جمہوریہ ارجنٹائن
Page 1 of 1
جمہوریہ ارجنٹائن
ارجنٹائن جسے سرکاری طور پر جمہوریہ ارجنٹائن کہا جاتا ہے، [size=17]جنوبی امریکہ کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ یہ ملک 23 صوبوں اور ایک خود مختار شہر بیونس آئرس پر مشتمل ہے۔ رقبے کے اعتبار سے یہ دنیا کا آٹھواں بڑا ملک ہے اور ہسپانوی بولنے والے ملکوں میں سب سے بڑا ہے۔[/size]
ارجنٹائن کا رقبہ [size=17]انڈیز پہاڑی سلسلے اور بحرِ اوقیانوس کے درمیان واقع ہے۔ اس کے شمال میںپیراگوئے اور بولیویا ، برازیل اور یوراگوئے شمال مشرق میں جبکہ چلی جنوب اور مغرب کی جانب واقع ہے۔ انٹارکٹیکا کے کچھ حصے پر ارجنٹائن اپنا دعویٰ کرتا ہے۔[/size]
ارجنٹائن براعظم جنوبی امریکہ کی بڑی معیشتوں میں سے ایک ہے اور اوسط حدِ عمر اور فی کس جی ڈی بلند ہے۔ مستقبل میں ترقی کے لئے ارجنٹائن کی بنیادیں مضبوط ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاری اور ہائی ٹیکنالوجی کے حوالے سے برآمدات کی مقدار کل برآمدات کا بہت بڑا حصہ بناتی ہیں۔ ارجنٹائن [size=17]اقوام متحدہ ، مرکوسر اور جنوبی امریکی اقوامِ متحدہ کا بنیادی رکن جبکہ جی 20 کا رکن ہے۔[/size]
[size=17]وجہ تسمیہ[size=18][ترمیم][/size][/size]
ارجنٹائن [size=17]لاطینی لفظ ارجنٹم سے نکلا ہے جو چاندی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ 1602 میں پہلی بار اس لفط کا استعمال ہمیں ایک نظم میں ملتا ہے۔[/size]
1812 میں ارجنٹائن کے پہلے قومی ترانے میں ہمیں اس لفظ کا استعمال ملتا ہے جو ارجنٹائن کی آزادی کی جاری جنگ کے حوالے سے تھا۔ سرکاری طور پر 1826 میں بنیادی دستور میں جمہوریہ ارجنٹائن اور ارجنٹائن کی قوم کا ذکر ملتا ہے۔
[size=17]تاریخ[size=18][ترمیم][/size][/size]
[size=17]ابتدائی تاریخ[size=18][ترمیم][/size][/size]
ارجنٹائن کے مقام پر سب سے پہلے انسانی آثار ہمیں 11٫000 ق م میں ملتے ہیں۔ یہ آثار مختلف قبائل سے متعلق تھے۔ انکا بادشاہت نے موجودہ دور کے ارجنٹائن پر حملہ کر کے قبضہ کیا تھا۔ جنوبی اور وسطی علاقوں میں [size=17]خانہ بدوش آباد تھے۔[/size]
کچھ قبائل زیادہ ترقی یافتہ تھے اور انہوں نے [size=17]کاشتکاری بھی شروع کر دی تھی اور مٹی کے برتن بناتے تھے۔ تاہم یہ قبائل جنوبی امریکہ میں نسبتاً زیادہ موجود تھے۔[/size]
[size=17]نوآبادیاتی دور[size=18][ترمیم][/size][/size]
[size=17]یورپی مہم جو یہاں 1516 میں آئے۔ ہسپانویوں نے جنوبی امریکہ میں اپنا قبضہ جما لیا۔ ان کی پہلی آبادی دریائے پرانا کے کنارے آباد قلعہ تھا۔ بیونس آئرس کے مقام پر ان کی پہلی مستقل آبادی 1536 کو قائم ہوئی۔ تاہم اسے مقامی قبائل نے تباہ کر دیا۔ اس شہر کو دوبارہ 1580 میں بسایا گیا۔[/size]
یہ علاقہ جہاں آج کا زیادہ تر ارجنٹائن واقع ہے، ہسپانوی آبادکاروں اور ان کی اولادوں، مقامی قبائلوں اور [size=17]افریقی غلاموں سے آباد تھا۔ آبادکاروں کی کل تعداد کا ایک تہائی بیونس آئرس اور دوسرے بڑے شہروں میں اکٹھا ہوا۔ بیونس آئرس 1776 کو دارالحکومت کا درجہ ملا۔ اس کے بعد سے بیونس آئرس کو تجارتی مرکز بن گیا۔ 1806 اور 1807 میں دو بار برطانویوں نے ناکام حملے کئے۔[/size]
[size=17]قوم کی تعمیر[size=18][ترمیم][/size][/size]
جنگ آزادی کے بعد کی دہائی میں یہ علاقہ پیٹریاٹ یعنی ملک کی آزادی چاہنے والے اور رائلسٹ یعنی ہسپانوی بادشاہت کے وفاداروں کے درمیان بٹ گیا۔ 1811 کے بعد موجودہ دور کے ارجنٹائن کے شہر آزادی پسندوں کے ساتھ رہے جبکہ [size=17]پیراگوئے پر قبضہ ہو گیا اور اس نے سپین سے اپنی آزادی کا اعلان 1811 جبکہ ارجنٹائن سے 1842 میں آزادی کا اعلان کر دیا۔ بالائی پیرو پر مختلف دھڑوں کا دعوٰی تھا لیکن اس نے بطور بولیویا اپنی آزدی کا اعلان 1824 میں کر دیا۔ یوراگوئے دریا کے مشرقی کنارے پر برازیلی اور پرتگالی افواج نے حملہ کیا اور وہ 1828 میں بطور یوراگوئے آزاد ہو گیا۔[/size]
پیٹریاٹوں میں موجود اندرونی اختلافات کی وجہ سے ان میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہوا۔ چار سال بعد ہی حکومت تبدیل ہوئی۔ 1813 میں اسمبلی نے آزادی کے اعلان کا ارادہ کیا لیکن سیاسی دباؤ پر ایسا نہ کر سکی۔ نتیجتاً [size=17]خانہ جنگی شروع ہو گئی۔[/size]
1816 میں جنوبی امریکہ کے صوبجاتِ متحدہ کو اندرونی اور بیرونی مسائل کا سامنا تھا۔ جولائی میں نئی کانگریس نے آزادی کا اعلان کیا اور جوان مارٹن ڈی پوئریڈن کو سپریم ڈائریکٹر بنا دیا گیا۔ فوجی مہم جوئی نئے سپریم ڈائریکٹر کی ذمہ داری بن گئی۔ انہوں نے 1817 میں فوج کی مدد سے انڈیز پہاڑوں کے دوسری طرف چلی کے وفاداروں کو شکست دی۔ چلی کی بحری فوج ان کے حکم پر تیار کھڑی تھی اور انہوں نے [size=17]لیما کے شہر پر چڑھائی کی۔ ان لڑائیوں کا نتیجہ آزادی کی صورت میں نکلا۔[/size]
1875 میں [size=17]یورپ سے غیر ملکی سرمایہ کاری اور امیگریشن کی لہر کے بعد زراعت کے جدید طریقوں سے ارجنٹائن کا معاشرہ ایک طرح سے دوبارہ تعمیر ہوا۔ قانون کی حکمرانی بحال ہو گئی۔[/size]
[size=17]جدید تاریخ[size=18][ترمیم][/size][/size]
1880 سے 1929 کے دوران ارجنٹائن کی خوشحالی اور طاقت میں اضافہ ہوا اور دنیا کے دس امیر ترین ملکوں میں سے ایک بن گیا۔ اس میں زراعت سے متعلق [size=17]برآمدات اور برطانوی اور فرانسیسی سرمایہ کاریاں اہم تھیں۔ امیگریشن میں اضافے اور شرحِ اموات میں کمی کی وجہ سے آبادی میں پانچ گنا جبکہ معیشت میں پندرہ گنا اضافہ ہوا۔ قدامت پسندوں کی طرف سے غیر جمہوری ہتھکنڈوں کی مدد سے سیاست پر غلبہ جاری رہا۔ تاہم 1912 میں جب صدر نے پہلی بار تمام مردوں کو خفیہ ووٹ کا حق دیا تو صورتحال بدل گئی۔ اس طرح ان کے روایتی مخالفوں کو صدارتی انتخاب جیتنے کا موقع مل ملا۔ نتیجتاً معاشی اور سماجی انقلاب برپا ہوا۔ 1930 میں فوجی بغاوت کی وجہ سے صدر کا تختہ الٹ دیا گیا اور مزید دس سال کے لئے قدامت پسندوں کا حکومت پر قبضہ ہو گیا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران مکمل جبکہ دوسری جنگ عظیم میں ارجنٹائن زیادہ تر وقت غیر جانبدار رہا۔ اس طرح اتحادی اقوام کے لئے ارجنٹائن غذائی رسد کا اہم ذریعہ بن گیا۔[/size]
1946 میں جنرل جوان پرون صدر منتخب ہوئے۔ انہوں نے ایک سیاسی تحریک شروع کی جسے پرونزم کہا گیا۔ ان کی بیوی بہت مشہور ہوئیں اور 1952 میں اپنی وفات تک انہوں نے مرکزی سیاسی کردار ادا کیا۔ 1947 میں خواتین کو ووٹ کا حق دے دیا گیا۔ پرون کے دور میں اجرتیں بڑھیں اور کام کا ماحول بہتر ہوا۔ آبادی کی طرف سے شہروں کا رخ کرنے کے رحجان میں اضافہ ہوا۔ کلیدی صنعتیں اور شعبے قومیا لئے گئے۔ [size=17]درآمدات گھٹانے کے لئے صنعتیں قائم ہوئیں اور زرعی شعبے میں ترقی کو ترجیح دی گئی۔[/size]
1948 تا 1952 کے اس وقت تک مستحکم قیمتیں اور شرح مبادلہ اچانک لڑکھڑا گئیں۔ پسیٹو کی قدر میں 70 فیصد کمی ہوئی اور [size=17]افراطِ زر کی شرح میں 50 فیصد تک اضافہ ہوا۔ خارجہ پالیسی مزید تنہائی کا شکار ہو گئی اور امریکہ سے تعلقات کشیدہ ہو گئے۔ اسی دور میں آزادئ اظہارِ رائے پر پابندی سخت ہوئی اور قید و بند اور صعوبتیں عام ہو گئیں۔ صدر نے اپنے خیر خواہ مشیروں کو الگ کر دیا۔ چند ماہ بعد ہی 1955 میں پلازہ ڈی مائیو میں ہونے والے بم دھماکوں اور بغاوت کی وجہ سے صدر کو ہٹنا پڑا اور صدر ملک سے نکل گئے۔ بعد ازاں صدر نے سپین میں مستقل رہائش رکھ لی۔[/size]
ان کے بعد میں آنے والے صدر نے اصلاحات کا عمل جاری رکھا اور ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی۔ تاہم فوج کی طرف سے مداخلت کے بعد انہین عہدہ چھوڑنا پڑا اور نئی حکومت بنی۔
[size=18][You must be registered and logged in to see this image.]
[/size]
[size=19][size=20][You must be registered and logged in to see this image.][/size]
[/size]
[/size]
[size=19][size=20][You must be registered and logged in to see this image.][/size]
[/size]
نئی حکومت نے بھی اصلاحات کے عمل کو جاری رکھا اور عوامی منصوبوں میں خطیر سرمایہ لگایا۔ غربت کی شرح 7 فیصد رہ گئی اور معیشت میں بہت تیزی سے ترقی ہوئی۔ تاہم سخت گیر پالیسیوں کی وجہ سے اس حکومت کے خلاف بھی عوام اٹھ کھڑے ہوئے۔ سابقہ صدر جنرل پرون نے اس صورتحال کو چابک دستی سے اپنے حق میں استعمال کیا اور وطن واپسی اور 1973 میں نئے انتخابات کی راہ ہموار کر لی۔
اسی سال صدر منتخب ہونے کے بعد جولائی 1974 میں صدر پرون کی وفات ہو گئی اور ان کی تیسری بیوی ایزابیل جو کہ نائب صدر تھیں، صدر بن گئیں۔ تاہم انہوں نے اپنے خاوند کے دور کے بدترین مشیروں کو برقرار رکھا جس کی وجہ سے ان کی ناپسندیدگی بڑھتی گئی۔ مارچ 1976 میں ہونے والے بغاوت کے نتیجے میں انہیں صدارتی عہدے سے محروم کر دیا گیا۔
تاہم اصلاح کا عمل اپنے مخالفین کی حد تک جاری رہا اور اپنے سیاسی مخالفین کو اغوا کر کے ہمیشہ کے لئے غائب کر دینا معمول بن گیا۔ آپریشن کونڈور کے نام سے چلنے والے منصوبے کے تحت امریکی سی آئی اے دامے درمے سخنے اس کام میں حصہ لیتی رہی۔ اس عمل میں شریک فوجی افسروں کی تربیت دی سکول آف دی امریکاز میں کی گئی۔
اس نئی [size=17]آمریت کی وجہ سے اگرچہ کچھ استحکام پہنچا اور بہت سارے عوامی منصوبے کامیابی سے پورے کئے گئے۔ لیکن جلد ہی اس کا نتیجہ بیرونی قرضے میں انتہائی تیزی سے اضافے اورمعیارِ زندگی میں گرواٹ کی صورت میں نکلا۔ صنعتی عمل کو روکنے کے نتیجے میں پیسو کی قدر گر گئی اور جائیداد کا کاروبار بیٹھ گیا۔ رشوت ستانی میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ فاک لینڈ میں برطانیہ کے ہاتھوں ہونے والی 1982 کی شکست سے فوجی حکومت ناکام ہوئی اور 1983 میں آزاد اور منصفانہ انتخابات ہوئے۔[/size]
[size=17]حالیہ تاریخ[size=18][ترمیم][/size][/size]
[size=18][You must be registered and logged in to see this image.]
[/size]
[size=19][size=20][You must be registered and logged in to see this image.]
San Ignacio[/size]
[/size]
[/size]
[size=19][size=20][You must be registered and logged in to see this image.]
San Ignacio[/size]
[/size]
راؤل الفانسن کی حکومت نے لاپتہ افراد کی واپسی، [size=17]مسلح افواج پر حکومت کی بالادستی اور مستحکم جمہوری اداروں کے لئے اقدات اٹھائے۔ تینوں فوجی حکومتوں کے اراکین پر مقدمہ چلا کر انہیں عمر قید میں ڈال دیا گیا۔ تاہم پچھلی حکومت کے چھوڑے ہوئے بیرونی قرضہ جات کی وجہ سے ارجنٹائن کی حکومت ملکی قرض خواہوں اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی شرائط کو ماننے پر مجبور تھی۔ نتیجتاً ملکی قرضوں اور عوامی فلاح کے منصوبوں کی بجائے بیرونی قرضے کو اتارنے کو ترجیح دی گئی۔ اہم معاشی صورتحال بہتر نہ ہونے کی وجہ سے الفانسن کی حکومت عوام میں اعتماد کھو بیٹھی۔ 1989 میں کرنسی کے بحران کے نتیجے میں قیمتوں میں اچانک 15 گنا کا ہوش رُبا اضافہ ہوا۔ الفانسن کو مقررہ مدت سے پانچ ماہ قبل ہی رخصت ہونا پڑا۔[/size]
نئے منتخب صدر کارلوس منم نے نجکاری شروع کی اور 1990 میں افراطِ زر کی ایک اور بہتات کے بعد انہوں نے ماہر معاشیات ڈومینگو کوالو سے رابطہ کیا۔ نتیجتاً پیسو کی قدر کو ڈالر سے جوڑ دیا گیا۔ نئی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری بڑھنے لگی۔ [size=17]نجکاری کا عمل تیز کر دیا گیا۔ 1990 کی دہائی میں زیادہ تر ترقی کا عمل تیز رہا لیکن اس کے بدلے حکومت کو ڈالر کی ریل پیل دکھانی پڑی۔ اس سے بیرونی قرضے میں مزید اضافہ ہوا۔ معاشی صورتحال بد سے بدتر ہوتی چلی گئی۔ ان مسائل اور بڑھتی ہوئی بدعنوانی سے صدر کی ساکھ متائثر ہوئی۔[/size]
صدر فرنانڈہ ڈی لا روا کو تباہ حال ملک کی حکومت ملی۔ ان کے دور میں ملک 1890 کے بعد کے بدترین معاشی بحران کا شکار ہوا۔ ہر طرف توڑ پھوڑ شروع ہو گئی اور سرمایہ کاروں نے باہر کا رخ کرنا شروع کر دیا۔ عوام اور [size=17]پولیس کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کے نتیجے میں بالاخر صدر کو عہدہ چھوڑنا پڑا۔[/size]
دو ہفتوں کے دوران تین صدور تبدیل ہوئے۔ آخرکار 2 جنوری 2002 کو قانون ساز اسمبلی نے عبوری صدر کا تقرر کیا۔ ارجنٹائن معاشی اعتبار سے دیوالیہ ہوا اور امریکی ڈالر سے ملکی کرنسی کا رشتہ ٹوٹ گیا۔ ملکی کرنسی کی شرح اچانک گر گئی اور افراطِ زر کی شرح میں ہوش ربا اضافہ ہوا۔ تاہم ایک سال تک مسلسل مظاہروں اور احتجاجوں کے بعد معاشی صورتحال بہتر ہونے لگی اور بینکوں سے پیسے نکلوانے پر پابندی دسمبر 2002 میں اٹھا لی گئی۔
انتہائی بے قدری کی شکار ملکی کرنسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت نے صنعتی ترقی پر توجہ دی اور درآمدات کو کم کرتے ہوئے برآمدات کو بڑھایا۔ تجارتی خسارہ ختم ہوا اور معاشی بہتری میں تسلسل آیا۔ مئی 2003 میں نئے صدر کا انتخاب ہوا۔ ان کے دور میں ارجنٹائن نے دیوالیہ پن کا سبب بننے والے قرضوں کا نظام درست کیا۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے قرضے ادا کئے اور ملکی قرض خواہوں سے قرض کی ادائیگی کے معاہدے کئے۔
اس وقت سے ارجنٹائن معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ افراطِ زر کا بھی شکار ہے۔ 2007 میں صدر نے اپنی بیوی کے لئے راہ چھوڑ دی جو ارجنٹائن کی پہلی منتخب صدر بنیں۔ تاہم ان کی معاشی پالیساں ناکامی کا شکار ہوئیں اور انہیں اپنے خاوند کی پالیساں اپنانے پر مجبور ہونا پڑا۔ 15 جولائی 2010 کو ارجنٹائن لاطینی امریکہ کا پہلا جبکہ جنوبی نصف کرے کا دوسرا ملک بنا جہاں ہم جنسوں کے درمیان شادی کو قانونی بنا دیا گیا۔
[size=17]سیاست[size=18][ترمیم][/size][/size]
1853 کے آئین کے مطابق ارجنٹائن میں ایگزیکٹو، مقننہ اور عدلیہ میں اختیارات کو تقسیم کیا گیا ہے۔ سیاسی ڈھانچہ وفاقی جمہوریہ کا ہے جو انتخابات سے چنی جاتی ہے۔ صدر ریاست اور حکومت کے سربراہ کا کام کرتا ہے۔ ملک میں کثیر جماعتی سیاسی نظام ہے۔
ایگزیکٹو پاور صدر اور اس کی کابینہ کے پاس ہوتی ہے۔ صدر اور نائب صدر براہ راست 4 سال کے لئے چنے جاتے ہیں اور دو بار سے زیادہ منتخب نہیں ہو سکتے۔ کابینہ کے وزراء کا تقرر صدر کرتا ہے اور اس کی منظوری مقننہ سے لینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ موجودہ صدر کرسٹینا فرنینڈز ڈی کرچنر جبکہ نائب صدر جولیو کوبس ہیں۔
قانون سازی کا اختیار دو ایوانوں پر مشتمل نیشنل کانگریس کے پاس ہوتا ہے۔ ایک ایوان سینٹ ہے جس میں 72 اراکین جبکہ دوسرا ایوان چیمبر آف ڈپٹیز ہے جس کے 257 اراکین ہیں۔ چیمبر آف ڈپٹیز کے اراکین کو 4 سال کے لئے عام انتخابات میں چنا جاتا ہے اور نصف اراکین کو دو سال بعد دوبارہ انتخاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہر سیاسی جماعت کے امیدواروں کی ایک تہائی تعداد کا خواتین ہونا لازمی ہے۔
عدلیہ ایگزیکٹو اور مقننہ سے آزاد ہوتی ہے۔ سپریم کورٹ کے 7 اراکین ہوتے ہیں جنہیں صدر سینٹ سے مشورے سے مقرر کرتا ہے۔ دیگر تمام ماتحت عدلیہ میں ججوں کا تقرر کونسل آف میجسٹریٹس آف دی نیشن کرتی ہے جس میں ججوں، وکلاء، کانگریس اور ایگزیکٹو کے نمائندے شامل ہوتے ہیں۔ 1853 میں اعلان کے باوجود 1880 تک بیونس آئرس کو سرکاری طور پر دارلحکومت نہیں مانا گیا۔ 1994 کی آئینی ترمیم کے تحت بیونس آئرس کو خودمختاری دے دی گئی تاہم وفاقی پولیس، بندرگاہ اور دیگر اہم سرکاری تنصیبات کو حکومت ہی سنبھالتی ہے۔
ارجنٹائن میں کل 23 صوبے اور ایک خودمختار شہر ہیں۔ بیونس آئرس کے صوبے کو 134 انتظامی حصوں جبکہ دیگر صوبوں کو 376 حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
[size=17]خارجہ پالیسی[size=18][ترمیم][/size][/size]
ارجنٹائن مرکوسر کا مکمل رکن ہے۔ 2003 سے ارجنٹائن نے مرکوسر کو قومی سطح سے بلند قانون ساز اختیارات دینے کے حق میں مہم جاری رکھی ہے تاہم 1990 کی دہائی میں ارجنٹائن امریکہ کی طرف زیادہ جھکاؤ رکھتا تھا۔ ارجنٹائن انٹارکٹک ٹریٹی سسٹم کا بانی رکن ہے اور اس نظام کا سیکریٹریٹ بیونس آئرس میں ہی قائم ہے۔
طویل عرصے سے ارجنٹائن نے فاک لینڈ جزیرے، جنوبی جارجیا اور جنوبی سینڈوچ جزیروں پر اپنا دعوٰی کیا ہوا ہے۔ یہ جزائر برطانیہ کے زیرِ انتظام ہیں۔ اس کے علاوہ ارجنٹائن انٹارکٹیکا کے تقریباً دس لاکھ مربع کلومیٹر حصے پر اپنا دعوٰی بھی کرتا ہے تاہم انہی میں سے کچھ علاقوں پر چلی اور برطانیہ بھی دعوٰی کرتے ہیں۔ 1904 سے باہمی رضامندی سے ارجنٹائن نے انٹارکٹیکا میں اپنی سائنسی تجربہ گاہ برقرار رکھی ہوئی ہے۔ اگرچہ غیر قانونی ٹرالروں، متنازعہ علاقوں میں فوجی کاروائی کی دھمکیاں محض استثنائی صورتیں ہیں۔ بصورتِ دیگر ارجنٹائن کی خارجہ پالیسی اس سے ہٹ کر ہے۔
1991 کی خلیج جنگ میں لاطینی امریکہ سے ارجنٹائن واحد ملک تھا جس نے امریکی حملے کا ساتھ دیا تھا۔ ہیٹی میں جمہوریت کے فروغ کے آپریش میں بھی ارجنٹائن نے حصہ لیا تھا۔ ارجنٹائن نے دنیا بھر میں قیام امن کے مشنوں میں حصہ لیا ہے۔ ارجنٹائن نے قیام امن کے لئے ال سلواڈور، ہنڈراس، نکاراگوا، گوئٹے مالا، جنوبی صحارا، انگولا، کویت، قبرض، کروشیا، کوسوو، بوسنیا اور مشرقی تیمور میں اپنے دستے بھیجے ہیں۔ قیامِ امن کی انہی کوششوں کی وجہ سے امریکی صدر بل کلنٹن نے جنوری 1998 کو ارجنٹائن کو اہم غیر ناٹو اتحادی قرار دیا تھا۔ 2005 میں آخری بار ارجنٹائن کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا رکن چنا گیا تھا۔ اقوامِ متحدہ کا وائٹ ہلمٹ نامی قیامِ امن اور انسانی امداد کا منصوبہ 1994 میں ارجنٹائن کے مشورے پر شروع کیا گیا تھا۔
[size=17]فوج[size=18][ترمیم][/size][/size]
ارجنٹائن کی مسلح افواج بری، بحری اور فضائی افواج پر مشتمل ہیں اور ان میں حاضر سروس فوجیوں کی کل تعداد 70٫000 ہے۔ صدر مسلح افواج کے کمانڈر ان چیف کا درجہ رکھتا ہے۔ وزارتِ دفاع روز مرہ کے کاموں کے حوالے سے فوجی معاملات کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ وزارتِ داخلہ کے زیرِ انتظام بحری حدود کی حفاظت اور ملکی سرحدوں کی نگرانی کے لئے دو الگ مسلح افواج بھی موجود ہیں۔ فوجی ملازمت کے لئے 18 سال کم از کم حدِ عمر ہے جبکہ جبری فوجی تربیت ہر شہری پر لازمی نہیں۔
تاریخی اعتبار سے خطے میں ارجنٹائن کی افواج بہترین ساز و سامان کے ساتھ سرِفہرست ہیں۔ تاہم حالیہ برسوں میں فوجی اخراجات میں کمی کی گئی ہے۔ ارجنٹائن دفاع پر تقریباً 3 ارب ڈالر سالانہ خرچ کرتا ہے۔ مسلح افواج کے دستے ہیٹی اور قبرص میں قیامِ امن کے لئے اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔
[size=17]انتظامی تقسیم[size=18][ترمیم][/size][/size]
ارجنٹائن کل 23 صوبوں اور ایک خودمختار شہر پر مشتمل ہے۔ ان صوبوں اور شہر کے اپنے آئین ہیں لیکن وفاقی نظام کے تحت کام کرتے ہیں۔
[size=17]جغرافیہ[size=18][ترمیم][/size][/size]
آرکٹک کے دعوٰی کو چھوڑ کر ارجنٹائن کا کل رقبہ 27٫66٫891 مربع کلومیٹر ہے جس میں 30٫200 مربع کلومیٹر آبی ہے۔ شمالاً جنوباً ارجنٹائن کی لمبائی 3٫900 کلومیٹر کے قریب جبکہ شرقاً غرباً 1٫400 کلومیٹر ہے۔ ملک میں چار مختلف علاقے ہیں جن میں زرخیز وسطی میدان، نسبتاً پہاڑی، تیل کی دولت سے مالامال جنوبی سطح مرتفع، شمالی مسطح میدان اور چلی کی سرحد کے قریب مغربی انڈیز پہاڑی سلسلے شامل ہیں۔
ملک کا بلند ترین مقام سطح سمندر سے 22٫841 فٹ بلند ہے جو جنوبی اور مغربی نصف کروں میں سب سے بلند ہے۔ سب سے نشیبی علاقہ سطح سمندر سے 105 میٹر نیچے ہے۔
اہم دریاؤں میں پرانا، پل کومیاؤ، پیراگوئے، برمیجو، کولوراڈو، ریو نیگرو، سالاڈو اور یوراگوئے اہم ہیں۔
ایک صدی سے بھی زیادہ عرصے سے بحرِ اوقیانوس کا 4٫665 کلومیٹر طویل ساحل ملکی باشندوں کی تفریح گاہ کا درجہ رکھتا ہے۔
[size=17]موسم[size=18][ترمیم][/size][/size]
عموماً شمال میں نیم استوائی جبکہ جنوب میں قطبی نوعیت کا موسم ہوتا ہے۔ شمال میں گرمیوں کا موسم انتہائی گرم اور مرطوب رہتا ہے جبکہ سردیاں بہت ہلکی ہوتی ہیں۔ وقتاً فوقتاً قحط سالی بھی آتی ہے۔ وسطی ارجنٹائن میں گرمیوں کا موسم گرم اور گرج چمک کے ساتھ طوفان آتے ہیں۔ سردیاں نسبتاً سرد ہوتی ہیں۔ جنوبی علاقے میں ہلکی گرمیاں اور سردیوں میں سخت برفباری ہوتی ہے۔
جنوبی امریکہ کے براعظم کے کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت ارجنٹائن میں ریکارڈ ہوئے ہیں۔ 2 جنوری 1920 کو سب سے زیادہ درجہ حرارت 49.1 ڈگری جبکہ 17 جولائی 1972 کو سب سے کم درجہ حرارت -39 ڈگری شمار کیا گیا تھا۔
انتہائی جنوبی علاقوں میں نومبر سے فروری تک دن 19 گھنٹے طویل بھی ہوتا ہے اور مئی سے اگست تک راتیں طویل ہوتی ہیں۔
[size=17]حیاتیاتی تنوع[size=18][ترمیم][/size][/size]
شمال میں نیم استوائی نباتات ملتی ہیں۔ ان میں شیشم کی نسل کے درخت اہم ہیں۔ سوانا کی نباتات انڈیز پہاڑوں کے نزدیک خشک حصوں میں موجود ہیں۔ مرطوب علاقوں میں آبی نباتات بھی ملتی ہیں۔ وسطی ارجنٹائن میں لمبی گھاس کے میدان پائے جاتے ہیں۔ وسطی علاقے میں ابتداء میں کوئی درخت نہیں تھے لیکن بعد میں سفیدہ وغیرہ جیسے درختوں کو سڑکوں کے کنارے اور قصبوں میں لگائے گئے ہیں۔ اس علاقے میں مٹی کا رنگ کالا سیاہ ہے۔ اسی وجہ سے یہ علاقہ پورے کرہ ارض پر زرخیز ترین علاقوں میں سے ایک ہے۔ تاہم تجارتی پیمانے پر زراعت کی خاطر دیگر نباتات کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ یہاں کل 29 نیشنل پارک ہیں۔
وہ علاقہ جو انڈیز پہاڑوں کے سائے میں موجود ہے، وہاں کی نباتات زیادہ تر گھاس پھونس اور جڑی بوٹیوں پر مشتمل ہے جو خشک سالی کو برداشت کر سکتی ہے۔ زمین سخت اور پتھریلی ہے جس کی وجہ سے زراعت دریاؤں کے کناروں تک ہی محدود ہے۔ کچھ علاقوں میں کونی فیرس جنگلات بھی پائے جاتے ہیں۔ چوڑے پتوں والے درخت بھی یہاں عام ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ محکمہ جنگلات نے بھی بڑے پیمانے پر دیگر ممالک کے درخت یہاں اگائے ہیں۔
نیم بنجر علاقے کی خاردار جھاڑیاں اور دیگر ایسی نباتات جو پانی کی کمی کو برداشت کر سکیں بھی بکثرت ملتی ہیں۔ اس علاقے میں بڑے پیمانے پر انگوروں کی کاشت بھی فائدے مند ہے۔ شمال مغربی ارجنٹائن میں کیکٹس کی کئی اقسام پائی جاتی ہیں۔ تاہم 4٫000 میٹر یعنی 13٫000 فٹ سے زیادہ بلندی پر نباتات نہیں اگتیں۔
کئی انواع نیم استوائی شمال میں بھی ملتی ہیں۔ اہم جانوروں میں جیگوار، پوما اور جنگلی بلی، بندر، مگرمچھ وغیرہ بھی ملتے ہیں۔ دیگر جانوروں میں ٹیپر، سؤر کی کئی اقسام، جنگلی کتا، ریکون اور کچھوؤں کی ڈھیروں اقسام شامل ہیں۔ پرندوں میں ہمنگ برڈ، لم ڈھینگ، ٹوکن اور ابابیل وغیرہ اہم ہیں۔
وسطی میدانوں میں آنٹ ایٹر، آرمیڈلو، جنگلی بلی، بھیڑیئے، اور ریا (بغیر پرواز والا پرندہ)، باز، عقاب، بگلے، ہرن اور لومڑیاں بھی پائی جاتی ہیں۔
مغربی پہاڑ کئی جانوروں بشمول لاما، گوانکو اور ویکونیا اہم ہیں۔ اس کے علاوہ خرگوش، پہاڑی بلی، اور انڈیز کے گدھ اہم ہیں۔
جنوبی علاقوں میں کوگر یعنی پہاڑی شیر، ہومل، پڈو یعنی دنیا کا سب سے چھوٹا ہرن اور جنگلی سؤر شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ساحلی علاقوں میں ایلیفنٹ سیل، فر سیل، سمندری بچھڑے اور پینگوئن بھی ملتے ہیں۔
ارجنٹائن کے علاقائی سمندر میں بحری حیات بکثرت ہے۔ وہیل، ڈالفن وغیرہ عام ملتی ہیں۔ سارڈین، سامن اور شارکیں بھی پائی جاتی ہیں۔ سکوئیڈ اور شاہی کیکڑا بھی ملتے ہیں۔ دریاؤن اور ندیوں میں ٹراؤٹ بھی ملتی ہے۔ اژدہے جیسا کہ بوا، دیگر سانپ جیسا کہ وائپر وغیرہ بھی پائے جاتے ہیں۔
[size=17]معیشت[size=18][ترمیم][/size][/size]
ارجنٹائن کی معیشت مارکیٹ پر انحصار کرتی ہے اور قدرتی ذرائع بکثرت ہیں۔ آبادی اعلٰی تعلیم یافتہ ہے اور زراعت کا شعبہ برآمدات کے لئے اہم جبکہ صنعتی شعبے میں تنوع پایا جاتا ہے۔
ملک میں خدمات کا شعبہ ملکی معیشت میں 59 فیصد جبکہ روزگار میں 72 فیصد نوکریاں مہیا کرتا ہے۔ مینوفیکچرنگ بالترتیب 21 اور 13 فیصد جبکہ زراعت میں بالترتیب 9 فیصد اور 7 فیصد ہیں۔ تعمیرات، کان کنی اور عوامی سہولیات بقیہ حصہ پورا کرتی ہیں۔ زراعت بشمول پراسیسڈ خوراک، 2010 کی برآمدات کے 54 فیصد پر مشتمل تھا۔ اسی سال صنعتی شعبے نے 35 فیصد برآمدات مہیا کیں۔
افراطِ زر کی بلند شرح ارجنٹائن کی معیشت میں کئی دہائیوں تک مسئلہ بنی رہی ہے۔
2009 میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق 179 ممالک کی فہرست میں ارجنٹائن کا نمبر 106واں ہے۔ حکومتی اور پرائیوٹ شعبوں میں بدعنوانی(جس میں منی لانڈرنگ، منشیات اور سمگلنگ وغیرہ کے ساتھ ساتھ ٹیکس کی چوری بھی اہم ہے) شامل ہیں۔
اپنے ہمسائے چلی کے بعد ارجنٹائن انسانی ترقی کے اعشاریئے اور فی کس آمدنی کے اعتبار سے لاطینی امریکہ میں دوسرے نمبر پر ہے۔ ارجنٹائن جی 20 کا بھی رکن ہے۔ عالمی بینک کے مطابق ارجنٹائن بالائی متوسط آمدنی والا ملک ہے۔
[size=17]تاریخ[size=18][ترمیم][/size][/size]
ارجنٹائن کی معیشت 1875 میں زرعی برآمدات میں اچانک اضافے کے ساتھ اور یورپی سرمایہ کاری اور تارکینِ وطن کی آمد کے ساتھ ترقی کرنے لگی۔ تاہم یہ عروج 1930 میں اپنے اختتام کو پہنچا۔ اندرونی عدم استحکام اور عالمی رحجانات کی وجہ سے 1913 میں ارجنٹائن جو دنیا کے دس امیر ترین ممالک میں سے ایک تھا، 2010 میں 62ویں نمبر پر چلا گیا۔ اگرچہ اس بارے زیادہ تحقیق نہیں کی گئی تاہم بے پناہ قرضے، معاشی عدم استحکام، ضرورت سے زیادہ قوانین، آزادانہ تجارت پر پابندی اور بدعنوانی اہم ترین وجوہات میں شامل ہیں۔
[size=17]سائنس اور ٹیکنالوجی[size=18][ترمیم][/size][/size]
ارجنٹائن نے ڈھیروں ڈاکٹر، سائنس دان اور موجد دنیا کو دیئے ہیں۔ ان میں تین نوبل انعام یافتہ بھی شامل ہیں۔ ارجنٹائن کے محققین نے زخموں کے علاج، امراضِ قلب کے علاج اور کئی اقسام کے کینسروں کے علاج دریافت کئے ہیں۔ ڈومینگو لیوٹا نے پہلی بار مصنوعی انسانی دل بنایا جس کی کامیاب پیوند کاری کی گئی۔ رینے فوالورو نے دنیا میں پہلی بار بائی پاس سرجری اور اس کے طریقے متعارف کرائے۔ فرانسسکو ڈی پیڈرو نے زیادہ بہتر مصنوعی پیس میکر بنایا۔
[size=16]برنارڈو ہوسے لاطینی امریکہ کے پہلے نوبل انعام یافتہ فرد ہیں۔ انہوں نے جانوروں میں گلوکوز پر پچوٹری غدود کے کردار کا جائزہ لیا۔ قیصر ملسٹین نے اینٹی باڈیز
Re: جمہوریہ ارجنٹائن
Page 1 of 1
Permissions in this forum:
You cannot reply to topics in this forum
Tue Feb 04, 2020 6:49 pm by munsab
» گوگل کرُوم
Tue Dec 03, 2019 8:35 pm by Munsab Ali
» فوٹو شاپ
Tue Dec 03, 2019 8:33 pm by Munsab Ali
» شمشیر بے نیام قسط نمبر 2
Sat Nov 30, 2019 11:25 pm by Munsab Ali
» شمشیر بے نیام قسط نمبر 1
Sat Nov 30, 2019 9:56 pm by Munsab Ali
» متنازع سائبر کرائم بل 2015 متفقہ طور پر منظور کرلیا۔ -
Wed Jul 27, 2016 11:54 am by Munsab Ali
» All in One
Fri Dec 25, 2015 10:23 pm by RASHID KHAN
» Best Action Movies 2015 English Hollywood - TOM CRUISE - New Adventure Movies 2015
Thu Dec 10, 2015 2:05 pm by Munsab Ali
» Shinobido - Ninja
Thu Dec 10, 2015 1:53 pm by Munsab Ali