تین ممالکؔ
Page 1 of 1
تین ممالکؔ
ترکی کی معاصر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے ان کے مسائل تین تھے، ’’حسنِ اتفاق‘‘ سے ہمارے مسائل بھی وہی تین ہیں۔ انہوں نے جس طرح سے اسے حل کیا، اس سے تین سبق ملتے ہیں۔ ’’سوئے اتفاق‘‘ ہے ہم انہیں سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ ترکی کی ترقی کے چند سطحی مظاہر (بس، ٹرین، صفائی کی گاڑیوں، خوبصورت فٹ پاتھوں وغیرہ) پر اکتفا کیے ہوئے ہیں۔ زیرِ نظر تحریر میں ہم مسائل اور اسباق کی تینوں اقسام پر ایک نظر ڈالنے کی کوشش کریں گے۔
ترکی کے اسلام پسند 1995ء میں استاذ نجم الدین اربکان کی قیادت میں برسرِ اقتدار آگئے تھے، لیکن 1996ء میں فوج نے ان کا تختہ الٹ کر ان کی جماعت رفاہ پارٹی پر پابندی لگادی۔ اس سے پہلے جب وہ اقتدار میں نہیں تھے،پہلے ’’ملّی نظام پارٹی اور پھر ’’ملّی سلامت پارٹی‘‘ کے نام سے کام کررہے تھے۔ تب بھی ان پر پابندی لگ چکی تھی۔ ترک فوج نے ’’نیشنل سکیورٹی کورس‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا ہوا ہے جس کی آڑ میں زمامِ اقتدار ترک فوج اپنے ہاتھ میں رکھتی ہے۔ یہ کونسل اسلام پسندوں کو کسی شکل اور کسی انداز میں چلنے نہ دیتی تھی۔ قارئین کو یاد ہوگا ہمارے یہاں کے ایک قبضہ گیر حکمران جنہوں نے آتے ہی آدھی آستینوں والی بغل میں دو کُتّابچے پکڑ کر تصویر کھنچوائی تھی اور فرمایا تھا کہ کمال اَتاترک ان کے لیے مثالی شخصیت ہے۔
ترکی کے اسلام پسند 1995ء میں استاذ نجم الدین اربکان کی قیادت میں برسرِ اقتدار آگئے تھے، لیکن 1996ء میں فوج نے ان کا تختہ الٹ کر ان کی جماعت رفاہ پارٹی پر پابندی لگادی۔ اس سے پہلے جب وہ اقتدار میں نہیں تھے،پہلے ’’ملّی نظام پارٹی اور پھر ’’ملّی سلامت پارٹی‘‘ کے نام سے کام کررہے تھے۔ تب بھی ان پر پابندی لگ چکی تھی۔ ترک فوج نے ’’نیشنل سکیورٹی کورس‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا ہوا ہے جس کی آڑ میں زمامِ اقتدار ترک فوج اپنے ہاتھ میں رکھتی ہے۔ یہ کونسل اسلام پسندوں کو کسی شکل اور کسی انداز میں چلنے نہ دیتی تھی۔ قارئین کو یاد ہوگا ہمارے یہاں کے ایک قبضہ گیر حکمران جنہوں نے آتے ہی آدھی آستینوں والی بغل میں دو کُتّابچے پکڑ کر تصویر کھنچوائی تھی اور فرمایا تھا کہ کمال اَتاترک ان کے لیے مثالی شخصیت ہے۔
انہوں نے اتاترک کے انداز میں ایسا ادارہ یہاں بھی بنانے کی کوشش کی تھی، مگر ناکام رہے۔
استاذ اربکان نے نئی پہچان سے میدان میں واپس آتے ہوئے ’’فضیلت پارٹی‘‘ بنائی، جس پر 2001ء میں پھر پابندی عائد کردی گئی۔ اس چوتھی پابندی پر اسلام پسندوں میں سے ایک ذہین نوجوان طیب اردگان نے مسائل کی جڑ کو سمجھ کر اپنے لیے الگ راستہ منتخب کیا۔ جب مسائل کی بنیاد حل ہوگئی تو وہ بعد کے تین ضمنی مسائل کی طرف آگیا۔ ان کو حل کرنے میں ایسی کامیابی حاصل کی کہ آج تک نہ تو کوئی اس پر پابندی لگا سکا ہے اور نہ عوام اس کا ساتھ دینے سے پیچھے ہٹے ہیں۔
استاذ اربکان نے نئی پہچان سے میدان میں واپس آتے ہوئے ’’فضیلت پارٹی‘‘ بنائی، جس پر 2001ء میں پھر پابندی عائد کردی گئی۔ اس چوتھی پابندی پر اسلام پسندوں میں سے ایک ذہین نوجوان طیب اردگان نے مسائل کی جڑ کو سمجھ کر اپنے لیے الگ راستہ منتخب کیا۔ جب مسائل کی بنیاد حل ہوگئی تو وہ بعد کے تین ضمنی مسائل کی طرف آگیا۔ ان کو حل کرنے میں ایسی کامیابی حاصل کی کہ آج تک نہ تو کوئی اس پر پابندی لگا سکا ہے اور نہ عوام اس کا ساتھ دینے سے پیچھے ہٹے ہیں۔
مذہبی ترکوں کا سب سے بڑا مسئلہ فوج اور اس کی پشت پر موجود مغربی ممالک تھے جو ان کے اسلامی ناموں سے چڑتے اور ان کی ترقی سے خائف تھے۔ اردگان نے فوج سے اُلجھنے یا سرمایہ دار مغرب سے ٹھاننے کے بجائے دامن کانٹوں سے بچاکر سیدھی سمت سفر جاری رکھا۔ اس نے اپنی جماعت کا نام سعادت یا فضیلت پارٹی کے بجائے ’’ترقی وانصاف پارٹی‘‘ رکھا۔ ایسا نام عموماً سیکولر پارٹیاں رکھتی ہیں، لیکن اس نام کے اندر چھپے کام کو تن دہی سے انجام دینے پر اسے سعادت وفضیلت بھی حاصل ہوگئی۔ اسلام پسندوں کے علاوہ لادین، بے دین یا درمیانے قسم کے ترکوں کی دلی حمایت بھی ساتھ ہوگئی۔ اسلامی ریاست کے سربراہ کا پہلا فرض عوام الناس کو ترقی اور انصاف فراہم کرنا ہے۔ یعنی دینی و دنیاوی ہر طرح کی ترقی اور ہر سطح پر کھلا اور دو ٹوک انصاف۔
صرف نام بدلنے سے اس نے اصل مسئلے اور ضمنی تین بڑے ضمنی مسائل کا حل نکالنے کے ساتھ اپنے کارکنوں کے لیے ترکی جیسے مغرب زدہ ملک میں لادین قوتوں کے ساتھ جاری معرکے میں درست سمت متعین کردی۔ اس کی ذہانت کو داد دیے بغیر رہا نہیں جاتا، جب انسان دیکھتا ہے کہ ایک تیر سے دو شکار کرتے ہوئے ایک طرف تو بظاہر کھلے ڈلے اسلامی نام اور مذہبی نعرے کے بجائے ایسا نام منتخب کیا جو قوم اور مغرب کو برافروختہ نہ کرے، لیکن دوسری طرف اپنے کارکنوں کو یہ ذہن دے کہ تم نے ملک اور عوام کی ترقی کے لیے جُت جانا ہے، اور خود سے بھی اور دوسروں سے بھی کڑاانصاف کرنا ہے۔ آیندہ نہ کوئی ملکی ترقی میں رکاوٹ ڈالتے ہوئے ٹیکس چھپائے، نہ ملکی وسائل کو ضائع کرے یا قومی آمدنی میں خیانت کر کے اور نہ بے انصافی کرتے ہوئے ناجائز سفارش کرے، اور کسی نااہل کو قوم پر مسلط کر کے اپنی قربانیوں کا عوض اللہ سے لینے کے بجائے ہم سے اس کا بے جا مطالبہ کرے۔ تصور کیجیے! ایک نام کے اندر سو پیغام اور ایک دنیوی عنوان کرنے کے ہزار دینی کام چھپے تھے۔ فوج اور مغرب سے پنجہ آزمائی کے بعد ترکی کے اصل دنیوی مسائل تین تھے: (1) ملک بدترین معاشی بحران میں مبتلا تھا۔ اخراجات زیادہ اور آمدنی بہت کم تھی۔ (2) قومی محصولات وصول نہ ہو پاتے تھے۔ ٹیکس چوری عام تھی۔ طبقہ اشرافیہ سے کوئی ٹیکس نہ لے سکتا تھا اور عوام الناس دیتے نہ تھے۔ (3) بدعنوانی کے دیمک نے ترکوں کو اندر سے چاٹ رکھا تھا۔ اس میں ہر طرح کی بدعنوانی شامل تھی۔ ناجائز سفارش، غیر قانونی بھرتیاں، غبن، رشوت، خیانت۔ غرض بدیانتی کی کوئی قسم ایسی نہ تھی جو ترک معاشرے میں سیکولر نظام نے رائج نہ کی ہو۔
طیب اردگان نے تمام مذہبی تحریکوں سے منفرد راستہ اختیار کرتے ہوئے اسلام کا نام نہ لیا، لیکن کام سارے کٹر بنیاد پرستوں والے کیے۔قوم کو محنت و ایمانداری اور عدل و انصاف کی فراہمی کے ساتھ غیرضروری اخراجات فوراً کم کردیے۔ امتیازی مراعات روک دی گئیں۔ وزراء کی تعداد کم کر کے انہیں سادگی کا نمونہ بن جانے کا سبق پڑھایا۔ بین الاقوامی تجارت کو اتنا فروغ دیا کہ گذشتہ ادوار میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ٹیکس دہندگان کے لیے سہولتوں اور مراعات کا اعلان اور نادہندگان کے لیے سخت قوانین نافذ کیے۔ عوام کا اعتماد بڑھایا کہ آپ ریاست کو اس کا حق دیں، وہ غبن ہونے کے بجائے واپس شہریوں پر لگے گا۔ صرف 4 سالوں میں خسارے کا بجٹ منافع کے بجٹ میں تبدیل ہوگیا۔ مرد بیمار اُٹھ کر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے لگا۔ آئی ایم ایف کے چنگل سے ایسا نکلا کہ یہ سود خور اور خون نچوڑ ادارہ ترکی سے 5 ارب ڈالر قرض لینے کی سوچ رہا ہے۔ ترقیاتی کام اتنی تیزی سے ہوئے گویا جنات حرکت میں آگئے ہیں۔ ایرپورٹ 26 سے 50 ہو گئے۔ 2003ء سے 2011ء تک تقریباً 13500 کلومیٹر ایکسپریس وے تعمیر ہوئی جس سے حادثات 60 فیصد کم ہوگئے۔ صحت کو مفت یا سستا کردیا گیا۔ معمر شہریوں کو وہ سہولتیں دی گئیں جن کا تصور نہیں کیاجاسکتا تھا۔ تعلیم کا بجٹ 7.5 بلین سے 34 بلین کر دیا گیا۔ درسی نصاب مفت کرکے ہر صوبے کو یونیورسٹی کے معاملے میں خود مختار کر دیا گیا۔سیکولروں کی بد عنوانی کے ہاتھوں ستائی ہوئی ترک قوم کے لیے بنیادی انسانی ضرورتوں کی فراہمی کو اسلام پسندوں نے اپنا نصب العین بنالیا۔ لوگوں کو تبدیلی اپنی آنکھوں سے نظر آنے لگی۔ترکوں نے فیصلہ کرلیا وہ ترقی اور انصاف کی راہ میں حائل ہر رکاوٹ کو خصوصاً بدعنوانی اور محصولات چوروں کو ختم کرنے میںاردگان کاساتھ دیںگے۔ چاہے وہ اسلام لائے یا خاموش اسلام کے راستے پر چلتا رہے۔ اردگان کا سفر ریاستی حقوق کی ادائیگی کے حوالے سے تیز ترین تھا، مگر ریاستی فرائض نافذکرنے کے حوالے سے نرم و دل گیر۔ کامیابی کاتناسب حیرت انگیز بھی ہے اور سبق آموز بھی۔ سبق ہمیں اس سے یہ ملتا ہے کہ مخالف قوتوں سے نمٹنے کا ا یسا طریقہ ہونا چاہیے کہ وہ مزید بڑھکنے اور آتش گیر ہونے کے بجائے یا راستہ چھوڑ دیں یا ہم نوا ہوجائیں۔ پوری تیاری سے پہلے ان کے خلاف کھڑا ہونے یا ان کو اپنے خلاف کھڑا کرنے کے بجائے کام میں مگن رہا جائے۔ اپنے بارے میں خوش فہمی اور سامنے والے کے بارے میں غلط فہمی سے بچا جائے۔اپنی استعداد کا غلط اندازہ یا مقابل کی طاقت کا غیر حقیقی جائزہ واپس دھکیل کر وہاں پہنچا دیتا ہے جہاں سے سفر شرو ع ہوا تھا۔ یاد رکھنے کی دوسری اہم بات یہ ہے کہ عوام کی خدمت کے لیے ان کو وہ ریاستی حقوق اوربنیادی سہولیات فراہم کی جائیں جو ان کا شرعی اور اسلامی حق ہے۔ ریاست وہ دینی ذمہ داریاں پوری کرے جو خلافت فاروقی کی پہچان ہیں اور عوام کا دل موہ لیتی ہیں۔ پھر آپ اسلام کا نام لیں یا نہ لیں، نعرہ لگائیں یا نہ لگائیں، لوگ آپ کے ساتھ اسلام سے بھی از خود محبت کریں گے۔ پھر جتناآپ ان کو احکام شرعیہ کے دائرے میں لائیں گے، وہ اسے اپنا فرض سمجھ کر آتے جائیں گے۔
آخری سبق یہ کہ تحریکی کارکنوں کو صاف ہاتھ اور صاف دامن رہنا چاہیے۔ ان کی دیانت، احتیاط اور مشتبہات سے دوری عوام میں ایسا اعتماد پیدا کرتی ہے کہ وہ چندہ بھی دیتے ہیںبندہ بھی۔ جان بھی دیتے ہیں اور آن بھی قربان کرتے ہیں۔وہ وقت آجاتا ہے کہ لوگ ایک روپیہ عشر یا خراج چھپانے کو، یا بیت المال سے ایک درہم کی چوری کو ریاست کے ساتھ غداری اور اسلام سے منافقت سمجھتے ہیں۔ لوٹنے والے لٹانے والے اور لینے والے دینے والے بن جاتے ہیں۔ سفارش اور رشوت دو ایسے ناسور ہیں جن سے مذہبی تحریکوں کو پاک صاف ہونا چاہیے تاکہ وہ معاشرے کو تطہیر کے عمل سے گذاریں تو بدعنوانی کا عادی مجرم جرّاحی کے اس تکلیف دہ عمل پر اس لیے تیار ہوجائے کہ خود مسیحا اس عمل سے گزر چکا ہے۔ اگر سربراہ اور نظریاتی کارکن اپنے پیٹ پر دو پتھر باندھنے پر تیار ہوں تو شہری اور عوام ایک پتھر باندھنے پر خوشی خوشی تیار ہوجاتے ہیں۔
الغرض! تیاری کے بغیر طاقتور سے ٹکرانے سے اجتناب، دیانت وامانت کا اعلیٰ معیارقائم کرنے اور عوام کے معاشرتی مسائل وعملی مشکلات دور کرنے پر اتنازور دینا جتنا دوسرے مظاہر دین پر دیا جاتا ہے۔ اسے بھی دین کا حصہ سمجھنا، وہ تین سبق ہیںجو ہمیں معاصر مذہبی تحریک کے تجزیے و مشاہدے سے ملتے ہیں۔ کیا یہ ’’ حسنِ اتفاق‘‘ ہے کہ ہم انہی مسائل میں گھرے ہوئے ہیں جن میںتُرک اسلام پسند ہم سے زیادہ شدت سے گھرے ہوئے تھے؟ پھر کیا یہ محض ’’سوئے اتفاق‘‘ ہے کہ ہم نہ اپنی ناکامیوں سے سبق لیتے ہیں نہ دوسرے کی کامیابی سے کچھ سیکھتے ہیں؟ اس دنیاکے کام اتفاقات سے نہیں ہوتے، تکوینی قوانین کے تحت ہوتے ہیں اور قوموں کی تقدیر پر وہی تکوینی قانون لاگو ہے جس کا بہت پہلے اعلان کردیا گیا: ’’اور اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اپنی حالت نہ بدلے۔‘‘
صرف نام بدلنے سے اس نے اصل مسئلے اور ضمنی تین بڑے ضمنی مسائل کا حل نکالنے کے ساتھ اپنے کارکنوں کے لیے ترکی جیسے مغرب زدہ ملک میں لادین قوتوں کے ساتھ جاری معرکے میں درست سمت متعین کردی۔ اس کی ذہانت کو داد دیے بغیر رہا نہیں جاتا، جب انسان دیکھتا ہے کہ ایک تیر سے دو شکار کرتے ہوئے ایک طرف تو بظاہر کھلے ڈلے اسلامی نام اور مذہبی نعرے کے بجائے ایسا نام منتخب کیا جو قوم اور مغرب کو برافروختہ نہ کرے، لیکن دوسری طرف اپنے کارکنوں کو یہ ذہن دے کہ تم نے ملک اور عوام کی ترقی کے لیے جُت جانا ہے، اور خود سے بھی اور دوسروں سے بھی کڑاانصاف کرنا ہے۔ آیندہ نہ کوئی ملکی ترقی میں رکاوٹ ڈالتے ہوئے ٹیکس چھپائے، نہ ملکی وسائل کو ضائع کرے یا قومی آمدنی میں خیانت کر کے اور نہ بے انصافی کرتے ہوئے ناجائز سفارش کرے، اور کسی نااہل کو قوم پر مسلط کر کے اپنی قربانیوں کا عوض اللہ سے لینے کے بجائے ہم سے اس کا بے جا مطالبہ کرے۔ تصور کیجیے! ایک نام کے اندر سو پیغام اور ایک دنیوی عنوان کرنے کے ہزار دینی کام چھپے تھے۔ فوج اور مغرب سے پنجہ آزمائی کے بعد ترکی کے اصل دنیوی مسائل تین تھے: (1) ملک بدترین معاشی بحران میں مبتلا تھا۔ اخراجات زیادہ اور آمدنی بہت کم تھی۔ (2) قومی محصولات وصول نہ ہو پاتے تھے۔ ٹیکس چوری عام تھی۔ طبقہ اشرافیہ سے کوئی ٹیکس نہ لے سکتا تھا اور عوام الناس دیتے نہ تھے۔ (3) بدعنوانی کے دیمک نے ترکوں کو اندر سے چاٹ رکھا تھا۔ اس میں ہر طرح کی بدعنوانی شامل تھی۔ ناجائز سفارش، غیر قانونی بھرتیاں، غبن، رشوت، خیانت۔ غرض بدیانتی کی کوئی قسم ایسی نہ تھی جو ترک معاشرے میں سیکولر نظام نے رائج نہ کی ہو۔
طیب اردگان نے تمام مذہبی تحریکوں سے منفرد راستہ اختیار کرتے ہوئے اسلام کا نام نہ لیا، لیکن کام سارے کٹر بنیاد پرستوں والے کیے۔قوم کو محنت و ایمانداری اور عدل و انصاف کی فراہمی کے ساتھ غیرضروری اخراجات فوراً کم کردیے۔ امتیازی مراعات روک دی گئیں۔ وزراء کی تعداد کم کر کے انہیں سادگی کا نمونہ بن جانے کا سبق پڑھایا۔ بین الاقوامی تجارت کو اتنا فروغ دیا کہ گذشتہ ادوار میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ٹیکس دہندگان کے لیے سہولتوں اور مراعات کا اعلان اور نادہندگان کے لیے سخت قوانین نافذ کیے۔ عوام کا اعتماد بڑھایا کہ آپ ریاست کو اس کا حق دیں، وہ غبن ہونے کے بجائے واپس شہریوں پر لگے گا۔ صرف 4 سالوں میں خسارے کا بجٹ منافع کے بجٹ میں تبدیل ہوگیا۔ مرد بیمار اُٹھ کر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے لگا۔ آئی ایم ایف کے چنگل سے ایسا نکلا کہ یہ سود خور اور خون نچوڑ ادارہ ترکی سے 5 ارب ڈالر قرض لینے کی سوچ رہا ہے۔ ترقیاتی کام اتنی تیزی سے ہوئے گویا جنات حرکت میں آگئے ہیں۔ ایرپورٹ 26 سے 50 ہو گئے۔ 2003ء سے 2011ء تک تقریباً 13500 کلومیٹر ایکسپریس وے تعمیر ہوئی جس سے حادثات 60 فیصد کم ہوگئے۔ صحت کو مفت یا سستا کردیا گیا۔ معمر شہریوں کو وہ سہولتیں دی گئیں جن کا تصور نہیں کیاجاسکتا تھا۔ تعلیم کا بجٹ 7.5 بلین سے 34 بلین کر دیا گیا۔ درسی نصاب مفت کرکے ہر صوبے کو یونیورسٹی کے معاملے میں خود مختار کر دیا گیا۔سیکولروں کی بد عنوانی کے ہاتھوں ستائی ہوئی ترک قوم کے لیے بنیادی انسانی ضرورتوں کی فراہمی کو اسلام پسندوں نے اپنا نصب العین بنالیا۔ لوگوں کو تبدیلی اپنی آنکھوں سے نظر آنے لگی۔ترکوں نے فیصلہ کرلیا وہ ترقی اور انصاف کی راہ میں حائل ہر رکاوٹ کو خصوصاً بدعنوانی اور محصولات چوروں کو ختم کرنے میںاردگان کاساتھ دیںگے۔ چاہے وہ اسلام لائے یا خاموش اسلام کے راستے پر چلتا رہے۔ اردگان کا سفر ریاستی حقوق کی ادائیگی کے حوالے سے تیز ترین تھا، مگر ریاستی فرائض نافذکرنے کے حوالے سے نرم و دل گیر۔ کامیابی کاتناسب حیرت انگیز بھی ہے اور سبق آموز بھی۔ سبق ہمیں اس سے یہ ملتا ہے کہ مخالف قوتوں سے نمٹنے کا ا یسا طریقہ ہونا چاہیے کہ وہ مزید بڑھکنے اور آتش گیر ہونے کے بجائے یا راستہ چھوڑ دیں یا ہم نوا ہوجائیں۔ پوری تیاری سے پہلے ان کے خلاف کھڑا ہونے یا ان کو اپنے خلاف کھڑا کرنے کے بجائے کام میں مگن رہا جائے۔ اپنے بارے میں خوش فہمی اور سامنے والے کے بارے میں غلط فہمی سے بچا جائے۔اپنی استعداد کا غلط اندازہ یا مقابل کی طاقت کا غیر حقیقی جائزہ واپس دھکیل کر وہاں پہنچا دیتا ہے جہاں سے سفر شرو ع ہوا تھا۔ یاد رکھنے کی دوسری اہم بات یہ ہے کہ عوام کی خدمت کے لیے ان کو وہ ریاستی حقوق اوربنیادی سہولیات فراہم کی جائیں جو ان کا شرعی اور اسلامی حق ہے۔ ریاست وہ دینی ذمہ داریاں پوری کرے جو خلافت فاروقی کی پہچان ہیں اور عوام کا دل موہ لیتی ہیں۔ پھر آپ اسلام کا نام لیں یا نہ لیں، نعرہ لگائیں یا نہ لگائیں، لوگ آپ کے ساتھ اسلام سے بھی از خود محبت کریں گے۔ پھر جتناآپ ان کو احکام شرعیہ کے دائرے میں لائیں گے، وہ اسے اپنا فرض سمجھ کر آتے جائیں گے۔
آخری سبق یہ کہ تحریکی کارکنوں کو صاف ہاتھ اور صاف دامن رہنا چاہیے۔ ان کی دیانت، احتیاط اور مشتبہات سے دوری عوام میں ایسا اعتماد پیدا کرتی ہے کہ وہ چندہ بھی دیتے ہیںبندہ بھی۔ جان بھی دیتے ہیں اور آن بھی قربان کرتے ہیں۔وہ وقت آجاتا ہے کہ لوگ ایک روپیہ عشر یا خراج چھپانے کو، یا بیت المال سے ایک درہم کی چوری کو ریاست کے ساتھ غداری اور اسلام سے منافقت سمجھتے ہیں۔ لوٹنے والے لٹانے والے اور لینے والے دینے والے بن جاتے ہیں۔ سفارش اور رشوت دو ایسے ناسور ہیں جن سے مذہبی تحریکوں کو پاک صاف ہونا چاہیے تاکہ وہ معاشرے کو تطہیر کے عمل سے گذاریں تو بدعنوانی کا عادی مجرم جرّاحی کے اس تکلیف دہ عمل پر اس لیے تیار ہوجائے کہ خود مسیحا اس عمل سے گزر چکا ہے۔ اگر سربراہ اور نظریاتی کارکن اپنے پیٹ پر دو پتھر باندھنے پر تیار ہوں تو شہری اور عوام ایک پتھر باندھنے پر خوشی خوشی تیار ہوجاتے ہیں۔
الغرض! تیاری کے بغیر طاقتور سے ٹکرانے سے اجتناب، دیانت وامانت کا اعلیٰ معیارقائم کرنے اور عوام کے معاشرتی مسائل وعملی مشکلات دور کرنے پر اتنازور دینا جتنا دوسرے مظاہر دین پر دیا جاتا ہے۔ اسے بھی دین کا حصہ سمجھنا، وہ تین سبق ہیںجو ہمیں معاصر مذہبی تحریک کے تجزیے و مشاہدے سے ملتے ہیں۔ کیا یہ ’’ حسنِ اتفاق‘‘ ہے کہ ہم انہی مسائل میں گھرے ہوئے ہیں جن میںتُرک اسلام پسند ہم سے زیادہ شدت سے گھرے ہوئے تھے؟ پھر کیا یہ محض ’’سوئے اتفاق‘‘ ہے کہ ہم نہ اپنی ناکامیوں سے سبق لیتے ہیں نہ دوسرے کی کامیابی سے کچھ سیکھتے ہیں؟ اس دنیاکے کام اتفاقات سے نہیں ہوتے، تکوینی قوانین کے تحت ہوتے ہیں اور قوموں کی تقدیر پر وہی تکوینی قانون لاگو ہے جس کا بہت پہلے اعلان کردیا گیا: ’’اور اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اپنی حالت نہ بدلے۔‘‘
Ma Ma Je-
192
Join date/تاریخ شمولیت : 18.04.2014
Age/عمر : 69
Page 1 of 1
Permissions in this forum:
You cannot reply to topics in this forum
Tue Feb 04, 2020 6:49 pm by munsab
» گوگل کرُوم
Tue Dec 03, 2019 8:35 pm by Munsab Ali
» فوٹو شاپ
Tue Dec 03, 2019 8:33 pm by Munsab Ali
» شمشیر بے نیام قسط نمبر 2
Sat Nov 30, 2019 11:25 pm by Munsab Ali
» شمشیر بے نیام قسط نمبر 1
Sat Nov 30, 2019 9:56 pm by Munsab Ali
» متنازع سائبر کرائم بل 2015 متفقہ طور پر منظور کرلیا۔ -
Wed Jul 27, 2016 11:54 am by Munsab Ali
» All in One
Fri Dec 25, 2015 10:23 pm by RASHID KHAN
» Best Action Movies 2015 English Hollywood - TOM CRUISE - New Adventure Movies 2015
Thu Dec 10, 2015 2:05 pm by Munsab Ali
» Shinobido - Ninja
Thu Dec 10, 2015 1:53 pm by Munsab Ali