ایران
Page 1 of 1
ایران
Re: ایران
اسلامی جمہوریۂ ایران (عرف عام: ایران، سابق نام: فارس، موجودہ فارسی نام: جمہوری اسلامی ایران) جنوب مغربی ایشیا کا ایک ملک ہے جو مشرق وسطی میں واقع ہے۔ ایران کی سرحدیں شمال میں آرمینیا، آذربائیجان اور ترکمانستان، مشرق میں پاکستان اور افغانستان اور مغرب میں ترکی اورعراق سے ملتی ہیں۔ مزید برآں خلیج فارس بھی اس سے ملحق ہے۔ شیعہ اسلام ملک کا سرکاری مذہب اور فارسی قومی زبان ہے۔
ایران دنیاکی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے۔ ملک کی تاریخ ہزاروں سالوں پر محیط ہے۔یورپ اور ایشیا کے وسط میں ہونے کے باعث اس کی تاریخی اہمیت ہے۔ ایران اقوام متحدہ، غیر وابستہ ممالک کی تحریک (نام)، اسلامی کانفرنس تنظیم (او آئی سی) اور تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم (اوپیک) کا بانی رکن ہے۔ تیل کے عظیم ذخائر کی بدولت بین الاقوامی سیاست میں ملک اہم ترین کردار ادا کرتا ہے۔ لفظ ایران کا مطلب آریاؤں کی سرزمین ہے۔
[rtl]فہرست
[دکھائیں] [/rtl]
[دکھائیں] [/rtl]
ایران ترقی کے راستے پر[size=18][ترمیم][/size]
ایران مشرق وسطی میں واقع ہے۔ اس کے شمال میں آرمینیا، آذربائیجان، ترکمانستان اور بحیرہ قزوین، مشرق میں افغانستان اور پاکستان، جنوب میں خلیج فارس اور خلیج اومان جبکہ مغرب میں عراقاور ترکی واقع ہیں۔ ملک کا وسطی و مشرقی علاقہ وسیع بے آب و گیاہ صحراؤں پر مشتمل ہے جن میں کہیں کہیں نخلستان ہیں۔ مغرب میں ترکی اور عراق کے ساتھ سرحدوں پر پہاڑی سلسلے ہیں۔ شمال میں بھی بحیرہ قزوین کے ارد گرد زرخیز پٹی کے ساتھ ساتھ کوہ البرس واقع ہیں۔
8اپریل کی تاریخ ایران میں جوہری ٹیکنالوجی کے قومی دن سے مناسبت رکھتی ہے ۔ آج کا دن مقامی ٹیکنا لوجی کی بنیاد پر یورینیم کی افزودگی کی سرگرمیاں شروع کئے جانے سے مناسبت رکھتا ہے ۔ اس بڑی سائنسی کامیابی کے اعلان کے بعد ایران کے ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل کی منظوری اور ایران کے جوان دانشوروں کی قابل افتخار کوششوں کی قدردانی کے مقصد سے 8اپریل کی تاریخ کو ایران میں جوہری ٹیکنالوجی کے قومی دن سے موسوم کیا گیا۔ جوہری ٹیکنالوجی کا اطلاق،ایٹم کے شگاف اور انھیں جوڑنے کی توانائی کے ذریعے قدرتی یورینیم کو افزودہ یورینیم میں تبدیل کرنے کی توانائی پر ہوتا ہے۔
پرامن استعمال کیلئے مقامی جوہری ٹیکنالوجی، سائنسی اور صنعتی اعتبار سے قابل ذکر اہمیت کی حامل ہے اور یہ اس بناء پر ہے کہ جوہری ٹیکنالوجی کا استعمال صرف توانائی کی فراہمی تک محدود نہیں ہے بلکہ اسے ایرانی ماہرین کی جانب سےطبی اور تحقیقاتی امور میں بھی استعمال کیا جا رہا ہے ۔
ایران سنہ 1958 میں آئی اے ای اے کا رکن بنا اور سنہ 1968 میں اس نے جوہری ہتھیاروں کی پیداوار اور پھیلاؤ پر پابندی کے معاہدے این پی ٹی پر دستخط کئے۔ حالیہ برسوں میں جوہری شعبے میں ایران کی ترقی و پیشرفت اہم کامیابیوں کے ہمراہ رہی ہے ۔ اس وقت ایران تیس سے زائد ریڈیو دواؤں کی پیداوار کے ساتھہ جوہری اور طبی تحقیقاتی مراکز میں خاص بیماروں کے استعمال کیلئے 90 سے 95 فیصد تک دوائیں بنا رہا ہے۔ اس سلسلے میں ایران کی ایک اور کامیابی تہران کے طبی تحقیقاتی ری ایکٹر کے ایندھن کی فراہمی کیلئے یورینیم کو 20 فیصد تک افزودہ بنانا ہے۔
تہران کا یہ ایٹمی ری ایکٹر کینسر کی بیماری میں مبتلا بیماروں کیلئے دوائیں تیار کرنے میں سرگرم عمل ہے جسے 20 فیصد افزودہ یورینییم کے ایندھن کی ضرورت ہے جو دو سال قبل تک بیرون ملک سے درآمد کیا جاتا تھا مگر مغرب نے ایران کے خلاف پابندیوں اور ایران میں یورینیم کی افزودگی کی مخالفت کے بہانے20 فیصد افزودہ یورینییم کا ایندھن دینے سے انکار کردیا جس کے بعد ایران کے ایٹمی توانائی کے ادارے نے ایندھن کی اس ضرورت کو پورا کرنے کیلئے قم کے فردو ایٹمی ری ایکٹر میں جوہری ایندھن کی ری سائیکلنگ کے منصوبے پر عمل کرتے ہوئے کہ جس کی ساری سرگرمیاں اٹمی توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی کی نگرانی میں جاری ہیں، یورینیم کی 20 فیصد افزودگی کے عمل میں کامیابی حاصل کی۔
جوہری شعبے میں ایران کی ایک اور کامیابی، فیوز یعنی پگھلانے والی مشین تیار کرنا ہے اور اس وقت ایران اس حوالے سے ٹیکنالوجی رکھنے والے دنیا کے پانچ ملکوں میں شامل ہے اور ایران مشرق وسطی کا واحد ملک ہے کہ اس سلسلے میں جس کی سرگرمیاں آئی اے ای اے کی نگرانی میں جاری ہیں۔
توقع کی جاتی ہے کہ آئندہ دس سے پندرہ سالوں میں جوہری دنیا،توانائی کی پیداوار میں جوہری شگاف سے اسے پگھلانے کے مرحلے میں داخل ہوجائے گی ۔ جوہری ٹیکنالوجی کے شعبے میں ایران اس وقت اس منزل پر پہنچ گیا ہے کہ دنیا کے دیگر ملکوں کے ساتھہ مشترکہ جوہری منصوبوں منجملہ یورینیم کی افزودگی اور ایٹمی فیوز کے منصوبوں پر عملدرآمد کرنے کی توانائی رکھتا ہے اور اس نے یہ ٹیکنالوجی آئی اے ای اے کی زیر نگرانی ہی حاصل کی ہے مگر پھر بھی امریکہ اور گنتی کے چند دیگر ممالک کہ جن سے ایران کی ترقی و پیشرفت برداشت نہیں ہوپا رہی ہے۔
تہران کی ترقی کی راہ میں مختلف طرح کی رکاوٹیں کھڑی کررہے ہیں ۔ ایران کے خلاف پابندیاں ۔ ایران کا بائیکاٹ ۔ نفسیاتی جنگ ۔ سیاسی دباؤ ۔ فوجی حملے کی دھمکی ۔ یہانتکہ جوہری دانشوروں کا قتل نیز کمپیوٹروائرس کے ذریعے رخنہ اندازی کی کوشش ایسے ہتھکنڈے ہیں جو ایرانی قوم کے دشمنوں نے استعمال کئے ہیں تاکہ ایران میں پرامن جوہری پروگرام اور اس سلسلے میں حاصل ہونے والی ترقی و پیشرفت میں رکاوٹ پیدا کی جاسکے ۔ تاہم مغرب کی ان تمام تر خلاف ورزیوں کے باوجود جوہری ٹیکنالوجی اس وقت ایرانی قوم کی ایک اہم ترین قابل افتخار سائنسی ترقی میں تبدیل ہوچکی ہے۔
انتظامی تقسیم[size=18][ترمیم][/size]
تفصیلی مضمون کے لیے دیکھیں۔ ایران کی صوبائی تقسیم
ایران کو انتظامی طور پر اکتیس صوبوں یا استان میں تقسیم کیا گیا ہے۔
- صوبہ اردبیل
- صوبہ البرز
- صوبہ آذربایجان شرقی
- صوبہ آذربایجان غربی
- صوبہ بوشہر
- صوبہ چهارمحال و بختیاری
- صوبہ فارس
- صوبہ گیلان
- صوبہ گلستان
- صوبہ ہمدان
- صوبہ ہرمزگان
- صوبہ ایلام
- صوبہ اصفہان
- صوبہ کرمان
- صوبہ کرمانشاہ
- صوبہ خراسان شمالی
- صوبہ خراسان رضوی
- صوبہ خراسان جنوبی
- صوبہ خوزستان
- صوبہ کہگیلویہ و بویراحمد
- صوبہ کردستان
- صوبہ لرستان
- صوبہ مرکزی
- صوبہ مازندران
- صوبہ قزوین
- صوبہ قم
- صوبہ سمنان
- صوبہ سیستان و بلوچستان
- صوبہ تہران
- صوبہ یزد
- صوبہ زنجان
Re: ایران
سیاست[size=18][ترمیم][/size]
موجودہ آئین 1979ء کے انقلاب کے بعد منظور کیا گیا جس کے مطابق ایران کو ایک اسلامی جمہوریہ اور اسلامی تعلیمات کو تمام سیاسی، سماجی اور معاشی تعلقات کی بنیاد قرار دیا گیا۔ مجموعی اختیارات رہبر معظم (سپریم لیڈر) کے پاس ہوتے ہیں۔ آجکل آیت اللہ علی خامنہ ای رہبر معظم ہیں۔ رہبر معظم کا انتخاب ماہرین کی ایک مجلس (مجلس خبرگان رہبری) کرتی ہے جس میں پورے ایران سے 86 علماء منتخب کئے جاتے ہیں۔ رہبر معظم مسلح افواج کا کمانڈر انچیف ہوتا ہے۔
حکومت کا سربراہ صدر ہوتا ہے جسے پورے ملک سے بالغ رائے دہی کی بنیاد پر منتخب کیا جاتا ہے۔ آئین کے تحت کوئی فرد دو سے زیادہ مرتبہ صدر نہیں بن سکتا۔ قانون سازی کے اختیارات مجلس کے پاس ہیں جو 290 منتخب اراکین پر مشتمل اور 4 سال کے لئے علاقوں اور مذہبی برادریوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ عیسائیوں، زرتشتوں اور یہودیوں کے اپنے نمائندے مجلس میں شامل ہیں۔ مجلس کے منظور شدہ قوانین منظوری کے لئے شوریٰ نگہبان کے پاس بھیجے جاتے ہیں۔
شوری نگہبان اس لحاظ سے مجلس کے منظور کردہ قوانین کا جائزہ لیتی ہے کہ وہ آئین اور اسلامی قوانین کے مطابق ہیں۔ اس میں رہبر معظم کی جانب سے نامزد کردہ 6 مذہبی رہنما اور عدلیہ کے نامزد کردہ 6 قانونی ماہرین شامل ہوتے ہیں جن کی منظوری مجلس دیتی ہے۔ شوری نگہبان کو مجلس، مقامی کونسلوں، صدارت اور مجلس خبرگان کے امیدواروں کو ویٹو کردینے کا اختیار بھی ہوتا ہے۔
قانون سازی کے حوالے سے مجلس اور شوری نگہبان کے درمیان پیدا ہونے والے تنازعات کے حل کے لئے 1988ء میں "مجمع تشخیص مصلحت نظام" (ایکسپیڈیئنسی کونسل) قائم کی گئی۔ اگست 1989ء سے یہ قومی پالیسی اور آئینی امور پر رہبر معظم کا مشیر ادارہ بن گئی۔ اس کے سربراہ سابق صدر علی اکبر ہاشمی رفسنجانی ہیں اور اس میں حکومت کے تینوں شعبوں کے سربراہ اور شوری نگہبان کے مذہبی ارکان شامل ہیں۔ رہبر معظم تین سال کے لئے ارکان نامزد کرتا ہے۔
مجلس کے بڑے گروہوں کو عموما "اصلاح پسند" اور "قدامت پرست" کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ اس وقت مجلس میں "آبادگاران" کا اتحاد غالب ہے۔ یہ قدامت پرست ہیں۔
بین الاقوامی تعلقات[size=18][ترمیم][/size]
[size=20][You must be registered and logged in to see this image.]
ایران اور اس کے صوبہ جات (اردو نقشہ)[/size]
ایران اور اس کے صوبہ جات (اردو نقشہ)[/size]
1997ء میں صدر خاتمی کے منتخب ہونے کے بعد ایران کے زیادہ تر ممالک سے تعلقات بہتر ہوئے۔ 1998ء میں برطانیہ اور ایران کے تعلقات اس یقین دہانی پر بحال ہوئے کہ ایرانی حکومت کا سلمان رشدی کی زندگی کو خطرے میں ڈالنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ 1999ء میں برطانیہ اور ایران نے سفارتکاروں کا تبادلہ کیا۔
ایران اور امریکہ کے تعلقات 1980ء میں ٹوٹے اور آج تک بحال نہیں ہوئے۔ جولائی 2001ء میں امریکہ نے ایران اور لیبیا پر پابندیوں کے قانون میں مزید 5 سال کے لئے توسیع کردی۔ جنوری 2002ء میں صدر بش نے ایران کو "بدی کے محور" (Axis of Evil) کا حصہ قرار دیا۔ اس وقت ایران مغربی طاقتوں کی جانب سے جوہری پروگرام، مبینہ دہشت گردی، مشرق وسطی کے امن کو خراب کرنے کے خواہشمند گروہوں کی مبینہ سرپرستی اور دیگر الزامات کا نشانہ بنا ہوا ہے۔اسلامی جمہوریہ ایران نے مغرب کی ریشہ دوانیوں امریکی سازشوں اور عالمی سامراجی طاقتوں کی طرف سے ملت ایران کے خلاف مسلسل دھمکیوں کے بعد ہر سطح پر خود کفیل ہونے کا فیصلہ کیا اور ایٹمی ٹیکنالوجی، نانو ٹیکنا لوجی، کلوننگ اور میڈیکل کے ساتھ ساتھ ائرو اسپیس نیز دفاعی شعبوں میں بے پناہ ترقی کی ہے کہ جس کے بارے میں اختصار کے ساتھ کچھ مطالب قارئین کی معلومات افزائی کے لئے ذیل میں درج کئے جا رہے ہیں۔ ائرواسپیس ایٹمی ٹیکنالوجی نانو ٹیکنا لوجی
عراق سے تعلقات[size=18][ترمیم][/size]
1980ء کی دہائی میں ایران عراق جنگ کے بعد سے دونوں ممالک کے تعلقات کبھی معمول پر نہیں آسکے تاہم عراق کے تنازعے پر ایران نے غیر جانبدار ہونے کا اعلان کردیا اگرچہ اس نے فوجی کارروائی پر تنقید کی لیکن اس نے اعلان کیا کہ وہ تنازعے سے باہر رہے گا۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ ایک مستحکم اور متحد عراق کے لئے کام کرنا چاہتا ہے۔ ایران کا عراق کی عبوری حکومت کے ساتھ براہ راست دو طرف معاہدہ ہے۔ ایران بجلی کی فراہمی کے سلسلے میں عراق کی مدد کررہا ہے۔ 30 نومبر 2004ء کو عراق میں سلامتی، عام انتخابات کے بروقت انعقاد اور بیرونی عناصر کی مداخلت روکنے پر غور کے لئے ایران میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس کی میزبانی ایرانی وزارت داخلہ نے کی۔ اس کانفرنس میں عراق، سعودی عرب، کویت،ترکی، اردن اور مصر کے وزرائے داخلہ اور سیکورٹی حکام نے شرکت کی۔
افغانستان[size=18][ترمیم][/size]
ایران افغان خانہ جنگی سے بھی متاثر ہورہا ہے اور وہاں استحکام کے فروغ کا خواہاں نظر آرہا ہے۔ ایران نے افغانستان کی تعمیر نو کے لئے 5 سالوں میں 560 ملین ڈالرز دینے کا وعدہ کیا ہے۔ دونوں ملکوں نے منشیات کے خلاف ایک دوسرے سے بھرپور تعاون کیا ہے۔ ایران میں لاکھوں افغان مہاجرین رہائش پذیر ہیں جن کی وطن واپسی کے لئے اقدامات کئے جارہے ہیں۔
اسرائیل[size=18][ترمیم][/size]
1979ء میں انقلابِ اسلامی کے بعد سے ایران کا موقف یہ رہا ہے کہ اسرائیل کا وجود غیر قانونی ہے۔ ایران اب بھی اسرائیل کی پرجوش مخالفت پر قائم ہے۔ وہ مشرق وسطی میں امن قائم کرنے کے اقدامات پر بھی اعتراضات کرتا رہتا ہے اور مبینہ طور پر فلسطین اور لبنان کے ان اسرائیل مخالف گروہوں کی مدد کرتا رہتا ہے۔ 2002ء میں ایرانی وزارت خارجہ نے اعلان کیا کہ اگر اسرائیل اور فلسطین کو کوئی معاہدہ قابل قبول ہو تو ایران ایسے دو طرفہ معاہدے کو رد نہیں کرے گا۔
قدرتی آفات[size=18][ترمیم][/size]
ایران انتہائی متحرک زلزلے کی پٹی پر واقع ہے جس کی وجہ سے یہاں آئے دن زلزلے آتے رہتے ہیں۔ 1991ء سے اب تک ملک میں ایک ہزار زلزلے کے جھٹکے ریکارڈ کئے جاچکے ہیں جن سے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 17 ہزار 600 جانیں ضائع ہوئیں۔ 2003ء میں جنوب مشرقی ایران میں شدید زلزلے نے تباہی مچادی۔ اس کی شدت ریکٹر اسکیل پر 6.3 تھی اور اس نے قدیم قصبہ بام کو صفحہ ہستی سے مٹادیا۔ اس زلزلے میں 30 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔
2003ء میں امن کا نوبل انعام جیتنے والی وکیل شیریں عبادی کا تعلق ایران سے ہے۔ وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والی پہلی ایران اور مسلم خاتون ہیں۔
Page 1 of 1
Permissions in this forum:
You cannot reply to topics in this forum
Tue Feb 04, 2020 6:49 pm by munsab
» گوگل کرُوم
Tue Dec 03, 2019 8:35 pm by Munsab Ali
» فوٹو شاپ
Tue Dec 03, 2019 8:33 pm by Munsab Ali
» شمشیر بے نیام قسط نمبر 2
Sat Nov 30, 2019 11:25 pm by Munsab Ali
» شمشیر بے نیام قسط نمبر 1
Sat Nov 30, 2019 9:56 pm by Munsab Ali
» متنازع سائبر کرائم بل 2015 متفقہ طور پر منظور کرلیا۔ -
Wed Jul 27, 2016 11:54 am by Munsab Ali
» All in One
Fri Dec 25, 2015 10:23 pm by RASHID KHAN
» Best Action Movies 2015 English Hollywood - TOM CRUISE - New Adventure Movies 2015
Thu Dec 10, 2015 2:05 pm by Munsab Ali
» Shinobido - Ninja
Thu Dec 10, 2015 1:53 pm by Munsab Ali