام اتنے ٹھوس ہیں اور ان کے تجاذبی میدان اتنے شدید ہیں کہ ٹکرانے سے پہلے آخری لمحات میں یہ ایک دوسرے کے گرد فی سیکنڈ ہزاروں چکر لگاتے ہیں، تجاذبی لہروں کی فریکوینسی تیزی سے بڑھتی ہے، یہ تیکھی تیزی اسی طرح کے واقعات کے ساتھ وابستہ ہے، آئن سٹائن کے فارمولے سے نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اس آخری مرحلے میں طاقت کا اخراج بہت زیادہ ہوجاتا ہے اور مدار میں تیزی سے زوال آتا ہے، اس باہمی تجاذبی کشش کے بہت زیادہ ہونے کا نتیجہ سیاروں کے بگاڑ کی شکل میں نکلے گا، دونوں ستارے دیوہیکل سگاروں کی شکل اختیار کر جاتے ہیں جو ایک دوسرے کے گرد چکر لگا رہے ہیں.
یہ اہتزازات بھی تجاذبی شعاعوں کی خاص مقدار خارج کریں گے جو اس جسم سے توانائی کو مزید نچوڑنے کا سبب بنیں گے، حتی کہ جسم ساکت ہوجائے گا اور ہر طرح کی سرگرمی ختم ہوجائے گی.
ہر چند کہ توانائی کی شرح اخراج بہت کم ہے لیکن تجاذبی لہروں کے اخراج کا کائناتی ساخت پر دور رس اثرات مرتب کرنے کا قوی امکان ہے، Aquila کے ثنائی ستاروی نظام (Binary Star System) کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ اس کا مداروی انحطاط آئن سٹائن کے نظریے کے عین مطابق ہے، چنانچہ یہ نظام تجاذبی لہروں کے اخراج کی براہ راست شہادت مہیا کرتا ہے، لیکن زیادہ فیصلہ کن امتحان کے لیے ضروری ہے کہ ان لہروں کا سراغ زمین پر موجود کسی تجربہ گاہ میں لگایا جاسکے، محققین کے کئی گروہوں نے ایسے آلات بنائے ہیں جن کا مقصد مختصر وقفہ کے لیے گزرنے والی تجاذبی لہر کی اس دھار کا سراغ لگانا ہے، لیکن تاحال کوئی بھی آلہ اتنا حساس ثابت نہیں ہوا کہ وہ یہ کام کر سکے، لگتا ہے کہ ان لہروں کا سراغ لگانے اور ان کے وجود کی تجربی تصدیق کے لیے ہمیں سراغ کنندوں کی ایک نئی نسل کے معرضِ وجود میں آنے کا انتظار کرنا ہوگا.
مذکورہ بالا ادغام سے یا تو زیادہ بڑا نیوٹران ستارہ بنتا ہے یا پھر بلیک ہول معرضِ وجود میں آتا ہے، لیکن اگر ادغام ایک نیوٹران ستارے اور بلیک ہول کا ہوتا ہے یا دو بلیک ہولوں کا ہوتا ہے تو ہر دو صورتوں میں ایک بلیک ہول ہی بنتا ہے، اس عمل میں تجاذبی موجی قوت کا اخراج ہوتا ہے، پھر Wobbling اور Ringing کا پیچیدہ عمل ہوتا ہے جو رفتہ رفتہ تجاذبی لہروں کے ذریعے سے ہونے والی توانائی کے ضیاع کے ہاتھوں ختم ہوجاتا ہے.
دو بلیک ہولوں کے ادغام سے تجاذبی توانائی کے اخراج کی زیادہ سے زیادہ ممکن مقدار کا نظریاتی مطالعہ دلچسبی سے خالی نہیں، 70 کی دہائی کے اوائل میں راجر پن روز (Roger Penrose)، سٹیفن ہاکنگ (Stephen Hawking)، بیرنڈن کارٹر (Brandon Carter)، ریمو رفینی (Remo Ruffini)، اور لیری سمار (Larry Smarr) نے ان عملوں پر نظریاتی کام کیا، اگر تو بلیک ہول گھماؤ میں نہیں اور ان کی کمیت یکساں ہے تو کُل ساکن کمیت توانائی کا 29 فیصد توانائی کی صورت خارج ہوجائے گا، اگر کوئی ایسا طریقہ موجود ہو کہ ان بلیک ہولوں پر باہر سے اثر انداز ہوا جاسکے اور ان کے عمل میں مداخلت کی جاسکے تو لازم نہیں کہ ساری توانائی تجاذبی قوت کی صورت خارج ہو، لیکن اپنی فطری حالت میں، جس میں مداخلت ابھی محض دور از کارِ تخیل ہے، زیادہ تر توانائی اسی غیر واضح شکل میں ہوگی، لیکن اگر ستارے ایک دوسرے سے الٹے گھماؤ کی حالت میں ہیں اور رفتار طبیعات کے قوانین کی حدود میں زیادہ سے زیادہ ہے یعنی کہ رفتارِ نور کے قریب ہے تو ان کی ساکن حالت کمیت کا پچاس فیصد تجاذبی لہروں کی صورت توانائی بن کر خارج ہوجائے گا، لیکن توانائی کے زیادہ سے زیادہ اخراج کی ایک نظریاتی حد تک جہاں تک مذکورہ بالا توانائی ابھی تک نہیں پہنچی، بلیک ہول برقی چارج کا حامل بھی ہوسکتا ہے، چارج شدہ ہول برقی اور مقناطیسی دونوں میدانوں کا حامل ہوگا، ہر دو توانائی کا ذخیرہ کر سکتے ہیں، اگر مثبت چارج کے حامل بلیک ہول کا ادغام منفی چارج کے بلیک ہول سے ہوتا ہے تو ایک "ڈسچارج” ہوگا اور برقی مقناطیسی اور تجاذبی دونوں صورتوں میں توانائی خارج ہوگی.
چونکہ بلیک ہول کے زیادہ سے زیادہ برقی چارج کی ایک حد ہے، اس لیے یہ ڈسچارج بھی لامحدود نہیں ہوگا، اگر ایک بلیک ہول گھماؤ کی حالت میں نہیں ہے تو اس کے چارج کی حد کا اندازہ لگانے کے لیے مندرجہ ذیل امور کو زیرِ غور لانا ہوگا، فرض کیجیے کہ دو بلیک ہولوں پر یکساں چارج ہے، ان کے تجاذبی میدانِ کشش باہمی کھنچاؤ پیدا کریں گے جبکہ برقی میدانوں کے باعث دافع قوت عمل میں آئے گی کیونکہ ایک جیسے چارج قوتِ دافع لگاتے ہیں، جب چارج کمیت کی نسبت ایک خاص حد تک پہنچتی ہے تو دونوں قوتیں متوازن ہو کر ایک دوسرے کو منسوخ کرتی ہیں اور کوئی حاصل قوت نہیں بچتی ہے، یہی وہ شرط ہے جو کسی بلیک ہول کے زیادہ سے زیادہ چارج کی حد متعین کرتی ہے، اگر بلیک ہول پر چارج اس سے زیادہ کرنے کی کوشش کی جائے تو کیا ہوگا؟ چارج بڑھ جائے گا لیکن برقی دافع قوت پر قابو پانے کے لیے کام کرنا پڑے گا جس میں توانائی لگے گی، یہ توانائی بلیک ہول کو ملے گی اور اس کی کمیت میں اضافہ ہوجائے گا () چنانچہ بلیک ہول کی کمیت بھی بڑھے گی اور حجم بھی، سادہ سا حساب کتاب ظاہر کرے گا کہ چارج میں جتنا اضافہ ہوگا اس سے زیادہ اضافہ کمیت میں ہوگا، چارج اور کمیت کی نسبت بجائے بڑھنے کے کم ہونا شروع ہوجائے گی، چنانچہ زیادہ سے زیادہ چارج کی حد سے بڑھنے کی کوشش ناکام ہوجائے گی.
بلیک ہول پر موجود چارج کا اس کی کمیت میں بھی حصہ ہوتا ہے، اگر کسی بلیک ہول پر چارج زیادہ سے زیادہ حد تک موجود ہو تو اس کی کُل کمیت کا نصف برقی چارج کی وجہ سے ہوتا ہے، اگر بلیک ہول گھماؤ میں نہیں اور اس پر مخالف چارج ہیں تو ان کے درمیان قوتِ کشش تجاذبی اور برقی مقناطیسی دونوں قوتوں کا جمعی حاصل ہوگی، ان کے ملنے کی صورت میں برقی چارج معتدل ہوجائے گا اور برقی توانائی کُل کا ساکن کمیتی توانائی کے پچاس فیصد کے برابر ہوگی.
اس طرح کے حصولِ توانائی کی مطلق آخری حد کی شرائط یہ ہیں کہ دونوں ہول گھماؤ میں ہوں اور ان پر مخالف چارج زیادہ سے زیادہ حد تک ہو، اس صورت میں خارج شدہ توانائی کُل ساکن کمیت توانائی کے دو تہائی کے برابر ہوگی، بلا شبہ یہ تمام تر تفصیلات صرف نظری دلچسبی کے حامل ہیں کیونکہ عملی طور پر بلیک ہولوں پر اتنا چارج نہیں ہوتا اور نہ ہی بلیک ہول اس انداز میں مدغم ہوتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ توانائی کے لیے درکار نمونے کا اتباع ہوسکے، ایسا تو صرف کوئی بہت ترقی یافتہ نسل کرواسکتی ہے، لیکن اگر ان کا یہ ادغام اتنے مؤثر انداز میں نہ ہو تو بھی ان کی کُل ساکن کمیت توانائی کا قابلِ ذکر حصہ فوراً خارج ہوجائے گا، یہ توانائی مقدار میں ستاروں سے خارج ہونے والی توانائی سے کچھ کم نہیں ہوگی جو اپنی کئی بلین سال کی زندگی میں اپنی کُل کمیت کا صرف ایک فیصد توانائی کی صورت خارج کرتے ہیں.
ان تجاذبی عملوں کی اہمیت یہ ہے کہ جلا ہوا ستارہ بطور منہدم Cinder کے اپنے تھرمو نیوکلیئر مرحلے سے زیادہ توانائی خارج کر سکتا ہے حالانکہ تب وہ گیس کا دہکتا ہوا گولہ تھا، جب کوئی بیس برس پہلے اس حقیقت کا انکشاف ہوا تو اصطلاح "بلیک ہول” کے خالق جان وہیلر (John Archibald Wheeler) نے ایک فرضی تہذیب کی نقشہ کشی کی جو توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے ہاتھوں اپنے ستارے کو چھوڑ کر ایک گھومتے ہوئے بلیک ہول کے گرد آباد ہوگئے تھے، یہ آبادی ہر روز اپنا کوڑا کرکٹ گاڑیوں میں لاد کر احتیاط سے منتخب کیے گئے راستے پر بلیک ہول کی طرف روانہ کردیتے ہیں، ہول کے نزدیک کوڑا کرکٹ ہول کی طرف انڈیل دیا جاتا ہے یعنی کہ اس سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا پالیا جاتا ہے، جب یہ کوڑا ہول کے گھماؤ کی الٹ سمت چکردار راستے پر گھومتا ہوا گرتا ہے تو اس پر ایک طرح کی بریک کا اثر ہوتا ہے، اس سے ستارے کی گھماؤ کی قوت خارج ہوتی ہے اور وہ آبادی اس توانائی کو قابو کر کے استفادہ کرتی ہے.
اس عمل کا دہرا فائدہ ہوتا ہے، کوڑے سے بھی نجات مل جاتی ہے اور توانائی کا مسئلہ بھی حل ہوجاتا ہے، یوں بوقتِ ضرورت یہ آبادی مردہ ستارے سے اس سے بھی زیادہ توانائی حاصل کر سکتی ہے جتنی وہ زندہ حالت میں فراہم کر سکتا تھا.
اگرچہ بلیک ہول سے خارج ہونے والی توانائی قابو کرنا سائنس فکشن کا منظر لگتا ہے لیکن بلیک ہول میں تمام مادہ بہرحال غائب ہوجاتا ہے، مردہ ستارے کے اپنے مادے کے علاوہ ہول کے قریب آنکلنے والا کوئی ملبہ وغیرہ اس میں ہمیشہ کے لیے غائب ہوجاتا ہے، میں جب بھی بلیک ہول پر لیکچر دیتا ہوں تو لوگ ہمیشہ جاننا چاہتے ہیں کہ اس مادے کے ساتھ بالآخر کیا ہوتا ہے، اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ ہم نہیں جانتے!! بلیک ہول پر ہمارا جتنا بھی اور جیسا بھی علم ہے سب نظری غور وفکر اور ریاضیاتی ماڈلوں پر مبنی ہے، در حقیقت بلیک ہول کی جو تعریف کی جاتی ہے اس کی رو سے ہی ہم بلیک ہول کے اندرون کا مشاہدہ نہیں کر سکتے، بفرضِ محال ہماری بلیک ہول تک مشاہداتی رسائی ہو بھی تو ہم دیکھ نہیں سکتے کہ اندر کیا ہو رہا ہے، تاہم نظریہ اضافیت جو بلیک ہول کے وجود کی پیش گوئی کا ذمہ دار ہے، اس کے اندر گرنے والے خلاء نورد پر گزرنے والی کیفیات پر کچھ روشنی ڈالتا ہے، ذیل میں نظریاتی استخراج کا ایک سادہ بیان دیا جارہا ہے.
بلیک ہول کی سطح کوئی حقیقی ساخت نہیں ہے بلکہ صرف ریاضیاتی ماڈل ہے، وہاں محض خالی جگہ ہے، جب خلاء نورد اس سطح سے گزر کر بلیک ہول کے اندرون کی طرف بڑھتا ہے تو اسے کسی خاص فرق کا پتہ نہیں چلے گا، لیکن اس سطح کی اپنی طبعی بلکہ ڈرامائی بھی اہمیت ہے، ہول کے اندر تجاذب اتنا شدید ہے کہ یہ روشنی کے فوٹون کو بھی پکڑ لیتا ہے اور باہر نہیں جانے دیتا، مطلب یہ ہوا کہ روشنی اس کے اندر سے باہر نہیں جاسکتی یہی وجہ ہے کہ یہ سیاہ نظر آتا ہے، چونکہ کوئی بھی جسم یا چیز رفتارِ نور سے زیادہ تیز نہیں ہوسکتی اس لیے جب کوئی جسم ایک مرتبہ اس میں پھنس جاتا ہے یعنی یہ حد عبور کر لیتا ہے تو کبھی باہر فرار نہیں ہوسکتا، بلیک ہول کے اندر رونما ہونے والے واقعات بیرونی دنیا کے علم میں کبھی نہیں آتے، یہی وجہ ہے کہ ہول کی سطح کو وقوعی افق (Event Horizon) کہتے ہیں، یہ سطح ہول کے بیرون اور اندرون میں ہونے والے واقعات کے ما بین حدِ فاصل کا کام کرتی ہے، بیرون میں ہونے والے واقعات اندر سے دیکھے جاسکتے ہیں، لیکن جو واقعات اس سطح کے اندر کی طرف ہوتے ہیں باہر سے نہیں دیکھے جاسکتے، چنانچہ جو خلاء نورد اس حدِ فاصل کے اندر ہول کی جانب موجود ہے بیرونی دنیا کو دیکھ سکتا ہے جبکہ باہر سے کوئی شخص اس خلاء نورد کو نہیں دیکھ سکتا.
جوں جوں خلاء نورد اندر ہول کی طرف بڑھتا ہے اس پر قوتِ تجاذب بڑھتی چلی جاتی ہے، اس کا ایک اثر جسم کا ظاہری بگاڑ ہے اب اگر خلاء نورد پاؤں کے بل ہول میں گر رہا ہے تو سر کی نسبت پاؤں ہول کے نزدیک ہوں گے، اس لیے سر کی نسبت پاؤں پر زیادہ قوتِ تجاذب عمل کرتی ہے، نتیجہ کے طور پر جسم کھنچتا ہے اور لمبائی میں بڑھ جاتا ہے، دونوں کندھوں پر لگنے والی دو قوتیں ایک نقطے یعنی کہ ہول پر ملتی ہیں، اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ خلاء نورد کا جسم چوڑائی کے رخ سکڑے گا، لمبائی میں اضافہ اور چوڑائی میں کمی کے اس عمل کو "سویاں بننے کا عمل” کہا جاسکتا ہے.
نظریاتی حساب بتاتا ہے کہ بلیک ہول کے مرکز میں تجاذب لا انتہاء طور پر بڑھتا ہے، تجاذبی میدان اپنا اظہار ایک خمیدہ خط یا مکان وزمان کے بگاڑ کی صورت کرتا ہے، اس لیے تجاذبی میدان کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ زمان ومکان کا لپیٹ لا انتہاء طور پر بڑھتا ہے، ریاضی دان اس خصوصیت کو زمان ومکان کی یکجائی یا وحدانیت (Singularity) کہتے ہیں، یہی وہ حد یا کنارہ ہے جس سے آگے زمان ومکان کا روایتی تصور ختم ہوجاتا ہے، بہت سے طبیعات دانوں کا یقین ہے کہ بلیک ہول کے اندر یہ یکجائی یا وحدانیت زمان ومکان کے خاتمے کو ظاہر کرتی اور اس سے دوچار ہونے والا مادہ معدوم ہوجاتا ہے، اگر ایسا ہے تو پھر خلاء نورد کے جسم کے ایٹم تک اس وحدانیت میں معدوم ہوجائیں گے.
اگر بلیک ہول کی کمیت دس ملین سورجوں کے برابر ہے، جیسا کہ ثریا یعنی ہماری کہکشاں میں پائے جانے والے بلیک ہول کی ہے، اور یہ گھومتا نہیں تو خلاء نورد کو وقوعی افق سے نیست ونابود کردینے والی وحدانیت تک سفر میں تین منٹ لگیں گے، یہ آخری تین منٹ بہت تکلیف دہ ہوں گے، یہاں تک جانے سے بہت پہلے بے چارہ خلاء نورد سویاں بننے کے عمل کے ہاتھوں مرچکا ہوگا، اس آخری مرحلے میں بھی خلاء نورد کسی طرح بھی اس مہلک وحدانیت کو دیکھ نہیں سکے گا کیونکہ وہاں سے روشنی باہر کی جانب نہیں آتی، اگر زیرِ بحث بلیک ہول کی کمیت سورج کے برابر ہے تو اس کا نصف قطر تین کلو میٹر ہوگا اور خلاء نورد کو وقوعی افق سے وحدانیت تک جانے میں محض چند مائکرو سیکنڈ لگیں گے.
خلاء نورد کے حوالے کے فریم میں اس کی تباہی میں جتنا وقت صرف ہوتا ہے بہت تیزی سے گزرتا ہے لیکن ہول میں وقت کی لپیٹ اس نوعیت کی ہے کہ باہر سے دیکھنے پر یہ آخری وقت کی حرکت بہت سست نظر آتی ہے.
خلاء نورد جیسے جیسے وقوعی افق کے قریب ہوتا جاتا ہے، دور دراز سے مشاہدہ کرنے والے کے لیے واقعات کی رفتار کم تر ہوتی چلی جاتی ہے، اصل میں تو خلاء نورد کو اس وقوعی افق تک پہنچ جانے میں لا انتہاء وقت لگے گا چنانچہ دور دراز سے جو حرکت ابدی نظر آئے گی وہی خلاء نورد کے لیے مائکرو سیکنڈ میں ختم ہوجائے گی، یوں بلیک ہول کائنات کے اختتام کی طرف ایک دروازہ ہے، چنانچہ بلیک ہول کائنات کا ایسا چھوٹا علاقہ ہے جہاں وقت ختم ہوجاتا ہے، جو کائنات کے انجام پر متجسس ہے بلیک ہول میں چھلانگ کر خود براہ راست مشاہدہ کر سکتا ہے.
اگرچہ تجاذب فطرت کی معلوم قوتوں میں سے کمزور ترین ہے لیکن اس کا مجموعی اثر نہ صرف اجرامِ فلکی بلکہ بحیثیتِ مجموعی کائنات کے مقدر کا تعین کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کرے گا، وہی قوت جو ایک ستارے کو بھینچ سکتی ہے وہ کائنات کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کرے گی، اس کائناتی کشش کی مقدار اور
ممکنہ کردار کا انحصار خود کائنات کے وزن پر ہے، چنانچہ ہمیں قوتِ تجاذب کے فیصلہ کن کردار کا تعین کرنے کے لیے کائنات کا وزن کرنا ہوگا.
Page 1 of 1
Permissions in this forum:
You cannot reply to topics in this forum
Tue Feb 04, 2020 6:49 pm by munsab
» گوگل کرُوم
Tue Dec 03, 2019 8:35 pm by Munsab Ali
» فوٹو شاپ
Tue Dec 03, 2019 8:33 pm by Munsab Ali
» شمشیر بے نیام قسط نمبر 2
Sat Nov 30, 2019 11:25 pm by Munsab Ali
» شمشیر بے نیام قسط نمبر 1
Sat Nov 30, 2019 9:56 pm by Munsab Ali
» متنازع سائبر کرائم بل 2015 متفقہ طور پر منظور کرلیا۔ -
Wed Jul 27, 2016 11:54 am by Munsab Ali
» All in One
Fri Dec 25, 2015 10:23 pm by RASHID KHAN
» Best Action Movies 2015 English Hollywood - TOM CRUISE - New Adventure Movies 2015
Thu Dec 10, 2015 2:05 pm by Munsab Ali
» Shinobido - Ninja
Thu Dec 10, 2015 1:53 pm by Munsab Ali