آخری اینٹ
Page 1 of 1
آخری اینٹ
حمد و صلوۃ کے بعد… استاذ محترم، شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم، مہمان خصوصی جناب جسٹس سعیدالزماں صدیقی صاحب، گرامی قدر علمائے کرام اور محترم سامعین! مجھے اس کورس کے ایک شریک اور طالب علم کی حیثیت سے اظہار خیال کے لیے بلایا گیا ہے۔ اس لیے کوشش کروں گا کہ طالب علمانہ گفتگو پر ہی اکتفا کروں۔ اس سے زیادہ ہماری حیثیت ویسے بھی نہیں اور آج تو محفل کی نوعیت کا تقاضا بھی یہی ہے۔ شروع میں چند باتیں اس کورس کے پس منظر کے حوالے سے عرض کرتا ہوں۔ ہمیں اس کورس کے انعقاد کا شوق کیوں پیدا ہوا؟ ہم میں سے اکثر بوڑھے طوطے تھے۔ یعنی شرکا کی اکثریت میرے محترم بوڑھے دوستوں کی تھی۔ اس کے باوجود ہم نے صبح و شام اچھی طرح سے اخذ و ضبط کی کوشش کیوں کی؟ آخر میں ایک درخواست آج کی محفل کے صدر محترم کی خدمت میں، اور ایک درخواست مہمان خصوصی جناب جسٹس صاحب کی خدمت میں عرض کرکے
رخصت چاہوں گا۔ جس ذوق و شوق سے میں نے اور میرے محترم ساتھیوں نے جو دس دس ، بیس بیس سال کا تدریس اور افتاء کا تجربہ رکھتے تھے، اور ہمارے ساتھ ایسے حضرات بھی تھے، جو مختلف پیشہ ورانہ مہارت کے اعتبار سے اپنے اپنے شعبوں میں بڑا نام رکھتے ہیں۔ ہم سب نے اس کورس میں اس واسطے پوری دلچسپی کے ساتھ شرکت کی، کورس سے پہلے اس کے لیے ہم نے کافی تیاری کی تھی، پھر کورس کے دنوں میں وقت کی پابندی کے ساتھ اسے نبھایا… یہ سب اس وجہ سے تھا کہ علمائے کرام، دینی مدارس اور دینی تحریکوں کی ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ ان تمام شعبوں کو زندہ رکھیں، جو دین کے اصلی یا ضمنی شعبے ہیں۔
دوسرے لفظوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان تمام سنتوں اور ہدایات کو زندہ رکھنے کی کوشش کریں جو معاشرے کی رہنمائی کے حوالے سے دی گئی ہیں۔ اور جن کی وجہ سے بہت اچھی، مثبت اور تعمیری روایات معاشرے میں پروان چڑھتی ہیں۔ ان میں سے ایک وہی ہے جس کے عنوان سے ہم اور آپ آج یہاں جمع ہیں۔
انسانی تاریخ جتنی قدیم ہے، اتنا ہی انسانوں کے درمیان تنازعات کا پیدا ہونا اور ان کے تصفیوں کے طریقے وجود میں آنا بھی قدیم ہے۔ اب شریعتِ اسلام کو اللہ تعالیٰ نے جہاں یہ صفت دی ہے کہ وہ پچھلی تمام شریعتوں کی تمام اہم، مثبت اور مرکزی چیزوں کی جامع ہے، وہاں اسے یہ صفت بھی دی ہے کہ قیامت تک آنے والے حالات جو مختلف ممالک اور مختلف براعظموں میں، مختلف طرح کے انسانوں کو پیش آئیں گے، ان کے حل کا بنیادی طریق کار اس میںموجود ہے۔ ہمارے اس دور میں بوجوہ ہماری دینی تعلیم میں یہ ایک آخری اینٹ کچھ خلا کا اظہار کرتی ہے۔ یعنی ہمارے ہاں حفظ سے لے کر مفتی بننے تک اور پہلی جماعت سے لے کر ایم بی اے تک، ایک ہی چھت کے نیچے، ایک ہی چار دیواری میں تعلیم دی جارہی ہے۔ کوئی حافظ بننا چاہتا ہے، بن سکتا ہے۔ مفتی بننا چاہتا ہے، بن سکتا ہے۔ البتہ دینی تعلیم کا اس سے آگے بھی ایک مرحلہ ہے۔ وہ ہے: ’’قضائ‘‘۔ اس قضاء کے ضمن میں پنچائتی ثالثی بھی ہے اور مصالحتی ثالثی بھی۔ یہ مرحلہ ہمارے ہاں ابھی تکمیل کا متقاضی ہے۔ اس پر ہمارے اس دور میں اورماضی قریب میں، ہمارے نصاب اور تربیت کے نظام میں، اس موضوع پر توجہ دینے کی ضرورت محسوس کی جاتی رہی ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے یا اس کمی کو پورا کرنے میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہمارے جامعہ کو یہ توفیق دی کہ چند سال پہلے قضا کے حوالے سے ایک بڑا کورس ہمارے ہاں ہوا۔ جس میں پاکستانی بھر کے تمام قابلِ ذکر دارالافتائسے دو، دو مفتی حضرات تشریف لائے تھے۔ اس میں جناب جسٹس صاحب بھی تشریف لائے تھے۔ اس کے علاوہ بہت سے مشہور جج صاحبان، قاضی صاحبان اور علمائے کرام تشریف لائے تھے۔ وہ دن اس کوشش کا آغاز تھا۔ جس کوشش کے تحت چلتے چلتے ہم یہاں پہنچے ہیں اور آج یہاں پھرجمع ہیں۔ وہ ایک ٹوٹی پھوٹی سی کوشش تھی۔ اس کوشش میں ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملا، لیکن ساتھ میں یہ بھی سمجھ میں آیا کہ ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے۔ پچھلے دنوں ہمیں یہ علم ہوا کہ جناب جسٹس سعیدالزماں صاحب کے ہاں جو بہت اچھی شہرت اور اچھے کردار کے ساتھ عدلیہ کے سربراہ رہے ہیں، مصالحت کا عمل کس طرح بروئے کار لایا جائے، ان کے ہاں باقاعدہ یہ سکھایا جاتا ہے۔ جب یہ معلوم ہوا تو ہم نے ان سے رجوع کیا۔
اب ایک طرف تو ہمارے ذہن میں یہ تھا کہ ہمارے ہاں حفظ کا کام بہت بھرپور طریقے سے ہورہا ہے۔ اسی طرح درسِ نظامی جس طرح علمائے کرام اپنے بل بوتے پر مکمل کروارہے ہیں، یہ دنیا بھر میں ایک مثال ہے۔ اس سے آگے ’’افتائ‘‘ کے کورس جس طرح ہورہے ہیں… ان سب حوالوں سے ماشاء اللہ بہت عمدہ کام ہورہا ہے۔ تو اب یہ چیز جو باقی ہے، اس کے حوالے سے بھی کچھ نہ کچھ کرتے رہنا چاہیے۔ یہ ہمارے ذہن میں تھا۔ دوسری بات یہ ذہن میں تھی کہ ہمارے عام مسلمان بھائی، ہم سے اپنی ہر اُس دینی ضرورت کو پورا کرنے کا تقاضا کرتے ہیں جو علمائے کرام یا دینی شخصیات سے وابستہ ہے اور دینی رہنما اور مقتدا حضرات کی خصوصیت ہے۔ عوام کی یہ ضرورت بھی ہمیں پوری کرنی چاہیے۔ خلاصہ یہ کہ ایک تو ہمارے نصاب کی یہ اینٹ مکمل ہوجائے، دوسرا ہم اس بہترین خدمت کے قابل ہوسکیں، اُس معصوم سی خواہش کو پورا کرسکیں جو عام مسلمان بھائی ہم سے رکھتے ہیں۔
ہماری قضا کی کتابوں میں یہ لکھا ہوا ہے کہ قاضی جب دعویٰ، جواب دعوی سن لے گا، تنقیحات قائم کرلے گا، شہادات اور فریقین کیبیانات سن لے گا اور آخری فیصلے تک پہنچ جائے گا۔ توفیصلہ سنانے سے پہلے وہ فریقین کو یہ تلقین کرے گا کہ فیصلہ کڑوا ہوتا ہے۔ کڑوے سچ کی طرح اس کا نگلنا آسان نہیں ہوتا۔ آپ کو ہم یہ موقع دیتے ہیں کہ عدالت سے باہر آپس میں صلح کرلیں۔ یہی مصالحتی ثالثی ہے۔ اگر وہ صلح پر راضی نہیں تو اس کے بعد پنچائتی ثالث کو اپنا مقدمہ سناکر اس سے فیصلہ کروالیں۔ اگر وہ اس پر بھی راضی نہیں ہیں تو قاضی صاحب مزید تاخیر نہیں کرے گا اور فیصلہ سنادے گا۔ تو یہ سب چیزیں ہمارے ہاں پائی جاتی تھیں۔ ہمارے معاشروں میں رائج تھیں۔ یہ دوبارہ زندہ ہوجائیں، اس کے لیے ہم نے یہ ایک ٹوٹی پھوٹی سی کوشش کی۔
میری دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن تمام حضرات کو بہت بہت اَجر دے، جنہوں نے ہمارے لیے اس کورس کا انتظام کیا۔ اس کے تمام وسائل مہیاکیے۔ بڑی محنت سے ہم تک معلومات پہنچائی گئیں۔ اس کے عملی فوائد کی طرف میں صرف اشارہ ہی کرسکوں گا۔ بہت اچھی بات جو اللہ تعالیٰ کو بھی پسند ہے کہ معاشرے میں اگر کہیں تنازع جنم لیتا ہے تو جو بھی شخص یہ اہلیت اور استطاعت رکھتا ہے کہ اس تنازع کا تصفیہ کروادے، اسے سامنے آنا چاہیے۔ ان دونوں بھائیوں کے مابین تنازع جنم دینے والے اسباب کو حل کرکے اپنی استطاعت کے مطابق اس کا تصفیہ کرنا چاہیے۔ ہمارے ہاں فقہائے کرام بیع و شرا، ربا و قمار وغیرہ لین دین کے معاملات پر بحث کرتے ہیں تو وہ بہت سارے مسائل ایک اصول پر متفرع کرتے ہیں۔ ایک ایسا اصول جس پر وہ بہت سارے مسائل کا استخراج کرتے ہیں، یہ ہے کہ عقد میں ایسی کوئی چیز نہیں ہونی چاہیے جو آگے جاکر دو آدمیوں کے درمیان تنازع کا سبب بنے۔ جہالت، ضرر اور غرر نہیں ہونا چاہیے۔ جہالت کسی بھی لحاظ سے نہیں ہونی چاہیے۔ نہ اس چیز میں جو لی، دی جارہی ہے، نہ ہی اس کی مدت میں۔ شریعت، جہالت کو کسی شکل میں برداشت نہیںکرتی۔ محض اس لیے کہ یہ تنازع کا سبب بنتی ہے۔ تنازع پیدا ہونے سے معاشی سرگرمیاں رُک جائیں گی، بازار کا لین دین جو آسانی اور روانی کے ساتھ ہورہا تھا، وہ رُک جائے گا۔ جس طرح کہ گھریلو جھگڑے سے خوشحالی ختم ہوجاتی ہے۔ اب تنازع ختم کرنے کے تین ہی طریقے ہیں: یا تو مصالحت کرلی جائے یا پنچایت کرلی جائے یا عدالت میں چلا جائے۔ تو ہمارے علماء کے بس میں یہ طریقہ ہے کہ اُن کے مقتدی، ان کے متعلقین، اگر کسی وقت آپس میں اُلجھ جائیں وہ اُن کے درمیان صلح یا مصالحت کرواسکیں۔
یہ بہت ہی اچھی چیز تھی، میرے ان تمام ساتھیوں نے جو فقہ کی تدریس اور افتاء کاطویل تجربہ رکھتے ہیں، انہوں نے طالب علم اور شاگرد بن کر اور باقاعدہ پورا وقت دے کر، اہتمام کے ساتھ حاضری دے کر، اسے سیکھنے کی کوشش کی تاکہ ہم اپنے بڑوں کی رہنمائی میں اس قابل ہوسکیں کہ جہاں اور مختلف خدمات انجام دی جارہی ہیں۔ مثلاًاسی پلیٹ فارم سے جہاں ہم اس وقت کھڑے ہیں، حلال و حرام سے متعلق معلومات دی جارہی ہیں، جدید مسائل کا حل بتایا جارہا ہے، زکوۃ و حج کے متعلق رہنمائی کی جارہی ہے… ایک اس چیز کا بھی اضافہ ہوجائے کہ اگر ہمارے دو بھائی ازخود یہ سمجھتے ہیں کہ ان علماء کے پاس جاکر ہم اپنے تنازع کا تصفیہ کرلیں اور بات کو عدالت تک نہ لے جائیں۔ خاندانوں کے معاملات نہ اُلجھیں، دو کاروباری پارٹیوں میں بات زیادہ خراب نہ ہو… جب وہ ہماری طرف رجوع کریں تو ہماری طرف سے ان کو مایوس کن جواب کا سامنا نہ کرنا پڑے، بلکہ ہم ان کو شریعت کے مطابق اچھی اور معیاری رہنمائی فراہم کرسکیں۔
آخر میں دو درخواستیں کرنا چاہوں گا: ایک تو ہمارے آج کے صدر گرامی، ہمارے استاذ، مقتدا، مرجع اور محبوب شخصیت حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ العالی کی خدمت میں عاجزانہ درخواست کی شکل میں ۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا میں ایک طالب علم کی حیثیت سے کھڑا ہوں اور طالب علم تو منت سماجت کے انداز میں کچھ بھی کہہ سکتا ہے۔ عرض یہ ہے کہ آپ بھی اپنے ہاں یہ کورس کروائیے۔ کورس کا ایک بیج 18 افراد پر مشتمل ہوتا ہے۔ آپ کے 18 شاگرد، مفتیانِ کرام بہت ہی اعلیٰ درجے کی فقہی صلاحیت رکھتے ہیں۔ صرف دو دن کی بات ہے۔ اگر وہ کورس کرلیں گے تو ’’اُحق النّاس بھذا الأمر‘‘ تو آپ حضرات ہیں۔ آپ کی سرپرستی، آپ کا تجربہ اور آپ کے ماتحت مفتیانِ کرام کی جماعت اس چیز کو لے لے اور یہ چیز علماء میں آہستہ آہستہ چل پڑے تو ایک بہت اچھا رجحان وجود میں آجائے گا۔
دوسری درخواست مہمان خصوصی جناب جسٹس صاحب سے میں درخواست کروں گا کہ ابھی تشنگی باقی ہے۔ ابھی بہت کچھ ہم مزید سیکھنا چاہتے ہیں۔ جناب حضرت استاذ صاحب تشریف فرما ہیں، ہمارے سرپرست اور ہمارے تمام ’’جائز، ناجائز‘‘ مطالبوں کو پورا کرنے والے۔ میرے 17 ساتھیوں کی طرف سے درخواست ہے کہ ہمارے لیے مزید سکھائے جانے کا انتظام کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ اس عمل کی تمام برکات ہم سب کو عطا کرے۔
اب ایک طرف تو ہمارے ذہن میں یہ تھا کہ ہمارے ہاں حفظ کا کام بہت بھرپور طریقے سے ہورہا ہے۔ اسی طرح درسِ نظامی جس طرح علمائے کرام اپنے بل بوتے پر مکمل کروارہے ہیں، یہ دنیا بھر میں ایک مثال ہے۔ اس سے آگے ’’افتائ‘‘ کے کورس جس طرح ہورہے ہیں… ان سب حوالوں سے ماشاء اللہ بہت عمدہ کام ہورہا ہے۔ تو اب یہ چیز جو باقی ہے، اس کے حوالے سے بھی کچھ نہ کچھ کرتے رہنا چاہیے۔ یہ ہمارے ذہن میں تھا۔ دوسری بات یہ ذہن میں تھی کہ ہمارے عام مسلمان بھائی، ہم سے اپنی ہر اُس دینی ضرورت کو پورا کرنے کا تقاضا کرتے ہیں جو علمائے کرام یا دینی شخصیات سے وابستہ ہے اور دینی رہنما اور مقتدا حضرات کی خصوصیت ہے۔ عوام کی یہ ضرورت بھی ہمیں پوری کرنی چاہیے۔ خلاصہ یہ کہ ایک تو ہمارے نصاب کی یہ اینٹ مکمل ہوجائے، دوسرا ہم اس بہترین خدمت کے قابل ہوسکیں، اُس معصوم سی خواہش کو پورا کرسکیں جو عام مسلمان بھائی ہم سے رکھتے ہیں۔
ہماری قضا کی کتابوں میں یہ لکھا ہوا ہے کہ قاضی جب دعویٰ، جواب دعوی سن لے گا، تنقیحات قائم کرلے گا، شہادات اور فریقین کیبیانات سن لے گا اور آخری فیصلے تک پہنچ جائے گا۔ توفیصلہ سنانے سے پہلے وہ فریقین کو یہ تلقین کرے گا کہ فیصلہ کڑوا ہوتا ہے۔ کڑوے سچ کی طرح اس کا نگلنا آسان نہیں ہوتا۔ آپ کو ہم یہ موقع دیتے ہیں کہ عدالت سے باہر آپس میں صلح کرلیں۔ یہی مصالحتی ثالثی ہے۔ اگر وہ صلح پر راضی نہیں تو اس کے بعد پنچائتی ثالث کو اپنا مقدمہ سناکر اس سے فیصلہ کروالیں۔ اگر وہ اس پر بھی راضی نہیں ہیں تو قاضی صاحب مزید تاخیر نہیں کرے گا اور فیصلہ سنادے گا۔ تو یہ سب چیزیں ہمارے ہاں پائی جاتی تھیں۔ ہمارے معاشروں میں رائج تھیں۔ یہ دوبارہ زندہ ہوجائیں، اس کے لیے ہم نے یہ ایک ٹوٹی پھوٹی سی کوشش کی۔
میری دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن تمام حضرات کو بہت بہت اَجر دے، جنہوں نے ہمارے لیے اس کورس کا انتظام کیا۔ اس کے تمام وسائل مہیاکیے۔ بڑی محنت سے ہم تک معلومات پہنچائی گئیں۔ اس کے عملی فوائد کی طرف میں صرف اشارہ ہی کرسکوں گا۔ بہت اچھی بات جو اللہ تعالیٰ کو بھی پسند ہے کہ معاشرے میں اگر کہیں تنازع جنم لیتا ہے تو جو بھی شخص یہ اہلیت اور استطاعت رکھتا ہے کہ اس تنازع کا تصفیہ کروادے، اسے سامنے آنا چاہیے۔ ان دونوں بھائیوں کے مابین تنازع جنم دینے والے اسباب کو حل کرکے اپنی استطاعت کے مطابق اس کا تصفیہ کرنا چاہیے۔ ہمارے ہاں فقہائے کرام بیع و شرا، ربا و قمار وغیرہ لین دین کے معاملات پر بحث کرتے ہیں تو وہ بہت سارے مسائل ایک اصول پر متفرع کرتے ہیں۔ ایک ایسا اصول جس پر وہ بہت سارے مسائل کا استخراج کرتے ہیں، یہ ہے کہ عقد میں ایسی کوئی چیز نہیں ہونی چاہیے جو آگے جاکر دو آدمیوں کے درمیان تنازع کا سبب بنے۔ جہالت، ضرر اور غرر نہیں ہونا چاہیے۔ جہالت کسی بھی لحاظ سے نہیں ہونی چاہیے۔ نہ اس چیز میں جو لی، دی جارہی ہے، نہ ہی اس کی مدت میں۔ شریعت، جہالت کو کسی شکل میں برداشت نہیںکرتی۔ محض اس لیے کہ یہ تنازع کا سبب بنتی ہے۔ تنازع پیدا ہونے سے معاشی سرگرمیاں رُک جائیں گی، بازار کا لین دین جو آسانی اور روانی کے ساتھ ہورہا تھا، وہ رُک جائے گا۔ جس طرح کہ گھریلو جھگڑے سے خوشحالی ختم ہوجاتی ہے۔ اب تنازع ختم کرنے کے تین ہی طریقے ہیں: یا تو مصالحت کرلی جائے یا پنچایت کرلی جائے یا عدالت میں چلا جائے۔ تو ہمارے علماء کے بس میں یہ طریقہ ہے کہ اُن کے مقتدی، ان کے متعلقین، اگر کسی وقت آپس میں اُلجھ جائیں وہ اُن کے درمیان صلح یا مصالحت کرواسکیں۔
یہ بہت ہی اچھی چیز تھی، میرے ان تمام ساتھیوں نے جو فقہ کی تدریس اور افتاء کاطویل تجربہ رکھتے ہیں، انہوں نے طالب علم اور شاگرد بن کر اور باقاعدہ پورا وقت دے کر، اہتمام کے ساتھ حاضری دے کر، اسے سیکھنے کی کوشش کی تاکہ ہم اپنے بڑوں کی رہنمائی میں اس قابل ہوسکیں کہ جہاں اور مختلف خدمات انجام دی جارہی ہیں۔ مثلاًاسی پلیٹ فارم سے جہاں ہم اس وقت کھڑے ہیں، حلال و حرام سے متعلق معلومات دی جارہی ہیں، جدید مسائل کا حل بتایا جارہا ہے، زکوۃ و حج کے متعلق رہنمائی کی جارہی ہے… ایک اس چیز کا بھی اضافہ ہوجائے کہ اگر ہمارے دو بھائی ازخود یہ سمجھتے ہیں کہ ان علماء کے پاس جاکر ہم اپنے تنازع کا تصفیہ کرلیں اور بات کو عدالت تک نہ لے جائیں۔ خاندانوں کے معاملات نہ اُلجھیں، دو کاروباری پارٹیوں میں بات زیادہ خراب نہ ہو… جب وہ ہماری طرف رجوع کریں تو ہماری طرف سے ان کو مایوس کن جواب کا سامنا نہ کرنا پڑے، بلکہ ہم ان کو شریعت کے مطابق اچھی اور معیاری رہنمائی فراہم کرسکیں۔
آخر میں دو درخواستیں کرنا چاہوں گا: ایک تو ہمارے آج کے صدر گرامی، ہمارے استاذ، مقتدا، مرجع اور محبوب شخصیت حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ العالی کی خدمت میں عاجزانہ درخواست کی شکل میں ۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا میں ایک طالب علم کی حیثیت سے کھڑا ہوں اور طالب علم تو منت سماجت کے انداز میں کچھ بھی کہہ سکتا ہے۔ عرض یہ ہے کہ آپ بھی اپنے ہاں یہ کورس کروائیے۔ کورس کا ایک بیج 18 افراد پر مشتمل ہوتا ہے۔ آپ کے 18 شاگرد، مفتیانِ کرام بہت ہی اعلیٰ درجے کی فقہی صلاحیت رکھتے ہیں۔ صرف دو دن کی بات ہے۔ اگر وہ کورس کرلیں گے تو ’’اُحق النّاس بھذا الأمر‘‘ تو آپ حضرات ہیں۔ آپ کی سرپرستی، آپ کا تجربہ اور آپ کے ماتحت مفتیانِ کرام کی جماعت اس چیز کو لے لے اور یہ چیز علماء میں آہستہ آہستہ چل پڑے تو ایک بہت اچھا رجحان وجود میں آجائے گا۔
دوسری درخواست مہمان خصوصی جناب جسٹس صاحب سے میں درخواست کروں گا کہ ابھی تشنگی باقی ہے۔ ابھی بہت کچھ ہم مزید سیکھنا چاہتے ہیں۔ جناب حضرت استاذ صاحب تشریف فرما ہیں، ہمارے سرپرست اور ہمارے تمام ’’جائز، ناجائز‘‘ مطالبوں کو پورا کرنے والے۔ میرے 17 ساتھیوں کی طرف سے درخواست ہے کہ ہمارے لیے مزید سکھائے جانے کا انتظام کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ اس عمل کی تمام برکات ہم سب کو عطا کرے۔
Ma Ma Je-
192
Join date/تاریخ شمولیت : 18.04.2014
Age/عمر : 69
Page 1 of 1
Permissions in this forum:
You cannot reply to topics in this forum
Tue Feb 04, 2020 6:49 pm by munsab
» گوگل کرُوم
Tue Dec 03, 2019 8:35 pm by Munsab Ali
» فوٹو شاپ
Tue Dec 03, 2019 8:33 pm by Munsab Ali
» شمشیر بے نیام قسط نمبر 2
Sat Nov 30, 2019 11:25 pm by Munsab Ali
» شمشیر بے نیام قسط نمبر 1
Sat Nov 30, 2019 9:56 pm by Munsab Ali
» متنازع سائبر کرائم بل 2015 متفقہ طور پر منظور کرلیا۔ -
Wed Jul 27, 2016 11:54 am by Munsab Ali
» All in One
Fri Dec 25, 2015 10:23 pm by RASHID KHAN
» Best Action Movies 2015 English Hollywood - TOM CRUISE - New Adventure Movies 2015
Thu Dec 10, 2015 2:05 pm by Munsab Ali
» Shinobido - Ninja
Thu Dec 10, 2015 1:53 pm by Munsab Ali