Munsab Ali Warsak
براے مہر بانی نیچے رجسٹریشن کلک کریں اور اگر آپ کا ریجسٹریشن ہوئی ہیں تو لوگ ان کلک کریں ، آپ سے گزارش ہیں کہ رجسٹریشن کرنے کے بعد لوگ ان ہوجائے - مدیر اعلٰی منصب علی

Join the forum, it's quick and easy

Munsab Ali Warsak
براے مہر بانی نیچے رجسٹریشن کلک کریں اور اگر آپ کا ریجسٹریشن ہوئی ہیں تو لوگ ان کلک کریں ، آپ سے گزارش ہیں کہ رجسٹریشن کرنے کے بعد لوگ ان ہوجائے - مدیر اعلٰی منصب علی
Munsab Ali Warsak
Would you like to react to this message? Create an account in a few clicks or log in to continue.

غریب عوام عیاش حکمران

Go down

غریب عوام عیاش حکمران Empty غریب عوام عیاش حکمران

Post by Ma Ma Je Fri May 16, 2014 4:54 pm

کچھ عرصہ قبل ایک صاحب نیوزی لینڈ گئے۔ وہاں لارڈ میئر آف آک لینڈ نے ان کے اعزاز میں ایک بڑا عشائیہ دیا۔ اس میں نیوزی لینڈ کی معروف شخصیات اور اہلِ دل پاکستانیوں کی ایک کثیر تعداد نے شرکت کی۔ نیوزی لینڈ کے سابق وزیراعظم ڈیوڈلینگ بھی شرکا میں شریک تھے۔ کھانے کا آغاز ہوا تو حاضرین آپس میں گھل مل گئے۔ نیوزی لینڈ کے سابق وزیراعظم نے اس کو بتایا ان کے ملک کی اسٹیل مل صنعت میں پاکستانی حکمرانوں اور سرمایہ داروں نے 50 فیصد انوسٹمنٹ کر رکھی ہے۔ اس سرمائے کی وجہ سے نیوزی لینڈ کی اس صنعت نے بہت ترقی پائی ہے۔ لوگوں کو روزگار ملا ہے۔ ملک کے جی ڈی پی میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ یہ شخصیت اس انکشاف پر ششد رہ گئی۔ وہاں موجود ایک پاکستانی نے انہیں بتایا سوئٹزرلینڈ کے 13 بینکوں میں ایک سو ارب ڈالر پاکستانیوں نے انویسٹ کر رکھے ہیں۔ اس محفل میں موجود پاکستانی تارکینِ وطن نے انکشافات کا ڈھیر لگانا شروع کردیا۔ اس نے نہایت دلگیری سے لکھا ہے کہ پاکستان کا حکمران اور سرمایہ دار طبقہ کس درجہ بے حس ہے۔ وہ اپنے ملک کے غریبوں اور مسکینوں کا مال ہتھیا کر غیرملکیوں کی رَگوں میں دوڑا رہا ہے۔ انہیں طاقت ور اور توانا بنا رہا ہے۔ خود یہ طبقہ ہمیں جمہوریت کے ثمرات پر کس کس طرح قائل کرتے ہوئے نہیں تھکتا؟ یہ عوام سے قربا نیاں مانگتا اور خود دولت کی زنبیل بھر کر بیرونِ ملک سرمایہ کاری کرتا پھرتا ہے۔
 چند ماہ قبل ایف بی آر نے ایک ٹیکس ڈائریکٹری شائع کی تھی۔ اس میں ہمارے قومی، صوبائی اسمبلیوں سینٹ اراکین، حکمرانوں، سیاست دانوں کے انکم ٹیکس کی رُوداد بیان کی گئی تھی۔
اس میں پوری تفصیل کے ساتھ لکھا تھا اس دولت مند کلاس نے کتنا کم اور مضحکہ خیز ٹیکس ادا کیا ہے۔ ان کے علاوہ ہمارے سرمایہ داروں اور بڑے تاجروں کا رویہ بھی سخت غیرتسلی بخش ہے۔ اس کلاس نے مسلم لیگ ن کی الیکشن کیمپین میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ دونوں کے آپس میں وعدے و عید ہوئے تھے۔ حکومت نے آنے کے بعد ٹیکس جی ڈی پی 15 فیصد تک لے جانے کے دعویٰ کیے۔ سرمایہ داروں کے مفادات پر زد پڑی۔ انہوں نے شٹرڈائون کی دھمکی دی۔ 23 ستمبر کو وزیر خزانہ نے ان کے مطالبات مان لیے۔ وزیراعظم نے ایک ٹیکس ایمنسٹی اسکیم متعارف کروائی۔ 21 مارچ تک صرف 3 ہزار تاجروں نے اس میں 88 ملین روپے جمع کروائے۔ اب اس اسکیم کا دورانیہ 28 فروری سے بڑھا کر 30 اپریل کردیا گیا ہے۔ ایف بی آر کے مطابق قومی خزانے میں ہمارے تاجروں اور سرمایہ داروں کا جمع کردہ ٹیکس 0.5 فیصد ہے۔ یوں صورت حال یہ بنی کہ ہمارا جاگیر دار ٹیکس سے مبرا ایک مخلوق ہے۔ ہمارے سیاست دان ٹیکس چور ہیں۔ ہمارا سرمایہ دار قلیل ترین ٹیکس دینے والا طبقہ ہے۔ حکومت کھانے پینے کی اشیاء بجلی، گیس، پیٹرول، ڈیزل مہنگا کر کے اپنا خزانہ بھرتی اور آئی ایم ایف ورلڈ بینک کے سود ادا کرتی ہے۔ اس کے باوجود آئی ایم ایف کے سربراہ جیفری فرینکس نے پاکستان کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ مجبور پاکستانیوں کو مزید شکنجوں میں کَس کر ان کے لہو کی آخری بوندیں نچوڑ لینے کا اعلیٰ فریضہ حکومت کو سونپ دیا ہے۔ آئی ایم ایف اپنے غیرملکی مشیرپاکستان میں مقرر کرتا رہتا ہے، جو اعلیٰ مراعات اور بھاری تنخواہیں قومی خزانے سے لیتے اور مسلسل نئی اسکیمیں حکومت کو بتاتے رہتے ہیں۔ یہ وہ جلاد ہیں۔ جن کے ہاتھوں میں ننگی تلواریں ہیں۔ جن کے دل میں عام مفلوک الحال پاکستانیوں کے لیے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ 
ڈالر کے مقابلے میں روپے کی پوزیشن مستحکم ہونے سے عوام کی زندگی میں سُکھ کی ذرا برابر بھی چھائوں نہیں آئی۔ اب حکومت فرما رہی ہے ڈالر کو دوبارہ مضبوط کرنا ہو گا ورنہ برآمدات رُک جائیں گی۔ اب ساری توانائیاں اس نقطے پر مرکوز ہیں کہیں ڈالر 98 روپے سے کم نہ ہو جائے۔ دوسری طرف اسٹیٹ بینک نے ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ ہمارا تجارتی خسارہ رواں مالی سال کے 9 ماہ کے دوران 16 ارب 96 کروڑ ڈالر ہوگیا ہے۔ گزشتہ حکومت کو ایک ارب 25 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کرنٹ اکائونٹ خسارے اور 14 ارب 92 کروڑ 60 لاکھ ڈالرتجارتی خسارے کا سامنا تھا۔ یوں جو خسارہ پچھلے سال جی ڈی پی کا 0.71 تھا، اب 1.2 فیصد تک آگیا ہے۔ 
واشنگٹن میں امریکی انسٹیٹیوٹ آف پیس میں خطاب کرتے ہوئے ہمارے وزیر خزانہ نے عالمی منڈی میں 2 ارب ڈالر کے یورو بانڈز کا اجرا کیا ہے۔ حکومت بیرونی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے مائل کرنے کی کوششوں میں ہے۔ ہم نہیں جانتے اُجاڑ باغوں کی سیر کرنے کو کوئی نہیں آتا۔ ہمیں پہلے باغ میں سے جھاڑ جھنکار صاف کرنا چاہیے۔ باڑوں کی قطع و برید کرنی چاہیے۔ درختوں کی بے ہنگم شاخوں کو کترنا چاہیے۔ پھولوں کی روشوں میں پانی ڈالنا چاہیے۔ تب ہم اس قابل ہوں گے ہم باغ کے پھاٹک بیرونی سیاحوں کے لیے کھول دیں۔ ابھی صورت حال یہ ہے موسمِ گرما کے آغاز پر ہی ہمارا بجلی کا شارٹ فال 5000 میگا واٹ سے تجاوز کر گیا ہے۔ لوڈ شیڈنگ کے دورانیوں میں نئے دن اضافہ ہو رہا ہے۔ ہمارا محنت کش طبقہ مجبور اور لاچار ہوتا جارہا ہے۔ بجلی کے نرخوں میں ہر سہ ماہی ہوش رُبا اضافہ ہو رہا ہے۔ عام صارف کم بجلی استعمال کر کے بھی بھاری بلوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔ 
وزیراعظم نے چین کے شہر ’’بائو‘‘ میں کانفرنس کے بعد چینی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں 2 بجلی گھر لگانے کے لیے کنسورشیم بنانے کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ یہ درست سمت میں قدم ہے۔ ہمیں یورو بانڈز بیچنے کی بجائے بجلی کی ضرورت کو پہلے پورا کرنا ہو گا۔ بیرونی سرمایہ کار ایسے ملک میں کارخانے نہیں لگائے گا جہاں بجلی ہی ناپید ہو۔ 
سی این جی (کمپسریسڈ نیچرل گیس) اور این ایل جی(لیکولفاہیڈنیچرل گیس)کی ملک میں کمی سے ہماری صنعتیں اور گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ ہر گزرتے سال کے ساتھ بحران شدید ہوتا جاررہا ہے۔ 40کروڑ کیوبک فٹ یومیہ ایل این جی درآمد کرنے کے لیے ہم ایک ٹرمینل بنا رہے ہیں۔ اگر یہ منصوبے پایۂ تکمیل کو پہنچتے ہیں تو حکومت کو چاہیے عام عوام کے لیے بجلی گیس سستے نرخوں پر مہیا کرے۔ ان کی قیمتوں میںاضافے کو ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی شرائط سے نہ جوڑا جائے۔ امریکا اور عالمی بینک ہمیں 30 جون تک 245 کروڑ ڈالر امداد دینے والے ہیں۔ ہمیں ہر امداد کو وصول کرنے سے پہلے عائد کردہ شرائط کا نہایت ٹھنڈے دل سے جائزہ لینا چاہیے۔ حکومت وہی اچھی ہوتی ہے جس کے پاس عوام کے لیے خیر ہو۔ 
کوریا کی حکومت نے پاکستان کو کروڑوں روپے مالیت کی ایک لیبارٹری تحفے میں دی ہے۔ یہ اسلام آباد میں پانی کو صاف کرنے کے لیے جلد کام شروع کر دے گی۔ اسلام آباد کے آگے بھی ہمارے اَن گنت شہر ہیں جہاں سرے سے پینے کا پانی ہی میسر نہیں۔ اگر دستیاب ہے تو نہایت درجہ آلودہ ہے۔ کراچی سمیت کئی شہروں میں یہ صورت حال گھمبیر ہوتی جارہی ہے۔ صاف پینے کا پانی ملنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ اگر منی پاکستان ایسے حالات کا شکار رہے تو دور افتادہ شہروں میں کیا صورت حال ہو گی۔ آلودہ پانی کی وجہ سے ہماری آبادی کا 10 فیصد حصہ ہیپاٹائٹس کا شکار ہو گیا ہے۔ اس بارے میں پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن نے ایک مفصل رپورٹ شایع کی ہے۔ حکومت کو چاہیے کراچی سمیت ہر چھوٹے بڑے شہر میں صاف ستھرا پینے کا پانی مہیا کرے تا کہ جان لیوا بیماریوں پر قابو پایا جاسکے۔ 
میڈیکل ایسوسی ایشن نے پنجاب میں بننے والی متعدد جان بچانے والی ادویات کو جعلی قرار دیا ہے۔ شیخوپورہ میں ایک بڑی فیکٹری پکڑی گئی ہے جہاں یہ گھنائونا دھندہ اپنے پورے عروج پر تھا۔ متعدد ٹینکوں میں عام پانی بھرا ہوا تھا۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ نے پنجاب حکومت پراس جرم کی روک تھام کے لیے زور دیا ہے۔ بدقسمتی سے پنجاب آج کل ایسے جرائم میں اوّل درجے پر فائز دکھائی دے رہا ہے۔ دوسری طرف یہاں آٹا ملوں نے من چاہے ریٹ پر آٹا فروخت کرنا شروع کر دیا ہے۔ فی تھیلا 150 روپے کا اضافہ عقل و فہم سے بالا تر ہے۔ گڈگورننس کا نعرہ لگانے والی پنجاب حکومت کو اس کے ساے تلے پرورش پانے والے ان جرائم کا فی الفور خاتمہ کرنا چاہیے۔ 
حکومت نے 2 ارب روپے کے رمضان پیکیج کا اعلان کیا ہے۔ یہ رعایت یوٹیلیٹی اسٹورز پر ہی نظر آ پائے گی۔ اچھا ہوتا اگر حکومت رمضان کے مقدس مہینے میں ذخیرہ اندوزوں اور گران فراشوں کی گو شمالی کے لیے کسی اقدام کی منظوری دیتی۔ یوٹیلیٹی اسٹورز ملک میں اتنے کم ہیں کہ وہاں عام عوام کا سامان خریدنا ایک کوہِ گراں بن جاتا ہے۔ کوسوں لمبی قطاروں میں دہکتے سورج تلے کھڑے ہونا اور سامان خریدنا انسانیت کی توہین ہے۔ اگر سارے ملک میں ایک ہی پالیسی متعارف ہو اور سرکار اس کی خلاف ورزی پر فوراً حرکت میںآئے تو عوام کا اس میں بہت بھلا ہو گا۔ وہ سکھ کا سانس لیں گے اور مقدس مہینے میںیکسوئی کے ساتھ عبادات پر توجہ دے سکیں گے اور حکومت کو دعائیں دیں گے۔ 
مہنگائی کی سب سے بڑی وجہ 17 فیصد جنرل سیلز ٹیکس ہے۔ یہ ٹیکس کسی بھی چیز کی تیاری کے ہر مرحلے پر استعمال ہونے والی ہر شے پر الگ الگ لگتا ہے۔ سرمایہ دار سیلز ٹیکس کی ایڈجسٹمنٹ اور رِی فنڈ کے لیے جعلی کلیم اور رسیدیں دکھا کر اس ٹیکس کو کھانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ یوں 17 فیصد جنرل سیلزٹیکس میں سے صرف 4 فیصد قومی خزانے تک پہنچ پاتا ہے۔ باقی 11 فیصد سرمایہ دار مل مالک یا انڈسٹریلسٹ ہڑپ کر جاتے ہیں۔ بھاری منافع وہ اس کے علاوہ ہتھیاتا ہے۔ اس مالی سال حکومت کو سیلز ٹیکس کی مد میں ایک ہزار ارب روپے ملے ہیں۔ اگر حکومت کسی بھی شے کی تیاری کے آخری مرحلے پر 17 کی بجائے 7 فیصد سنگل ٹیکس لگا دے تو سرمایہ دار اسے نگل نہیں پائے گا۔ قومی خزانے کو 1500 سے 1700 ارب روپے کا ٹیکس مل جائے گا۔ عوام پر سے مہنگائی کا 10 فیصد اضافی بوجھ ہٹ جائے گا۔ مجھے معلوم ہے حکومت پر سرمایہ داروں کا اثر و رسوخ غیرمعمولی ہے۔ اگر ہمارے حکمران آنے والے بجٹ میں صرف یہی ایک اقدام اٹھالیں تو مہنگائی کے غبارے سے کافی ہوا نکل سکتی ہے۔ ہوس پرستوں کے شکم کو صرف قبر کی مٹی ہی بھرسکتی ہے۔ ان کو خوش کرنے کے لیے عوام کی زندگیوں کا خون کرنا حکمرانی نہیں بہت بڑی ستم ظریفی ہے۔
Ma Ma Je
Ma Ma Je

Goat
192
Join date/تاریخ شمولیت : 18.04.2014
Age/عمر : 69

Back to top Go down

Back to top

- Similar topics

 
Permissions in this forum:
You cannot reply to topics in this forum