الجزائر
Page 1 of 1
الجزائر
Re: الجزائر
الجزائر (عربی: الجزائر، انگریزی: Algeria) جسے انگریزی میں الجیریا بھی کہتے ہیں، شمالی افریقہ میں واقع ایک ملک ہے۔ رقبے کے اعتبار سے بحیرہ روم پر واقع سب سے بڑا، عرب دنیا اور افریقی براعظم میں سوڈان کے بعد سب سے بڑا ملک ہے۔دنیا میں اس کا 11واں نمبر ہے۔
الجزائر کے شمال مشرق میں تیونس، مغرب میں مراکو، جنوب مغرب میں مغربی صحارا، ماریطانیہ اور مالی ہیں۔ جنوب مشرق میں نائجر جبکہ شمال میں بحیرہ روم واقع ہیں۔ اس کا رقبہ تقریباً 24 لاکھ مربع میل جبکہ آبادی 3 کروڑ 57 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔الجزائر کے دارلحکومت کا نام بھی الجزائر ہے۔
الجزائر عرب لیگ، اقوامِ متحدہ اور اوپیک کا رکن ہے۔
وجہ تسمیہ[size=18][ترمیم][/size]
ملک کا نام اس کے شہر الجزائر سے نکلا ہے۔ ایک اندازہ ہے کہ یہ لفظ "جزائر بنی مازغان" کی مختصر شکل ہے۔
تاریخ[size=18][ترمیم][/size]
قبل از تاریخ[size=18][ترمیم][/size]
پرانے دور میں الجزائر کو سلطنتِ نومیڈیا کہا جاتا تھا۔ اس کے لوگ نومیڈین کہلاتے تھے۔ اس سلطنت کے تعلقات اس دور کے قدیم یونان اور رومن اقوام کے ساتھ تھے۔ اس علاقے کو زرخیز علاقے کے طور پر جانا جاتا تھا اور یہاں کے لوگ گھڑ سواری کے ماہر تھے۔
شمالی افریقہ کے مقامی لوگ بالاخر بربر بنے۔
1000 ق م میں قرطاجنہ قبائل نے ساحل کے ساتھ ساتھ آبادیاں بسانا شروع کر دیں۔ بربر قبائل نے موقع پا کر قرطاجنوں سے آزادی پا لی اور بربر ریاست کا قیام عمل میں آیا۔
200 ق م میں اس علاقے پر رومن سلطنت نے قبضہ کر لیا۔ تاہم جب 476 عیسوی میں مغربی رومن ریاست کا زوال ہوا تو بربر پھر سے آزاد ہو گئے۔ بعد میں یہاں وندال قبائل نے قبضہ کر لیا جو بازنطینیوں کی آمد تک قائم رہا۔ بازنطینی یہاں 8ویں صدی عیسوی تک موجود رہے پھر عرب یہاں قابض ہو گئے۔
قرونِ وسطٰی[size=18][ترمیم][/size]
بربر قبائل قرونِ وسطٰی کے دوران زیادہ تر مغرب کے علاقے پر قابض رہے۔ بربر قبائل بذاتِ خود کئی قبائل پر مشتمل تھے۔
قرونِ وسطٰی میں مغرب، سوڈان، اٹلی، مالی، نائجر، سینیگال، مصر اور دیگر نزدیکی جزائر پر بربروں کے مختلف قبائلوں نے اپنی سلطنتیں قائم کیں۔ ابنِ خلدون نے ان قبائل کی کل تعداد 12 بیان کی ہے۔
اسلام کی آمد[size=18][ترمیم][/size]
جب مسلمان عرب 7ویں صدی کے وسط میں یہاں پہنچے تو مقامی افراد کی بڑی تعداد نے اسلام قبول کر لیا۔ عرب امیہ سلطنت کے 751 عیسوی میں زوال کے بعد بہت ساری مقامی بربر سلطنتیں قائم ہوئیں جن میں الغالبہ، الموحدون، عبدالودید، زیریون، رستمیوں، حمیدیوں اور فاطمی وغیرہ اہم ہیں۔
ہسپانوی علاقے[size=18][ترمیم][/size]
ہسپانویوں کی شمالی افریقہ میں توسیع پسندوں نے کیتھولک بادشاہ اور ملکہ کی مدد سے آئبیرین کے جزیرہ نما پر قبضہ کر لیا۔ الجزائر کے ساحل پر بہت سارے قصبوں اور بیرونی چوکیوں پر ہسپانویوں نے قبضہ کر لیا۔ 15 جولائی 1510 کو الجزائر کے بادشاہ کو زبردستی ہسپانوی بادشاہ کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا گیا۔ بعد ازاں 1516 کو 1٫300 ترک سپاہیوں اور 16 بحری جہازوں کی مدد سے یہاں قبضہ کر کے الجزائر کو سلطنت عثمانیہ سے ملا دیا گیا۔
عثمانی دور[size=18][ترمیم][/size]
الجزائر کو خیرالدین بربر اور اس کے بھائی عروج نے 1517 میں سلطنتِ عثمانی سے جوڑ دیا۔ 1541 میں مقدس رومن سلطنت کے بادشاہ چارلس پنجم نے الجزائر پر 65 بحری جنگی جہازوں اور 23٫000 فوجیوں کی مدد سے حملہ کر دیا۔ اس فوج میں 2٫000 گھڑ سوار بھی شامل تھے۔ تاہم انہیں بدترین شکست ہوئی اور الجزائر کے رہنما حسن آغا کو قومی رہنما مان لیا گیا۔ الجزائر بہت بڑی فوجی قوت بن کر ابھرا۔
عثمانیوں نے الجزائر کی موجودہ سرحدیں شمال میں قائم کر دیں۔ عثمانی جہادیوں کے لئے الجزائر کے ساحل پڑاؤ کا کام کرنے لگے۔ 17ویں صدی میں عثمانیوں کے امریکی بحری جہازوں پر حملوں کی وجہ سے پہلی اور دوسری بربر جنگیں ہوئیں۔ دونوں اطراف کی فوجیں دشمنوں کو پکڑنے کے بعد غلام بنا دیتی تھیں۔
ان لوگوں کے گہرے اثر و رسوخ کی بناء پر اس علاقے کو بربری ساحل کہا جاتا تھا۔ یہ لوگ اکثر یورپی ساحلوں پر حملہ کر کے عیسائیوں کو غلام بنا کر ترکی، مصر، ایران، الجزائر اور مراکو کے بازاروں میں بیچ دیتے تھے۔ رابرٹ ڈیوس کے مطابق 16ویں سے 19ویں صدی کے دوران دس لاکھ سے ساڑھے بارہ لاکھ یورپیوں کو غلام بنا کر بیچا گیا۔ ان لوگوں کی اکثریت اٹلی، سپین اور پرتگال کی ساحلی بستیوں کے علاوہ فرانس، انگلینڈ، آئرلینڈ، ہالینڈ، جرمنی، پولینڈ، روس، سکینڈے نیویا، آئس لینڈ، ہندوستان، جنوبی مشرقی ایشیاء اور شمالی امریکہ سے پکڑی گئی تھی۔
ان حملوں کا اثر تباہ کن تھا۔ فرانس، انگلینڈ اور سپین کے ہزاروں بحری جہاز تباہ ہوئے اور سپین اور اٹلی کے ساحلوں کا بہت بڑا حصہ غیر آباد ہو گیا۔ 19ویں صدی تک انہی بحری قذاقوں کی وجہ سے ساحلی علاقے غیر آباد رہے۔
1609 سے 1616 تک انگلینڈ کے 466 تجارتی بحری جہاز تباہ ہوئے۔
شمالی افریقہ کے شہروں پر طاعون کا بہت برا حملہ ہوا۔ اندازہ ہے کہ الجزائر ہی میں طاعون کی مختلف وباؤں سے 30٫000 سے 50٫000 شہری ہلاک ہوئے۔
فرانسیسی دورِ حکومت[size=18][ترمیم][/size]
اپنے سفیر کی بے عزتی کے پیشِ نظر فرانسیسیوں نے 1830 میں حملہ کر کے الجزائر پر قبضہ کر لیا۔ تاہم یہ جنگ بہت طویل تھی اور بہت خون خرابا ہوا۔ 1830 سے 1872 تک مقامی آبادی جنگوں اور بیماریوں کی وجہ سے ایک تہائی کم ہو گئی۔
1825 سے 1847 تک 50٫000 سے زیادہ فرانسیسی الجزائر منتقل ہوئے۔ تاہم یہ منتقلی بہت آہستگی سے ہوئی کیونکہ مقامی آبادی نے اس کے خلاف بہت جہد و جہد کی۔
قبضے کے بعد فرانس نے ہر ممکن کوشش کر کے الجزائر کو فرانس کا اٹوٹ انگ بنایا۔ فرانس، سپین، اٹلی اور مالٹا سے ہزاروں میں آبادکار الجزائر منتقل ہوئے اور الجزائر کے ساحلی میدانوں پر کاشتکاری کے علاوہ شہروں کے اہم حصوں پر بھی قابض ہو گئے۔ ان آبادکاروں کو حکومتِ فرانس کی پشت پناہی حاصل تھی۔
19ویں صدی کے اواخر سے الجزائر میں آباد یورپی النسل افراد اور الجزائرئی یہودیوں کو فرانس کا شہری تسلیم کر لیا گیا۔
الجزائر کی 1962 میں آزادی کے بعد یہاں یورپی النسل افراد کو کالے پیروں والے کہا جانے لگا کیونکہ آبادکار کالے بوٹ پہنتے تھے۔ تاہم یہ نام محض ہتک کے لئے لیا جاتا تھا۔ تاہم مسلمان الجزائرئی باشندوں کی بہت بڑی اکثریت کو بشمول پرانے فوجیوں کے، فرانسیسی شہریت اور ووٹ کے حق سے محروم رکھا گیا۔
بعد از آزادی[size=18][ترمیم][/size]
1954 میں نیشنل لبریشن فرنٹ نے الجزائر کی جنگِ آزادی شروع کی جو گوریلا جنگ تھی۔ اس جنگ کے اختتام پر صدر نے اپنے مشہور خطاب میں عوام سے کہا کہ "میں نے آپ کی بات سمجھ لی ہے"۔ عوام سمجھے کہ صدر نے الجزائر کے فرانس کا حصہ رہنے کے بارے اعلان کیا ہے۔ ریفرنڈم کے انعقاد کے بعد بہت بھاری اکثریت سے عوام نے آزادی کا انتخاب کر لیا۔ دس لاکھ سے زیادہ افراد فرانس منتقل ہو گئے۔
الجزائر کے پہلے صدر احمد بن بلا تھے جنہیں ان کے ہی معتمد اور سابقہ حلیف بومدین نے اقتدار سے ہٹا دیا۔ احمد بن بلا کے دور میں حکومت کا رحجان سوشلسٹ اور آمرانہ تھا۔ ان کے بعد یہ رحجان جاری رہا۔ تیل نکالنے کے پلانٹوں کو قومیا لیا گیا۔ اسی دور میں زراعت کو انفرادی سطح سے اجتماعی سطح پر لایا گیا اور صنعتی انقلاب کی راہ ہموار ہوئی۔ تاہم اس کے نتیجے میں تیل پر انحصار بڑھ گیا اور 1980 کی دہائی میں تیل کی گرتی قیمتوں سے ملکی معیشت بیٹھ گئی۔
الجزائر کے خارجہ تعلقات مغربی ہمسائے مراکو سے اچھے نہیں۔ اس کی وجوہات میں مراکو کا الجزائر کے کچھ علاقوں پر قبضہ اور الجزائر کی طرف سے مراکو کے علیحدگی پسندوں کی حمایت وغیرہ اہم ہیں۔ الجزائر میں اختلافِ رائے کی گنجائش نہیں ہے اور حکومت زیادہ تر میڈیا پر قابض ہے۔ 1976 کے آئین کے تحت ایک کے سوا تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
1978 میں بومدین کا انتقال ہوا اور ان کے جانشین شاذلی بن جدید نسبتاً کھلے ذہن کے مالک تھے۔ ان کے دور میں افسرِ شاہی کا غلبہ ہوا اور رشوت ستانی عام ہو گئی۔
جدت پسندی کی وجہ سے الجزائر کی آبادی کی خصوصیات میں کافی تبدیلیاں ہوئیں۔ دیہاتوں کی شکل و صورت بدلنے لگی اور شہروں کی طرف منتقلی کا رحجان بڑھ گیا۔ نت نئی صنعتیں قائم ہوئیں اور زراعت میں لوگوں کی توجہ کم ہو گئی۔ ملک بھر میں تعلیم عام ہو گئی اور شرحِ خواندگی 10 فیصد سے بڑھ کر 60 فیصد تک جا پہنچی۔ فی عورت بچوں کی اوسط 7 سے 8 ہو گئی۔
1980 تک ملک میں نوجوانوں کی تعداد بہت بڑھ گئی۔ نتیجتاً دو مختلف گروہ پیدا ہوئے۔ پہلے گروہ میں بربر بھی شامل تھے جو کمیونسٹ رحجان رکھتے تھے جبکہ دوسری طرف اسلام پسند تھے۔ دونوں گروہ ہی یک جماعتی قانون کے خلاف تھے لیکن ایک دوسرے سے بھی لڑتے رہے۔ تاہم انہی کے احتجاج کے باعث 1988 میں بن جدید نے یک جماعتی قانون کو ختم کر دیا۔
الجزائر کے سیاسی واقعات (1991 تا 2002)[size=18][ترمیم][/size]
1991 میں الجزائر میں انتخابات منعقد ہونے تھے۔ دسمبر 1991 میں اسلامک سالویشن فرنٹ نے انتخابات کا پہلا مرحلہ جیتا تو فوج نے مداخلت کی اور دوسرا مرحلہ منسوخ کر دیا۔ اس کے بعد فوج نے اس وقت کے صدر بن جدید کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا اور مذہب کی بنیاد پر بننے والی ہر سیاسی جماعت کو کالعدم قرار دے دیا۔ سیاسی چپقلش پیدا ہوئی اور خانہ جنگی شروع ہو گئی۔
1٫60٫000 سے زیادہ افراد 17 جنوری 1992 سے جون 2002 کے دوران مارے گئے۔ ان کی اکثریت شہریوں کی تھی۔ مبصرین کے بقول حکومت نے اپنی فوج اور غیر ملکیوں کی مدد سے شہریوں کو ہلاک کر کے ذمہ داری مختلف اسلامی گروہوں پر ڈال دی۔
1995 میں انتخابات بحال ہوئے اور 1998 میں جنگ ختم ہو گئی۔ 27 اپریل 1999 کو عبدالعزیز بوتفلیقہ کو فوج نے صدر چن لیا۔
جنگ کے بعد[size=18][ترمیم][/size]
2002 تک زیادہ تر چھاپہ مار گروہ یا تو ختم کر دیئے گئے تھے یا پھر ہتھیار ڈال کر عام معافی پا چکے تھے۔ تاہم کچھ علاقوں میں لڑائی اور دہشت گردی کی کاروائیاں جاری ہیں۔
الجزائر کا زیادہ تر حصہ اب بحالی کی راہ پر چل رہا ہے اور ملکی معیشت تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ تیل اور قدرتی گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے نئی حکومت کو ملکی ڈھانچے کی تعمیرِ نو میں مدد مل رہی ہے۔
جغرافیہ[size=18][ترمیم][/size]
الجزائر کا زیادہ تر ساحلی علاقہ پتھریلا اور چٹانی ہے اور کہیں کہیں پہاڑ بھی ملتے ہیں۔ تاہم یہاں کئی قدرتی بندرگاہیں بھی موجود ہیں۔ ساحل سے لے کر اطلس التلی تک کا علاقہ زرخیز ہے۔ اطلس التلی کے بعد کا علاقہ گھاس کے وسیع و عریض میدانوں پر مشتمل ہے جو کوہ اطلس کے مشرقی حصے تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کے بعد صحرائے صحارا ہے۔
ھقار کے پہاڑ دراصل وسطی صحارا کے بلند علاقے ہیں جو دارلحکومت سے 1٫500 کلومیٹر جنوب میں ہیں۔
الجزائر، وہران، قسطنیہ، تیزی وزو اور عنابہ بڑے شہر ہیں۔
اس وقت افریقہ میں سوڈان کے بعد الجزائر سب سے بڑا ملک ہے۔ تاہم جولائی 2011 میں جنوبی سوڈان کی علیحدگی کے بعد الجزائر افریقہ کا سب سے بڑا ملک بن جائے گا۔
موسم[size=18][ترمیم][/size]
الجزائر کا موسم عموماً سال بھر گرم رہتا ہے۔ تاہم سورج غروب ہونے کے بعد خشک اور صاف ہوا سے گرمی جلد ہی ختم ہو جاتی ہے اور راتوں کو درجہ حرارت گر جاتا ہے۔
سرکاری طور پر سب سے زیادہ گرمی ان صلاح میں پڑی جو 50.6 ڈگری ریکارڈ کی گئی۔
بارش زیادہ تر ساحلی علاقوں پر ہوتی ہے اور بارش کی مقدار مغرب سے مشرق کو زیادہ ہوتی جاتی ہے۔ شمال مشرقی الجزائر میں سب سے زیادہ بارش ہوتی ہے۔
الجزائر میں ریت کی پہاڑیاں بھی پائی جاتی ہیں۔
سیاست[size=18][ترمیم][/size]
صدر ملک کا سربراہ ہوتا ہے جو پانچ سال کے لئے چنا جاتا ہے۔ 2008 کے قانون سے قبل ہر صدر زیادہ سے زیادہ دو بار منتخب ہو سکتا تھا۔ 18 سال کی عمر میں ووٹ ڈالنے کا حق ملتا ہے۔ صدر وزراء کی کونسل اور ہائی سکیورٹی کونسل کا سربراہ ہوتا ہے۔ صدر وزیرِ اعظم کا تقرر کرتا ہے جو حکومت کے سربراہ کا کام کرتا ہے۔ وزیرِ اعظم وزراء کی کونسل کا تقرر کرتا ہے۔
الجیریا کی پارلیمان دو ایوانوں پر مشتمل ہے۔ ایوانِ زیریں کو نیشنل پیپلز اسمبلی کہتے ہیں جس کے 380 اراکین ہوتے ہیں۔ ایوانِ بالا جسے کونسل آف نیشن کہتے ہیں کے 144 اراکین ہوتے ہیں۔ ایوانِ زیریں کے لئے ہر پانچ سال بعد انتخابات ہوتے ہیں۔
1976 کے آئین کے مطابق ملک میں ایک سے زیادہ سیاسی جماعتیں بنائی جا سکتی ہیں تاہم ان کی منظوری وزیرِ داخلہ سے ضروری ہوتی ہے۔ اس وقت ملک میں 40 سے زیادہ سیاسی جماعتیں موجود ہیں۔ آئین کے مطابق مذہب، زبان، نسل، جنس یا علاقائی بنیادوں پر سیاسی جماعت بنانا ممنوع ہے۔
خارجہ تعلقات اور فوج[size=18][ترمیم][/size]
الجیریا کی فوج بری، بحری، ہوائی اور علاقائی ائیر ڈیفنس فوجوں پر مشتمل ہے۔ فوج کا سربراہ ملک کا صدر ہوتا ہے جس کے پاس ملکی وزیرِ دفاع کا عہدہ بھی ہوتا ہے۔
کل فوجیوں کی تعداد 1٫47٫000 ہے۔ ریزرو فوجیوں کی تعداد 1٫50٫000 جبکہ نیم فوجیوں کی تعداد 1٫87٫000 ہے۔ 19 سے 30 سال تک کی عمر کے نوجوان مردوں کے لئے فوجی خدمات لازمی ہیں جو ڈیڑھ سال پر محیط ہوتی ہیں۔ اس میں چھ ماہ تربیت اور ایک سال شہری منصوبوں پر کام کرنا شامل ہے۔ 2006 کے تخمینے کے مطابق الجزائر اپنی فوج پر کل قومی آمدنی کا 2.7 فیصد سے 3.3 فیصد تک خرچ کرتا ہے۔
الجزائر زیادہ تر روسی اور چینی ساخت کا اسلحہ استعمال کرتا ہے جو فوجی تجارت کے معاہدوں کے تحت خریدا جاتا ہے۔
الجزائر کی ہوائی فوج نے 2007 میں روس سے 55 مگ 29 جنگی طیارے خریدنے کا معاہدہ کیا ہے جو تقریباً دو ارب ڈالر مالیت کا ہے۔ اسی معاہدے کے تحت الجزائر روس کو پرانے جہاز بھی واپس کرے گا جو اس نے سابقہ سوویت یونین سے خریدے تھے۔ روس الجزائر کے لئے دو ڈیزل آبدوزیں بھی بنا رہا ہے۔
اکتوبر 2009 میں مبینہ اسرائیلی پرزوں کو شامل کرنے کے امکان کے پیشِ نظر الجزائر نے فرانس سے ہونے والا فوجی معاہدہ ختم کر دیا ہے۔
صوبے اور اضلاع[size=18][ترمیم][/size]
الجزائر میں 48 صوبے، 553 اضلاع اور 1٫541 بلدیات ہیں۔ ہر صوبے، ضلع اور بلدیہ کا نام عموماً اس کے سب سے بڑے شہر پر رکھا جاتا ہے۔ آئین کے مطابق ہر صوبے کو کسی حد تک معاشی آزادی حاصل ہوتی ہے۔
پیپلز پراونشل اسمبلی صوبے پر حکومت کرتی ہے۔ اس کا اپنا صدر ہوتا ہے جسے اسمبلی کے اراکین چنتے ہیں۔ اسمبلی کے اراکین کو 5 سال کی مدت کے لئے عام انتخابات سے چنا جاتا ہے۔ والی یعنی گورنر بھی ہر صوبے کے لئے الگ موجود ہوتا ہے۔ والی کو ملک کا صدر مقرر کرتا ہے۔
معیشت[size=18][ترمیم][/size]
معدنی تیل ملکی معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتا ہے اور کل قومی آمدنی کا 30 فیصد سے زیادہ پیدا کرتا ہے۔ تاہم یہ مقدار برآمدات کے 95 فیصد پر مشتمل ہے۔ تیل کے ذخائر کے حوالے سے الجزائر کا 14واں نمبر ہے۔ یہاں کل 11.8 ارب بیرل کے ذخائر کا تخمینہ لگایا جا چکا ہے تاہم اصل مقدار اس سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔ امریکی توانائی کے انفارمیشن ایڈمنسٹریشن کے محکمے کی 2005 کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ الجزائر میں 160 کھرب مکعب فٹ قدرتی گیس کے ذخائر موجود ہیں جو دنیا بھر میں 8ویں نمبر پر آتے ہیں۔ معدنی تیل اور گیس کے علاوہ ملکی آمدنی 2003 سے 2007 تک 6 فیصد سالانہ کے حساب سے بڑھی ہے۔ بیرونی قرضے تقریباً ختم ہو چکے ہیں اور حکومت نے تیل کی آمدنی سے فنڈ قائم کیا ہے۔ افراطِ زر کی شرح پورے خطے میں سب سے کم ہے اور 2003 سے 2007 تک محض 4 فیصد رہی ہے۔
الجزائر کے معاشی اور مالی اشاریئے 1990 کی دہائی کے وسط سے بہتر ہونے لگے تھے۔ اس کی اہم وجہ پیرس کلب کے قرضوں کی بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی طرف سے ری شیڈیولنگ تھی۔ 2000 اور 2001 میں الجزائر کی آمدنی پر تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور حکومت کی سخت مالیاتی پالیسیوں سے مثبت اثرات مرتب ہوئے۔ اس سے تجارتی سرپلس اور فارن کرنسی میں اضافے کے علاوہ بیرونی قرضے میں کمی ہوئی۔
تاہم حکومت کی جانب سے بیرونی اور ملکی سرمایہ کاروں کو ملک میں توانائی کے علاوہ دیگر منصوبوں میں سرمایہ کاری پر راغب کرنے سے بے روزگاری کی شرح کم نہیں ہوئی۔ 2001 میں الجزائر کی حکومت نے یورپی یونین سے معاہدہ کیا ہے جس کے تحت مصنوعات کی قیمتیں کم اور کل تجارت بڑھ جائے گی۔ 2004 میں روس نے الجزائر کے ذمے 4.74 ارب ڈالر مالیت کا پرانا قرضہ معاف کرنے کا اعلان کیا۔ اس کا خیر مقدم کرتے ہوئے الجزائر کے صدر نے روس سے 7.5 ارب ڈالر مالیت کے جنگی جہاز، فضائی دفاع کے آلات اور دیگر اسلحہ جات خریدنے کا اعلان کیا۔
2006 میں الجزائر نے پیرس کلب کا 8 ارب ڈالر کا قرضہ قبل از وقت واپس کر دیا ہے جس سے ملکی معیشت بہتر ہوئی ہے اور اس کے بعد بیرونی قرضے محض 5 ارب ڈالر سے بھی کم رہ گئے تھے۔
زراعت[size=18][ترمیم][/size]
الجزائر ہمیشہ سے ہی اپنی زرخیز زمین کے حوالے سے مشہور رہا ہے۔ کل آبادی کا چوتھائی حصہ زراعت سے وابستہ ہے۔
امریکہ کی خانہ جنگی کے دوران یہاں کپاس کی کاشت بہت بڑھ گئی تھی۔ 20ویں صدی کے اوائل میں زراعت پر پھر سے زور دیا جانے لگا تھا۔ بونی کھجوروں کی بہت بڑی تعداد ان کے پتوں کے حصول کے لئے کاشت کی گئی ہے۔ زیتون اور تمباکو بھی کامیاب ترین فصلوں میں سے ہیں۔
30٫000 مربع کلومیٹر سے زیادہ رقبہ غلے کی پیداوار کے لئے مختص ہے۔ اطلس التلی کا علاقہ غلے کے لئے مخصوص ہے۔ دیگر فصلوں میں گندم، جو اور اوٹ اہم ترین ہیں۔ پھلوں بالخصوص رس دار پھلوں اور سبزیوں کی کاشت بھی عروج پر ہے اور بیرون ملک برآمد کئے جاتے ہیں۔ الجزائر کی برآمدات میں انجیر، کھجوریں اور کاک شامل ہیں۔
آبادی کی خصوصیات[size=18][ترمیم][/size]
2010 کے تخمینے کے مطابق الجزائر کی آبادی 3٫48٫95٫000 افراد پر مشتمل ہے جس میں 99 فیصد عرب یا بربر النسل ہیں۔ الجزائر کے 90 فیصد سے زیادہ باشندے شمالی ساحلی علاقوں پر رہتے ہیں۔ آبادی کا کچھ حصہ صحرائے صحارا میں بھی رہائش پذیر ہے۔ آبادی کا تقریباً ایک تہائی حصہ 15 سال سے کم عمر ہے۔
تقریباً 83 فیصد آبادی الجزائری عربی بولتی ہے جبکہ 15 فیصد کے قریب لوگ بربر لہجے کو اپناتے ہیں۔ فرانسیسی کو بھی بڑے پیمانے پر سمجھا جاتا ہے۔
یورپی النسل افراد کل آبادی کا 1 فیصد سے بھی کم ہیں اور تقریباً تمام تر ہی بڑے شہروں میں رہتے ہیں۔
آبادی کے مکانات اور صحت کی سہولیات کی کمی ملک کے لئے ایک سنگین مسئلہ ہے جو کہ بہت بڑی تعداد میں آبادی کے شہروں کی طرف رخ کرنے سے پیدا ہوا ہے۔
الجزائر کے وکلاء میں سے 70 فیصد اور ججوں میں سے 60 فیصد خواتین ہیں۔ صحت کے شعبے میں بھی خواتین کی اجارہ داری ہے۔ گھریلو آمدنی میں مردوں کی نسبت عورتوں کا حصہ بڑھ رہا ہے۔ یونیورسٹیوں میں 60 فیصد خواتین طالبات ہیں۔
نسلی گروہ[size=18][ترمیم][/size]
الجزائر کے عرب اکثریتی گروہ ہیں جبکہ بربر قبائل آبادی کا چوتھائی ہیں۔
زبانیں[size=18][ترمیم][/size]
الجزائر کی سرکاری زبان عربی ہے جو 1963 کے آئین میں واضح کی گئی ہے۔ 8 مارچ 2002 کو آئین میں ایک ترمیم کے ذریعے بربر زبان کو بھی "قومی" زبان کا درجہ دیا گیا ہے۔ عربی اور بربر زبانیں کل آبادی کا 99 فیصد سے زیادہ حصہ بولتا ہے۔ فرانسیسی کو سرکاری درجہ حاصل نہیں لیکن آبادی کی اکثریت فرانسیسی کو سمجھ اور بول سکتی ہے۔
عربی زبان[size=18][ترمیم][/size]
الجزائر کا عربی کے لئے اپنا لہجہ ہے جو 78 فیصد سے زیادہ افراد بولتے ہیں۔ 5 فیصد افراد عام عربی بولتے ہیں۔ تاہم سرکاری اور اہم مواقع پر عام عربی استعمال ہوتی ہے۔ بہت سارے بربر الجزائری عربی کو ثانوی زبان کے طور پر بولتے ہیں۔ عربی کو واحد سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔
بربر زبان[size=18][ترمیم][/size]
بربر زبان کو کل آبادی کا تقریباً 40 فیصد حصہ بولتا ہے۔ آئین میں ہونے والی حالیہ ترمیم سے بربر کو قومی زبان تسلیم کیا گیا ہے۔
فرانسیسی زبان[size=18][ترمیم][/size]
فرانسیسی بطور غیر ملکی زبان کے سب سے زیادہ پڑھی جاتی ہے اور الجزائری باشندوں کی اکثریت اسے سمجھ اور بول سکتی ہے۔ تاہم روزمرہ استعمال میں نہیں آتی۔
مذہب[size=18][ترمیم][/size]
99 فیصد آبادی کا مذہب اسلام ہے۔ تقریباً سارے ہی افراد سنی العقیدہ مسلمان ہیں۔
الجزائر میں اڑھائی لاکھ عیسائی بھی ہیں۔
1960 کے عشرے تک الجزائر میں یہودیوں کی آبادی کافی تھی۔ تاہم بعد میں یہودی یہاں سے دیگر ملکوں کو منتقل ہو گئے۔
صحت[size=18][ترمیم][/size]
2002 میں الجزائر میں ڈاکٹروں، نرسوں اور دندان سازوں کی تعداد آبادی کے اعتبار سے انتہائی کم تھی۔ پینے کے صاف پانی تک رسائی 92 فیصد شہری اور 80 فیصد دیہاتی افراد تک محدود تھی۔ عموماً غریبوں کو صحت کی سہولیات مفت مہیا کی جاتی ہیں۔
تعلیم[size=18][ترمیم][/size]
6 سے 15 سال تک کی عمر کے بچوں کے لئے تعلیم لازمی ہے۔ بالغ آبادی کا 5 فیصد ان پڑھ ہے۔
الجزائر میں 46 یونیورسٹیاں، 10 کالج اور 7 ادارے اعلٰی تعلیم دیتے ہیں۔ الجزائر میں تعلیمی نظام بنیادی، جنرل سیکنڈری اور ٹیکنیکل سیکنڈری سکولوں پر مشتمل ہے۔
بنیادی سکول 9 سالہ تعلیم پر مشتمل ہوتا ہے۔
جنرل سیکنڈری 3 سالہ ہوتا ہے۔
ٹیکنیکل سیکنڈری 3 سالہ تعلیم پر مشتمل ہوتا ہے۔
فہرست متعلقہ مضامین الجزائر[size=18][ترمیم][/size]
الجزائر کے شمال مشرق میں تیونس، مغرب میں مراکو، جنوب مغرب میں مغربی صحارا، ماریطانیہ اور مالی ہیں۔ جنوب مشرق میں نائجر جبکہ شمال میں بحیرہ روم واقع ہیں۔ اس کا رقبہ تقریباً 24 لاکھ مربع میل جبکہ آبادی 3 کروڑ 57 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔الجزائر کے دارلحکومت کا نام بھی الجزائر ہے۔
الجزائر عرب لیگ، اقوامِ متحدہ اور اوپیک کا رکن ہے۔
[rtl]فہرست
[دکھائیں] [/rtl]
[دکھائیں] [/rtl]
وجہ تسمیہ[size=18][ترمیم][/size]
ملک کا نام اس کے شہر الجزائر سے نکلا ہے۔ ایک اندازہ ہے کہ یہ لفظ "جزائر بنی مازغان" کی مختصر شکل ہے۔
تاریخ[size=18][ترمیم][/size]
قبل از تاریخ[size=18][ترمیم][/size]
پرانے دور میں الجزائر کو سلطنتِ نومیڈیا کہا جاتا تھا۔ اس کے لوگ نومیڈین کہلاتے تھے۔ اس سلطنت کے تعلقات اس دور کے قدیم یونان اور رومن اقوام کے ساتھ تھے۔ اس علاقے کو زرخیز علاقے کے طور پر جانا جاتا تھا اور یہاں کے لوگ گھڑ سواری کے ماہر تھے۔
شمالی افریقہ کے مقامی لوگ بالاخر بربر بنے۔
1000 ق م میں قرطاجنہ قبائل نے ساحل کے ساتھ ساتھ آبادیاں بسانا شروع کر دیں۔ بربر قبائل نے موقع پا کر قرطاجنوں سے آزادی پا لی اور بربر ریاست کا قیام عمل میں آیا۔
200 ق م میں اس علاقے پر رومن سلطنت نے قبضہ کر لیا۔ تاہم جب 476 عیسوی میں مغربی رومن ریاست کا زوال ہوا تو بربر پھر سے آزاد ہو گئے۔ بعد میں یہاں وندال قبائل نے قبضہ کر لیا جو بازنطینیوں کی آمد تک قائم رہا۔ بازنطینی یہاں 8ویں صدی عیسوی تک موجود رہے پھر عرب یہاں قابض ہو گئے۔
قرونِ وسطٰی[size=18][ترمیم][/size]
بربر قبائل قرونِ وسطٰی کے دوران زیادہ تر مغرب کے علاقے پر قابض رہے۔ بربر قبائل بذاتِ خود کئی قبائل پر مشتمل تھے۔
قرونِ وسطٰی میں مغرب، سوڈان، اٹلی، مالی، نائجر، سینیگال، مصر اور دیگر نزدیکی جزائر پر بربروں کے مختلف قبائلوں نے اپنی سلطنتیں قائم کیں۔ ابنِ خلدون نے ان قبائل کی کل تعداد 12 بیان کی ہے۔
اسلام کی آمد[size=18][ترمیم][/size]
جب مسلمان عرب 7ویں صدی کے وسط میں یہاں پہنچے تو مقامی افراد کی بڑی تعداد نے اسلام قبول کر لیا۔ عرب امیہ سلطنت کے 751 عیسوی میں زوال کے بعد بہت ساری مقامی بربر سلطنتیں قائم ہوئیں جن میں الغالبہ، الموحدون، عبدالودید، زیریون، رستمیوں، حمیدیوں اور فاطمی وغیرہ اہم ہیں۔
ہسپانوی علاقے[size=18][ترمیم][/size]
ہسپانویوں کی شمالی افریقہ میں توسیع پسندوں نے کیتھولک بادشاہ اور ملکہ کی مدد سے آئبیرین کے جزیرہ نما پر قبضہ کر لیا۔ الجزائر کے ساحل پر بہت سارے قصبوں اور بیرونی چوکیوں پر ہسپانویوں نے قبضہ کر لیا۔ 15 جولائی 1510 کو الجزائر کے بادشاہ کو زبردستی ہسپانوی بادشاہ کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا گیا۔ بعد ازاں 1516 کو 1٫300 ترک سپاہیوں اور 16 بحری جہازوں کی مدد سے یہاں قبضہ کر کے الجزائر کو سلطنت عثمانیہ سے ملا دیا گیا۔
عثمانی دور[size=18][ترمیم][/size]
الجزائر کو خیرالدین بربر اور اس کے بھائی عروج نے 1517 میں سلطنتِ عثمانی سے جوڑ دیا۔ 1541 میں مقدس رومن سلطنت کے بادشاہ چارلس پنجم نے الجزائر پر 65 بحری جنگی جہازوں اور 23٫000 فوجیوں کی مدد سے حملہ کر دیا۔ اس فوج میں 2٫000 گھڑ سوار بھی شامل تھے۔ تاہم انہیں بدترین شکست ہوئی اور الجزائر کے رہنما حسن آغا کو قومی رہنما مان لیا گیا۔ الجزائر بہت بڑی فوجی قوت بن کر ابھرا۔
عثمانیوں نے الجزائر کی موجودہ سرحدیں شمال میں قائم کر دیں۔ عثمانی جہادیوں کے لئے الجزائر کے ساحل پڑاؤ کا کام کرنے لگے۔ 17ویں صدی میں عثمانیوں کے امریکی بحری جہازوں پر حملوں کی وجہ سے پہلی اور دوسری بربر جنگیں ہوئیں۔ دونوں اطراف کی فوجیں دشمنوں کو پکڑنے کے بعد غلام بنا دیتی تھیں۔
ان لوگوں کے گہرے اثر و رسوخ کی بناء پر اس علاقے کو بربری ساحل کہا جاتا تھا۔ یہ لوگ اکثر یورپی ساحلوں پر حملہ کر کے عیسائیوں کو غلام بنا کر ترکی، مصر، ایران، الجزائر اور مراکو کے بازاروں میں بیچ دیتے تھے۔ رابرٹ ڈیوس کے مطابق 16ویں سے 19ویں صدی کے دوران دس لاکھ سے ساڑھے بارہ لاکھ یورپیوں کو غلام بنا کر بیچا گیا۔ ان لوگوں کی اکثریت اٹلی، سپین اور پرتگال کی ساحلی بستیوں کے علاوہ فرانس، انگلینڈ، آئرلینڈ، ہالینڈ، جرمنی، پولینڈ، روس، سکینڈے نیویا، آئس لینڈ، ہندوستان، جنوبی مشرقی ایشیاء اور شمالی امریکہ سے پکڑی گئی تھی۔
ان حملوں کا اثر تباہ کن تھا۔ فرانس، انگلینڈ اور سپین کے ہزاروں بحری جہاز تباہ ہوئے اور سپین اور اٹلی کے ساحلوں کا بہت بڑا حصہ غیر آباد ہو گیا۔ 19ویں صدی تک انہی بحری قذاقوں کی وجہ سے ساحلی علاقے غیر آباد رہے۔
1609 سے 1616 تک انگلینڈ کے 466 تجارتی بحری جہاز تباہ ہوئے۔
شمالی افریقہ کے شہروں پر طاعون کا بہت برا حملہ ہوا۔ اندازہ ہے کہ الجزائر ہی میں طاعون کی مختلف وباؤں سے 30٫000 سے 50٫000 شہری ہلاک ہوئے۔
فرانسیسی دورِ حکومت[size=18][ترمیم][/size]
اپنے سفیر کی بے عزتی کے پیشِ نظر فرانسیسیوں نے 1830 میں حملہ کر کے الجزائر پر قبضہ کر لیا۔ تاہم یہ جنگ بہت طویل تھی اور بہت خون خرابا ہوا۔ 1830 سے 1872 تک مقامی آبادی جنگوں اور بیماریوں کی وجہ سے ایک تہائی کم ہو گئی۔
1825 سے 1847 تک 50٫000 سے زیادہ فرانسیسی الجزائر منتقل ہوئے۔ تاہم یہ منتقلی بہت آہستگی سے ہوئی کیونکہ مقامی آبادی نے اس کے خلاف بہت جہد و جہد کی۔
قبضے کے بعد فرانس نے ہر ممکن کوشش کر کے الجزائر کو فرانس کا اٹوٹ انگ بنایا۔ فرانس، سپین، اٹلی اور مالٹا سے ہزاروں میں آبادکار الجزائر منتقل ہوئے اور الجزائر کے ساحلی میدانوں پر کاشتکاری کے علاوہ شہروں کے اہم حصوں پر بھی قابض ہو گئے۔ ان آبادکاروں کو حکومتِ فرانس کی پشت پناہی حاصل تھی۔
19ویں صدی کے اواخر سے الجزائر میں آباد یورپی النسل افراد اور الجزائرئی یہودیوں کو فرانس کا شہری تسلیم کر لیا گیا۔
الجزائر کی 1962 میں آزادی کے بعد یہاں یورپی النسل افراد کو کالے پیروں والے کہا جانے لگا کیونکہ آبادکار کالے بوٹ پہنتے تھے۔ تاہم یہ نام محض ہتک کے لئے لیا جاتا تھا۔ تاہم مسلمان الجزائرئی باشندوں کی بہت بڑی اکثریت کو بشمول پرانے فوجیوں کے، فرانسیسی شہریت اور ووٹ کے حق سے محروم رکھا گیا۔
بعد از آزادی[size=18][ترمیم][/size]
1954 میں نیشنل لبریشن فرنٹ نے الجزائر کی جنگِ آزادی شروع کی جو گوریلا جنگ تھی۔ اس جنگ کے اختتام پر صدر نے اپنے مشہور خطاب میں عوام سے کہا کہ "میں نے آپ کی بات سمجھ لی ہے"۔ عوام سمجھے کہ صدر نے الجزائر کے فرانس کا حصہ رہنے کے بارے اعلان کیا ہے۔ ریفرنڈم کے انعقاد کے بعد بہت بھاری اکثریت سے عوام نے آزادی کا انتخاب کر لیا۔ دس لاکھ سے زیادہ افراد فرانس منتقل ہو گئے۔
الجزائر کے پہلے صدر احمد بن بلا تھے جنہیں ان کے ہی معتمد اور سابقہ حلیف بومدین نے اقتدار سے ہٹا دیا۔ احمد بن بلا کے دور میں حکومت کا رحجان سوشلسٹ اور آمرانہ تھا۔ ان کے بعد یہ رحجان جاری رہا۔ تیل نکالنے کے پلانٹوں کو قومیا لیا گیا۔ اسی دور میں زراعت کو انفرادی سطح سے اجتماعی سطح پر لایا گیا اور صنعتی انقلاب کی راہ ہموار ہوئی۔ تاہم اس کے نتیجے میں تیل پر انحصار بڑھ گیا اور 1980 کی دہائی میں تیل کی گرتی قیمتوں سے ملکی معیشت بیٹھ گئی۔
الجزائر کے خارجہ تعلقات مغربی ہمسائے مراکو سے اچھے نہیں۔ اس کی وجوہات میں مراکو کا الجزائر کے کچھ علاقوں پر قبضہ اور الجزائر کی طرف سے مراکو کے علیحدگی پسندوں کی حمایت وغیرہ اہم ہیں۔ الجزائر میں اختلافِ رائے کی گنجائش نہیں ہے اور حکومت زیادہ تر میڈیا پر قابض ہے۔ 1976 کے آئین کے تحت ایک کے سوا تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
1978 میں بومدین کا انتقال ہوا اور ان کے جانشین شاذلی بن جدید نسبتاً کھلے ذہن کے مالک تھے۔ ان کے دور میں افسرِ شاہی کا غلبہ ہوا اور رشوت ستانی عام ہو گئی۔
جدت پسندی کی وجہ سے الجزائر کی آبادی کی خصوصیات میں کافی تبدیلیاں ہوئیں۔ دیہاتوں کی شکل و صورت بدلنے لگی اور شہروں کی طرف منتقلی کا رحجان بڑھ گیا۔ نت نئی صنعتیں قائم ہوئیں اور زراعت میں لوگوں کی توجہ کم ہو گئی۔ ملک بھر میں تعلیم عام ہو گئی اور شرحِ خواندگی 10 فیصد سے بڑھ کر 60 فیصد تک جا پہنچی۔ فی عورت بچوں کی اوسط 7 سے 8 ہو گئی۔
1980 تک ملک میں نوجوانوں کی تعداد بہت بڑھ گئی۔ نتیجتاً دو مختلف گروہ پیدا ہوئے۔ پہلے گروہ میں بربر بھی شامل تھے جو کمیونسٹ رحجان رکھتے تھے جبکہ دوسری طرف اسلام پسند تھے۔ دونوں گروہ ہی یک جماعتی قانون کے خلاف تھے لیکن ایک دوسرے سے بھی لڑتے رہے۔ تاہم انہی کے احتجاج کے باعث 1988 میں بن جدید نے یک جماعتی قانون کو ختم کر دیا۔
الجزائر کے سیاسی واقعات (1991 تا 2002)[size=18][ترمیم][/size]
1991 میں الجزائر میں انتخابات منعقد ہونے تھے۔ دسمبر 1991 میں اسلامک سالویشن فرنٹ نے انتخابات کا پہلا مرحلہ جیتا تو فوج نے مداخلت کی اور دوسرا مرحلہ منسوخ کر دیا۔ اس کے بعد فوج نے اس وقت کے صدر بن جدید کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا اور مذہب کی بنیاد پر بننے والی ہر سیاسی جماعت کو کالعدم قرار دے دیا۔ سیاسی چپقلش پیدا ہوئی اور خانہ جنگی شروع ہو گئی۔
1٫60٫000 سے زیادہ افراد 17 جنوری 1992 سے جون 2002 کے دوران مارے گئے۔ ان کی اکثریت شہریوں کی تھی۔ مبصرین کے بقول حکومت نے اپنی فوج اور غیر ملکیوں کی مدد سے شہریوں کو ہلاک کر کے ذمہ داری مختلف اسلامی گروہوں پر ڈال دی۔
1995 میں انتخابات بحال ہوئے اور 1998 میں جنگ ختم ہو گئی۔ 27 اپریل 1999 کو عبدالعزیز بوتفلیقہ کو فوج نے صدر چن لیا۔
جنگ کے بعد[size=18][ترمیم][/size]
2002 تک زیادہ تر چھاپہ مار گروہ یا تو ختم کر دیئے گئے تھے یا پھر ہتھیار ڈال کر عام معافی پا چکے تھے۔ تاہم کچھ علاقوں میں لڑائی اور دہشت گردی کی کاروائیاں جاری ہیں۔
الجزائر کا زیادہ تر حصہ اب بحالی کی راہ پر چل رہا ہے اور ملکی معیشت تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ تیل اور قدرتی گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے نئی حکومت کو ملکی ڈھانچے کی تعمیرِ نو میں مدد مل رہی ہے۔
جغرافیہ[size=18][ترمیم][/size]
الجزائر کا زیادہ تر ساحلی علاقہ پتھریلا اور چٹانی ہے اور کہیں کہیں پہاڑ بھی ملتے ہیں۔ تاہم یہاں کئی قدرتی بندرگاہیں بھی موجود ہیں۔ ساحل سے لے کر اطلس التلی تک کا علاقہ زرخیز ہے۔ اطلس التلی کے بعد کا علاقہ گھاس کے وسیع و عریض میدانوں پر مشتمل ہے جو کوہ اطلس کے مشرقی حصے تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کے بعد صحرائے صحارا ہے۔
ھقار کے پہاڑ دراصل وسطی صحارا کے بلند علاقے ہیں جو دارلحکومت سے 1٫500 کلومیٹر جنوب میں ہیں۔
الجزائر، وہران، قسطنیہ، تیزی وزو اور عنابہ بڑے شہر ہیں۔
اس وقت افریقہ میں سوڈان کے بعد الجزائر سب سے بڑا ملک ہے۔ تاہم جولائی 2011 میں جنوبی سوڈان کی علیحدگی کے بعد الجزائر افریقہ کا سب سے بڑا ملک بن جائے گا۔
موسم[size=18][ترمیم][/size]
الجزائر کا موسم عموماً سال بھر گرم رہتا ہے۔ تاہم سورج غروب ہونے کے بعد خشک اور صاف ہوا سے گرمی جلد ہی ختم ہو جاتی ہے اور راتوں کو درجہ حرارت گر جاتا ہے۔
سرکاری طور پر سب سے زیادہ گرمی ان صلاح میں پڑی جو 50.6 ڈگری ریکارڈ کی گئی۔
بارش زیادہ تر ساحلی علاقوں پر ہوتی ہے اور بارش کی مقدار مغرب سے مشرق کو زیادہ ہوتی جاتی ہے۔ شمال مشرقی الجزائر میں سب سے زیادہ بارش ہوتی ہے۔
الجزائر میں ریت کی پہاڑیاں بھی پائی جاتی ہیں۔
سیاست[size=18][ترمیم][/size]
صدر ملک کا سربراہ ہوتا ہے جو پانچ سال کے لئے چنا جاتا ہے۔ 2008 کے قانون سے قبل ہر صدر زیادہ سے زیادہ دو بار منتخب ہو سکتا تھا۔ 18 سال کی عمر میں ووٹ ڈالنے کا حق ملتا ہے۔ صدر وزراء کی کونسل اور ہائی سکیورٹی کونسل کا سربراہ ہوتا ہے۔ صدر وزیرِ اعظم کا تقرر کرتا ہے جو حکومت کے سربراہ کا کام کرتا ہے۔ وزیرِ اعظم وزراء کی کونسل کا تقرر کرتا ہے۔
الجیریا کی پارلیمان دو ایوانوں پر مشتمل ہے۔ ایوانِ زیریں کو نیشنل پیپلز اسمبلی کہتے ہیں جس کے 380 اراکین ہوتے ہیں۔ ایوانِ بالا جسے کونسل آف نیشن کہتے ہیں کے 144 اراکین ہوتے ہیں۔ ایوانِ زیریں کے لئے ہر پانچ سال بعد انتخابات ہوتے ہیں۔
1976 کے آئین کے مطابق ملک میں ایک سے زیادہ سیاسی جماعتیں بنائی جا سکتی ہیں تاہم ان کی منظوری وزیرِ داخلہ سے ضروری ہوتی ہے۔ اس وقت ملک میں 40 سے زیادہ سیاسی جماعتیں موجود ہیں۔ آئین کے مطابق مذہب، زبان، نسل، جنس یا علاقائی بنیادوں پر سیاسی جماعت بنانا ممنوع ہے۔
خارجہ تعلقات اور فوج[size=18][ترمیم][/size]
الجیریا کی فوج بری، بحری، ہوائی اور علاقائی ائیر ڈیفنس فوجوں پر مشتمل ہے۔ فوج کا سربراہ ملک کا صدر ہوتا ہے جس کے پاس ملکی وزیرِ دفاع کا عہدہ بھی ہوتا ہے۔
کل فوجیوں کی تعداد 1٫47٫000 ہے۔ ریزرو فوجیوں کی تعداد 1٫50٫000 جبکہ نیم فوجیوں کی تعداد 1٫87٫000 ہے۔ 19 سے 30 سال تک کی عمر کے نوجوان مردوں کے لئے فوجی خدمات لازمی ہیں جو ڈیڑھ سال پر محیط ہوتی ہیں۔ اس میں چھ ماہ تربیت اور ایک سال شہری منصوبوں پر کام کرنا شامل ہے۔ 2006 کے تخمینے کے مطابق الجزائر اپنی فوج پر کل قومی آمدنی کا 2.7 فیصد سے 3.3 فیصد تک خرچ کرتا ہے۔
الجزائر زیادہ تر روسی اور چینی ساخت کا اسلحہ استعمال کرتا ہے جو فوجی تجارت کے معاہدوں کے تحت خریدا جاتا ہے۔
الجزائر کی ہوائی فوج نے 2007 میں روس سے 55 مگ 29 جنگی طیارے خریدنے کا معاہدہ کیا ہے جو تقریباً دو ارب ڈالر مالیت کا ہے۔ اسی معاہدے کے تحت الجزائر روس کو پرانے جہاز بھی واپس کرے گا جو اس نے سابقہ سوویت یونین سے خریدے تھے۔ روس الجزائر کے لئے دو ڈیزل آبدوزیں بھی بنا رہا ہے۔
اکتوبر 2009 میں مبینہ اسرائیلی پرزوں کو شامل کرنے کے امکان کے پیشِ نظر الجزائر نے فرانس سے ہونے والا فوجی معاہدہ ختم کر دیا ہے۔
صوبے اور اضلاع[size=18][ترمیم][/size]
الجزائر میں 48 صوبے، 553 اضلاع اور 1٫541 بلدیات ہیں۔ ہر صوبے، ضلع اور بلدیہ کا نام عموماً اس کے سب سے بڑے شہر پر رکھا جاتا ہے۔ آئین کے مطابق ہر صوبے کو کسی حد تک معاشی آزادی حاصل ہوتی ہے۔
پیپلز پراونشل اسمبلی صوبے پر حکومت کرتی ہے۔ اس کا اپنا صدر ہوتا ہے جسے اسمبلی کے اراکین چنتے ہیں۔ اسمبلی کے اراکین کو 5 سال کی مدت کے لئے عام انتخابات سے چنا جاتا ہے۔ والی یعنی گورنر بھی ہر صوبے کے لئے الگ موجود ہوتا ہے۔ والی کو ملک کا صدر مقرر کرتا ہے۔
معیشت[size=18][ترمیم][/size]
معدنی تیل ملکی معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتا ہے اور کل قومی آمدنی کا 30 فیصد سے زیادہ پیدا کرتا ہے۔ تاہم یہ مقدار برآمدات کے 95 فیصد پر مشتمل ہے۔ تیل کے ذخائر کے حوالے سے الجزائر کا 14واں نمبر ہے۔ یہاں کل 11.8 ارب بیرل کے ذخائر کا تخمینہ لگایا جا چکا ہے تاہم اصل مقدار اس سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔ امریکی توانائی کے انفارمیشن ایڈمنسٹریشن کے محکمے کی 2005 کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ الجزائر میں 160 کھرب مکعب فٹ قدرتی گیس کے ذخائر موجود ہیں جو دنیا بھر میں 8ویں نمبر پر آتے ہیں۔ معدنی تیل اور گیس کے علاوہ ملکی آمدنی 2003 سے 2007 تک 6 فیصد سالانہ کے حساب سے بڑھی ہے۔ بیرونی قرضے تقریباً ختم ہو چکے ہیں اور حکومت نے تیل کی آمدنی سے فنڈ قائم کیا ہے۔ افراطِ زر کی شرح پورے خطے میں سب سے کم ہے اور 2003 سے 2007 تک محض 4 فیصد رہی ہے۔
الجزائر کے معاشی اور مالی اشاریئے 1990 کی دہائی کے وسط سے بہتر ہونے لگے تھے۔ اس کی اہم وجہ پیرس کلب کے قرضوں کی بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی طرف سے ری شیڈیولنگ تھی۔ 2000 اور 2001 میں الجزائر کی آمدنی پر تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور حکومت کی سخت مالیاتی پالیسیوں سے مثبت اثرات مرتب ہوئے۔ اس سے تجارتی سرپلس اور فارن کرنسی میں اضافے کے علاوہ بیرونی قرضے میں کمی ہوئی۔
تاہم حکومت کی جانب سے بیرونی اور ملکی سرمایہ کاروں کو ملک میں توانائی کے علاوہ دیگر منصوبوں میں سرمایہ کاری پر راغب کرنے سے بے روزگاری کی شرح کم نہیں ہوئی۔ 2001 میں الجزائر کی حکومت نے یورپی یونین سے معاہدہ کیا ہے جس کے تحت مصنوعات کی قیمتیں کم اور کل تجارت بڑھ جائے گی۔ 2004 میں روس نے الجزائر کے ذمے 4.74 ارب ڈالر مالیت کا پرانا قرضہ معاف کرنے کا اعلان کیا۔ اس کا خیر مقدم کرتے ہوئے الجزائر کے صدر نے روس سے 7.5 ارب ڈالر مالیت کے جنگی جہاز، فضائی دفاع کے آلات اور دیگر اسلحہ جات خریدنے کا اعلان کیا۔
2006 میں الجزائر نے پیرس کلب کا 8 ارب ڈالر کا قرضہ قبل از وقت واپس کر دیا ہے جس سے ملکی معیشت بہتر ہوئی ہے اور اس کے بعد بیرونی قرضے محض 5 ارب ڈالر سے بھی کم رہ گئے تھے۔
زراعت[size=18][ترمیم][/size]
الجزائر ہمیشہ سے ہی اپنی زرخیز زمین کے حوالے سے مشہور رہا ہے۔ کل آبادی کا چوتھائی حصہ زراعت سے وابستہ ہے۔
امریکہ کی خانہ جنگی کے دوران یہاں کپاس کی کاشت بہت بڑھ گئی تھی۔ 20ویں صدی کے اوائل میں زراعت پر پھر سے زور دیا جانے لگا تھا۔ بونی کھجوروں کی بہت بڑی تعداد ان کے پتوں کے حصول کے لئے کاشت کی گئی ہے۔ زیتون اور تمباکو بھی کامیاب ترین فصلوں میں سے ہیں۔
30٫000 مربع کلومیٹر سے زیادہ رقبہ غلے کی پیداوار کے لئے مختص ہے۔ اطلس التلی کا علاقہ غلے کے لئے مخصوص ہے۔ دیگر فصلوں میں گندم، جو اور اوٹ اہم ترین ہیں۔ پھلوں بالخصوص رس دار پھلوں اور سبزیوں کی کاشت بھی عروج پر ہے اور بیرون ملک برآمد کئے جاتے ہیں۔ الجزائر کی برآمدات میں انجیر، کھجوریں اور کاک شامل ہیں۔
آبادی کی خصوصیات[size=18][ترمیم][/size]
2010 کے تخمینے کے مطابق الجزائر کی آبادی 3٫48٫95٫000 افراد پر مشتمل ہے جس میں 99 فیصد عرب یا بربر النسل ہیں۔ الجزائر کے 90 فیصد سے زیادہ باشندے شمالی ساحلی علاقوں پر رہتے ہیں۔ آبادی کا کچھ حصہ صحرائے صحارا میں بھی رہائش پذیر ہے۔ آبادی کا تقریباً ایک تہائی حصہ 15 سال سے کم عمر ہے۔
تقریباً 83 فیصد آبادی الجزائری عربی بولتی ہے جبکہ 15 فیصد کے قریب لوگ بربر لہجے کو اپناتے ہیں۔ فرانسیسی کو بھی بڑے پیمانے پر سمجھا جاتا ہے۔
یورپی النسل افراد کل آبادی کا 1 فیصد سے بھی کم ہیں اور تقریباً تمام تر ہی بڑے شہروں میں رہتے ہیں۔
آبادی کے مکانات اور صحت کی سہولیات کی کمی ملک کے لئے ایک سنگین مسئلہ ہے جو کہ بہت بڑی تعداد میں آبادی کے شہروں کی طرف رخ کرنے سے پیدا ہوا ہے۔
الجزائر کے وکلاء میں سے 70 فیصد اور ججوں میں سے 60 فیصد خواتین ہیں۔ صحت کے شعبے میں بھی خواتین کی اجارہ داری ہے۔ گھریلو آمدنی میں مردوں کی نسبت عورتوں کا حصہ بڑھ رہا ہے۔ یونیورسٹیوں میں 60 فیصد خواتین طالبات ہیں۔
نسلی گروہ[size=18][ترمیم][/size]
الجزائر کے عرب اکثریتی گروہ ہیں جبکہ بربر قبائل آبادی کا چوتھائی ہیں۔
زبانیں[size=18][ترمیم][/size]
الجزائر کی سرکاری زبان عربی ہے جو 1963 کے آئین میں واضح کی گئی ہے۔ 8 مارچ 2002 کو آئین میں ایک ترمیم کے ذریعے بربر زبان کو بھی "قومی" زبان کا درجہ دیا گیا ہے۔ عربی اور بربر زبانیں کل آبادی کا 99 فیصد سے زیادہ حصہ بولتا ہے۔ فرانسیسی کو سرکاری درجہ حاصل نہیں لیکن آبادی کی اکثریت فرانسیسی کو سمجھ اور بول سکتی ہے۔
عربی زبان[size=18][ترمیم][/size]
الجزائر کا عربی کے لئے اپنا لہجہ ہے جو 78 فیصد سے زیادہ افراد بولتے ہیں۔ 5 فیصد افراد عام عربی بولتے ہیں۔ تاہم سرکاری اور اہم مواقع پر عام عربی استعمال ہوتی ہے۔ بہت سارے بربر الجزائری عربی کو ثانوی زبان کے طور پر بولتے ہیں۔ عربی کو واحد سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔
بربر زبان[size=18][ترمیم][/size]
بربر زبان کو کل آبادی کا تقریباً 40 فیصد حصہ بولتا ہے۔ آئین میں ہونے والی حالیہ ترمیم سے بربر کو قومی زبان تسلیم کیا گیا ہے۔
فرانسیسی زبان[size=18][ترمیم][/size]
فرانسیسی بطور غیر ملکی زبان کے سب سے زیادہ پڑھی جاتی ہے اور الجزائری باشندوں کی اکثریت اسے سمجھ اور بول سکتی ہے۔ تاہم روزمرہ استعمال میں نہیں آتی۔
مذہب[size=18][ترمیم][/size]
99 فیصد آبادی کا مذہب اسلام ہے۔ تقریباً سارے ہی افراد سنی العقیدہ مسلمان ہیں۔
الجزائر میں اڑھائی لاکھ عیسائی بھی ہیں۔
1960 کے عشرے تک الجزائر میں یہودیوں کی آبادی کافی تھی۔ تاہم بعد میں یہودی یہاں سے دیگر ملکوں کو منتقل ہو گئے۔
صحت[size=18][ترمیم][/size]
2002 میں الجزائر میں ڈاکٹروں، نرسوں اور دندان سازوں کی تعداد آبادی کے اعتبار سے انتہائی کم تھی۔ پینے کے صاف پانی تک رسائی 92 فیصد شہری اور 80 فیصد دیہاتی افراد تک محدود تھی۔ عموماً غریبوں کو صحت کی سہولیات مفت مہیا کی جاتی ہیں۔
تعلیم[size=18][ترمیم][/size]
6 سے 15 سال تک کی عمر کے بچوں کے لئے تعلیم لازمی ہے۔ بالغ آبادی کا 5 فیصد ان پڑھ ہے۔
الجزائر میں 46 یونیورسٹیاں، 10 کالج اور 7 ادارے اعلٰی تعلیم دیتے ہیں۔ الجزائر میں تعلیمی نظام بنیادی، جنرل سیکنڈری اور ٹیکنیکل سیکنڈری سکولوں پر مشتمل ہے۔
بنیادی سکول 9 سالہ تعلیم پر مشتمل ہوتا ہے۔
جنرل سیکنڈری 3 سالہ ہوتا ہے۔
ٹیکنیکل سیکنڈری 3 سالہ تعلیم پر مشتمل ہوتا ہے۔
فہرست متعلقہ مضامین الجزائر[size=18][ترمیم][/size]
Page 1 of 1
Permissions in this forum:
You cannot reply to topics in this forum
Tue Feb 04, 2020 6:49 pm by munsab
» گوگل کرُوم
Tue Dec 03, 2019 8:35 pm by Munsab Ali
» فوٹو شاپ
Tue Dec 03, 2019 8:33 pm by Munsab Ali
» شمشیر بے نیام قسط نمبر 2
Sat Nov 30, 2019 11:25 pm by Munsab Ali
» شمشیر بے نیام قسط نمبر 1
Sat Nov 30, 2019 9:56 pm by Munsab Ali
» متنازع سائبر کرائم بل 2015 متفقہ طور پر منظور کرلیا۔ -
Wed Jul 27, 2016 11:54 am by Munsab Ali
» All in One
Fri Dec 25, 2015 10:23 pm by RASHID KHAN
» Best Action Movies 2015 English Hollywood - TOM CRUISE - New Adventure Movies 2015
Thu Dec 10, 2015 2:05 pm by Munsab Ali
» Shinobido - Ninja
Thu Dec 10, 2015 1:53 pm by Munsab Ali