استونیا
Page 1 of 1
استونیا
| |||||
شعار: ندارد | |||||
ترانہ: Mu isamaa, mu õnn ja rõõm | |||||
[size=20][You must be registered and logged in to see this image.][/size] | |||||
دارالحکومت | ٹالن [rtl]59 درجے 22 منٹ شمال 24 درجے 48 منٹ مشرق[/rtl] | ||||
عظیم ترین شہر | ٹالن | ||||
دفتری زبان(یں) | ایستی | ||||
نظامِ حکومت صدر وزیرِ اعظم | پارلیمانی جمہوریہ توماس ہیندرک ایلوس آندروس آنسیپ | ||||
آزادی - تاریخِ آزادی | روس سے 20 اگست 1991ء | ||||
یورپی یونین کی رکنیت | یکم مئی 2004ء | ||||
رقبہ - کل - پانی (%) | 45100 مربع کلومیٹر (132) 17413 مربع میل 4.56 | ||||
آبادی - تخمینہ:2008ء - 2000 مردم شماری - کثافتِ آبادی | 1,340,600 (149) 1376743 29 فی مربع کلومیٹر(182) 75 فی مربع میل | ||||
خام ملکی پیداوار (م۔ق۔خ۔) - مجموعی - فی کس | تخمینہ: 2007ء 28.68 ارب بین الاقوامی ڈالر (102 واں) 21800 بین الاقوامی ڈالر (41 واں) | ||||
انسانی ترقیاتی اشاریہ (تخمینہ: 2007ء) | 0.86 (44) – بلند | ||||
سکہ رائج الوقت | کرون (
)[/size] | ||||
منطقۂ وقت - عمومی ۔ موسمِ گرما (د۔ب۔و) | مشرقی یورپی وقت (EET) (یو۔ٹی۔سی۔ 2) مستعمل (یو۔ٹی۔سی۔ 3) | ||||
ملکی اسمِ ساحہ (انٹرنیٹ) | .ee | ||||
رمزِ بعید تکلم (کالنگ کوڈ) |
|
اسٹونیا جسے سرکاری طور پر جمہوریہ اسٹونیا بھی کہتے ہیں، شمالی یورپ کے بالٹک ریجن میں واقع ہے۔ شمال میں خلیج فن لینڈ، مغرب میں بحیرہ بالٹک، جنوب میں لٹویا اور مشرق میں روس واقع ہے۔ بحیرہ بالٹک کے پار سوئیڈن واقع ہے۔ اسٹونیا کا کل رقبہ 45٫227 مربع کلومیٹر ہے۔ استونین قوم فِننک قوم سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی واحد سرکاری زبان اسٹونین ہے جو فِننش زبان سے مماثل ہے۔
اسٹونیا پارلیمانی جمہوریہ ہے اور اس میں کل 15 کاؤنٹیاں ہیں۔ سب سے بڑا شہر اور دارلحکومت ٹالِن ہے۔ اس کی کل آبادی 13٫40٫000 ہے۔ یورپی یونین، یورو زون اور ناٹو کے رکن ممالک میں کم گنجان آباد ممالک میں سے ایک ہے۔ سابقہ روسی ریاستوں میں اسٹونیا فی کس آمدنی کے اعتبار سے سب سے آگے ہے۔ عالمی بینک کے مطابق اسٹونیا کی معیشت امیر ممالک میں شمار ہوتی ہے۔ اقوامِ متحدہ اسٹونیا کو ترقی یافتہ ملک قرار دیتی ہے اور انسانی ترقی کے اعشاریے میں اسٹونیا کا درجہ انتہائی بلند ہے۔ آزادئ صحافت، معاشی آزادی، جمہوریت اور سیاسی آزادی اور تعلیم کے حوالے سے بھی اسٹونیا کا درجہ بہت بلند ہے۔
[rtl]فہرست
[دکھائیں] [/rtl]
[دکھائیں] [/rtl]
مختصر تاریخ[size=18][ترمیم][/size]
موجودہ دور کے اسٹونیا کے مقام پر 8500 ق م میں برفانی دور کے فوراً بعد انسان آباد ہونے لگ گئے تھے۔ بعد کی صدیوں میں اسٹونین لوگوں پر ڈینش، پولش، سوئیڈش اور روسی قبضے ہوتے رہے۔ 1227 میں اسٹونیا پر غیر ملکی قبضے کی ابتداء ہوئی۔
اسٹونیا کی نشاطِ ثانیہ کے دور میں قومی سطح پر بیداری پیدا ہوئی۔ یہ تحریک 1750 تا 1840 تک جاری رہی۔ 1918 میں اسٹونیا نے اپنی آزادی کا اعلان کیا۔ اس کے بعد اسٹونیا کی جنگِ آزادی شروع ہوئی۔ جنگ کا اختتام ترتو کے معاہدے پر ہوا جس کے تحت اسٹونیا کی آزادی تسلیم کر لی گئی۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران اسٹونیا کو روس نے اپنے ساتھ ضم کر لیا۔
اسٹونیا نے دوبارہ 20 اگست 1991 کو دوبارہ آزادی حاصل کر لی۔ اس وقت سے لے کر اب تک اسٹونیا میں سماجی اور معاشی اصلاحات کا عمل جاری ہے۔ آج کئی برسوں سے مسلسل اسٹونیا کو اس کی معاشی آزادی، نئی ٹیکنالوجیوں کا حصول اور دنیا کی تیز ترین معیشتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ 2007 تا 2010 جاری رہنے والے معاشی بحران میں یورپی یونین کے 27 اراکین میں اسٹونیا کی حالت دوسرے نمبر پر سب سے بری تھی۔ 2010 میں معاشی صورتحال بہتر ہونے لگی اور برآمدات میں اضافہ ہونے لگا۔
Re: استونیا
قبل از تاریخ[size=18][ترمیم][/size]
اسٹونیا میں 11000 سے 13000 سال قبل برفانی دور کے اختتام پر انسان آباد ہونے لگے۔ اسٹونیا میں سب سے پرانی آبادی پُلی آبادی تھی جو دریائے پیرنُو پر سنڈی کے قصبے کے ساتھ واقع تھی۔ یہ جگہ جنوب مغربی اسٹونیا میں واقع ہے۔ ریڈیو کاربن ڈیٹنگ سے پتہ چلا ہے کہ یہ آبادی 11000 سال قبل تھی۔
اس بات کے بھی ثبوت ملے ہیں کہ 6500 ق م قبل شمالی اسٹونیا میں کنڈا کے قصبے کے پاس شکار اور ماہی گیری ہوتی رہی تھی۔ یہاں موجود ہڈیوں اور پتھروں کے اوزار اسٹونیا اور لٹویا کے دیگر حصوں کے علاوہ شمالی لتھوانیا اور جنوبی فن لینڈ میں بھی ملے ہیں۔ کنڈا ثقافت قرونِ وسطٰی سے تعلق رکھتے ہیں۔
تانبے کے دور کے اواخر اور لوہے کے دور کے آغاز میں بڑے پیمانے پر ثقافتی تبدیلیاں آئیں۔ سب سے اہم تبدیلی کاشتکاری کی ابتداء تھی جو بعد میں اسٹونیا کی معیشت اور ثقافت کی بنیاد بنی۔ پہلی سے پانچویں صدی عیسوی میں مستقل بنیادوں پر کاشتکاری شروع ہو گئی تھی۔ آبادی میں اضافہ ہوا اور بستیاں پھیلنے لگیں۔ رومن سلطنت سے ثقافتی اثرات اسٹونیا میں پہنچے۔
موجودہ اسٹونیا میں آباد لوگوں کے بارے پہلا تذکرہ ہمیں رومن تاریخ دان ٹیسی ٹس کی کتاب جرمینیا سے ملتا ہے۔ اسی کتاب میں ہی اسٹونین زبان کا ایک لفظ استعمال ہوا ہے جو اس زبان کا قدیم ترین حوالہ ہے۔ قرونِ وسطٰی کے اپنے جنگی مسائل کے علاوہ بیرونی حملہ آور بالٹک قبائل سے آنے لگے جو جنوبی سرحد اور سمندر پار سے حملہ آور ہوتے تھے۔ استونین قذاقوں نے وائکنگ دور میں حملے شروع کئے۔
پہلی صدی عیسوی میں سیاسی اور انتظامی ڈھانچہ بننے لگا۔ دو بڑی تقسیمیں ہوئیں جن میں زمین اور صوبہ شامل تھے۔ صوبوں میں کئی گاؤں شامل تھے۔ تقریباً ہر صوبے کا اپنا کم از کم ایک قلعہ تھا۔ اعلٰی سرکاری افسر صوبے کے دفاع کا ذمہ دار تھا جو بادشاہ کو جواب دہ تھا۔
قرونِ وسطٰی[size=18][ترمیم][/size]
13ویں صدی کے آغاز میں ایک مقامی سردار نے 6٫000 جوانوں کی مدد سے غیر ملکی افواج کو نکال باہر کرنے اور ملک کو متحد کرنے کی ٹھانی لیکن بعد ازاں ستمبر 1217 میں ایک جنگ میں مارا گیا۔ 1481 اور 1558 میں ماسکو کی حکومت اور زار نے ناکام حملے کئے۔
تشکیلِ نو[size=18][ترمیم][/size]
سرکاری طور پر یورپ کی تشکیلِ نو کا آغاز 1517 مارٹن لوتھر نے کیا۔ اس کا سب سے زیادہ اثر بالٹک علاقوں پر پڑا۔ زبان، تعلیم، مذہب اور سیاست، سب ہی بڑے پیمانے پر تبدیل ہوئے۔ چرچ کی خدمات اب مقامی زبان میں مہیا کی جانے لگیں۔ 1561 کی لیونین جنگ کے دوران شمالی اسٹونیا پر سوئیڈن کا قبضہ ہو گیا۔ 1629 میں سارا اسٹونیا ہی سوئیڈن کے قبضے میں آ گیا۔
1631 میں بادشاہ گستاف دوئم اڈولف نے اشرافیہ کو مجبور کیا کہ وہ کسانوں کو زیادہ حقوق دیں۔ 1632 میں چھاپہ خانہ اور ایک یونیورسٹی بھی یہاں ترتُو کے قصبے میں بنیں۔ اس دور کو "دی گڈ اولڈ سوئیڈش ٹائم" کہا جاتا ہے۔
1657 میں طاعون کی وباء پھیلنے تک یہاں آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوتا رہا تھا۔ 1695 تا 1697 کے قحط میں تقریباً 70٫000 افراد ہلاک ہوئے جو کل آبادی کا پانچواں حصہ تھے۔
روسی سلطنت کا اسٹونیا[size=18][ترمیم][/size]
عظیم شمالی جنگ کے دوران اسٹونیا اور لیونیا نے ہتھیار ڈال دیئے اور سوئیڈش بادشاہ نے اسٹونیا کو روس کے حوالے کر دیا۔ تاہم اشرافیہ وغیرہ زیادہ تر بالٹک جرمن ہی رہے۔ جنگ کی وجہ سے اسٹونیا کی آبادی بہت گھٹ گئی تھی۔ تاہم جنگ کے بعد دوبارہ تیزی سے بڑھی۔ 1917 کے روسی انقلاب کے بعد 24 فروری 1918 تک ٹالِن پر روسی افواج کا قبضہ رہا۔ اس کے بعد اسٹونیا نے آزادی کا اعلان کر دیا۔
اعلانِ آزادی[size=18][ترمیم][/size]
جبری مزدوری کے خاتمے اور مقامی اسٹونین زبان میں تعلیم کے حصول سے قوم پرستی کی تحریک 19ویں صدی میں شروع ہوئی۔ اس کی ابتداء ثقافتی طور پر ہوئی۔ نتیجتاً اسٹونین زبان میں ادب، تھیٹر اور موسیقی شروع ہوئی اور اسٹونین قومی شناخت بنی۔ اسے بیداری کا دور بھی کہتے ہیں۔
1869 میں پہلا قومی گیت میلہ منعقد ہوا۔ روس کے بڑھتے ہوئے اثرات کے خلاف پہلے پہل تو دانشوروں نے خود مختاری اور بعد ازاں مکمل آزادی کا مطالبہ کیا۔
1917 کے انقلاب کے بعد جب روس پر بالشویک لوگوں نے قبضہ کیا اور جرمن فوج نے روس کے خلاف کامیابیاں حاصل کیں تو 23 فروری 1918 کو پیرنُو اور 24 فروری کو ٹالِن میں آزادی کا اعلان کر دیا۔
روس کے خلاف اسٹونیا کی جنگِ آزادی میں کامیابی کے بعد ترتُو کا معاہدہ ہوا۔ جمہوریہ استونیا کو 7 جولائی 1920 میں فن لینڈ، ارجنٹائن نے 12 فروری 1921 اور مغربی اتحادی افواج نے 26 جنوری 1921 میں تسلیم کیا۔
اسٹونیا کی آزادی 22 سال تک قائم رہی۔
اسٹونیا اور جنگِ عظیم دوم[size=18][ترمیم][/size]
دوسری جنگِ عظیم دوم میں جب جرمنی اور روس نے عدم جارحیت کا معاہدہ کیا تو اسٹونیا کی قسمت پر مہر ثبت ہو گئی۔ دوسری جنگِ عظیم میں اسٹونیا کی چوتھائی آبادی موت کے گھاٹ اتر گئی۔ دوسری جنگِ عظیم کی ابتداء میں اسٹونیا کے اہم علاقائی اتحادی پولینڈ پر نازی جرمنی اور روس نے مل کر قبضہ کر لیا۔
روسی حملہ اور قبضہ[size=18][ترمیم][/size]
دوسری جنگِ عظیم کی ابتداء سے قبل ہی ہٹلر اور سٹالن نے فیصلہ کیا کہ مشرقی یورپی کو خصوصی تعلق کے علاقوں میں تقسیم کیا جائے۔ جرمنی اور روس کے عدم جارحیت کا معاہدہ کیا
24 ستمبر 1939 کو روسی فوج کے بحری بیڑے نے اسٹونیا کی بندرگاہوں اور روسی بمبار طیاروں نے ٹالِن اور آس پاس کے علاقوں پر بمباری کی۔ اسٹونیا کی حکومت نے مجبور ہو کر روس کو اس بات کی اجازت دی کہ وہاں "باہمی دفاع" کے لئے 25٫000 فوجی روس کے اڈوں میں رکھے جائیں۔ 12 جون 1940 کو روسی افواج کو حکم ملا کہ ہر طرح سے اسٹونیا کی ناکہ بندی کر دی جائے۔
14 جون 1940 کو روس نے اسٹونیا کی فوجی ناکہ بندی کر لی۔ روس کے دو فوجی بمبار طیاروں نے فنِنش مسافر بردار طیارے کو تباہ کر دیا جس میں ٹالِن، ریگا اور ہیلسنکی میں متعین امریکی سفارتی عملے موجود تھے۔ 16 جون 1940 کو اسٹونیا میں موجود روسی فوج اپنے اڈوں سے باہر نکل آئی اور اگلے دن مزید 90٫000 روسی فوجی اسٹونیا میں داخل ہو گئے۔ اسٹونیا کی حکومت نے خون خرابے سے بچنے کے لئے ہتھیار ڈال دیئے۔
21 جون 1940 کو اسٹونیا پر فوجی قبضہ مکمل ہو چکا تھا۔
اسٹونیا کی زیادہ تر افواج نے حکومت کے حکم پر ہتھیار ڈال دیئے لیکن ایک خود مختار سگنل بٹالین نے ٹالِن میں لڑائی جاری رکھی۔ تاہم دن ڈھلنے پر مذاکرات کے بعد انہوں نے بھی ہتھیار ڈال دیئے۔
اگست 1940 میں غیر قانونی طور پر اسٹونیا کو روس میں شامل کر دیا گیا۔ اسٹونیا کے آئین میں درج شق جس کے تحت کسی بڑے ملک میں شمولیت کے لئے اسٹونین باشندوں کا ریفرنڈم ہونا ضروری ہے، کو نظر انداز کر دیا گیا۔ اس کی بجائے ایک ماہ قبل ہونے والے فرضی انتخابات کو بنیاد بنایا گیا۔ ایسے سیاست دان جنہوں نے روس میں شمولیت کے لئے ووٹ نہ دیا تھا، کو روسی فوجی عدالتوں نے سزائے موت دے دی۔
جب جرمنی نے روس کے خلاف آپریشن باربروسا شروع کیا تو تقریباً 34٫000 اسٹونین نوجوانوں کو زبردستی روسی فوج میں شامل کر دیا گیا۔ ایک تہائی سے بھی کم افراد جنگ میں زندہ بچے۔ جو سیاسی قیدی نہ نکالے جا سکے، انہیں روسیوں نے قتل کر دیا گیا۔
کئی ممالک بشمول امریکہ نے اسٹونیا کی روس میں شمولیت کو قبول نہ کیا۔ ایسے ممالک نے اپنے ہاں موجود اسٹونین سفارتی عملے کی حیثیت برقرار رکھی۔
روس کے جدید سیاستدان اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ روس نے اسٹونیا پر غیر قانونی قبضہ کیا تھا۔ ان کے بقول روس نے اسٹونین حکومت کی منظوری سے فوج ادھر بھیجی تھی۔ ان کے بقول اسٹونیا نے رضاکارانہ طور پر اپنی آزاد حیثیت کو ختم کیا تھا۔ آزادی کی جد و جہد کرنے والے افراد کو روسیوں نے مجرم اور نازی کہا۔ تاہم روسی نقطہ نظر کو بین الاقوامی حمایت حاصل نہیں۔
جرمن قبضہ[size=18][ترمیم][/size]
22 جون 1941 میں روس پر حملے کے دوران چند ہی دنوں میں جرمن افواج اسٹونیا تک پہنچ گئیں۔ جرمن فوج نے 7 جولائی کو اسٹونیا کی جنوبی سرحد عبور کی۔ روسی افواج پیرنُو کے دریا تک پیچھے ہٹ گئیں۔ جولائی کے اختتام پر جرمن فوج نے اسٹونین چھاپہ ماروں کے ساتھ پیش قدمی دوبارہ شروع کر دی تھی۔ 17 اگست کو جرمن اور اسٹونین افواج نے ناروا کا شہر واپس لے لیا اور 28 اگست کو اسٹونیا کا دارلحکومت ٹالِن بھی روس کے ہاتھ سے نکل گیا۔ روسی افواج کے انخلاء کے بعد روسی افواج نے تمام اسٹونین افراد سے ہتھیار رکھوا لئے۔
اگرچہ ابتداء میں اسٹونین لوگوں نے جرمن افواج کو اپنا نجات دہندہ سمجھا اور انہیں اسٹونیا کی آزادی سامنے دکھائی دینے لگی لیکن جلد ہی احساس ہو گیا کہ جرمن انہیں آزادی دلانے نہیں بلکہ ان پر قبضہ کرنے آئے ہیں۔ جرمنوں نے اسٹونیا کے وسائل کو اپنی جنگ کے لئے استعمال کیا۔
نازیوں سے بد دل ہو کر بہت سارے اسٹونین افراد نے فِننش افواج میں شمولیت اخیتار کر لی۔ فِننش انفینٹری رجمنت نمبر 200 انہی اسٹونین رضاکاروں سے بنائی گئی تھی۔ اگرچہ کچھ اسٹونین افراد جرمن افواج میں شامل ہو چکے تھے لیکن ان کی اکثریت نے جرمن فوج میں 1944 میں شمولیت اختیار کی جب اسٹونیا پر روس کے ایک اور حملے کا وقت آ چکا تھا اور اسٹونین جان چکے تھے کہ جرمنی یہ جنگ نہیں جیت سکتا۔
جنوری 1944 میں محاذِ جنگ کو اسٹونیا کی سابقہ سرحدوں تک واپس دھکیل دیا گیا تھا۔ ناروا کو خالی کر دیا گیا۔ روسی قبضے سے قبل اسٹونیا کے آخری وزیرِ اعظم نے اب اعلان کیا کہ 1904 سے 1923 کے درمیان پیدا ہونے والے تمام صحت مند افراد فوج میں شمولیت اختیار کریں۔ اس سے قبل وزیرِ اعظم اس بات کے خلاف تھے۔ اس پر ہر طرف سے لوگوں نے لبیک کہی اور 38٫000 افراد رجسٹریشن کے مراکز پر پہنچ گئے۔
کئی ہزار فوجی جو فِننش فوج میں بھرتی ہوئے تھے، واپس آ کر اپنی ملکی افواج میں شامل ہو گئے۔ انہیں روسی حملے کے خلاف مزاحمت کے لئے مقرر کیا گیا۔ اندازہ تھا کہ اس طرح مزاحمت کرتے ہوئے اسٹونیا مغربی اقوام کی حمایت حاصل کر کے اپنی آزادی کو پا لے گا۔
روسی اسٹونیا[size=18][ترمیم][/size]
روسی افواج نے 1944 کے خزاں کے دوران خونی لڑائیوں کے بعد ناروا دریا سے شمال مشرق کے رقبے اور دیگر حصوں پر قبضہ کر لیا۔
روسی فوج کی بڑھتی ہوئی جارحیت کے پیشِ نظر اعلٰی تعلیم یافتہ نوجوان ہزاروں کی تعداد میں تھے اور ان کے پاس دو ہی راستے تھے کہ یا تو وہ جرمنوں کے ساتھ فرار ہو جائیں یا پھر فن لینڈ اور سوئیڈن نکل جائیں۔ 12 جنوری 1949 کو روسی وزراء کی کونسل نے اعلان جاری کیا کہ تمام مقامی افراد جو مزاحمت کرتے ہوں، کو ان کے خاندان کے ہمراہ ملک بدر کر دیا جائے۔
اس حکم نامے سے 2٫00٫000 سے زیادہ افراد متائثر ہوئے۔ کل آبادی کے دس فیصد سے زیادہ افراد کو روسی مزدور کیمپوں اور ڈیتھ کیمپوں میں بھیج دیا گیا۔ بڑھتی ہوئی مزاحمت کے پیشِ نظر 20٫000 سے زیادہ افراد کو یا تو بیگار کیمپوں یا سائبیریا بھیج دیا گیا۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد روسیوں کے پیشِ نظر یہ مقصد تھا کہ سارے بالٹک ممالک کو روس میں ضم کر دیا جائے۔ اس سلسلے میں روسیوں کی ان ممالک میں آباد کاری کو ترجیح دی جانے لگی۔ جنگ سے ہونے والے جانی اور مالی نقصانات کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں مقامی لوگوں کو ملک بدر کر دیا گیا۔ یہ سلسلہ 1953 تک جاری رہا اور جوزف سٹالن کی موت کے ساتھ ختم ہوا۔
ملک بدر ہونے والے افراد کی نصف تعداد ماری گئی اور بقیہ افراد کو 1960 کی دہائی سے اوائل میں واپس آنے کی اجازت دی گئی۔ روسیوں کے تسلط کے دوران روس کے خلاف اسٹونین لوگوں نے کئی چھاپہ مار گروہ تشکیل دے دیئے تھے۔ یہ گروہ سابقہ جرمن اور فِننش فوجیوں کے ساتھ ساتھ محدود تعداد میں شہریوں پر بھی مشتمل تھے۔ دوسری جنگِ عظیم اور پھر روسی قبضے کے دوران ہونے والے مالی نقصانات کی وجہ سے اسٹونیا کی معیشت کمزور ہو گئی تھی جس کے نتیجے میں فن لینڈ اور سوئیڈن کی نسبت اسٹونیا کے لوگ بہت غریب ہو گئے۔
مختلف علاقوں کو فوجی قرار دے دینا بھی روسی حکمتِ عملی کا ایک حصہ تھا۔ ملک کے بڑے حصے، خصوصاً ساحلی علاقے صرف فوجیوں کے لئے مخصوص کر دیئے گئے تھے۔ زیادہ تر سمندری ساحل اور سمندری جزیرے بھی سرحدی علاقے قرار دے دیئے گئے تھے۔ ان علاقوں کے غیر رہائشی افراد کو وہاں جانے کے لئے الگ سے اجازت نامے درکار ہوتے تھے۔ سب سے عام مثال پالڈیسکی کا شہر تھا جو عوام کے لئے بالکل بند کر دیا گیا تھا۔ یہ شہر روسی بالٹک بیڑے اور کئی فوجی مراکز کی رسد کا مرکز تھا۔ اس شہر میں ایٹمی آبدوزوں کی تربیت گاہ بھی تھی جہاں ایک اصل آبدوز کی نقل رکھی گئی تھی جس میں اصلی ایٹمی ری ایکٹر بھی موجود تھا۔ 1994 میں روسی افواج کے انخلاء کے بعد یہ ساری سہولیات اسٹونیا کے قبضے میں آ گئی ہیں۔ امیگریشن بھی روسی قبضے کا ایک اہم پہلو تھا۔ ملک کے کونے کونے سے افراد کو خصوصی طور پر اسٹونیا میں لا کر بسایا گیا تھا تاکہ وہ فوجی اور صنعتی حوالے سے روس کی مدد کر سکیں۔ اندازہ ہے کہ 45 سال کے عرصے میں پانچ لاکھ افراد اسٹونیا بھیجے گئے تھے۔
آزادی کے بعد[size=18][ترمیم][/size]
امریکہ، برطانیہ، اٹلی اور مغربی ممالک کی اکثریت نے اسٹونیا کے روس میں انضمام کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔ انہوں نے آزاد اسٹونیا کے سفارت کاروں کا درجہ بحال رکھا اور روسی قبضے میں جانے والے اسٹونیا کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ جب روس کے اندرونی نظام میں بگاڑ پیدا ہوا تو اسٹونیا کی آزادی کے امکانات پیدا ہو گئے۔ 1980 کی دہائی کے گذرنے کے ساتھ ساتھ اسٹونیا کی آزادی کی تحریک زور پکڑتی گئی۔ 1987 سے 1989 میں یہ تحریک زیادہ تر معاشی آزادی کے لئے تھی۔ تاہم کمزور ہوتے ہوئے روس کی وجہ سے ملک کی مکمل آزادی کا مطالبہ زور پکڑتا گیا۔
1989 میں گانوں کا انقلاب یعنی سنگنگ ریولوشن منعقد ہوا۔ یہ تاریخی واقعہ آزادی کے سفر میں اہم تھا۔ اسے بالٹک وے بھی کہا گیا۔ بیس لاکھ سے زیادہ افراد نے لتھوانیا، لٹویا اور اسٹونیا سے اس میں حصہ لیا۔ تینوں ریاستوں کو ایک ہی جیسے حالات کا سامنا تھا اور تینوں پر ہی روس کا ہی قبضہ رہا تھا۔ اسٹونیا کی خود مختاری کا اعلان 16 نومبر 1988 کو کیا گیا جب ماسکو میں فوجی بغاوت ہوئی۔ روس نے 6 ستمبر 1991 کو اسٹونیا کو تسلیم کر لیا۔ 31 اگست 1994 کو آخری فوجی اسٹونیا سے نکل گیا۔ آئس لینڈ سفارتی سطح پر اسٹونیا کی آزادی تسلیم کرنے والا پہلا ملک بنا۔
یورپی یونین میں ہونے والی 2004 کی توسیع یونین کی تاریخ کی سب سے بڑی توسیع تھی۔ یہ توسیع نہ صرف رقبے اور آبادی بلکہ دولت کے اعتبار سے بھی سب سے بڑی تھی۔ یکم مئی 2004 کو جو دس ملک یورپی یونین کا حصہ بنے، اسٹونیا ان میں سےا یک تھا۔
جغرافیہ[size=18][ترمیم][/size]
اسٹونیا کی سرحد لٹویا کے ساتھ تقریباً 267 کلومیٹر طویل ہے۔ روس کے ساتھ سرحد 290 کلومیٹر لمبی ہے۔ تاہم آج بھی روس اور اسٹونیا کے درمیان سرحد کا واضح تعین نہیں۔
اسٹونیا بحیرہ بالٹک کے مشرقی ساحل پر خلیج فن لینڈ کے پار موجود ہے۔ اسٹونیا کی اوسط بلندی تقریباً 50 میٹر ہے تاہم ملک کا بلند ترین مقام 318 میٹر اونچا ہے۔ بے شمار خلیجیں، کھاڑیاں وغیرہ ملا کر کل ساحل تقریباً 1٫500 کلومیٹر طویل ہے۔ اسٹونیا میں دو جزیرے اتنے بڑے ہیں جو خود سے الگ ملک بن سکتے ہیں۔ انہی میں سے ایک میں شہابِ ثاقب کے گرنے سے بننے والی کھائیاں موجود ہیں۔
اسٹونیا میں چار الگ الگ موسم ہوتے ہیں۔ جولائی کا اوسط درجہ حرارت 16.3 سے 18.1 ڈگری رہتا ہے۔ سب سے زیادہ بارش بھی اسی ماہ ہوتی ہے۔ فروری میں اوسط کم سے کم درجہ حرارت منفی 7.6 ڈگری رہتا ہے۔ سالانہ اوسط درجہ حرارت 5.2 ڈگری رہتا ہے۔ 1961 تا 1990 سالانہ بارش کی اوسط 535 تا 727 ملی میٹر رہی ہے۔
بالعموم وسط دسمبر سے مارچ کے آخر تک ساری زمین برف سے ڈھکی رہتی ہے۔ اسٹونیا میں 1٫400 جھیلیں ہیں۔ ان کی اکثریت بہت چھوٹی ہیں تاہم سب سے بڑی جھیل کا رقبہ 3٫555 مربع کلومیٹر ہے۔ اسٹونیا میں بہت سارے دریا بھی موجود ہیں جن میں سے وہنڈو نامی دریا 162 کلومیٹر طویل ہے۔ اس کے علاوہ یہاں دلدلیں بھی پائی جاتی ہیں۔
انتظامی تقسیم[size=18][ترمیم][/size]
ماکُنڈ سب سے بڑی انتظامی تقسیم ہے۔ اسے انگریزی میں کاؤنٹی بھی کہتے ہیں۔ کاؤنٹی کی حکومت پر کاؤنٹی کا گورنر ہوتا ہے جو قومی حکومت کی نمائندگی کرتا ہے۔ گورنر کو وفاقی حکومت پانچ سال کی مدت کے لئے مقرر کرتی ہے۔
اسٹونیا میں کل 15 کاؤنٹیاں ہیں۔ ہر کاؤنٹی مزید بلدیوں میں منقسم ہوتی ہے۔ بلدیہ یا تو شہری ہوتی ہے یا دیہاتی۔
ہر بلدیہ میں ایک یا ایک سے زیادہ آبادیاں ہوتی ہیں۔ کچھ شہری بلدیوں کو اضلاع میں تقسیم کرتے ہیں۔ مثلاً ٹالِن میں آٹھ اضلاع ہیں۔
بلدیہ کی آبادی میں بہت فرق ہوتا ہے۔ مثلاً ٹالِن میں 4٫00٫000 جبکہ رُہنُو میں 60 افراد رہتے ہیں۔ دو تہائی سے زیادہ بلدیوں کی آبادی 3٫000 سے کم ہے۔ مارچ 2008 میں اسٹونیا میں کل 227 بلدیہ جات تھیں۔ ان میں سے 33 شہری جبکہ 193 دیہاتی ہیں۔
سیاست[size=18][ترمیم][/size]
پارلیمانی نمائندہ جمہوریت کے بیان کردہ اصولوں کے مطابق اسٹونیا میں سیاست کام کرتی ہے۔ وزیرِ اعظم حکومت کا سربراہ ہوتا ہے اور کثیر الجماعتی سیاسی نظام ہے۔
پارلیمان[size=18][ترمیم][/size]
اسٹونیا کی پارلیمان چار سال کے عرصے کے لئے عام انتخابات سے چنی جاتی ہے۔ اسٹونیا کا سیاسی نظام 1992 کے آئین کے مطابق کام کرتا ہے۔ پارلیمان میں کل 101 اراکین ہوتے ہیں اور حکومت کی پالیسیوں کا زیادہ تر انحصار قومی آمدن اور اخراجات کے تناسب سے ہوتا ہے۔
اسٹونیا کی پارلیمان ملکی اعلٰی عہدے داروں کا تقرر کرتی ہے۔ ان میں ملک کا صدر بھی شامل ہے۔ مزید برآں یہ اسمبلی صدر کے مشورے سے مرکزی بینک کے چیئرمین، آڈیٹر جنرل، لیگل چانسلر اور مسلح افواج کے کمانڈر ان چیف وغیرہ کا تعین کرتی ہے۔عوام کی طرف سے اسمبلی کے اراکین حکومت سے مختلف امور پر وضاحت طلب کر سکتے ہیں۔
حکومت[size=18][ترمیم][/size]
اسٹونیا میں حکومت کا تقرر وزیرِ اعظم صدر کے مشورے سے کرتا ہے اور اس کی توثیق پارلیمان سے ہوتی ہے۔ حکومت کے پاس آئین کے تحت انتظامی اختیارات ہوتے ہیں۔ حکومت میں وزیرِ اعظم سمیت کل 12 وزراء ہوتے ہیں۔ وزیرِ اعظم حکومتی وزراء اور ان کے محکموں کا تعین کرتا ہے۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ وزیر کے پاس کوئی محکمہ نہ ہو۔
بغیر محکمے والے وزراء زیادہ سے زیادہ تین ہو سکتے ہیں اور وزراء کی کل تعداد 15 سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔ اسے وفاقی کابینہ بھی کہتے ہیں۔ کابینہ کا کام اندرونی اور خارجہ پالیسیوں کو حکومت کی مرضی کے مطابق تشکیل دینا، حکومتی اداروں کے کام کی دیکھ بھال اور اپنے اختیارات میں آنے والے تمام فرائض کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ کابینہ کا سربراہ وزیرِ اعظم ہوتا ہے جو حکومت کے فیصلوں کا ذمہ دار ہوتا ہے۔
اسٹونیا ای گورنمنٹ اور ای سٹیٹ کے لئے کوشاں ہے۔ انٹرنیٹ کی مدد سے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا عمل 2005 میں شروع ہو چکا ہے۔
قانون[size=18][ترمیم][/size]
اسٹونیا کے آئین کے مطابق اصل اختیارات عوام کے پاس ہوتے ہیں۔ عوام اس اختیار کو استعمال کرتے ہوئے اپنے پارلیمانی نمائندے مقرر کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے پاس جوڈیشل طاقت ہوتی ہے جس میں کل 19 جج ہوتے ہیں۔چیف جسٹس کو صدر کی ہدایت پر 9 سال کے لئے مقرر کیا جاتا ہے۔ کسی بھی قانون کی منظوری کے لئے ملک کے سربراہ یعنی صدر کے دستخط لازمی ہوتے ہیں۔ صدر کے پاس کسی قانون کو مسترد کرنے اور نئے قوانین متعارف کرانے کے اختیارات ہوتے ہیں۔
عموماً صدر ان اختیارات کو استعمال نہیں کرتا اور صدر کا عہدہ محض نمائشی ہوتا ہے۔ صدر کو پارلیمان کی دو تہائی اکثریت سے چُنا جاتا ہے۔
خارجہ تعلقات[size=18][ترمیم][/size]
22 ستمبر 1921 سے اسٹونیا لیگ آف نیشن کا رکن ہے اور اقوامِ متحدہ کی رکنیت 17 ستمبر 1991 سے شروع ہوئی ہے۔ 29 مارچ 2004 سے اسٹونیا ناٹو کا بھی رکن ہے۔ یکم مئی 2004 سے اسٹونیا یورپی یونین کا حصہ ہے۔
آزادی پانے کے بعد اسٹونیا نے اپنے مغربی یورپی ہمسائیوں کی طرف جھکاؤ والی خارجہ پالیسی بنائی ہے۔ اسی سلسلے کے دو اہم ترین اقدامات یورپی یونین اور ناٹو میں شمولیت تھے۔ ساتھ ہی ساتھ اسٹونیا کے تعلقات روس سے کم ہوتے جا رہے ہیں۔
اسٹونیا کی خارجہ پالیسی کے اس اہم موڑ میں نارڈک ممالک بالخصوص فن لینڈ اور سوئیڈن کا بھی عمل دخل ہے۔ سوئیڈن، ڈنمارک بالخصوص فن لینڈ کے ساتھ تاریخی تعلقات کی بنیاد پر اسٹونیا خود کو بالٹک ریاستوں کی بجائے نارڈک ریاست سمجھتا ہے۔
2005 میں اسٹونیا نے یورپی یونین کے نارڈک بیٹل گروپ میں شمولیت اختیار کی۔ نارڈک کونسل میں شامل ہونے کے لئے اسٹونیا کی کوششیں کسی سے مخفی نہیں۔ 1992 تک اسٹونیا کی بین الاقوامی تجارت کا 92 فیصد حصہ روس کے ساتھ تھا۔ آج اسٹونیا کی زیادہ تر بین الاقوامی تجارت نارڈک ممالک کے ساتھ ہے۔ تاہم اسٹونیا کا سیاسی نظام، انکم ٹیکس کی یکساں شرح اور غیر فلاحی ریاست ہونا نارڈک ممالک کرتا ہے۔
فوج[size=18][ترمیم][/size]
اسٹونیا کی افواج بری، بحری اور ہوائی فوج کے علاوہ پیرا ملٹری نیشنل گارڈوں پر مشتمل ہے۔ دفاعی پالیسی میں ملک کی آزادی اور سرحدوں کا دفاع، ریاستی بحری اور فضائی اور آئینی حدود تحفظ شامل ہیں۔ اس وقت ملک کے تحفظ کے ساتھ ساتھ ایسی فوج کی تیاری بھی جاری ہے جو ناٹو اور یورپی یونین کے اراکین ممالک کی افواج کے ساتھ مل کر کام کر سکیں۔
اس وقت قومی سطح پر 18 سے 28 سال کی عمر میں فوجی تربیت لازمی ہے جو 8 سے 11 ماہ پر محیط ہو سکتی ہے۔ اس وقت اسٹونیا اپنی قومی آمدنی کا دو فیصد حصہ اپنے دفاع پر خرچ کرتا ہے۔
جنوری 2008 میں اسٹونیا کے 300 فوجی کوسوو، افغانستان، عراق، بوسنیا و ہرزیگوینیا اور اسرائیل میں گولان کی پہاڑیوں پر تعینات ہیں۔
حالیہ برسوں میں وزارتِ دفاع اور مسلح افواج سائبر وار فئیر پر بھی کام کر رہی ہیں۔ 2007 میں ہونے والے سائبر حملوں کے بعد اسٹونیا کی ای ملٹری تشکیل دی گئی جو ملکی سائبر ڈھانچے کے دفاع کا کام کرتی ہے۔ کمپیوٹر ایمرجنسی ریسپانس ٹیم اس سلسلے میں بنیادی تنظیم ہے اور 2006 میں بنائی گئی۔ اس کے ذمے مقامی نیٹ ورکوں کو بیرونی حملوں سے بچانے کے علاوہ مقامی سطح پر پیدا ہونے والے خطرات کا توڑ بھی شامل ہیں۔
معیشت[size=18][ترمیم][/size]
یورپی یونین کا رکن ہونے کی حیثیت سے اسٹونیا کی معیشت عالمی بینک کی نظر میں امیر شمار ہوتی ہے۔ تیز رفتار ترقی کی وجہ سے اسے بالٹک ٹائیگر کہتے ہیں۔ یکم جنوری 2011 سے اسٹونیا نے یورو کو بطور کرنسی اپنا لیا ہے اور یورو زون کی 17ویں معیشت بن گیا ہے۔
15 نومبر 2010 کو چھپنے والی یورو سٹیٹ کی رپورٹ کے مطابق یورپی یونین میں حکومتی قرضوں کی شرح ملکی آمدنی کے اعتبار سے سب سے کم ہے۔
متوازن بجٹ، نہ ہونے کے برابر عوامی قرضے، یکساں شرحِ انکم ٹیکس، فری ٹریڈ، بینکاری کے شعبے میں مقابلے، نت نئی ای سروسز کے علاوہ موبائل فون پر استعمال ہونے والی خدمات اسٹونیا کی معیشت کے اہم ستون ہیں۔
اسٹونیا توانائی کے حوالے سے تقریباً خود مختار ہے۔ اپنی بجلی کا 90 فیصد سے زیادہ حصہ اپنے معدنی ذرائع سے پورا کرتا ہے۔ لکڑی وغیرہ بجلی کا 9 فیصد حصہ پیدا کرنے کے کام آتا ہے۔ تیل اور اس سے متعلقہ مصنوعات یورپ اور روس سے آتے ہیں۔ معدنی ذرائع سے بجلی پیدا کرنا، مواصلات، ٹیکسٹائل، کیمیکل مصنوعات، بینکاری، خدمات، خوراک اور ماہی گیری، لکڑی، جہاز سازی، الیکٹرانکس اور نقل و حمل مقامی معیشت کے اہم ترین جزو ہیں۔ ٹالِن کے پاس موجود مُوگا کی بندرگاہ سارا سال برف سے پاک رہتی ہے۔ یہاں سامان کی نقل و حمل اور ذخیرے کے لئے بے شمار سہولیات موجود ہیں۔ ریل روڈ مغرب، روس اور مشرق کے درمیان پُل کا کام دیتا ہے۔
اسٹونیا پر سوئیڈن، فن لینڈ اور جرمنی کی ترقی کا گہرا اثر ہے۔ حکومت نے حال ہی میں ایجادات پر سرمایہ کاری کی ہے۔ اسٹونین وزیرِ اعظم کے مطابق 2022 تک اسٹونیا کی معیشت کو وہ یورپی یونین کی پانچ بڑی معیشتوں تک لانا چاہتے ہیں۔
یورو سٹیٹ ڈیٹا کے مطابق اسٹونیا کی کل ملکی آمدنی یورپی یونین کی اوسط کا 67 فیصد ہے۔ 2010 کی چوتھی سہ ماہی میں اسٹونیا کی اوسط تنخواہ 785 یورو تھی۔
تاہم مختلف علاقوں سے ہونے والی آمدنی مختلف ہوتی ہے۔ کل ملکی آمدنی کا نصف سے زیادہ حصہ دارلحکومت ٹالِن سے وصول ہوتا ہے۔
اسٹونیا کی معیشت کی تاریخ[size=18][ترمیم][/size]
1929 میں اسٹونیا میں مستحکم کرنسی کرون کو ملک کے مرکزی بینک یعنی بینک آف اسٹونیا نے جاری کیا۔ تجارت کا مرکز مغرب بالخصوص جرمنی اور برطانیہ تھے۔ کل تجارت کا 3 فیصد روس سے ہوتا تھا۔
دوسری جنگِ عظیم سے قبل اسٹونیا ایک زرعی ملک تھا جہاں مکھن، دودھ اور پنیر وغیرہ مغربی مارکیٹ میں مشہور تھے۔ 1940 میں روس نے اسٹونیا پر زبردستی قبضہ کیا اور پھر نازی جرمنی اور روس کی چپقلش کی وجہ سے اسٹونیا کی معیشت خسارے کا شکار رہی۔ جنگ کے بعد روس نے اسٹونیا کی معیشت اور صنعت کو اپنے لئے استعمال کیا۔
آزادی دوبارہ پانے کے بعد اسٹونیا نے خود کو مشرق اور مغرب کے درمیان رابطے کا ذریعہ بنایا۔ اس کے علاوہ معیشت میں بنیادی اصلاحات کے علاوہ معیشت کو مغرب سے ہم آہنگ کرنے کی کوششیں کیں۔ 1994 میں اسٹونیا دنیا کے ان پہلے ممالک میں شامل ہو گیا جہاں یکساں شرح ٹیکس عائد ہے۔ ذاتی آمدنی سے قطع نظر ٹیکس کی شرح 26 فیصد رکھی گئی ہے۔ جنوری 2005 میں یہ شرح 24 فیصد اور پھر جنوری 2008 میں 21 فیصد کر دی گئی۔ 2004 میں اسٹونیا کی حکومت نے یورو کے سکوں کی بناوٹ کا فیصلہ کر لیا۔ یکم جنوری 2011 سے اسٹؤنیا میں یورو کا استعمال شروع ہو گیا ہے۔ اگرچہ یورو زون میں اسٹونیا غریب ترین ملک شمار ہوتا ہے اور اس کی آمدنی کل یورو زون کی آمدنی کا 0.2 فیصد ہے تاہم اس کے بجٹ کے خسارے اور قرضوں کی مقدار پورے گروپ میں سب سے کم ہے۔
ذرائع[size=18][ترمیم][/size]
اگرچہ اسٹؤنیا میں خام مال کی شدید قلت ہے پھر بھی چھوٹے چھوٹے ذرائع بکثثرت ہیں۔ ملک میں معدنی تیل اور چونے کے بڑے ذخائر ہیں۔ جنگلات کل رقبے کے نصف سے زیادہ پر پھیلے ہوئے ہیں۔ معدنی تیل اور چونے کے علاوہ یہاں فاسفورائٹ، پچ بلنڈ اور گرینائٹ بھی پائے جاتے ہیں۔ تاہم ان کی کان کنی ابھی شروع نہیں کی گئی۔
حالیہ برسوں میں عوام اس بات پر بحث کر رہی ہے کہ آیا 2016 میں ناروا کے ایٹمی بجلی گھر کے بند ہونے سے قبل دیگر ایٹمی بجلی گھر بنائے یا نہین۔
صنعت اور ماحول[size=18][ترمیم][/size]
اسٹونیا کی صنعت میں خوراک، تعمیرات اور الیکٹرانکس کی صنعتیں اہم ترین ہیں۔ 2007 میں تعمیرات کی صنعت میں 80٫000 سے زیادہ افراد کام کرتے ہیں جو کل ملکی ورک فورس کا 12 فیصد ہے۔ مشینری اور کیمیکل کی صنعتیں بھی اہم ہیں۔
معدنی تیل کے حوالے سے کان کنی کی صنعت جو مشرقی حصے میں موجود ہے، ملکی بجلی کا 90 فیصد سے زیادہ پیدا کرتی ہے۔ تاہم معدنی تیل کے بکثرت استعمال سے ماحول کو سخت نقصان پہنچا ہے۔
توانائی اور اس کی پیدوار کے حوالے سے اسٹونیا خود کفیل ہے۔ حالیہ برسوں میں مقامی اور غیر ملکی کمپنیاں قابلِ تجدید ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کے لئے سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔
اس وقت ناروا کے ایٹمی بجلی گھر کے مختلف حصوں کی مرمت اور نئے بجلی گھروں کی تعمیر کی بجائے معدنی تیل پر زیادہ توجہ دی جا رہی ہے۔
اسٹونیا انفارمیشن ٹیکنالوجی کے حوالے سے بہت مضبوط ہے۔ ای گورنمنٹ کے حوالے سے اسٹونیا یورپ بھر میں سب سے آگے ہے۔
سکائپ اور کازا پروگرام اسٹونین ماہرین نے لکھے تھے۔
تجارت[size=18][ترمیم][/size]
1990 کی دہائی کے اواخر سے اسٹونیا کی معیشت مارکیٹ بیسڈ ہے اور مشرقی یورپ میں فی کس آمدنی کی شرح بلند ترین شرحوں میں سے ہے۔ سکینڈے نیوین مارکیٹوں کے نزدیک ہونے، مغرب اور مشرق کے درمیان واقع ہونے، مقابلے کی وجہ سے کم لاگت اور بہتر ہنرمند افراد کی وجہ سے اسٹونیا کی مارکیٹ زیادہ فائدے میں ہے۔ ٹالِن سب سے بڑا شہر ہونے کے علاوہ معاشی مرکز بھی ہے۔ حکومت کی مالیاتی پالیسیاں نسبتاً مستحکم اور متوازن بجٹ اور کم قرضے ہیں۔
تاہم 2007 میں بجٹ کے خسارے اور افراطِ زر کی وجہ سے اسٹونیا کی کرنسی پر دباؤ پڑا جس سے برآمدی صنعتوں کی اہمیت اُجاگر ہوئی ہے۔ اسٹونیا زیادہ تر مشینری و آلات، کاغذ اور لکڑی، ٹیکسٹائل، خوراک، فرنیچر اور دھاتی اور کیمیکل اشیاء برآمد کرتا ہے۔ سالانہ اسٹونیا 1.562 ارب کلو واٹ آور مقدار میں بجلی بھی برآمد کرتا ہے۔ تاہم اس کے ساتھ اسٹونیا مشینری و آلات، کیمیکل مصنوعات، ٹیکسٹائل، خوراک اور ذرائع نقل و حمل بھی بھی ملک میں منگواتا ہے۔ سالانہ 20 کروڑ کلو واٹ آور جتنی بجلی بھی ملک میں درآمد ہوتی ہے۔
2007 تا 2013 اسٹونیا کو یورپی یونین کے اراکین سے 3.4 ارب یورو جتنی امداد ملنی ہے۔ اس مالی امداد کو توانائی، انٹر پرینیور شپ، انتظامی صلاحیتوں، تعلیم، انفارمیشن سوسائٹی، ماحولیاتی تحفظ، علاقائی اور مقامی خدمات، تحقیق اور ترقی، صحت اور بہبودِ عامہ، نقل و حمل اور لیبرمارکیٹ میں استعمال کیا جانا ہے۔
نقل و حمل[size=18][ترمیم][/size]
قرونِ وسطٰی سے ہی اسٹونیا اہم تجارتی گذرگاہ رہا ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے اور بہتر ہوتے ہوئے بنیادی ڈھانچے کی وجہ سے تجارتی سامان کی آسان اور سستی منتقلی وغیرہ بہت پر کشش ہیں۔ سامان کی نقل و حمل میں ریلوے کل سامان کا 70 فیصد سے زیادہ حصہ منتقل کرتی ہے۔ تاہم 2007 سے روس اور اسٹونیا کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی سے نقل و حمل کم ہوئی ہے۔
[font:a363='Jameel Noori Nastaleeq','Alvi Lahori Nas
اسٹونیا میں 11000 سے 13000 سال قبل برفانی دور کے اختتام پر انسان آباد ہونے لگے۔ اسٹونیا میں سب سے پرانی آبادی پُلی آبادی تھی جو دریائے پیرنُو پر سنڈی کے قصبے کے ساتھ واقع تھی۔ یہ جگہ جنوب مغربی اسٹونیا میں واقع ہے۔ ریڈیو کاربن ڈیٹنگ سے پتہ چلا ہے کہ یہ آبادی 11000 سال قبل تھی۔
اس بات کے بھی ثبوت ملے ہیں کہ 6500 ق م قبل شمالی اسٹونیا میں کنڈا کے قصبے کے پاس شکار اور ماہی گیری ہوتی رہی تھی۔ یہاں موجود ہڈیوں اور پتھروں کے اوزار اسٹونیا اور لٹویا کے دیگر حصوں کے علاوہ شمالی لتھوانیا اور جنوبی فن لینڈ میں بھی ملے ہیں۔ کنڈا ثقافت قرونِ وسطٰی سے تعلق رکھتے ہیں۔
تانبے کے دور کے اواخر اور لوہے کے دور کے آغاز میں بڑے پیمانے پر ثقافتی تبدیلیاں آئیں۔ سب سے اہم تبدیلی کاشتکاری کی ابتداء تھی جو بعد میں اسٹونیا کی معیشت اور ثقافت کی بنیاد بنی۔ پہلی سے پانچویں صدی عیسوی میں مستقل بنیادوں پر کاشتکاری شروع ہو گئی تھی۔ آبادی میں اضافہ ہوا اور بستیاں پھیلنے لگیں۔ رومن سلطنت سے ثقافتی اثرات اسٹونیا میں پہنچے۔
موجودہ اسٹونیا میں آباد لوگوں کے بارے پہلا تذکرہ ہمیں رومن تاریخ دان ٹیسی ٹس کی کتاب جرمینیا سے ملتا ہے۔ اسی کتاب میں ہی اسٹونین زبان کا ایک لفظ استعمال ہوا ہے جو اس زبان کا قدیم ترین حوالہ ہے۔ قرونِ وسطٰی کے اپنے جنگی مسائل کے علاوہ بیرونی حملہ آور بالٹک قبائل سے آنے لگے جو جنوبی سرحد اور سمندر پار سے حملہ آور ہوتے تھے۔ استونین قذاقوں نے وائکنگ دور میں حملے شروع کئے۔
پہلی صدی عیسوی میں سیاسی اور انتظامی ڈھانچہ بننے لگا۔ دو بڑی تقسیمیں ہوئیں جن میں زمین اور صوبہ شامل تھے۔ صوبوں میں کئی گاؤں شامل تھے۔ تقریباً ہر صوبے کا اپنا کم از کم ایک قلعہ تھا۔ اعلٰی سرکاری افسر صوبے کے دفاع کا ذمہ دار تھا جو بادشاہ کو جواب دہ تھا۔
قرونِ وسطٰی[size=18][ترمیم][/size]
13ویں صدی کے آغاز میں ایک مقامی سردار نے 6٫000 جوانوں کی مدد سے غیر ملکی افواج کو نکال باہر کرنے اور ملک کو متحد کرنے کی ٹھانی لیکن بعد ازاں ستمبر 1217 میں ایک جنگ میں مارا گیا۔ 1481 اور 1558 میں ماسکو کی حکومت اور زار نے ناکام حملے کئے۔
تشکیلِ نو[size=18][ترمیم][/size]
سرکاری طور پر یورپ کی تشکیلِ نو کا آغاز 1517 مارٹن لوتھر نے کیا۔ اس کا سب سے زیادہ اثر بالٹک علاقوں پر پڑا۔ زبان، تعلیم، مذہب اور سیاست، سب ہی بڑے پیمانے پر تبدیل ہوئے۔ چرچ کی خدمات اب مقامی زبان میں مہیا کی جانے لگیں۔ 1561 کی لیونین جنگ کے دوران شمالی اسٹونیا پر سوئیڈن کا قبضہ ہو گیا۔ 1629 میں سارا اسٹونیا ہی سوئیڈن کے قبضے میں آ گیا۔
1631 میں بادشاہ گستاف دوئم اڈولف نے اشرافیہ کو مجبور کیا کہ وہ کسانوں کو زیادہ حقوق دیں۔ 1632 میں چھاپہ خانہ اور ایک یونیورسٹی بھی یہاں ترتُو کے قصبے میں بنیں۔ اس دور کو "دی گڈ اولڈ سوئیڈش ٹائم" کہا جاتا ہے۔
1657 میں طاعون کی وباء پھیلنے تک یہاں آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوتا رہا تھا۔ 1695 تا 1697 کے قحط میں تقریباً 70٫000 افراد ہلاک ہوئے جو کل آبادی کا پانچواں حصہ تھے۔
روسی سلطنت کا اسٹونیا[size=18][ترمیم][/size]
عظیم شمالی جنگ کے دوران اسٹونیا اور لیونیا نے ہتھیار ڈال دیئے اور سوئیڈش بادشاہ نے اسٹونیا کو روس کے حوالے کر دیا۔ تاہم اشرافیہ وغیرہ زیادہ تر بالٹک جرمن ہی رہے۔ جنگ کی وجہ سے اسٹونیا کی آبادی بہت گھٹ گئی تھی۔ تاہم جنگ کے بعد دوبارہ تیزی سے بڑھی۔ 1917 کے روسی انقلاب کے بعد 24 فروری 1918 تک ٹالِن پر روسی افواج کا قبضہ رہا۔ اس کے بعد اسٹونیا نے آزادی کا اعلان کر دیا۔
اعلانِ آزادی[size=18][ترمیم][/size]
جبری مزدوری کے خاتمے اور مقامی اسٹونین زبان میں تعلیم کے حصول سے قوم پرستی کی تحریک 19ویں صدی میں شروع ہوئی۔ اس کی ابتداء ثقافتی طور پر ہوئی۔ نتیجتاً اسٹونین زبان میں ادب، تھیٹر اور موسیقی شروع ہوئی اور اسٹونین قومی شناخت بنی۔ اسے بیداری کا دور بھی کہتے ہیں۔
1869 میں پہلا قومی گیت میلہ منعقد ہوا۔ روس کے بڑھتے ہوئے اثرات کے خلاف پہلے پہل تو دانشوروں نے خود مختاری اور بعد ازاں مکمل آزادی کا مطالبہ کیا۔
1917 کے انقلاب کے بعد جب روس پر بالشویک لوگوں نے قبضہ کیا اور جرمن فوج نے روس کے خلاف کامیابیاں حاصل کیں تو 23 فروری 1918 کو پیرنُو اور 24 فروری کو ٹالِن میں آزادی کا اعلان کر دیا۔
روس کے خلاف اسٹونیا کی جنگِ آزادی میں کامیابی کے بعد ترتُو کا معاہدہ ہوا۔ جمہوریہ استونیا کو 7 جولائی 1920 میں فن لینڈ، ارجنٹائن نے 12 فروری 1921 اور مغربی اتحادی افواج نے 26 جنوری 1921 میں تسلیم کیا۔
اسٹونیا کی آزادی 22 سال تک قائم رہی۔
اسٹونیا اور جنگِ عظیم دوم[size=18][ترمیم][/size]
دوسری جنگِ عظیم دوم میں جب جرمنی اور روس نے عدم جارحیت کا معاہدہ کیا تو اسٹونیا کی قسمت پر مہر ثبت ہو گئی۔ دوسری جنگِ عظیم میں اسٹونیا کی چوتھائی آبادی موت کے گھاٹ اتر گئی۔ دوسری جنگِ عظیم کی ابتداء میں اسٹونیا کے اہم علاقائی اتحادی پولینڈ پر نازی جرمنی اور روس نے مل کر قبضہ کر لیا۔
روسی حملہ اور قبضہ[size=18][ترمیم][/size]
دوسری جنگِ عظیم کی ابتداء سے قبل ہی ہٹلر اور سٹالن نے فیصلہ کیا کہ مشرقی یورپی کو خصوصی تعلق کے علاقوں میں تقسیم کیا جائے۔ جرمنی اور روس کے عدم جارحیت کا معاہدہ کیا
24 ستمبر 1939 کو روسی فوج کے بحری بیڑے نے اسٹونیا کی بندرگاہوں اور روسی بمبار طیاروں نے ٹالِن اور آس پاس کے علاقوں پر بمباری کی۔ اسٹونیا کی حکومت نے مجبور ہو کر روس کو اس بات کی اجازت دی کہ وہاں "باہمی دفاع" کے لئے 25٫000 فوجی روس کے اڈوں میں رکھے جائیں۔ 12 جون 1940 کو روسی افواج کو حکم ملا کہ ہر طرح سے اسٹونیا کی ناکہ بندی کر دی جائے۔
14 جون 1940 کو روس نے اسٹونیا کی فوجی ناکہ بندی کر لی۔ روس کے دو فوجی بمبار طیاروں نے فنِنش مسافر بردار طیارے کو تباہ کر دیا جس میں ٹالِن، ریگا اور ہیلسنکی میں متعین امریکی سفارتی عملے موجود تھے۔ 16 جون 1940 کو اسٹونیا میں موجود روسی فوج اپنے اڈوں سے باہر نکل آئی اور اگلے دن مزید 90٫000 روسی فوجی اسٹونیا میں داخل ہو گئے۔ اسٹونیا کی حکومت نے خون خرابے سے بچنے کے لئے ہتھیار ڈال دیئے۔
21 جون 1940 کو اسٹونیا پر فوجی قبضہ مکمل ہو چکا تھا۔
اسٹونیا کی زیادہ تر افواج نے حکومت کے حکم پر ہتھیار ڈال دیئے لیکن ایک خود مختار سگنل بٹالین نے ٹالِن میں لڑائی جاری رکھی۔ تاہم دن ڈھلنے پر مذاکرات کے بعد انہوں نے بھی ہتھیار ڈال دیئے۔
اگست 1940 میں غیر قانونی طور پر اسٹونیا کو روس میں شامل کر دیا گیا۔ اسٹونیا کے آئین میں درج شق جس کے تحت کسی بڑے ملک میں شمولیت کے لئے اسٹونین باشندوں کا ریفرنڈم ہونا ضروری ہے، کو نظر انداز کر دیا گیا۔ اس کی بجائے ایک ماہ قبل ہونے والے فرضی انتخابات کو بنیاد بنایا گیا۔ ایسے سیاست دان جنہوں نے روس میں شمولیت کے لئے ووٹ نہ دیا تھا، کو روسی فوجی عدالتوں نے سزائے موت دے دی۔
جب جرمنی نے روس کے خلاف آپریشن باربروسا شروع کیا تو تقریباً 34٫000 اسٹونین نوجوانوں کو زبردستی روسی فوج میں شامل کر دیا گیا۔ ایک تہائی سے بھی کم افراد جنگ میں زندہ بچے۔ جو سیاسی قیدی نہ نکالے جا سکے، انہیں روسیوں نے قتل کر دیا گیا۔
کئی ممالک بشمول امریکہ نے اسٹونیا کی روس میں شمولیت کو قبول نہ کیا۔ ایسے ممالک نے اپنے ہاں موجود اسٹونین سفارتی عملے کی حیثیت برقرار رکھی۔
روس کے جدید سیاستدان اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ روس نے اسٹونیا پر غیر قانونی قبضہ کیا تھا۔ ان کے بقول روس نے اسٹونین حکومت کی منظوری سے فوج ادھر بھیجی تھی۔ ان کے بقول اسٹونیا نے رضاکارانہ طور پر اپنی آزاد حیثیت کو ختم کیا تھا۔ آزادی کی جد و جہد کرنے والے افراد کو روسیوں نے مجرم اور نازی کہا۔ تاہم روسی نقطہ نظر کو بین الاقوامی حمایت حاصل نہیں۔
جرمن قبضہ[size=18][ترمیم][/size]
22 جون 1941 میں روس پر حملے کے دوران چند ہی دنوں میں جرمن افواج اسٹونیا تک پہنچ گئیں۔ جرمن فوج نے 7 جولائی کو اسٹونیا کی جنوبی سرحد عبور کی۔ روسی افواج پیرنُو کے دریا تک پیچھے ہٹ گئیں۔ جولائی کے اختتام پر جرمن فوج نے اسٹونین چھاپہ ماروں کے ساتھ پیش قدمی دوبارہ شروع کر دی تھی۔ 17 اگست کو جرمن اور اسٹونین افواج نے ناروا کا شہر واپس لے لیا اور 28 اگست کو اسٹونیا کا دارلحکومت ٹالِن بھی روس کے ہاتھ سے نکل گیا۔ روسی افواج کے انخلاء کے بعد روسی افواج نے تمام اسٹونین افراد سے ہتھیار رکھوا لئے۔
اگرچہ ابتداء میں اسٹونین لوگوں نے جرمن افواج کو اپنا نجات دہندہ سمجھا اور انہیں اسٹونیا کی آزادی سامنے دکھائی دینے لگی لیکن جلد ہی احساس ہو گیا کہ جرمن انہیں آزادی دلانے نہیں بلکہ ان پر قبضہ کرنے آئے ہیں۔ جرمنوں نے اسٹونیا کے وسائل کو اپنی جنگ کے لئے استعمال کیا۔
نازیوں سے بد دل ہو کر بہت سارے اسٹونین افراد نے فِننش افواج میں شمولیت اخیتار کر لی۔ فِننش انفینٹری رجمنت نمبر 200 انہی اسٹونین رضاکاروں سے بنائی گئی تھی۔ اگرچہ کچھ اسٹونین افراد جرمن افواج میں شامل ہو چکے تھے لیکن ان کی اکثریت نے جرمن فوج میں 1944 میں شمولیت اختیار کی جب اسٹونیا پر روس کے ایک اور حملے کا وقت آ چکا تھا اور اسٹونین جان چکے تھے کہ جرمنی یہ جنگ نہیں جیت سکتا۔
جنوری 1944 میں محاذِ جنگ کو اسٹونیا کی سابقہ سرحدوں تک واپس دھکیل دیا گیا تھا۔ ناروا کو خالی کر دیا گیا۔ روسی قبضے سے قبل اسٹونیا کے آخری وزیرِ اعظم نے اب اعلان کیا کہ 1904 سے 1923 کے درمیان پیدا ہونے والے تمام صحت مند افراد فوج میں شمولیت اختیار کریں۔ اس سے قبل وزیرِ اعظم اس بات کے خلاف تھے۔ اس پر ہر طرف سے لوگوں نے لبیک کہی اور 38٫000 افراد رجسٹریشن کے مراکز پر پہنچ گئے۔
کئی ہزار فوجی جو فِننش فوج میں بھرتی ہوئے تھے، واپس آ کر اپنی ملکی افواج میں شامل ہو گئے۔ انہیں روسی حملے کے خلاف مزاحمت کے لئے مقرر کیا گیا۔ اندازہ تھا کہ اس طرح مزاحمت کرتے ہوئے اسٹونیا مغربی اقوام کی حمایت حاصل کر کے اپنی آزادی کو پا لے گا۔
روسی اسٹونیا[size=18][ترمیم][/size]
روسی افواج نے 1944 کے خزاں کے دوران خونی لڑائیوں کے بعد ناروا دریا سے شمال مشرق کے رقبے اور دیگر حصوں پر قبضہ کر لیا۔
روسی فوج کی بڑھتی ہوئی جارحیت کے پیشِ نظر اعلٰی تعلیم یافتہ نوجوان ہزاروں کی تعداد میں تھے اور ان کے پاس دو ہی راستے تھے کہ یا تو وہ جرمنوں کے ساتھ فرار ہو جائیں یا پھر فن لینڈ اور سوئیڈن نکل جائیں۔ 12 جنوری 1949 کو روسی وزراء کی کونسل نے اعلان جاری کیا کہ تمام مقامی افراد جو مزاحمت کرتے ہوں، کو ان کے خاندان کے ہمراہ ملک بدر کر دیا جائے۔
اس حکم نامے سے 2٫00٫000 سے زیادہ افراد متائثر ہوئے۔ کل آبادی کے دس فیصد سے زیادہ افراد کو روسی مزدور کیمپوں اور ڈیتھ کیمپوں میں بھیج دیا گیا۔ بڑھتی ہوئی مزاحمت کے پیشِ نظر 20٫000 سے زیادہ افراد کو یا تو بیگار کیمپوں یا سائبیریا بھیج دیا گیا۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد روسیوں کے پیشِ نظر یہ مقصد تھا کہ سارے بالٹک ممالک کو روس میں ضم کر دیا جائے۔ اس سلسلے میں روسیوں کی ان ممالک میں آباد کاری کو ترجیح دی جانے لگی۔ جنگ سے ہونے والے جانی اور مالی نقصانات کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں مقامی لوگوں کو ملک بدر کر دیا گیا۔ یہ سلسلہ 1953 تک جاری رہا اور جوزف سٹالن کی موت کے ساتھ ختم ہوا۔
ملک بدر ہونے والے افراد کی نصف تعداد ماری گئی اور بقیہ افراد کو 1960 کی دہائی سے اوائل میں واپس آنے کی اجازت دی گئی۔ روسیوں کے تسلط کے دوران روس کے خلاف اسٹونین لوگوں نے کئی چھاپہ مار گروہ تشکیل دے دیئے تھے۔ یہ گروہ سابقہ جرمن اور فِننش فوجیوں کے ساتھ ساتھ محدود تعداد میں شہریوں پر بھی مشتمل تھے۔ دوسری جنگِ عظیم اور پھر روسی قبضے کے دوران ہونے والے مالی نقصانات کی وجہ سے اسٹونیا کی معیشت کمزور ہو گئی تھی جس کے نتیجے میں فن لینڈ اور سوئیڈن کی نسبت اسٹونیا کے لوگ بہت غریب ہو گئے۔
مختلف علاقوں کو فوجی قرار دے دینا بھی روسی حکمتِ عملی کا ایک حصہ تھا۔ ملک کے بڑے حصے، خصوصاً ساحلی علاقے صرف فوجیوں کے لئے مخصوص کر دیئے گئے تھے۔ زیادہ تر سمندری ساحل اور سمندری جزیرے بھی سرحدی علاقے قرار دے دیئے گئے تھے۔ ان علاقوں کے غیر رہائشی افراد کو وہاں جانے کے لئے الگ سے اجازت نامے درکار ہوتے تھے۔ سب سے عام مثال پالڈیسکی کا شہر تھا جو عوام کے لئے بالکل بند کر دیا گیا تھا۔ یہ شہر روسی بالٹک بیڑے اور کئی فوجی مراکز کی رسد کا مرکز تھا۔ اس شہر میں ایٹمی آبدوزوں کی تربیت گاہ بھی تھی جہاں ایک اصل آبدوز کی نقل رکھی گئی تھی جس میں اصلی ایٹمی ری ایکٹر بھی موجود تھا۔ 1994 میں روسی افواج کے انخلاء کے بعد یہ ساری سہولیات اسٹونیا کے قبضے میں آ گئی ہیں۔ امیگریشن بھی روسی قبضے کا ایک اہم پہلو تھا۔ ملک کے کونے کونے سے افراد کو خصوصی طور پر اسٹونیا میں لا کر بسایا گیا تھا تاکہ وہ فوجی اور صنعتی حوالے سے روس کی مدد کر سکیں۔ اندازہ ہے کہ 45 سال کے عرصے میں پانچ لاکھ افراد اسٹونیا بھیجے گئے تھے۔
آزادی کے بعد[size=18][ترمیم][/size]
امریکہ، برطانیہ، اٹلی اور مغربی ممالک کی اکثریت نے اسٹونیا کے روس میں انضمام کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔ انہوں نے آزاد اسٹونیا کے سفارت کاروں کا درجہ بحال رکھا اور روسی قبضے میں جانے والے اسٹونیا کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ جب روس کے اندرونی نظام میں بگاڑ پیدا ہوا تو اسٹونیا کی آزادی کے امکانات پیدا ہو گئے۔ 1980 کی دہائی کے گذرنے کے ساتھ ساتھ اسٹونیا کی آزادی کی تحریک زور پکڑتی گئی۔ 1987 سے 1989 میں یہ تحریک زیادہ تر معاشی آزادی کے لئے تھی۔ تاہم کمزور ہوتے ہوئے روس کی وجہ سے ملک کی مکمل آزادی کا مطالبہ زور پکڑتا گیا۔
1989 میں گانوں کا انقلاب یعنی سنگنگ ریولوشن منعقد ہوا۔ یہ تاریخی واقعہ آزادی کے سفر میں اہم تھا۔ اسے بالٹک وے بھی کہا گیا۔ بیس لاکھ سے زیادہ افراد نے لتھوانیا، لٹویا اور اسٹونیا سے اس میں حصہ لیا۔ تینوں ریاستوں کو ایک ہی جیسے حالات کا سامنا تھا اور تینوں پر ہی روس کا ہی قبضہ رہا تھا۔ اسٹونیا کی خود مختاری کا اعلان 16 نومبر 1988 کو کیا گیا جب ماسکو میں فوجی بغاوت ہوئی۔ روس نے 6 ستمبر 1991 کو اسٹونیا کو تسلیم کر لیا۔ 31 اگست 1994 کو آخری فوجی اسٹونیا سے نکل گیا۔ آئس لینڈ سفارتی سطح پر اسٹونیا کی آزادی تسلیم کرنے والا پہلا ملک بنا۔
یورپی یونین میں ہونے والی 2004 کی توسیع یونین کی تاریخ کی سب سے بڑی توسیع تھی۔ یہ توسیع نہ صرف رقبے اور آبادی بلکہ دولت کے اعتبار سے بھی سب سے بڑی تھی۔ یکم مئی 2004 کو جو دس ملک یورپی یونین کا حصہ بنے، اسٹونیا ان میں سےا یک تھا۔
جغرافیہ[size=18][ترمیم][/size]
اسٹونیا کی سرحد لٹویا کے ساتھ تقریباً 267 کلومیٹر طویل ہے۔ روس کے ساتھ سرحد 290 کلومیٹر لمبی ہے۔ تاہم آج بھی روس اور اسٹونیا کے درمیان سرحد کا واضح تعین نہیں۔
اسٹونیا بحیرہ بالٹک کے مشرقی ساحل پر خلیج فن لینڈ کے پار موجود ہے۔ اسٹونیا کی اوسط بلندی تقریباً 50 میٹر ہے تاہم ملک کا بلند ترین مقام 318 میٹر اونچا ہے۔ بے شمار خلیجیں، کھاڑیاں وغیرہ ملا کر کل ساحل تقریباً 1٫500 کلومیٹر طویل ہے۔ اسٹونیا میں دو جزیرے اتنے بڑے ہیں جو خود سے الگ ملک بن سکتے ہیں۔ انہی میں سے ایک میں شہابِ ثاقب کے گرنے سے بننے والی کھائیاں موجود ہیں۔
اسٹونیا میں چار الگ الگ موسم ہوتے ہیں۔ جولائی کا اوسط درجہ حرارت 16.3 سے 18.1 ڈگری رہتا ہے۔ سب سے زیادہ بارش بھی اسی ماہ ہوتی ہے۔ فروری میں اوسط کم سے کم درجہ حرارت منفی 7.6 ڈگری رہتا ہے۔ سالانہ اوسط درجہ حرارت 5.2 ڈگری رہتا ہے۔ 1961 تا 1990 سالانہ بارش کی اوسط 535 تا 727 ملی میٹر رہی ہے۔
بالعموم وسط دسمبر سے مارچ کے آخر تک ساری زمین برف سے ڈھکی رہتی ہے۔ اسٹونیا میں 1٫400 جھیلیں ہیں۔ ان کی اکثریت بہت چھوٹی ہیں تاہم سب سے بڑی جھیل کا رقبہ 3٫555 مربع کلومیٹر ہے۔ اسٹونیا میں بہت سارے دریا بھی موجود ہیں جن میں سے وہنڈو نامی دریا 162 کلومیٹر طویل ہے۔ اس کے علاوہ یہاں دلدلیں بھی پائی جاتی ہیں۔
انتظامی تقسیم[size=18][ترمیم][/size]
ماکُنڈ سب سے بڑی انتظامی تقسیم ہے۔ اسے انگریزی میں کاؤنٹی بھی کہتے ہیں۔ کاؤنٹی کی حکومت پر کاؤنٹی کا گورنر ہوتا ہے جو قومی حکومت کی نمائندگی کرتا ہے۔ گورنر کو وفاقی حکومت پانچ سال کی مدت کے لئے مقرر کرتی ہے۔
اسٹونیا میں کل 15 کاؤنٹیاں ہیں۔ ہر کاؤنٹی مزید بلدیوں میں منقسم ہوتی ہے۔ بلدیہ یا تو شہری ہوتی ہے یا دیہاتی۔
ہر بلدیہ میں ایک یا ایک سے زیادہ آبادیاں ہوتی ہیں۔ کچھ شہری بلدیوں کو اضلاع میں تقسیم کرتے ہیں۔ مثلاً ٹالِن میں آٹھ اضلاع ہیں۔
بلدیہ کی آبادی میں بہت فرق ہوتا ہے۔ مثلاً ٹالِن میں 4٫00٫000 جبکہ رُہنُو میں 60 افراد رہتے ہیں۔ دو تہائی سے زیادہ بلدیوں کی آبادی 3٫000 سے کم ہے۔ مارچ 2008 میں اسٹونیا میں کل 227 بلدیہ جات تھیں۔ ان میں سے 33 شہری جبکہ 193 دیہاتی ہیں۔
سیاست[size=18][ترمیم][/size]
پارلیمانی نمائندہ جمہوریت کے بیان کردہ اصولوں کے مطابق اسٹونیا میں سیاست کام کرتی ہے۔ وزیرِ اعظم حکومت کا سربراہ ہوتا ہے اور کثیر الجماعتی سیاسی نظام ہے۔
پارلیمان[size=18][ترمیم][/size]
اسٹونیا کی پارلیمان چار سال کے عرصے کے لئے عام انتخابات سے چنی جاتی ہے۔ اسٹونیا کا سیاسی نظام 1992 کے آئین کے مطابق کام کرتا ہے۔ پارلیمان میں کل 101 اراکین ہوتے ہیں اور حکومت کی پالیسیوں کا زیادہ تر انحصار قومی آمدن اور اخراجات کے تناسب سے ہوتا ہے۔
اسٹونیا کی پارلیمان ملکی اعلٰی عہدے داروں کا تقرر کرتی ہے۔ ان میں ملک کا صدر بھی شامل ہے۔ مزید برآں یہ اسمبلی صدر کے مشورے سے مرکزی بینک کے چیئرمین، آڈیٹر جنرل، لیگل چانسلر اور مسلح افواج کے کمانڈر ان چیف وغیرہ کا تعین کرتی ہے۔عوام کی طرف سے اسمبلی کے اراکین حکومت سے مختلف امور پر وضاحت طلب کر سکتے ہیں۔
حکومت[size=18][ترمیم][/size]
اسٹونیا میں حکومت کا تقرر وزیرِ اعظم صدر کے مشورے سے کرتا ہے اور اس کی توثیق پارلیمان سے ہوتی ہے۔ حکومت کے پاس آئین کے تحت انتظامی اختیارات ہوتے ہیں۔ حکومت میں وزیرِ اعظم سمیت کل 12 وزراء ہوتے ہیں۔ وزیرِ اعظم حکومتی وزراء اور ان کے محکموں کا تعین کرتا ہے۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ وزیر کے پاس کوئی محکمہ نہ ہو۔
بغیر محکمے والے وزراء زیادہ سے زیادہ تین ہو سکتے ہیں اور وزراء کی کل تعداد 15 سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔ اسے وفاقی کابینہ بھی کہتے ہیں۔ کابینہ کا کام اندرونی اور خارجہ پالیسیوں کو حکومت کی مرضی کے مطابق تشکیل دینا، حکومتی اداروں کے کام کی دیکھ بھال اور اپنے اختیارات میں آنے والے تمام فرائض کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ کابینہ کا سربراہ وزیرِ اعظم ہوتا ہے جو حکومت کے فیصلوں کا ذمہ دار ہوتا ہے۔
اسٹونیا ای گورنمنٹ اور ای سٹیٹ کے لئے کوشاں ہے۔ انٹرنیٹ کی مدد سے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا عمل 2005 میں شروع ہو چکا ہے۔
قانون[size=18][ترمیم][/size]
اسٹونیا کے آئین کے مطابق اصل اختیارات عوام کے پاس ہوتے ہیں۔ عوام اس اختیار کو استعمال کرتے ہوئے اپنے پارلیمانی نمائندے مقرر کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے پاس جوڈیشل طاقت ہوتی ہے جس میں کل 19 جج ہوتے ہیں۔چیف جسٹس کو صدر کی ہدایت پر 9 سال کے لئے مقرر کیا جاتا ہے۔ کسی بھی قانون کی منظوری کے لئے ملک کے سربراہ یعنی صدر کے دستخط لازمی ہوتے ہیں۔ صدر کے پاس کسی قانون کو مسترد کرنے اور نئے قوانین متعارف کرانے کے اختیارات ہوتے ہیں۔
عموماً صدر ان اختیارات کو استعمال نہیں کرتا اور صدر کا عہدہ محض نمائشی ہوتا ہے۔ صدر کو پارلیمان کی دو تہائی اکثریت سے چُنا جاتا ہے۔
خارجہ تعلقات[size=18][ترمیم][/size]
22 ستمبر 1921 سے اسٹونیا لیگ آف نیشن کا رکن ہے اور اقوامِ متحدہ کی رکنیت 17 ستمبر 1991 سے شروع ہوئی ہے۔ 29 مارچ 2004 سے اسٹونیا ناٹو کا بھی رکن ہے۔ یکم مئی 2004 سے اسٹونیا یورپی یونین کا حصہ ہے۔
آزادی پانے کے بعد اسٹونیا نے اپنے مغربی یورپی ہمسائیوں کی طرف جھکاؤ والی خارجہ پالیسی بنائی ہے۔ اسی سلسلے کے دو اہم ترین اقدامات یورپی یونین اور ناٹو میں شمولیت تھے۔ ساتھ ہی ساتھ اسٹونیا کے تعلقات روس سے کم ہوتے جا رہے ہیں۔
اسٹونیا کی خارجہ پالیسی کے اس اہم موڑ میں نارڈک ممالک بالخصوص فن لینڈ اور سوئیڈن کا بھی عمل دخل ہے۔ سوئیڈن، ڈنمارک بالخصوص فن لینڈ کے ساتھ تاریخی تعلقات کی بنیاد پر اسٹونیا خود کو بالٹک ریاستوں کی بجائے نارڈک ریاست سمجھتا ہے۔
2005 میں اسٹونیا نے یورپی یونین کے نارڈک بیٹل گروپ میں شمولیت اختیار کی۔ نارڈک کونسل میں شامل ہونے کے لئے اسٹونیا کی کوششیں کسی سے مخفی نہیں۔ 1992 تک اسٹونیا کی بین الاقوامی تجارت کا 92 فیصد حصہ روس کے ساتھ تھا۔ آج اسٹونیا کی زیادہ تر بین الاقوامی تجارت نارڈک ممالک کے ساتھ ہے۔ تاہم اسٹونیا کا سیاسی نظام، انکم ٹیکس کی یکساں شرح اور غیر فلاحی ریاست ہونا نارڈک ممالک کرتا ہے۔
فوج[size=18][ترمیم][/size]
اسٹونیا کی افواج بری، بحری اور ہوائی فوج کے علاوہ پیرا ملٹری نیشنل گارڈوں پر مشتمل ہے۔ دفاعی پالیسی میں ملک کی آزادی اور سرحدوں کا دفاع، ریاستی بحری اور فضائی اور آئینی حدود تحفظ شامل ہیں۔ اس وقت ملک کے تحفظ کے ساتھ ساتھ ایسی فوج کی تیاری بھی جاری ہے جو ناٹو اور یورپی یونین کے اراکین ممالک کی افواج کے ساتھ مل کر کام کر سکیں۔
اس وقت قومی سطح پر 18 سے 28 سال کی عمر میں فوجی تربیت لازمی ہے جو 8 سے 11 ماہ پر محیط ہو سکتی ہے۔ اس وقت اسٹونیا اپنی قومی آمدنی کا دو فیصد حصہ اپنے دفاع پر خرچ کرتا ہے۔
جنوری 2008 میں اسٹونیا کے 300 فوجی کوسوو، افغانستان، عراق، بوسنیا و ہرزیگوینیا اور اسرائیل میں گولان کی پہاڑیوں پر تعینات ہیں۔
حالیہ برسوں میں وزارتِ دفاع اور مسلح افواج سائبر وار فئیر پر بھی کام کر رہی ہیں۔ 2007 میں ہونے والے سائبر حملوں کے بعد اسٹونیا کی ای ملٹری تشکیل دی گئی جو ملکی سائبر ڈھانچے کے دفاع کا کام کرتی ہے۔ کمپیوٹر ایمرجنسی ریسپانس ٹیم اس سلسلے میں بنیادی تنظیم ہے اور 2006 میں بنائی گئی۔ اس کے ذمے مقامی نیٹ ورکوں کو بیرونی حملوں سے بچانے کے علاوہ مقامی سطح پر پیدا ہونے والے خطرات کا توڑ بھی شامل ہیں۔
معیشت[size=18][ترمیم][/size]
یورپی یونین کا رکن ہونے کی حیثیت سے اسٹونیا کی معیشت عالمی بینک کی نظر میں امیر شمار ہوتی ہے۔ تیز رفتار ترقی کی وجہ سے اسے بالٹک ٹائیگر کہتے ہیں۔ یکم جنوری 2011 سے اسٹونیا نے یورو کو بطور کرنسی اپنا لیا ہے اور یورو زون کی 17ویں معیشت بن گیا ہے۔
15 نومبر 2010 کو چھپنے والی یورو سٹیٹ کی رپورٹ کے مطابق یورپی یونین میں حکومتی قرضوں کی شرح ملکی آمدنی کے اعتبار سے سب سے کم ہے۔
متوازن بجٹ، نہ ہونے کے برابر عوامی قرضے، یکساں شرحِ انکم ٹیکس، فری ٹریڈ، بینکاری کے شعبے میں مقابلے، نت نئی ای سروسز کے علاوہ موبائل فون پر استعمال ہونے والی خدمات اسٹونیا کی معیشت کے اہم ستون ہیں۔
اسٹونیا توانائی کے حوالے سے تقریباً خود مختار ہے۔ اپنی بجلی کا 90 فیصد سے زیادہ حصہ اپنے معدنی ذرائع سے پورا کرتا ہے۔ لکڑی وغیرہ بجلی کا 9 فیصد حصہ پیدا کرنے کے کام آتا ہے۔ تیل اور اس سے متعلقہ مصنوعات یورپ اور روس سے آتے ہیں۔ معدنی ذرائع سے بجلی پیدا کرنا، مواصلات، ٹیکسٹائل، کیمیکل مصنوعات، بینکاری، خدمات، خوراک اور ماہی گیری، لکڑی، جہاز سازی، الیکٹرانکس اور نقل و حمل مقامی معیشت کے اہم ترین جزو ہیں۔ ٹالِن کے پاس موجود مُوگا کی بندرگاہ سارا سال برف سے پاک رہتی ہے۔ یہاں سامان کی نقل و حمل اور ذخیرے کے لئے بے شمار سہولیات موجود ہیں۔ ریل روڈ مغرب، روس اور مشرق کے درمیان پُل کا کام دیتا ہے۔
اسٹونیا پر سوئیڈن، فن لینڈ اور جرمنی کی ترقی کا گہرا اثر ہے۔ حکومت نے حال ہی میں ایجادات پر سرمایہ کاری کی ہے۔ اسٹونین وزیرِ اعظم کے مطابق 2022 تک اسٹونیا کی معیشت کو وہ یورپی یونین کی پانچ بڑی معیشتوں تک لانا چاہتے ہیں۔
یورو سٹیٹ ڈیٹا کے مطابق اسٹونیا کی کل ملکی آمدنی یورپی یونین کی اوسط کا 67 فیصد ہے۔ 2010 کی چوتھی سہ ماہی میں اسٹونیا کی اوسط تنخواہ 785 یورو تھی۔
تاہم مختلف علاقوں سے ہونے والی آمدنی مختلف ہوتی ہے۔ کل ملکی آمدنی کا نصف سے زیادہ حصہ دارلحکومت ٹالِن سے وصول ہوتا ہے۔
اسٹونیا کی معیشت کی تاریخ[size=18][ترمیم][/size]
1929 میں اسٹونیا میں مستحکم کرنسی کرون کو ملک کے مرکزی بینک یعنی بینک آف اسٹونیا نے جاری کیا۔ تجارت کا مرکز مغرب بالخصوص جرمنی اور برطانیہ تھے۔ کل تجارت کا 3 فیصد روس سے ہوتا تھا۔
دوسری جنگِ عظیم سے قبل اسٹونیا ایک زرعی ملک تھا جہاں مکھن، دودھ اور پنیر وغیرہ مغربی مارکیٹ میں مشہور تھے۔ 1940 میں روس نے اسٹونیا پر زبردستی قبضہ کیا اور پھر نازی جرمنی اور روس کی چپقلش کی وجہ سے اسٹونیا کی معیشت خسارے کا شکار رہی۔ جنگ کے بعد روس نے اسٹونیا کی معیشت اور صنعت کو اپنے لئے استعمال کیا۔
آزادی دوبارہ پانے کے بعد اسٹونیا نے خود کو مشرق اور مغرب کے درمیان رابطے کا ذریعہ بنایا۔ اس کے علاوہ معیشت میں بنیادی اصلاحات کے علاوہ معیشت کو مغرب سے ہم آہنگ کرنے کی کوششیں کیں۔ 1994 میں اسٹونیا دنیا کے ان پہلے ممالک میں شامل ہو گیا جہاں یکساں شرح ٹیکس عائد ہے۔ ذاتی آمدنی سے قطع نظر ٹیکس کی شرح 26 فیصد رکھی گئی ہے۔ جنوری 2005 میں یہ شرح 24 فیصد اور پھر جنوری 2008 میں 21 فیصد کر دی گئی۔ 2004 میں اسٹونیا کی حکومت نے یورو کے سکوں کی بناوٹ کا فیصلہ کر لیا۔ یکم جنوری 2011 سے اسٹؤنیا میں یورو کا استعمال شروع ہو گیا ہے۔ اگرچہ یورو زون میں اسٹونیا غریب ترین ملک شمار ہوتا ہے اور اس کی آمدنی کل یورو زون کی آمدنی کا 0.2 فیصد ہے تاہم اس کے بجٹ کے خسارے اور قرضوں کی مقدار پورے گروپ میں سب سے کم ہے۔
ذرائع[size=18][ترمیم][/size]
اگرچہ اسٹؤنیا میں خام مال کی شدید قلت ہے پھر بھی چھوٹے چھوٹے ذرائع بکثثرت ہیں۔ ملک میں معدنی تیل اور چونے کے بڑے ذخائر ہیں۔ جنگلات کل رقبے کے نصف سے زیادہ پر پھیلے ہوئے ہیں۔ معدنی تیل اور چونے کے علاوہ یہاں فاسفورائٹ، پچ بلنڈ اور گرینائٹ بھی پائے جاتے ہیں۔ تاہم ان کی کان کنی ابھی شروع نہیں کی گئی۔
حالیہ برسوں میں عوام اس بات پر بحث کر رہی ہے کہ آیا 2016 میں ناروا کے ایٹمی بجلی گھر کے بند ہونے سے قبل دیگر ایٹمی بجلی گھر بنائے یا نہین۔
صنعت اور ماحول[size=18][ترمیم][/size]
اسٹونیا کی صنعت میں خوراک، تعمیرات اور الیکٹرانکس کی صنعتیں اہم ترین ہیں۔ 2007 میں تعمیرات کی صنعت میں 80٫000 سے زیادہ افراد کام کرتے ہیں جو کل ملکی ورک فورس کا 12 فیصد ہے۔ مشینری اور کیمیکل کی صنعتیں بھی اہم ہیں۔
معدنی تیل کے حوالے سے کان کنی کی صنعت جو مشرقی حصے میں موجود ہے، ملکی بجلی کا 90 فیصد سے زیادہ پیدا کرتی ہے۔ تاہم معدنی تیل کے بکثرت استعمال سے ماحول کو سخت نقصان پہنچا ہے۔
توانائی اور اس کی پیدوار کے حوالے سے اسٹونیا خود کفیل ہے۔ حالیہ برسوں میں مقامی اور غیر ملکی کمپنیاں قابلِ تجدید ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کے لئے سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔
اس وقت ناروا کے ایٹمی بجلی گھر کے مختلف حصوں کی مرمت اور نئے بجلی گھروں کی تعمیر کی بجائے معدنی تیل پر زیادہ توجہ دی جا رہی ہے۔
اسٹونیا انفارمیشن ٹیکنالوجی کے حوالے سے بہت مضبوط ہے۔ ای گورنمنٹ کے حوالے سے اسٹونیا یورپ بھر میں سب سے آگے ہے۔
سکائپ اور کازا پروگرام اسٹونین ماہرین نے لکھے تھے۔
تجارت[size=18][ترمیم][/size]
1990 کی دہائی کے اواخر سے اسٹونیا کی معیشت مارکیٹ بیسڈ ہے اور مشرقی یورپ میں فی کس آمدنی کی شرح بلند ترین شرحوں میں سے ہے۔ سکینڈے نیوین مارکیٹوں کے نزدیک ہونے، مغرب اور مشرق کے درمیان واقع ہونے، مقابلے کی وجہ سے کم لاگت اور بہتر ہنرمند افراد کی وجہ سے اسٹونیا کی مارکیٹ زیادہ فائدے میں ہے۔ ٹالِن سب سے بڑا شہر ہونے کے علاوہ معاشی مرکز بھی ہے۔ حکومت کی مالیاتی پالیسیاں نسبتاً مستحکم اور متوازن بجٹ اور کم قرضے ہیں۔
تاہم 2007 میں بجٹ کے خسارے اور افراطِ زر کی وجہ سے اسٹونیا کی کرنسی پر دباؤ پڑا جس سے برآمدی صنعتوں کی اہمیت اُجاگر ہوئی ہے۔ اسٹونیا زیادہ تر مشینری و آلات، کاغذ اور لکڑی، ٹیکسٹائل، خوراک، فرنیچر اور دھاتی اور کیمیکل اشیاء برآمد کرتا ہے۔ سالانہ اسٹونیا 1.562 ارب کلو واٹ آور مقدار میں بجلی بھی برآمد کرتا ہے۔ تاہم اس کے ساتھ اسٹونیا مشینری و آلات، کیمیکل مصنوعات، ٹیکسٹائل، خوراک اور ذرائع نقل و حمل بھی بھی ملک میں منگواتا ہے۔ سالانہ 20 کروڑ کلو واٹ آور جتنی بجلی بھی ملک میں درآمد ہوتی ہے۔
2007 تا 2013 اسٹونیا کو یورپی یونین کے اراکین سے 3.4 ارب یورو جتنی امداد ملنی ہے۔ اس مالی امداد کو توانائی، انٹر پرینیور شپ، انتظامی صلاحیتوں، تعلیم، انفارمیشن سوسائٹی، ماحولیاتی تحفظ، علاقائی اور مقامی خدمات، تحقیق اور ترقی، صحت اور بہبودِ عامہ، نقل و حمل اور لیبرمارکیٹ میں استعمال کیا جانا ہے۔
نقل و حمل[size=18][ترمیم][/size]
قرونِ وسطٰی سے ہی اسٹونیا اہم تجارتی گذرگاہ رہا ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے اور بہتر ہوتے ہوئے بنیادی ڈھانچے کی وجہ سے تجارتی سامان کی آسان اور سستی منتقلی وغیرہ بہت پر کشش ہیں۔ سامان کی نقل و حمل میں ریلوے کل سامان کا 70 فیصد سے زیادہ حصہ منتقل کرتی ہے۔ تاہم 2007 سے روس اور اسٹونیا کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی سے نقل و حمل کم ہوئی ہے۔
[font:a363='Jameel Noori Nastaleeq','Alvi Lahori Nas
Page 1 of 1
Permissions in this forum:
You cannot reply to topics in this forum
Tue Feb 04, 2020 6:49 pm by munsab
» گوگل کرُوم
Tue Dec 03, 2019 8:35 pm by Munsab Ali
» فوٹو شاپ
Tue Dec 03, 2019 8:33 pm by Munsab Ali
» شمشیر بے نیام قسط نمبر 2
Sat Nov 30, 2019 11:25 pm by Munsab Ali
» شمشیر بے نیام قسط نمبر 1
Sat Nov 30, 2019 9:56 pm by Munsab Ali
» متنازع سائبر کرائم بل 2015 متفقہ طور پر منظور کرلیا۔ -
Wed Jul 27, 2016 11:54 am by Munsab Ali
» All in One
Fri Dec 25, 2015 10:23 pm by RASHID KHAN
» Best Action Movies 2015 English Hollywood - TOM CRUISE - New Adventure Movies 2015
Thu Dec 10, 2015 2:05 pm by Munsab Ali
» Shinobido - Ninja
Thu Dec 10, 2015 1:53 pm by Munsab Ali