غریب
Page 1 of 1
غریب
غربت اور افلاس سے پریشان حال اور بہت سے دوسرے خطرات کی وجہ سے غریب عوام کو بہت سی مصیبتوں کا سامنا ہے اور ان میں سے ایک مصیبت ہے عزت و آبرو کا خطرہ۔ غربت نے غریب عوام کے لئے ایسے حالات فراہم کردیئے ہیں کہ لوگ اپنی جوان لڑکیوں کی شادیاں نہیں کر پا رہے۔اور ہمارے معاشرے میں بہت سے ایسے درندے گھوم رہے ہیں جن سے ان کی غزت آبرو ہر گز بھی محفوظ نہیں ہے.اور اس سب کا زمہ دار ہے یہ گندہ نظام جو ان وڈیروں جاگیرداروں سرمایاداروں حکمرانوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔
niak amal-
59
Join date/تاریخ شمولیت : 17.04.2014
Age/عمر : 44
Re: غریب
ﺳﻨﻮ ﺟﻮ ﺑﮭﻮﮎ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ..........
ﺑﮩﺖ ﺳﻔﺎﮎ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ!!..
ﮐﺴﯽ ﻓﺮﻗﮯ ﮐﺴﯽ ﻣﺬﮨﺐ ﺳﮯ ﺍﺱ
ﮐﺎﻭﺍﺳﻄﮧ ﮐﯿﺴﺎ
ﺗﮍﭘﺘﯽ ﺁﻧﺖ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﺑﮭﻮﮎ ﮐﺎ ﺷﻌﻠﮧ
ﺑﮭﮍﮐﺘﺎ ﮨﮯ
ﺗﻮ ﻭﮦ ﺗﮩﺬﯾﺐ ﮐﮯ ﺑﮯ ﺭﻧﮓ ﮐﺎﻏﺬ ﮐﻮ
ﺗﻤﺪﻥ ﮐﯽ ﺳﺒﮭﯽ ﺟﮭﻮﭨﯽ ﺩﻟﯿﻠﻮﮞ ﮐﻮ
ﺟﻼ ﮐﺮ ﺭﺍﮐﮫ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ..
ﻧﻈﺮ ﺑﮭﻮﮐﯽ ﮨﻮ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﭼﻮﺩﮬﻮﯾﮟ ﮐﺎ ﭼﺎﻧﺪ
ﺑﮭﯽ ﺭﻭﭨﯽ ﺳﺎ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ
ﺧﻮﺩﯼ ﮐﺎ ﻓﻠﺴﻔﮧ ۔۔۔
ﺟﮭﻮﭨﯽ ﺩﻟﯿﻠﯿﮟ ﺳﺐ ﺷﺮﺍﻓﺖ ﮐﯽ
ﻣﺤﺾ ﺑﮑﻮﺍﺱ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﯿﮟ۔۔۔۔
ﺣﻘﯿﻘﺖ ﻣﯿﮟ ﯾﮩﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﺳﭻ ﮨﮯ
ﮐﮧ ﯾﮧ ﺟﻮ ﺑﮭﻮﮎ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ
ﺑﮍﯼ ﺑﺪﺫﺍﺕ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ............
niak amal-
59
Join date/تاریخ شمولیت : 17.04.2014
Age/عمر : 44
Re: غریب
اے ابن آدم ! اک تیری چاہت ہے اک میری چاہت
اگر تو نے سپرد کیا اپنے آپ کو اس کے جو کہ میری چاہت ہے تو میں تمھیں دونگا وہ بھی جو کہ تیری چاہت ہے
اور اگر تو نے مخالفت کی اس کی جو کہ میری چاہت ہے تو میں تمھیں تھکادونگا اس میں جو کہ تیری چاہت ہے
اور پھر بھی ہوگا وہی کہ جو میری چاہت ہے
niak amal-
59
Join date/تاریخ شمولیت : 17.04.2014
Age/عمر : 44
Re: غریب
سندھ کے صحرائی علاقے تھرپارکرمیں خشک سالی کے باعث خوراک کی قلت کی وجہ سے تھرپارکرکے باسیوں کے 150سے زائدشیرخوار بچے زندگی کی بازی ہارچکے ہیںآج جہاں اِس خبر نے ساری پاکستانی قوم کو افسردہ کردیاہے تو وہیں قوم کو اپنے حکمرانوں کی بے حسی اور نااہلی کے بارے میں بھی سوچنے پر مجبورکرہوگئی ہے،آج تھرپارکرکی شک سالی پرساری پاکستانی قوم یہ کہہ رہی ہے کہ جو کچھ تھرپارکرمیں ہواہے،اور ہورہاہے یقینایہ سب کاسب ایک دودن کا کام تو ہونہیں سکتاکہ ایساپلک جھپکتے ہی اچانک ہوگیا کہ آج جس کے بارے میں میڈیا نے بتایاتوہمارے حکمرانوں کو ہوش آیااور اَب اِنہیں دن میں بھی تارے نظرآنے لگے ہیں اوراَب یہ کسی کھسیانی بلی کے مافق اِدھراُدھر میڈیاسے اپنا منہ چھپائے پھر رہے ہیں اور کسی کونے کُھدرے میں سر پکڑے بیٹھے یہ سوچنے لگے ہیں کہ سائیں اِنہیں تو خبر ہی نہ ہوئی اور تھرپارکر میں خشک سالی نے ڈیرے ڈال لئے ہیں...؟؟؟اَب ایسے میں ایک سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیا یہ حکومتِ سندھ اور وفاقی حکومت کے بھی ذمہ داروں کے منہ پرکسی زوردارطمانچے سے کم نہیں ہے کہ دونوں نے ہی اِس معاملے سے دیدہ ودانستہ آنکھیں بندرکھیں...؟اور اپنی اپنی حقِ حکمرانی کے کے مزے لوٹیں رہیں ،جبکہ ہمارامیڈیاعوامی نمائندے کے طورپر اپنی ذمہ داری نبھانے میں مصروفِ عمل ہے اور وہ سب کچھ سامنے لاتاہے جس سے حکمران نظریں چراتے ہیں، اوریقینی طور پر ایساہی کچھ سندھ کے صحرائی علاقے تھرپارکر میں آنے والی خشک سالی سے متعلق ہواہے۔
آج اِس حوالے سے اطلاعات یہ ہیں کہ ایک ماہ قبل جب سندھ حکومت، سندھ ورثہ اور ثقافت کو روشناس کرانے کے لئے موہنجودڑو فیسٹول کی اُوٹ سے غرق شدہ موہنجودڑو کے مُردوں کو خوش کرنے کے لئے 450مِلین روپے قومی خزانے سے خرچ کررہی تھی تو اُس وقت بھی پاکستان پیپلزپارٹی سے محب کرنے والے تھرپارکرکے محب وطن مگرغریب باسی اپنے صحرائی علاقے میں پھیلی خشک سالی کی زردمیں تھے اور جب سندھ حکومت کے ٹھیکیدار450مِلین روپے خرچ کرنے کے منصوبے بناچکے تھے تو تب بھی سندھ حکومت کے ذمہ داروں اور عوامی خدمت کے دعویدار ٹھیکیداروں کی جانب سے تھرپارکر کے باشندوںکے لئے مختص گندم کے ڈھیرصوبائی محکمہ خوراک کے گوداموں میں پڑے پڑے سڑرہے تھے،مگرشاید پھر بھی کسی کو صحرائی علاقے کے خشک سالی زدہ لوگوں کا ذرابھی خیال نہیں آیااورپھر اِیسے میں اِن حکومتی ذمہ داران کی اِسی لاپرواہی اور نااہلی کی وجہ سے تھرپارکرکے باسیوں کے بچے خوراک کی شدیدکمی سے مرنے لگے،اَب تک کی اطلاعات کے مطابق تھرپارکرکے خوراک سے محروم باسیوں کے 150بچے اور شیرخوارسرکاری اسپتالوں میںزندگی سے محروم ہوچکے ہیں جبکہ اِن 150میں سے کچھ بچے صرف ایک ماہ میں ہی جان بحق ہوئے ہیں۔
اَب اِس موقعہ پر مجھے کونیل کا یہ قول یادآگیاہے کہ” جو بات اخلاقی طور پر غلط ہو اِسے سیاسی طور پرقطعاََ دُرست قرارنہیں دیاجاسکتا“یوں آج یہ بات بالخصوص سندھ حکومت کے ٹھیکیداروں،کرتادھرتاو¿ںسمیت سندھ کے عوامی خدمت پر معموردیگراداروں اور بالعموم وفاقی حکومت کے بندآنکھوں والے ذمہ داران کوبھی تسلیم کرلینی چاہئے کہ یہ دونوں ہی حکومتیں تھرپارکرمیں ہونے والی خشک سالی اور اِس کے باعث 150سے زائد بچوں کی ہلاکت کی بھی ذمہ دارہیں،اور اَب اِن کی عزت اِسی میں ہے کہ سندھ اور وفاق کی حکومت خودہی اپنا احتساب کرتے ہوئے برملااور بلاروک ٹوک اِس کا اعلان کریں کہ اِن سے حکومتی اُمورمیں کوتاہی ہوئی اور اُنہوں نے اِس جانب ذرابھی توجہ نہ دی بلکہ سندھ حکومت اپنے تئیں یہ بھی اعترافِ جرم تسلیم کرے کہ اِس سے یہ سنگین غلطی ہوئی ہے کہ اِس نے تھرپارکر میں خشک سالی کے معاملے میں دیدہ ودانستہ نظریں چرائی رکھیںاور سندھ ثقافت کو اُجاگرکرنے کو بنیادبناکرموہنجودڑو فیسٹول کے نام پر450مِلین روپے توقومی خزانے سے غرق شدہ موہنجودڑو کی مردہ روحوں کو رقص و سرورکا مزادینے کے لئے پانی کی طرح بہادیئے ہیں مگر تھرپارکرکے زندہ اِنسانوں کو خشک سالی کے باعث آغوشِ قبرمیں جانے سے نہ روک سکی ہے، اِس لئے ساری کی ساری سندھ حکومت مستعفی ہوتی ہے، مگر سندھ حکومت میں اتنی جرات کہاں کہ وہ ایساکرے اگر ایساکرناہوتاتو یہ کب کی ایساکرچکی ہوتی...؟مگریہ ایساکبھی بھی نہیں کرے گے جیساکہ ہم سوچ رہے ہیںکیوں کہ یہ تو آئی ہی عیاشیاں اور مزے لوٹنے کے لئے ہے۔
اگرچہ سندھ حکومت موہنجودڑوکی قبروں اوراِن قبروں میں صدیوں سے سوئے ہوئے مردوں کے درمیان سندھ ثقافت اور سندھ ورثہ فیسٹول بناکر مُردوں کو خوش کرنے کی آڑ میں خود عیاشیاں نہ کرتی تو ہوسکتاتھاکہ 450مِلین روپے سے تھرپارکرکے عوام کے آنسو پوچھے جاسکتے تھے اور خشک سالی اور خوراک کی قلت کے باعث جو 150سے زائدبچے اور جانورمرچکے ہیںاِنہیں سندھ حکومت مرنے سے بچاسکتی تھی مگرافسوس کہ تھرپارکرکی خشک سالی کا المیہ نہ سندھ حکومت کو ہی نظرآیااور نہ ہی وفاقی حکومت کے کرتادھرتاو¿ں نے اِس جانب کوئی توجہ دی ہے۔
آج اگر میڈیاتھرپارکرکی خشک سالی کواپنی بریکنگ نیوز اور اخبارات اپنی سُرخیوں کی زینت نہ بناتے تو ہمارے حکمرانوں کوتو تھرپارکر کی خشک سالی اور اِس آفت کے باعث 150سے زائدمعصوم اور شیر خوار بچوں کی ہلاکت کا بھی پتہ نہ چلتا،اَب ایسے میں یہاں سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیا حکمرانوں کی آنکھیں کھولنے اور اِنہیںہر اچھے ، بُرے کاموں کی سُجھائی کی ذمہ داری صرف میڈیاکی رہ گئی ہے،تو پھر حکومتی ادارے اور اِس کے کارندے کس مرض کی دواہیں ...؟اگر حکومت اپنے مُلک کے کسی علاقے میں خشک سالی اور قحط کے باعث مرنے والوں کے بارے میں بے خبررہے... تو پھر ایسی حکومت کا حکمرانی کا بھی کوئی حق نہیں ہے کہ وہ قائم رہے ، موجودہ حالات میں بالخصوص سندھ اور وفاقی حکومت کے اُن ذمہ داروں کو جو دن رات اپنے اپنے گلے پھاڑ پھاڑ کریہ چیختے پھرتے ہیں کہ اِنہوں نے عوامی خدمت کو اپنے ایمان کا حصہ تصورکررکھاہے، اِن کی حکومت میں کوئی غریب بھوکا نہیں سوتاہے، آج اِن کی حکومت میں مُلک کے ہر غریب کے صحن میں خوشحالی جھوم جھوم کر رقص کررہی ہے، اِنہوں نے اپنی حکومت میں غریبوں سے غربت چھین کر اِنہیں امیروں جیسی زندگی گزارنے کا موقعہ فراہم کردیاہے، یہ اِن کا ہی کارنامہِ عظیم ہے کہ اِن کی حکومت میں کوئی غریب بھوکا نہیں مرتاہے، مُلک کے کھیت لہلاتی فصلوں کی مثال قائم کررہے ہیں،یہ اِن کی ہی حکومت کا کمال ہے کہ اِنہوں نے کسانوں کو صاحب اختیاربنادیاہے اور کسانوں کو اِس قابل کردیاہے کہ یہ اپنی صلاحیتوں سے کھیتوں میں اناج کی دگنی فصلیں پیداکررہے ہیں، آج مُلک میں اناج کی کوئی کمی نہیں ہے ، ہر شہری کو ہر سطح پر اناج آسانی سے دستیاب ہے،یہ اِن کی حکومت کا ہی کارنامہ ہے کہ اِن کی حکومت میں مُلک میں پیداہونے والاا ناج اپنی ضرورتوں کو پورکررہاہے اور اَب اِن کی حکومت اپنی اناج کی ضرورتوں کو پوراکرنے کے بعد بیرونی ممالک بھی بھیج رہی ہے جس سے مُلک میں زرِمبادلہ آرہاہے اور مُلک معاشی اور اقتصادی لحاظ سے مستحکم ہورہاہے اور وغیرہ وغیرہ ... یہ ایسے بہت سے جملے ہیں جنہیں ہم روزانہ میڈیاپر سُنتے اوراخبارات کی خبروں میں پڑھتے ہیں۔
مگر درحقیقت ایساکچھ نہیں ہے جس کا حکمران میڈیامیں دعوے کرتے ہیں بلکہ حقیقت تو یہ ہے اِن جھوٹے ، عیار اور مکار حکمرانوں کے دورِ اقتدامیں سندھ کے صحرائی علاقے تھرپارکرمیں خشک سالی نے تباہی مچارکھی ہے مگر ہمارے بے حس حکمرانوں کو اِس کی خبرتک نہ ہوئی ،یہ تو کہیںسندھ ثقافت تو کہیں پنجاب یوتھ فیسٹول پر اپنی عیاشیوں کے بہانے ڈھونڈتے رہے اور قومی خزانے سے اربوں اور کھربوں لٹاتے رہیں اور مُلک کے غریب عوام روٹی سے محروم رہ کر ایڑیاں رگڑرگڑ کرمرتے رہے اور حکمران سب ٹھیک ہے کی چین کی بانسری بجاتے رہے ۔
لہو کورنگ،گلابوں کو خارکہتے ہیں یہ کیسے لوگ خزاں کوبہارکہتے ہیں
میں کیسے اِن کو گُلستاں کا پاسباں سمجھوں جو آندھیوں کو نسیمِ بہار کہتے ہیں
جبکہ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اللہ صداخوش رکھے بحریہ ٹاو¿ن کے چئیرمین محترم المقام عزت مآب جناب ِ قبلہ حضرت سائیں مَلک ریاض حُسین صاحب کا کہ جنہوں نے تھرپارکرکے خشک سالی سے بدحال اپنے غیوراور محب وطن پاکستانی بھائیوں کی تکالیف کا دردمحسوس کیا اور اُنہوں نے فوراََہی اللہ کی اپنے ذمہ دی ہوئی دولت سے 20کروڑکی کثیر رقم تھرپاکرکے بھائیوں کی مددکے لئے دینے کا اعلان کرکے اپنے پاکستانی بھائیوں سے محبت کا ثبوت دیاہے اور بتادیاہے کہ اِن کے دل میں اپنے پاکستانی بھائیوں کے لئے اپنے حکمرانوں سے بڑھ کر محبت ہے جبکہ حکومت سندھ کے ذمہ داروں کے لئے یہ ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ اَنہوں نے تھرپارکر کی خشک سالی سے متعلق میڈیاپرخبر آجانے کے بعد صرف ایک ہنگامی پریس کانفرنس کی اور اِس میں بھی میڈیاپرسنزکے سوالات پر برس پڑے اور اُنہوں نے ایسا کرکے یہ سمجھ لیا کہ اُنہوںنے تھرپارکرکے مصیبت زدہ بھائیوں کا مسئلہ حل کردیاہے اور بس ....!!جبکہ اَب تک ہماری وفاقی حکومت کی جانب سے خالی بیانات جاری ہونے کے کچھ بھی ایسانہ ہوسکاہے جس سے تھرپاکرکے پریشان حال عوام کی دادرسی کی کوئی کرن دکھائی دے۔
آج اِس حوالے سے اطلاعات یہ ہیں کہ ایک ماہ قبل جب سندھ حکومت، سندھ ورثہ اور ثقافت کو روشناس کرانے کے لئے موہنجودڑو فیسٹول کی اُوٹ سے غرق شدہ موہنجودڑو کے مُردوں کو خوش کرنے کے لئے 450مِلین روپے قومی خزانے سے خرچ کررہی تھی تو اُس وقت بھی پاکستان پیپلزپارٹی سے محب کرنے والے تھرپارکرکے محب وطن مگرغریب باسی اپنے صحرائی علاقے میں پھیلی خشک سالی کی زردمیں تھے اور جب سندھ حکومت کے ٹھیکیدار450مِلین روپے خرچ کرنے کے منصوبے بناچکے تھے تو تب بھی سندھ حکومت کے ذمہ داروں اور عوامی خدمت کے دعویدار ٹھیکیداروں کی جانب سے تھرپارکر کے باشندوںکے لئے مختص گندم کے ڈھیرصوبائی محکمہ خوراک کے گوداموں میں پڑے پڑے سڑرہے تھے،مگرشاید پھر بھی کسی کو صحرائی علاقے کے خشک سالی زدہ لوگوں کا ذرابھی خیال نہیں آیااورپھر اِیسے میں اِن حکومتی ذمہ داران کی اِسی لاپرواہی اور نااہلی کی وجہ سے تھرپارکرکے باسیوں کے بچے خوراک کی شدیدکمی سے مرنے لگے،اَب تک کی اطلاعات کے مطابق تھرپارکرکے خوراک سے محروم باسیوں کے 150بچے اور شیرخوارسرکاری اسپتالوں میںزندگی سے محروم ہوچکے ہیں جبکہ اِن 150میں سے کچھ بچے صرف ایک ماہ میں ہی جان بحق ہوئے ہیں۔
اَب اِس موقعہ پر مجھے کونیل کا یہ قول یادآگیاہے کہ” جو بات اخلاقی طور پر غلط ہو اِسے سیاسی طور پرقطعاََ دُرست قرارنہیں دیاجاسکتا“یوں آج یہ بات بالخصوص سندھ حکومت کے ٹھیکیداروں،کرتادھرتاو¿ںسمیت سندھ کے عوامی خدمت پر معموردیگراداروں اور بالعموم وفاقی حکومت کے بندآنکھوں والے ذمہ داران کوبھی تسلیم کرلینی چاہئے کہ یہ دونوں ہی حکومتیں تھرپارکرمیں ہونے والی خشک سالی اور اِس کے باعث 150سے زائد بچوں کی ہلاکت کی بھی ذمہ دارہیں،اور اَب اِن کی عزت اِسی میں ہے کہ سندھ اور وفاق کی حکومت خودہی اپنا احتساب کرتے ہوئے برملااور بلاروک ٹوک اِس کا اعلان کریں کہ اِن سے حکومتی اُمورمیں کوتاہی ہوئی اور اُنہوں نے اِس جانب ذرابھی توجہ نہ دی بلکہ سندھ حکومت اپنے تئیں یہ بھی اعترافِ جرم تسلیم کرے کہ اِس سے یہ سنگین غلطی ہوئی ہے کہ اِس نے تھرپارکر میں خشک سالی کے معاملے میں دیدہ ودانستہ نظریں چرائی رکھیںاور سندھ ثقافت کو اُجاگرکرنے کو بنیادبناکرموہنجودڑو فیسٹول کے نام پر450مِلین روپے توقومی خزانے سے غرق شدہ موہنجودڑو کی مردہ روحوں کو رقص و سرورکا مزادینے کے لئے پانی کی طرح بہادیئے ہیں مگر تھرپارکرکے زندہ اِنسانوں کو خشک سالی کے باعث آغوشِ قبرمیں جانے سے نہ روک سکی ہے، اِس لئے ساری کی ساری سندھ حکومت مستعفی ہوتی ہے، مگر سندھ حکومت میں اتنی جرات کہاں کہ وہ ایساکرے اگر ایساکرناہوتاتو یہ کب کی ایساکرچکی ہوتی...؟مگریہ ایساکبھی بھی نہیں کرے گے جیساکہ ہم سوچ رہے ہیںکیوں کہ یہ تو آئی ہی عیاشیاں اور مزے لوٹنے کے لئے ہے۔
اگرچہ سندھ حکومت موہنجودڑوکی قبروں اوراِن قبروں میں صدیوں سے سوئے ہوئے مردوں کے درمیان سندھ ثقافت اور سندھ ورثہ فیسٹول بناکر مُردوں کو خوش کرنے کی آڑ میں خود عیاشیاں نہ کرتی تو ہوسکتاتھاکہ 450مِلین روپے سے تھرپارکرکے عوام کے آنسو پوچھے جاسکتے تھے اور خشک سالی اور خوراک کی قلت کے باعث جو 150سے زائدبچے اور جانورمرچکے ہیںاِنہیں سندھ حکومت مرنے سے بچاسکتی تھی مگرافسوس کہ تھرپارکرکی خشک سالی کا المیہ نہ سندھ حکومت کو ہی نظرآیااور نہ ہی وفاقی حکومت کے کرتادھرتاو¿ں نے اِس جانب کوئی توجہ دی ہے۔
آج اگر میڈیاتھرپارکرکی خشک سالی کواپنی بریکنگ نیوز اور اخبارات اپنی سُرخیوں کی زینت نہ بناتے تو ہمارے حکمرانوں کوتو تھرپارکر کی خشک سالی اور اِس آفت کے باعث 150سے زائدمعصوم اور شیر خوار بچوں کی ہلاکت کا بھی پتہ نہ چلتا،اَب ایسے میں یہاں سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیا حکمرانوں کی آنکھیں کھولنے اور اِنہیںہر اچھے ، بُرے کاموں کی سُجھائی کی ذمہ داری صرف میڈیاکی رہ گئی ہے،تو پھر حکومتی ادارے اور اِس کے کارندے کس مرض کی دواہیں ...؟اگر حکومت اپنے مُلک کے کسی علاقے میں خشک سالی اور قحط کے باعث مرنے والوں کے بارے میں بے خبررہے... تو پھر ایسی حکومت کا حکمرانی کا بھی کوئی حق نہیں ہے کہ وہ قائم رہے ، موجودہ حالات میں بالخصوص سندھ اور وفاقی حکومت کے اُن ذمہ داروں کو جو دن رات اپنے اپنے گلے پھاڑ پھاڑ کریہ چیختے پھرتے ہیں کہ اِنہوں نے عوامی خدمت کو اپنے ایمان کا حصہ تصورکررکھاہے، اِن کی حکومت میں کوئی غریب بھوکا نہیں سوتاہے، آج اِن کی حکومت میں مُلک کے ہر غریب کے صحن میں خوشحالی جھوم جھوم کر رقص کررہی ہے، اِنہوں نے اپنی حکومت میں غریبوں سے غربت چھین کر اِنہیں امیروں جیسی زندگی گزارنے کا موقعہ فراہم کردیاہے، یہ اِن کا ہی کارنامہِ عظیم ہے کہ اِن کی حکومت میں کوئی غریب بھوکا نہیں مرتاہے، مُلک کے کھیت لہلاتی فصلوں کی مثال قائم کررہے ہیں،یہ اِن کی ہی حکومت کا کمال ہے کہ اِنہوں نے کسانوں کو صاحب اختیاربنادیاہے اور کسانوں کو اِس قابل کردیاہے کہ یہ اپنی صلاحیتوں سے کھیتوں میں اناج کی دگنی فصلیں پیداکررہے ہیں، آج مُلک میں اناج کی کوئی کمی نہیں ہے ، ہر شہری کو ہر سطح پر اناج آسانی سے دستیاب ہے،یہ اِن کی حکومت کا ہی کارنامہ ہے کہ اِن کی حکومت میں مُلک میں پیداہونے والاا ناج اپنی ضرورتوں کو پورکررہاہے اور اَب اِن کی حکومت اپنی اناج کی ضرورتوں کو پوراکرنے کے بعد بیرونی ممالک بھی بھیج رہی ہے جس سے مُلک میں زرِمبادلہ آرہاہے اور مُلک معاشی اور اقتصادی لحاظ سے مستحکم ہورہاہے اور وغیرہ وغیرہ ... یہ ایسے بہت سے جملے ہیں جنہیں ہم روزانہ میڈیاپر سُنتے اوراخبارات کی خبروں میں پڑھتے ہیں۔
مگر درحقیقت ایساکچھ نہیں ہے جس کا حکمران میڈیامیں دعوے کرتے ہیں بلکہ حقیقت تو یہ ہے اِن جھوٹے ، عیار اور مکار حکمرانوں کے دورِ اقتدامیں سندھ کے صحرائی علاقے تھرپارکرمیں خشک سالی نے تباہی مچارکھی ہے مگر ہمارے بے حس حکمرانوں کو اِس کی خبرتک نہ ہوئی ،یہ تو کہیںسندھ ثقافت تو کہیں پنجاب یوتھ فیسٹول پر اپنی عیاشیوں کے بہانے ڈھونڈتے رہے اور قومی خزانے سے اربوں اور کھربوں لٹاتے رہیں اور مُلک کے غریب عوام روٹی سے محروم رہ کر ایڑیاں رگڑرگڑ کرمرتے رہے اور حکمران سب ٹھیک ہے کی چین کی بانسری بجاتے رہے ۔
لہو کورنگ،گلابوں کو خارکہتے ہیں یہ کیسے لوگ خزاں کوبہارکہتے ہیں
میں کیسے اِن کو گُلستاں کا پاسباں سمجھوں جو آندھیوں کو نسیمِ بہار کہتے ہیں
جبکہ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اللہ صداخوش رکھے بحریہ ٹاو¿ن کے چئیرمین محترم المقام عزت مآب جناب ِ قبلہ حضرت سائیں مَلک ریاض حُسین صاحب کا کہ جنہوں نے تھرپارکرکے خشک سالی سے بدحال اپنے غیوراور محب وطن پاکستانی بھائیوں کی تکالیف کا دردمحسوس کیا اور اُنہوں نے فوراََہی اللہ کی اپنے ذمہ دی ہوئی دولت سے 20کروڑکی کثیر رقم تھرپاکرکے بھائیوں کی مددکے لئے دینے کا اعلان کرکے اپنے پاکستانی بھائیوں سے محبت کا ثبوت دیاہے اور بتادیاہے کہ اِن کے دل میں اپنے پاکستانی بھائیوں کے لئے اپنے حکمرانوں سے بڑھ کر محبت ہے جبکہ حکومت سندھ کے ذمہ داروں کے لئے یہ ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ اَنہوں نے تھرپارکر کی خشک سالی سے متعلق میڈیاپرخبر آجانے کے بعد صرف ایک ہنگامی پریس کانفرنس کی اور اِس میں بھی میڈیاپرسنزکے سوالات پر برس پڑے اور اُنہوں نے ایسا کرکے یہ سمجھ لیا کہ اُنہوںنے تھرپارکرکے مصیبت زدہ بھائیوں کا مسئلہ حل کردیاہے اور بس ....!!جبکہ اَب تک ہماری وفاقی حکومت کی جانب سے خالی بیانات جاری ہونے کے کچھ بھی ایسانہ ہوسکاہے جس سے تھرپاکرکے پریشان حال عوام کی دادرسی کی کوئی کرن دکھائی دے۔
niak amal-
59
Join date/تاریخ شمولیت : 17.04.2014
Age/عمر : 44
Page 1 of 1
Permissions in this forum:
You cannot reply to topics in this forum
Tue Feb 04, 2020 6:49 pm by munsab
» گوگل کرُوم
Tue Dec 03, 2019 8:35 pm by Munsab Ali
» فوٹو شاپ
Tue Dec 03, 2019 8:33 pm by Munsab Ali
» شمشیر بے نیام قسط نمبر 2
Sat Nov 30, 2019 11:25 pm by Munsab Ali
» شمشیر بے نیام قسط نمبر 1
Sat Nov 30, 2019 9:56 pm by Munsab Ali
» متنازع سائبر کرائم بل 2015 متفقہ طور پر منظور کرلیا۔ -
Wed Jul 27, 2016 11:54 am by Munsab Ali
» All in One
Fri Dec 25, 2015 10:23 pm by RASHID KHAN
» Best Action Movies 2015 English Hollywood - TOM CRUISE - New Adventure Movies 2015
Thu Dec 10, 2015 2:05 pm by Munsab Ali
» Shinobido - Ninja
Thu Dec 10, 2015 1:53 pm by Munsab Ali