ترکی اور پاکستان موازنہ
Page 1 of 1
ترکی اور پاکستان موازنہ
وہ شروع سے ہی مضبوط اعصاب کا مالک تھا۔ نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو ملک کا بہترین فٹ بالر قرار پایا۔ چہرے پر سجی ڈاڑھی انٹرنیشنل فٹ بالر بننے کی راہ میں رکاوٹ بن گئی۔ داڑھی منڈوانے کی شرط اس نے پائے حقارت سے ٹھکرادی۔ راستہ بند دیکھا تو عوام کی خدمت کا فیصلہ کیا۔ 1994ء میںاستنبول شہر کا میئر منتخب ہوا۔ ترکی میں اس کی شہرت اور اس کے وژن کا چرچا ہونے لگا۔ اس نے آتے ہی دیکھا میٹرو پولیٹن میونسپلٹی 2 ارب ڈالر کی مقروض ہے۔ اس نے فوری قرضہ اُتارنے کا فیصلہ کیا۔ قرض اُترا تو شہر کی ترقی پر 4 ارب ڈالر خرچ کر ڈالے۔ رقم کے 100 فیصد شفاف استعمال سے استنبول کا نقشہ ہی بدل گیا۔ استنبول شہر کو پانی کی قلت کا شدید سامنا تھا۔ اس نے اس مسئلے کے حل کا بیڑہ بھی اٹھایا۔ سینکڑوں کلومیٹر نئی پائپ لائنیں بچھا ئیں۔ گلی گلی اور گھر گھر تک پانی پہنچادیا۔ گندگی اورکوڑا کرکٹ بھی شہر استنبول کے دیرینہ مسائل میں سے ایک تھا۔ اس نے ترکی کو نیا آئیڈیا دیا۔ استنبول شہر کی گندگی کو ری سائیکلنگ کے پراسس سے گزارنے کا طریقہ متعارف کرایا جس سے شہر صاف و شفاف ہو گیا۔ اس نے فضائی آلودگی کو ختم کیا۔ ماحولیاتی آلودگی ختم کرنے کے لیے سڑکوں پر گیس سے چلنے والی ہزارہا نئی بسیں دوڑا دیں۔ آبادی میں اضافے کی وجہ سے ٹریفک کئی کئی گھنٹے جام رہتی تھی۔ اس نے شہر میں 50 نئے پل اور درجنوں نئی شاہراہیں بنا دیں، لیکن ان تمام تعمیراتی کاموں میں کوئی ایک پائی کرپشن ثابت نہ کر سکا۔ استنبول شہر کا حلیہ بدلا تو لوگوں کی زندگی میں سکون آ گیا۔
استنبول شہر دنیا کے بہترین شہروں میں شمار ہونے لگا۔ یہ اس کے وژن، اس کی عوامی خدمت کا پہلا چیلنج تھا جو اس نے پورا کر دکھایا۔
استنبول شہر کی تعمیر و ترقی کو دیکھ کر عوام نے اسے ترکی کے وزیراعظم کے طور پر آگے آنے کا مشورہ دیا، چنانچہ 2002ء میں پرائم منسٹر کے انتخابات کے لیے میدان میں کود پڑا۔ پہلے ہی انتخاب میں ترکی کے عوام نے اقتدار کا ’’ہما رجب طیب اردوان‘‘ کے سر پر سجادیا۔ اس کی پارٹی 550 کے ایوان میں 363 نشستیں اور 34 فیصد ووٹ لے کر کامیاب ہوگئی۔ 2007ء میں پھر الیکشن ہوا۔ قوم نے ایک بار پھر اسے منتخب کرلیا۔ اس بار اس نے 7 فیصد زائد ووٹ حاصل کیے۔ یہ مدت بھی پوری ہوئی۔ 2011ء میں ’’رجب طیب اردوان‘‘ اپنے وژن، ملک و قوم کی خدمت کی وجہ سے 50 فیصد ووٹ لے کر تیسری بار ترکی کا وزیراعظم بن گیا۔ رجب طیب اردوان کی کامیابی اور قیادت کا یہ سلسلہ پچھلے 12 سال سے جاری ہے۔ ان 12 برسوں میں طیب اردوان نے ترکی کو یورپ کے تیز رفتار ترقی کرنے والے ممالک میں چھٹے نمبرپر لا کھڑا کردیا ہے۔
وہ ترکی جو یورپ کا مرد بیمار تھا، آج پورا یورپ حسرت بھری نظروں سے ترکی اور اس کے وزیراعظم کی طرف دیکھ رہا ہے۔ یہی نہیں جب ترکی اپنے پائوں پر کھڑا ہوگیا۔ جب رجب طیب اردوان نے اپنی کارکردگی اور اپنی گورننس سے عوام کے دلوں میں مقام بنا لیا تو اس نے اپنا رُخ ان آمروں کی جانب موڑا جو طیب اردوان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش میں ملوث تھے۔ حکومت نے مقدمہ درج کرایا۔ کیس چلا، تحقیقات ہوئیں۔ تفتیشی افسروں نے ایک ایک زاویے، ایک ایک گواہ کو سامنے لایا۔ اس کے بعد جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش پر آرمی چیف کو عمر قید اور دیگر فوجی افسران کو دس، دس، بارہ بار برس قید کی سزائیں سنا گئیں۔ یہ ہے اصل جمہوریت اور یہ ہے حکومت کرنے کا اصل فن۔
آپ اب ’’رجب طیب اردوان‘‘ اور ترکی کی اس مثال کو سامنے رکھیں۔ اس کے بعد پاکستان کے حالات پر آجائیں۔ پاکستان اس وقت اوپر سے لے کر نیچے تک مسائل میں جکڑا ہے۔ عوام بجلی کی لوڈشیڈنگ کے عذاب سے ناک بھوں ہیں۔ جب بھی موسمِ گرما کی آمد ہوتی ہے، بجلی روٹھ جاتی ہے۔ سردی کی شروعات ہوتی ہیں، گیس منہ موڑ لیتی ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری سے عام آدمی کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔ لاء اینڈ آرڈر کی خراب صورتحال معیشت کو نوچے جا رہی ہے۔ دہشت گردی کا عفریت منہ زور ہے۔ ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اغوا اور چوری و ڈکیتی معمول بن چکا ہے۔ سرکاری ادارے کرپشن کی آماجگاہ ہیں۔ قومی ادارے ملکی خزانے پر بوجھ بنے بیٹھے ہیں۔ انڈسٹری اپنے ہی پائوں میں گر رہی ہے۔ سیلاب، قحط، زلزلے اور قدرتی آفات سے نمٹنے حتیٰ کہ کسی بھی مسئلے سے نمٹنے کا کوئی مستقل حل نہیں۔ اقتدار کی دہلیز پر قدم رکھتے وقت جذبے جواں تھے۔ ہم یہ کر دیں گے، ہم وہ کر دیں گے۔ ہم قوم کو ان کے خوابوں کی تعبیر دیں گے۔ ہمیں حکومت کی نیت پر شک نہیں، لیکن آپ حقائق دیکھیں! بجلی کا بحران حل کرنے کے لیے گردشی قرضوں کی مد میں 500 ارب آتے ہی لٹا دیے گئے۔ چار پانچ ماہ سکون سے نکل گئے، مگر گرمیاں شروع ہوتے ہی بجلی کی آنکھ مچولی پھر شروع ہوگئی۔
مسلم لیگ ن نے درجنوں پاور پروجیکٹس کا افتتاح کیا۔ وزیراعظم نے اپنی کابینہ کے ساتھ پہلا اجلاس ہی توانائی پر رکھا۔ حکومت نے ایک سال میں درجنوں بار بجلی کے حوالے سے اجلاس کیے۔ سر جوڑے، کوشش بھی کی، لیکن سوال یہ ہے اس ساری کوشش کے باوجود کیا قوم اندھیروں سے نکل پائی؟ گیس کی لوڈ شیڈنگ کو دیکھ لیں۔ پہلے ہفتے میں 4 دن ملتی تھی، پھر 3 دن ہوئی۔ پھر 2 ماہ کے لیے صرف گھریلو صارفین کے لیے کھول دی گئی۔ پھر ہفتے میں 72 گھنٹوں کی بجائے 42 گھنٹے کردی گئی۔ اب پنجاب میں ہفتے میں صرف دو دن ملے گی۔ یہ کیا ہے ؟ کیا مسئلے اس طرح حل ہوتے ہیں؟
اب آپ آجائیں امن و امان کی صورتحال پر۔ پچھلے ایک برس سے مذاکرات کا ڈھول پیٹاجارہا ہے۔ کمیٹی بنی۔ پھر دوطرفہ کمیٹیاں بنیں۔ پھر ان دونوں کمیٹیوں پر ایک اور سب کمیٹی بن گئی۔ ملاقاتیں بھی ہوئی۔ کابینہ کے اجلاس بھی ہوئے۔ عسکری اور سویلین قیادت کی نشستیں بھی ہوئیں۔ فائر بندی بھی کردی گئی، مگر 5 ماہ گزر جانے کے باوجود ان کمیٹیوں، ان ملاقاتوں اور ان کوششوں کا نتیجہ کیا نکلا؟
آپ غداری کیس کو دیکھ لیں۔ حکومت نے آتے ہی پرویز مشرف پر ایمرجنسی لگانے۔ آئین کومعطل کرنے اور جمہوریت پر شب خون مارنے کے جرم میں آرٹیکل 6 لگا دیا۔ خصوصی عدالت بھی بنی۔ پراسیکیوٹر بھی تعینات ہو گئے۔ وکیل بھی میدان آ گئے۔ پورا ملک پرویز مشرف کے انجام کا شدت سے انتظار کرنے لگا، لیکن سماعت شروع ہوتے ہی سیاستدان دو حصوں میں منقسم ہو گئے۔ وہ پرویز مشرف جو چک شہزاد فارم ہائوس میں محبوس تھا۔ عدالت پیشی پر خصوصی عدالت جانے کی بجائے فوجی ہسپتال پہنچ گیا۔ دوماہ تک عدالت پرویز مشرف کو بلاتی رہی، مگر پرویز مشرف بیماری کی آڑ میں آرمڈ فورس انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں پناہ گزین رہا۔ باہمی رضا مندی سے فرد جرم بھی لگ گئی۔ بیرون ملک سے طیارہ بھی پہنچ گیا۔ نام ای سی ایل سے نکالنے کے لیے درخواستیں بھی دائر ہو گئیں، لیکن پھر حکومت مشرف کو باہر نہ بھیجنے پر ڈٹ گئی جس کے بعد فوج اور حکومت میں بداعتمادی کی خلیج حائل ہو گئی۔ یہ تنائو ابھی تک قائم ہے۔ مشرف پر فرد جرم لگی تاریخی فیصلہ تھا، لیکن اب حکومت پرویز مشرف کو اس ملک میں رکھ کر کیا حاصل کرنا چاہتی ہے۔ کیا دو مرتبہ کے ڈسے میاں برادران ابھی تک یہ سمجھ نہیں سکے کہ فوج اس ملک کی ایک طاقت ہے۔ فوج اس ملک کی حقیقت ہے۔ فوج سے ٹکر اور عسکری اداروں کی حمایت کی بجائے دشنام طرازی کرتے چینلز کا ساتھ۔ آخر حکومت چاہتی کیاہے۔ ؟
کیا ایسے وقت میں جب ملک بحرانوں کے گرداب میں ہے۔ جب عام آدمی تڑپ رہا ہے۔ اپوزیشن پارٹیز جلسے جلوس اور ریلیوں کی سیاست پر اتر آئی ہیں۔ عمران خان دھاندلی کا مردہ گھوڑا دوڑانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ طاہر القادری ’’مبارک ہو مبارک ہو‘‘ کے لیے بے چین ہیں۔ جماعت اسلامی بھی حکومت مخالفت پر اتر آئی ہے۔ شیخ رشید کی عوامی مسلم لیگ بھی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے تیار ہے۔ ان حالات میں کیا حکومت کو پرویز مشرف جیسے نان ایشوز کی بجائے قوم و ملک کے حقیقی مسائل کی طرف توجہ نہیں دینی چاہیے۔
میاں نوازشریف اور ان کے ٹیم اس ملک کو ترقی کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ ان کی ترجیح ملک کی خوشحالی ہے، لیکن یہ ترقی اور یہ خوشحالی فوج سے پنگا لے کر نہیں آ سکتی۔ میاں صاحبان کو فوج کی حقیقت تسلیم کرنا پڑے گی۔ انہیں ماننا پڑے گا فوج ایک باوقار ارادہ ہے۔ جب تک عسکری اور جمہوری اداروں میں اعتماد قائم نہیں ہوگا جمہوریت آگے بڑھ سکتی ہے نہ ہی ملک پھل پھول سکتا ہے۔ حکومت اگر اپنے وجود کو برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ جمہوریت کو دوام دینا چاہتی ہے تو اس کے لیے سب سے پہلے گورننس بہتر کرنا ہو گی۔ قوم کو اعتماد حاصل کرنا ہوگا۔ حکومت کو ترک وزیراعظم کی طرح پہلے عوامی مسائل کا سدباب کرنا ہوگا۔
استنبول شہر کی تعمیر و ترقی کو دیکھ کر عوام نے اسے ترکی کے وزیراعظم کے طور پر آگے آنے کا مشورہ دیا، چنانچہ 2002ء میں پرائم منسٹر کے انتخابات کے لیے میدان میں کود پڑا۔ پہلے ہی انتخاب میں ترکی کے عوام نے اقتدار کا ’’ہما رجب طیب اردوان‘‘ کے سر پر سجادیا۔ اس کی پارٹی 550 کے ایوان میں 363 نشستیں اور 34 فیصد ووٹ لے کر کامیاب ہوگئی۔ 2007ء میں پھر الیکشن ہوا۔ قوم نے ایک بار پھر اسے منتخب کرلیا۔ اس بار اس نے 7 فیصد زائد ووٹ حاصل کیے۔ یہ مدت بھی پوری ہوئی۔ 2011ء میں ’’رجب طیب اردوان‘‘ اپنے وژن، ملک و قوم کی خدمت کی وجہ سے 50 فیصد ووٹ لے کر تیسری بار ترکی کا وزیراعظم بن گیا۔ رجب طیب اردوان کی کامیابی اور قیادت کا یہ سلسلہ پچھلے 12 سال سے جاری ہے۔ ان 12 برسوں میں طیب اردوان نے ترکی کو یورپ کے تیز رفتار ترقی کرنے والے ممالک میں چھٹے نمبرپر لا کھڑا کردیا ہے۔
وہ ترکی جو یورپ کا مرد بیمار تھا، آج پورا یورپ حسرت بھری نظروں سے ترکی اور اس کے وزیراعظم کی طرف دیکھ رہا ہے۔ یہی نہیں جب ترکی اپنے پائوں پر کھڑا ہوگیا۔ جب رجب طیب اردوان نے اپنی کارکردگی اور اپنی گورننس سے عوام کے دلوں میں مقام بنا لیا تو اس نے اپنا رُخ ان آمروں کی جانب موڑا جو طیب اردوان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش میں ملوث تھے۔ حکومت نے مقدمہ درج کرایا۔ کیس چلا، تحقیقات ہوئیں۔ تفتیشی افسروں نے ایک ایک زاویے، ایک ایک گواہ کو سامنے لایا۔ اس کے بعد جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش پر آرمی چیف کو عمر قید اور دیگر فوجی افسران کو دس، دس، بارہ بار برس قید کی سزائیں سنا گئیں۔ یہ ہے اصل جمہوریت اور یہ ہے حکومت کرنے کا اصل فن۔
آپ اب ’’رجب طیب اردوان‘‘ اور ترکی کی اس مثال کو سامنے رکھیں۔ اس کے بعد پاکستان کے حالات پر آجائیں۔ پاکستان اس وقت اوپر سے لے کر نیچے تک مسائل میں جکڑا ہے۔ عوام بجلی کی لوڈشیڈنگ کے عذاب سے ناک بھوں ہیں۔ جب بھی موسمِ گرما کی آمد ہوتی ہے، بجلی روٹھ جاتی ہے۔ سردی کی شروعات ہوتی ہیں، گیس منہ موڑ لیتی ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری سے عام آدمی کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔ لاء اینڈ آرڈر کی خراب صورتحال معیشت کو نوچے جا رہی ہے۔ دہشت گردی کا عفریت منہ زور ہے۔ ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اغوا اور چوری و ڈکیتی معمول بن چکا ہے۔ سرکاری ادارے کرپشن کی آماجگاہ ہیں۔ قومی ادارے ملکی خزانے پر بوجھ بنے بیٹھے ہیں۔ انڈسٹری اپنے ہی پائوں میں گر رہی ہے۔ سیلاب، قحط، زلزلے اور قدرتی آفات سے نمٹنے حتیٰ کہ کسی بھی مسئلے سے نمٹنے کا کوئی مستقل حل نہیں۔ اقتدار کی دہلیز پر قدم رکھتے وقت جذبے جواں تھے۔ ہم یہ کر دیں گے، ہم وہ کر دیں گے۔ ہم قوم کو ان کے خوابوں کی تعبیر دیں گے۔ ہمیں حکومت کی نیت پر شک نہیں، لیکن آپ حقائق دیکھیں! بجلی کا بحران حل کرنے کے لیے گردشی قرضوں کی مد میں 500 ارب آتے ہی لٹا دیے گئے۔ چار پانچ ماہ سکون سے نکل گئے، مگر گرمیاں شروع ہوتے ہی بجلی کی آنکھ مچولی پھر شروع ہوگئی۔
مسلم لیگ ن نے درجنوں پاور پروجیکٹس کا افتتاح کیا۔ وزیراعظم نے اپنی کابینہ کے ساتھ پہلا اجلاس ہی توانائی پر رکھا۔ حکومت نے ایک سال میں درجنوں بار بجلی کے حوالے سے اجلاس کیے۔ سر جوڑے، کوشش بھی کی، لیکن سوال یہ ہے اس ساری کوشش کے باوجود کیا قوم اندھیروں سے نکل پائی؟ گیس کی لوڈ شیڈنگ کو دیکھ لیں۔ پہلے ہفتے میں 4 دن ملتی تھی، پھر 3 دن ہوئی۔ پھر 2 ماہ کے لیے صرف گھریلو صارفین کے لیے کھول دی گئی۔ پھر ہفتے میں 72 گھنٹوں کی بجائے 42 گھنٹے کردی گئی۔ اب پنجاب میں ہفتے میں صرف دو دن ملے گی۔ یہ کیا ہے ؟ کیا مسئلے اس طرح حل ہوتے ہیں؟
اب آپ آجائیں امن و امان کی صورتحال پر۔ پچھلے ایک برس سے مذاکرات کا ڈھول پیٹاجارہا ہے۔ کمیٹی بنی۔ پھر دوطرفہ کمیٹیاں بنیں۔ پھر ان دونوں کمیٹیوں پر ایک اور سب کمیٹی بن گئی۔ ملاقاتیں بھی ہوئی۔ کابینہ کے اجلاس بھی ہوئے۔ عسکری اور سویلین قیادت کی نشستیں بھی ہوئیں۔ فائر بندی بھی کردی گئی، مگر 5 ماہ گزر جانے کے باوجود ان کمیٹیوں، ان ملاقاتوں اور ان کوششوں کا نتیجہ کیا نکلا؟
آپ غداری کیس کو دیکھ لیں۔ حکومت نے آتے ہی پرویز مشرف پر ایمرجنسی لگانے۔ آئین کومعطل کرنے اور جمہوریت پر شب خون مارنے کے جرم میں آرٹیکل 6 لگا دیا۔ خصوصی عدالت بھی بنی۔ پراسیکیوٹر بھی تعینات ہو گئے۔ وکیل بھی میدان آ گئے۔ پورا ملک پرویز مشرف کے انجام کا شدت سے انتظار کرنے لگا، لیکن سماعت شروع ہوتے ہی سیاستدان دو حصوں میں منقسم ہو گئے۔ وہ پرویز مشرف جو چک شہزاد فارم ہائوس میں محبوس تھا۔ عدالت پیشی پر خصوصی عدالت جانے کی بجائے فوجی ہسپتال پہنچ گیا۔ دوماہ تک عدالت پرویز مشرف کو بلاتی رہی، مگر پرویز مشرف بیماری کی آڑ میں آرمڈ فورس انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں پناہ گزین رہا۔ باہمی رضا مندی سے فرد جرم بھی لگ گئی۔ بیرون ملک سے طیارہ بھی پہنچ گیا۔ نام ای سی ایل سے نکالنے کے لیے درخواستیں بھی دائر ہو گئیں، لیکن پھر حکومت مشرف کو باہر نہ بھیجنے پر ڈٹ گئی جس کے بعد فوج اور حکومت میں بداعتمادی کی خلیج حائل ہو گئی۔ یہ تنائو ابھی تک قائم ہے۔ مشرف پر فرد جرم لگی تاریخی فیصلہ تھا، لیکن اب حکومت پرویز مشرف کو اس ملک میں رکھ کر کیا حاصل کرنا چاہتی ہے۔ کیا دو مرتبہ کے ڈسے میاں برادران ابھی تک یہ سمجھ نہیں سکے کہ فوج اس ملک کی ایک طاقت ہے۔ فوج اس ملک کی حقیقت ہے۔ فوج سے ٹکر اور عسکری اداروں کی حمایت کی بجائے دشنام طرازی کرتے چینلز کا ساتھ۔ آخر حکومت چاہتی کیاہے۔ ؟
کیا ایسے وقت میں جب ملک بحرانوں کے گرداب میں ہے۔ جب عام آدمی تڑپ رہا ہے۔ اپوزیشن پارٹیز جلسے جلوس اور ریلیوں کی سیاست پر اتر آئی ہیں۔ عمران خان دھاندلی کا مردہ گھوڑا دوڑانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ طاہر القادری ’’مبارک ہو مبارک ہو‘‘ کے لیے بے چین ہیں۔ جماعت اسلامی بھی حکومت مخالفت پر اتر آئی ہے۔ شیخ رشید کی عوامی مسلم لیگ بھی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے تیار ہے۔ ان حالات میں کیا حکومت کو پرویز مشرف جیسے نان ایشوز کی بجائے قوم و ملک کے حقیقی مسائل کی طرف توجہ نہیں دینی چاہیے۔
میاں نوازشریف اور ان کے ٹیم اس ملک کو ترقی کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ ان کی ترجیح ملک کی خوشحالی ہے، لیکن یہ ترقی اور یہ خوشحالی فوج سے پنگا لے کر نہیں آ سکتی۔ میاں صاحبان کو فوج کی حقیقت تسلیم کرنا پڑے گی۔ انہیں ماننا پڑے گا فوج ایک باوقار ارادہ ہے۔ جب تک عسکری اور جمہوری اداروں میں اعتماد قائم نہیں ہوگا جمہوریت آگے بڑھ سکتی ہے نہ ہی ملک پھل پھول سکتا ہے۔ حکومت اگر اپنے وجود کو برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ جمہوریت کو دوام دینا چاہتی ہے تو اس کے لیے سب سے پہلے گورننس بہتر کرنا ہو گی۔ قوم کو اعتماد حاصل کرنا ہوگا۔ حکومت کو ترک وزیراعظم کی طرح پہلے عوامی مسائل کا سدباب کرنا ہوگا۔
Ma Ma Je-
192
Join date/تاریخ شمولیت : 18.04.2014
Age/عمر : 69
Similar topics
» پاکستان کا ائی ایس پی یار
» امریکہ کے مسلمان، اسلام اور پاکستان ؟
» پاکستان - ریاستہائے متحدہ امریکہ تعلقات
» پاکستان میں امریکی سرگرمیاں
» پاکستان اور بنگلہ دیش کے خلاف
» امریکہ کے مسلمان، اسلام اور پاکستان ؟
» پاکستان - ریاستہائے متحدہ امریکہ تعلقات
» پاکستان میں امریکی سرگرمیاں
» پاکستان اور بنگلہ دیش کے خلاف
Page 1 of 1
Permissions in this forum:
You cannot reply to topics in this forum
Tue Feb 04, 2020 6:49 pm by munsab
» گوگل کرُوم
Tue Dec 03, 2019 8:35 pm by Munsab Ali
» فوٹو شاپ
Tue Dec 03, 2019 8:33 pm by Munsab Ali
» شمشیر بے نیام قسط نمبر 2
Sat Nov 30, 2019 11:25 pm by Munsab Ali
» شمشیر بے نیام قسط نمبر 1
Sat Nov 30, 2019 9:56 pm by Munsab Ali
» متنازع سائبر کرائم بل 2015 متفقہ طور پر منظور کرلیا۔ -
Wed Jul 27, 2016 11:54 am by Munsab Ali
» All in One
Fri Dec 25, 2015 10:23 pm by RASHID KHAN
» Best Action Movies 2015 English Hollywood - TOM CRUISE - New Adventure Movies 2015
Thu Dec 10, 2015 2:05 pm by Munsab Ali
» Shinobido - Ninja
Thu Dec 10, 2015 1:53 pm by Munsab Ali