انگریزنے خوں خوار ہندو اکثریت کو
Page 1 of 1
انگریزنے خوں خوار ہندو اکثریت کو
انگریزنے خوں خوار ہندو اکثریت کو ’’جمہوریت میں اکثریت کی حکومت‘‘ کی لوری سنا کر مست کر دیا تھا اور وہ اس انتظار میں تھا کہ انگریز کے دفع ہونے تک کسی نہ کسی طرح ’’ہندو مزاج مسلمان‘‘ لیڈروں کے ذریعہ برعظیم کی ملت اسلامیہ کو مٹھی میں رکھا جائے اور پھر انگریز کے جاتے ہی اپنی خونخوار اکثریت کے بل بوتے پر مسلمانوں کو ہی بدھوں اور جینیوں کے گھاٹ اتار دیا جائے مگر جس طرح اقبال کے الفاظ میں قدرت نے حضرت مجدد کو بروقت خبردار کیا تھا اسی طرح اقبال کی بروقت آوازنے نہ صرف ملت اسلامیہ کو ہندو اور انگریز دونوں کی سازش کو ناکام بناتے ہوئے بیدار کر دیا بلکہ محمد علی جناحؒ کو بھی ’’قائد اعظم‘‘ کا منصب سنبھالنے کیلئے لندن سے بلا لیا اور یوں انگریز اور ہندو کی مشترکہ سازش کو ناکام بنا دیا! بلکہ نہرو اور پٹیل کی یہ آرزو بھی خاک میں مل گئی کہ کرم خوردہ کٹا پھٹا پاکستان آخر کار پکے پھل کی طرح ہندو کی جھولی میں آن گریگا مگر یہ خام خیالی بھی خاک ہی کی نذر ہو چکی ہے اور تو اور طاقت سے بنگلہ دیش بنانے والی اندرا گاندھی کا یہ خیال بھی باطل ثابت ہو چکا ہے کہ اس نے سقوط ڈھاکہ سے ایک ہزار سالہ غلامی کا مسلمانوں سے انتقام لے لیا ہے اور نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال میں غرق کر دیا ہے اس لئے کہ پاکستان اور نظریہ پاکستان بلکہ ایٹمی پاکستان تو آج بھی زندہ ہے۔
دراصل بات یہ ہے کہ ہندو کا یہ نشہ پورا نہیں ہو رہا اس لئے وہ اپنے ٹوٹتے ہوئے نشے کے باعث پاگل ہو چکا ہے مگر ہوتا رہے۔ اب وہ اسی پاگل پن میں بھارت جیسے اتنے بڑے ملک سے بھی جائیگا۔ کیونکہ وہ اپنے ظلم اور بے انصافی کے باعث نااہل حکمران ثابت ہو چکا ہے وہ ایک اچھا حکمران ثابت نہیں ہوا‘ براہموطن ثابت ہو چکا ہے اور بدترین پڑوسی بھی ثابت ہو چکا ہے۔ وہ خونخوار اکثریت کے نشے میں ہے اور پرامن بقائے باہمی کی خاطر اس روشن اور بیدار انسانی دور میں بھی انسان بننے کیلئے آمادہ نہیں!
اصل کام اب یہ ہے کہ پاکستان کا بیدار مسلمان اپنے انگریز زدہ ہندو مزاج مسلمان لیڈروں سے نجات پائے جو گزشتہ ساٹھ سال سے دولت خداداد کو لوٹ رہے ہیں۔ انہیں نہ تو پاکستان سے دلچسپی ہے نہ مسلمانوں سے ہمدردی ہے بلکہ وہ انگریز‘ امریکہ ہندو سب کے وفادار ہیں مگر وہ نہیں وفادار تو صرف اس دولت خداداد اور اس کی مسلمان رعایا کے وفادار نہیں ہیں! ان ہندو مزاج مسلمانوں سے نجات پانا ضروری ہے۔ پاکستان مسلمانوں کے آزادانہ ووٹ نے بنایا ہے اوراسکی بقاء بھی مسلمانوں کے آزادانہ ووٹ سے وابستہ ہے! اب وہ لمحہ آ چکا ہے جس میں ہندو کے ناپاک عزائم پر فیصلہ کن ضرب پڑیگی اور اسکے ساتھ ہی ہندو مزاج مسلمان بھی قصہ پارینہ بن جائینگے۔ اب ایک بار پھر برعظیم کی ملت اسلامیہ بیدار ہو کر آئندہ الیکشن میں ہندو اور اسکے ہندو مزاج مسلمانوں کا حساب کتاب چکا دیگی۔
یہ ہندومزاج مسلمان بھارت کے برہمن بنیا کی آخری امید ہیں‘ یہ ہندو مزاج مسلمان بھارت کے چانکیا صفت لیڈروں کی چکنی چپڑی باتوں میں آ کر اپنے ماضی سے برگشتہ اور ساتھ ہی چانکیائی ہندو نسل کی گزشتہ فریب کاریوں اور چیرہ دستیوں کو ہی فراموش کرنے کیلئے تیار ہیں۔ یہ تو تاریخ کو ایک بار پھر الٹی زقند لگوانے کیلئے بھی تیار ہیں! یہ ’’واہگہ کی لکیر‘‘کو مٹانے کیلئے بھی آمادہ ہیں جو بھارت سے آنیوالے ہر چانکیائی ہندو کو چبھتی ہے‘ مگر یہ ہندو مزاج عافیت پسند بزدل یہ نہیں پوچھتے کہ گزشتہ ساٹھ سال میں ہندو نے اپنے رویہ میں کیا تبدیلی کی ہے؟ وہی اکبری عہد کی متحدہ قومیت کا نعرہ‘ انگریز دور کی وہی فریب کاریاں‘ اپنی خونخوار اکثریت اور مسلمان سے ایک ہزار سالہ غلامی کے انتظام کا وہی نشہ اور رام راج کا جنون! ہندو آج بھی انہی قدموں پر کھڑا ہے اور اس کا آج بھی ایجنڈا وہی ہے جو اکبری عہد میں تھا اور جو کچھ انگریز نے اور منحوس انگریز کیساتھ ساز باز کرنیوالی چانکیائی ہندو قیادت نے ورثہ میں دیا تھا! یہی کہ اس برعظیم میں ملت اسلامیہ کیلئے عزت اور آزادی کی زندگی کا کوئی جواز نہیں۔ چونکہ ہندو اکثریت میں ہیں لہٰذا سب کو اسی اکثریت کی ثقافت کو اپنانا ہو گا اور یہ کہ پاکستان کو کسی حال میں بھی برداشت نہیں کرنا اسے ہندو اکثریت کی گود میں پکے ہوئے پھل کی طرح آ گرنا ہے‘ یہی وہ ورثہ ہے جو نہرو‘ پٹیل اور اندرا گاندھی ہندو نسلوں کو دیکر گئے ہیں! آزاد بھارت میں ہندو اپنی اقلیتوں خصوصاً بیس کروڑ مسلمان اقلیت کیلئے اچھے ہموطن کیوں نہیں بن سکتے؟
آزاد بھارت اپنے پڑوسیوں کیلئے اچھا ہمسایہ کیوں نہیں بن سکتا؟ اپنی خونخوار اکثریت کے گھمنڈ میں اپنے پڑوسی ملک کیلئے بڑے بھائی کا کردار کیوں نہیں ادا کر سکتا؟ مگر یہ سب باتیں خونخوار اکثریت کیلئے بے فائدہ ہیں اور ہماری ہندو مزاج مسلمان قیادتوں کیلئے بھی بے معنی ہیں‘ اس لئے ہمارا بھی یہ فرض ہے کہ ہم اپنی ’’ہندو مزاج لیڈرشپ‘‘ کومسترد کر دیں اور بھارت کے لبھورام کو وہی جگہ دیں جو ہم گزشتہ پندرہ صدیوں میں اسے دیتے آئے ہیں۔ ہمیں صرف ’’ایک اور جناح‘‘ درکار ہے جو ہمیں ہندو کی خونخواری اور ’’ہندو مزاج مسلمان‘‘ قیادتوں کے چنگل سے نجات دلا دے۔
ہندو کے دماغ میں جو تازہ خناس گھسا ہے وہ ایشیا میں ہندو امپائر کا قیام ہے‘ ہندو برہمن اب ہندو امپیریلزم کو ایشیا پر مسلط کرنے کے خواب دیکھ رہا ہے مگر اسکی راہ میں بظاہر دو رکاوٹیں حائل ہیں جنہیں وہ امریکہ کی فوجی طاقت اور اسرائیل کی فریب کاری کے سہارے عبور کر کے ایشیا کی واحد سپر پاور بننے کی فکر میں ہے‘ ان رکاوٹوں میں سے ایک رکاوٹ چین ہے‘ چین کو وہ امریکہ کے سہارے رستے سے ہٹانا چاہے گا مگر اسلام اور پاکستان کیخلاف اسکے پاس دو ہتھیار ہیں‘ ان میں ایک یہودی ہے جو پیغمبر اسلام ﷺ سے ازلی حسد و عداوت رکھتا ہے اور دوسرا ہندو مزاج مسلمان ہے جس کے ذریعہ وہ پاکستان کو زیر کر کے اپنا تابع مہمل بنانے کی آرزو رکھتا ہے‘ اس لئے غیور پاکستانی قوم کا یہ فرض ہے کہ اپنی قیادت کی کرسی ہندو مزاج مسلمان سے چھین لے اور اگلے الیکشن میں ایک ایسی نئی قیادت لائے جو اقبال اور قائد کے فکر و عمل کو اپنا رہنما بنا کر قائدانہ کردار ادا کرے جو برعظیم پاک و ہند کے مسلمان کا مقدر قرار پا چکا ہے۔
دراصل بات یہ ہے کہ ہندو کا یہ نشہ پورا نہیں ہو رہا اس لئے وہ اپنے ٹوٹتے ہوئے نشے کے باعث پاگل ہو چکا ہے مگر ہوتا رہے۔ اب وہ اسی پاگل پن میں بھارت جیسے اتنے بڑے ملک سے بھی جائیگا۔ کیونکہ وہ اپنے ظلم اور بے انصافی کے باعث نااہل حکمران ثابت ہو چکا ہے وہ ایک اچھا حکمران ثابت نہیں ہوا‘ براہموطن ثابت ہو چکا ہے اور بدترین پڑوسی بھی ثابت ہو چکا ہے۔ وہ خونخوار اکثریت کے نشے میں ہے اور پرامن بقائے باہمی کی خاطر اس روشن اور بیدار انسانی دور میں بھی انسان بننے کیلئے آمادہ نہیں!
اصل کام اب یہ ہے کہ پاکستان کا بیدار مسلمان اپنے انگریز زدہ ہندو مزاج مسلمان لیڈروں سے نجات پائے جو گزشتہ ساٹھ سال سے دولت خداداد کو لوٹ رہے ہیں۔ انہیں نہ تو پاکستان سے دلچسپی ہے نہ مسلمانوں سے ہمدردی ہے بلکہ وہ انگریز‘ امریکہ ہندو سب کے وفادار ہیں مگر وہ نہیں وفادار تو صرف اس دولت خداداد اور اس کی مسلمان رعایا کے وفادار نہیں ہیں! ان ہندو مزاج مسلمانوں سے نجات پانا ضروری ہے۔ پاکستان مسلمانوں کے آزادانہ ووٹ نے بنایا ہے اوراسکی بقاء بھی مسلمانوں کے آزادانہ ووٹ سے وابستہ ہے! اب وہ لمحہ آ چکا ہے جس میں ہندو کے ناپاک عزائم پر فیصلہ کن ضرب پڑیگی اور اسکے ساتھ ہی ہندو مزاج مسلمان بھی قصہ پارینہ بن جائینگے۔ اب ایک بار پھر برعظیم کی ملت اسلامیہ بیدار ہو کر آئندہ الیکشن میں ہندو اور اسکے ہندو مزاج مسلمانوں کا حساب کتاب چکا دیگی۔
یہ ہندومزاج مسلمان بھارت کے برہمن بنیا کی آخری امید ہیں‘ یہ ہندو مزاج مسلمان بھارت کے چانکیا صفت لیڈروں کی چکنی چپڑی باتوں میں آ کر اپنے ماضی سے برگشتہ اور ساتھ ہی چانکیائی ہندو نسل کی گزشتہ فریب کاریوں اور چیرہ دستیوں کو ہی فراموش کرنے کیلئے تیار ہیں۔ یہ تو تاریخ کو ایک بار پھر الٹی زقند لگوانے کیلئے بھی تیار ہیں! یہ ’’واہگہ کی لکیر‘‘کو مٹانے کیلئے بھی آمادہ ہیں جو بھارت سے آنیوالے ہر چانکیائی ہندو کو چبھتی ہے‘ مگر یہ ہندو مزاج عافیت پسند بزدل یہ نہیں پوچھتے کہ گزشتہ ساٹھ سال میں ہندو نے اپنے رویہ میں کیا تبدیلی کی ہے؟ وہی اکبری عہد کی متحدہ قومیت کا نعرہ‘ انگریز دور کی وہی فریب کاریاں‘ اپنی خونخوار اکثریت اور مسلمان سے ایک ہزار سالہ غلامی کے انتظام کا وہی نشہ اور رام راج کا جنون! ہندو آج بھی انہی قدموں پر کھڑا ہے اور اس کا آج بھی ایجنڈا وہی ہے جو اکبری عہد میں تھا اور جو کچھ انگریز نے اور منحوس انگریز کیساتھ ساز باز کرنیوالی چانکیائی ہندو قیادت نے ورثہ میں دیا تھا! یہی کہ اس برعظیم میں ملت اسلامیہ کیلئے عزت اور آزادی کی زندگی کا کوئی جواز نہیں۔ چونکہ ہندو اکثریت میں ہیں لہٰذا سب کو اسی اکثریت کی ثقافت کو اپنانا ہو گا اور یہ کہ پاکستان کو کسی حال میں بھی برداشت نہیں کرنا اسے ہندو اکثریت کی گود میں پکے ہوئے پھل کی طرح آ گرنا ہے‘ یہی وہ ورثہ ہے جو نہرو‘ پٹیل اور اندرا گاندھی ہندو نسلوں کو دیکر گئے ہیں! آزاد بھارت میں ہندو اپنی اقلیتوں خصوصاً بیس کروڑ مسلمان اقلیت کیلئے اچھے ہموطن کیوں نہیں بن سکتے؟
آزاد بھارت اپنے پڑوسیوں کیلئے اچھا ہمسایہ کیوں نہیں بن سکتا؟ اپنی خونخوار اکثریت کے گھمنڈ میں اپنے پڑوسی ملک کیلئے بڑے بھائی کا کردار کیوں نہیں ادا کر سکتا؟ مگر یہ سب باتیں خونخوار اکثریت کیلئے بے فائدہ ہیں اور ہماری ہندو مزاج مسلمان قیادتوں کیلئے بھی بے معنی ہیں‘ اس لئے ہمارا بھی یہ فرض ہے کہ ہم اپنی ’’ہندو مزاج لیڈرشپ‘‘ کومسترد کر دیں اور بھارت کے لبھورام کو وہی جگہ دیں جو ہم گزشتہ پندرہ صدیوں میں اسے دیتے آئے ہیں۔ ہمیں صرف ’’ایک اور جناح‘‘ درکار ہے جو ہمیں ہندو کی خونخواری اور ’’ہندو مزاج مسلمان‘‘ قیادتوں کے چنگل سے نجات دلا دے۔
ہندو کے دماغ میں جو تازہ خناس گھسا ہے وہ ایشیا میں ہندو امپائر کا قیام ہے‘ ہندو برہمن اب ہندو امپیریلزم کو ایشیا پر مسلط کرنے کے خواب دیکھ رہا ہے مگر اسکی راہ میں بظاہر دو رکاوٹیں حائل ہیں جنہیں وہ امریکہ کی فوجی طاقت اور اسرائیل کی فریب کاری کے سہارے عبور کر کے ایشیا کی واحد سپر پاور بننے کی فکر میں ہے‘ ان رکاوٹوں میں سے ایک رکاوٹ چین ہے‘ چین کو وہ امریکہ کے سہارے رستے سے ہٹانا چاہے گا مگر اسلام اور پاکستان کیخلاف اسکے پاس دو ہتھیار ہیں‘ ان میں ایک یہودی ہے جو پیغمبر اسلام ﷺ سے ازلی حسد و عداوت رکھتا ہے اور دوسرا ہندو مزاج مسلمان ہے جس کے ذریعہ وہ پاکستان کو زیر کر کے اپنا تابع مہمل بنانے کی آرزو رکھتا ہے‘ اس لئے غیور پاکستانی قوم کا یہ فرض ہے کہ اپنی قیادت کی کرسی ہندو مزاج مسلمان سے چھین لے اور اگلے الیکشن میں ایک ایسی نئی قیادت لائے جو اقبال اور قائد کے فکر و عمل کو اپنا رہنما بنا کر قائدانہ کردار ادا کرے جو برعظیم پاک و ہند کے مسلمان کا مقدر قرار پا چکا ہے۔
Ma Ma Je-
192
Join date/تاریخ شمولیت : 18.04.2014
Age/عمر : 69
Page 1 of 1
Permissions in this forum:
You cannot reply to topics in this forum
Tue Feb 04, 2020 6:49 pm by munsab
» گوگل کرُوم
Tue Dec 03, 2019 8:35 pm by Munsab Ali
» فوٹو شاپ
Tue Dec 03, 2019 8:33 pm by Munsab Ali
» شمشیر بے نیام قسط نمبر 2
Sat Nov 30, 2019 11:25 pm by Munsab Ali
» شمشیر بے نیام قسط نمبر 1
Sat Nov 30, 2019 9:56 pm by Munsab Ali
» متنازع سائبر کرائم بل 2015 متفقہ طور پر منظور کرلیا۔ -
Wed Jul 27, 2016 11:54 am by Munsab Ali
» All in One
Fri Dec 25, 2015 10:23 pm by RASHID KHAN
» Best Action Movies 2015 English Hollywood - TOM CRUISE - New Adventure Movies 2015
Thu Dec 10, 2015 2:05 pm by Munsab Ali
» Shinobido - Ninja
Thu Dec 10, 2015 1:53 pm by Munsab Ali