.. سلطان ٹیپو کے والد نواب حید ر علی
Page 1 of 1
.. سلطان ٹیپو کے والد نواب حید ر علی
4 مئی 1799ء کا دن بھی عجیب دن تھا... اس دن ’’شیر‘‘ نے اس دنیا سے منہ موڑ لیا... اس نے جان لیا تھا، اس دنیا میں غداروں کے ساتھ کیا جینا... اس سے بہتر ہے، لڑتے ہوئے جان دے دو۔ جی ہاں! ایسا 4 مئی 1799ء کو ہو اتھا... سلطان ٹیپو کے والد نواب حید ر علی نے انگریزوں کے چھکّے چھڑائے تھے... حیدر علی اس وقت پورے میسور کے حکمران بن چکے تھے... جبکہ انگریز مدراس، بنگال اور بمبئی پر قبضہ کرچکا تھا... ایک طرف حیدر علی روز بروز طاقت پکڑتے جا رہے تھے تو دوسری طرف انگریز اپنے قدم جمارہا تھا۔ اس نے حیدرآباد کے حکمران کو اپنے ساتھ ملا رکھا تھا... جیسا کہ آج امریکا مسلمان ملکوں کو اپنے ساتھ ملا لیتاہے... اور ملائے رکھتا ہے اور مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑائے رکھتا ہے اور اپنا اُلّو سیدھا کرتا چلا جاتا ہے... بالکل اسی طرح ان دنوں انگریز یہ کام کر رہا تھا...
جب حیدر علی کو مرہٹوں سے جنگ لڑنا پڑی تو اس نے انگریزوں سے معاہد ہ کیا تھا... انگریز معاہدے کی ر و سے نواب حیدر علی کی مدد کا پابند تھا... مرہٹوں سے جنگ شروع ہونے لگی تو اس نے انگریز کو مدد کا پیغام بھیجا... لیکن وہ تو انگریز تھا... ہمیشہ کا دھوکے باز... معاہدے کی خلاف ورزی کی... کیونکہ معاہدے کی خلاف ورزی کرنا، اس کی گھٹی میں پڑا تھا... مدد کو نہ آیا... حیدر علی کو تنہا مرہٹوں سے نبٹنا پڑا... تاہم وہ حیدر علی تھے... بے پناہ صلاحیتوں کے مالک..
جب حیدر علی کو مرہٹوں سے جنگ لڑنا پڑی تو اس نے انگریزوں سے معاہد ہ کیا تھا... انگریز معاہدے کی ر و سے نواب حیدر علی کی مدد کا پابند تھا... مرہٹوں سے جنگ شروع ہونے لگی تو اس نے انگریز کو مدد کا پیغام بھیجا... لیکن وہ تو انگریز تھا... ہمیشہ کا دھوکے باز... معاہدے کی خلاف ورزی کی... کیونکہ معاہدے کی خلاف ورزی کرنا، اس کی گھٹی میں پڑا تھا... مدد کو نہ آیا... حیدر علی کو تنہا مرہٹوں سے نبٹنا پڑا... تاہم وہ حیدر علی تھے... بے پناہ صلاحیتوں کے مالک..
. انہوں نے مرہٹوں کی کمر توڑ کر رکھ دی... اس طرح انہوں نے مزید طاقت پکڑلی... انگریز چاہتا تھا... مرہٹوں سے جنگ کے نتیجے میں نواب کمزور ہوجائیں اور وہ انہیں تر نوالہ بنا لے، لیکن ہوا اس کے اُلٹ... نواب کو انگریز کی بدعہدی یاد آئی تو انہوں نے انگریز کا صفایا کرنے کا فیصلہ کرلیا... وہ جانتے تھے... جب تک انگریز کو ہندوستان سے نکال نہیں دیا جاتا... اس وقت تک سکون نہیں ہوسکتا... انہوںنے پہلا کام یہ کیا کہ نظام حیدر آباد کو ایک قاصدکے ذریعے پیغام بھیجا... وہ پیغام یہ تھا : ’’آپ انگریز کے مقابلے میں ہمارا ساتھ دیں (یعنی آپ بھی مسلمان ہیں، ہم بھی) انگریز ہمیشہ کا دھوکا با ز ہے... یہ پورے ہندوستان پر قبضہ کرنے کا خواب دیکھ رہا ہے... آج اگر انہیں نہ روکا گیا تو کل یہ آپ پر بھی حملہ کریں گے... یہ ایک ایک کر کے تمام طاقتوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
حیدر علی کے پیغام نے نظام پر اثر کیا... اس نے جواب میں لکھا : ’’ٹھیک ہے۔ میں انگریزوں کا ساتھ نہیں دوں گا۔‘‘ قاصد یہ خوشخبری لے کر نواب حیدر علی کی طرف روانہ ہوا۔ اُدھر نظام کی فوج میں موجو د انگریز وں کا ایک ہمدرد (یعنی مسلمانوں کا غدار) انگریزی جنرل کی طرف روانہ ہوا... اس نے جنرل بیلی سے ملاقات کی... وہ جانتا تھا یہ ان کا اپنا آدمی ہے... ان لوگوں کو تو ضرورت ہی ایسے لوگوں کی تھی... ایسے لوگوں کے بغیر وہ پورے ہندوستان پر قبضہ کر بھی کیسے سکتے تھے، اس نے فوراً پوچھا : ’’کیا خبریں ہیں؟‘‘ اس نے بتایا : ’’سر! نظام حیدر آباد نے آپ کے مقابلے میں نواب حیدر علی کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔‘‘ جنرل بیلی نے خوش ہو کر کہا: ’’خوب! تم نے یہ بہت اہم خبر سنائی... تم انعام کے حق دار ہو۔‘‘ اسے روپوں کی ایک تھیلی انعام میں دی گئی... اور نظام حیدر آباد کو یہ پیغام بھیجا : ’’ آپ اگر نواب حیدر علی کا ساتھ نہ دینے کا وعدہ کریں تو ہم آپ کو علاقہ ’’گنٹور‘‘ لوٹانے کا وعدہ کرتے ہیں۔‘‘ یعنی انگریز نے نظام کے اس علاقے پر قبضہ کرلیا تھا... نظام کو اس بات پر بہت غصہ تھا... لیکن اب وہی علاقہ انگریز اُسے لوٹانے کی بات کررہا تھا... یہ پیغام سن کر نظام خاموش ہوگیا... اس نے پیغام بھیجا: ’’ ٹھیک ہے۔ میں نواب حید ر علی کا ساتھ نہیں دوں گا۔‘‘ اس طرح نواب حیدر علی انگریز کے مقابلے میں تنہا رہ گئے، لیکن وہ ہمت ہارنے والوں میں سے نہیں تھے... 28 مئی 1780ء کو اپنی 90 ہزار فوج لے کر مدراس کی طرف بڑھے... جنرل بیلی کو اطلاع ملی: ’’نواب کا لشکر پایان گھاٹ پر قبضہ کر چکا ہے۔ اب اس کا رُخ مدراس کی طرف ہے... اس سیلاب کو روکنے میں اگر ہم نے سستی دکھائی تو ہندوستان پر قبضہ کرنے کا خواب اَدھورا رہ جائے گا۔‘‘ ا س پر اس نے کہا: ’’ ہم آرہے ہیں۔‘‘ نواب حیدر علی نے شہزادہ ٹیپوکو جنرل بیلی کا راستہ روکنے کے لیے روانہ کیا... دونوں فوجوں کا ست دیر کے مقام پر آمنا سامنا ہوا... سورج غروب ہوتے ہی نواب حیدر علی کو یہ خبر سنائی جا رہی تھی: ’’کرنل بیلی کی فوج کو زبردست نقصان اُٹھانا پڑا ہے۔‘‘
ا س کے بعد حیدر علی خود بھی روانہ ہوئے۔ دوسرے دن کا سورج انہیں قلعہ ارکاٹ میں دیکھ رہا تھا... نواب نے قلعہ ارکاٹ کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ انگریز کی کوئی پیش نہ جانے دی... نواب صاحب نے اعلان کیا : ’’لشکر کا کوئی سپاہی عام لوگوں کی جان، مال اور عزت نہ لوٹے... جو ایسا کرے گا، اسے سزا دی جائے گی... شہر والوں کے لیے عام معافی کا اعلان ہے۔‘‘ اسی قلعے میں میر محمد صادق بھی موجود تھا... یہ صوبہ سرحد کے عہدے دار میر احمد خان کا نواسہ تھا... یہاں ایک مدت سے کوتوال مقرر تھا... اپنی دیانت داری کی وجہ سے سادہ زندگی بسر کر رہا تھا... اس کی دیانت داری کے بارے میں سن کر نواب حیدر علی نے اسے شہر کی صوبے داری عطا کر دی... یہی وہ شخص بعد میں ہماری تاریخ کا نا سور ثابت ہوا... نواب حیدر علی کی فتوحات کا سلسلہ 7 دسمبر 1772ء تک جاری رہا... انگریز اس کے راستے میں کوئی بند نہ باندھ سکا... وہ انگریز وں کو خس و خاشاک کی طرح اُڑاتا چلا گیا کہ 7 دسمبر اس کی زندگی کا آخری دن ثابت ہوا...
سلطا ن ٹیپو ان تمام لڑائیوں میں شریک رہے... نواب حیدر علی کے بعد انگریز جان چکا تھا... نواب حیدر علی کی طرح وہ سلطان ٹیپوکو بھی شکست نہیں دے سکیں گے... لہٰذا انہوں نے اپنا وہی پرانا حربہ اختیا رکیا... جسے غداری کہا جاتا ہے... نواب حیدر علی کی وفات کے بعد بھی 1773ء سے سلطان ٹیپو 1799ء تک انگریز سے لڑتا رہا... اس نے شروع میں انگریزوں کو خوب شکستیں دیں... لیکن انگریز کے حربے آڑے آنے لگے... یہاں تک کہ مئی 1799ء کا دن آپہنچا... یہ ان کی زندگی کا آخری دن تھا۔
4مئی 1799ء کی صبح سلطان نے معمول کے مطابق فجر کی نماز مسجد ِاعلیٰ میں ادا کی... نماز کے بعد سلطان کے مشیر میر حبیب اللہ نے عرض کیا : ’’ حضور! وقت کا تقاضا ہے، آپ اپنی جانِ عزیز پر رحم فرمائیں... شہزادوں کی یتیمی اور قید وبند کا خیال فرمائیں... اور دشمن سے صلح کر لیں۔‘‘ اس کی بات سن کر سلطان نے کہا: ’’ہم یہاں سا لہا سال سے اس سلطنتِ خدا دادا کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں... یہ ہماری رعایا کی ملکیت ہے... لیکن ہمارے وزرا اور افسران اس کی تباہی چاہتے ہیں... انسان کو موت صرف ایک بار آتی ہے... اس سے ڈرنا لا حاصل ہے... اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ وہ کب اور کہاں آئے گی...؟ میں اپنی ذات کو مع اپنی اولاد کے دینِ اسلام پرنثار کرنے کا فیصلہ کر چکا ہوں۔‘‘
میر حبیب اللہ کے پاس، ان کے یہ الفاظ سن کر کہنے کے لیے کچھ نہ بچا... ادھر سورج معمول کے مطابق طلوع ہو رہا تھا... اور سلطان کا سورج غروب ہونے چلا تھا... انسانی تاریخ آج آزادی اور خو د داری کا ایک باب ختم کر رہی تھی۔ غلامی کا نیا باب شرو ع کرنے والی تھی۔ سرنگا پٹم کی سر زمین بھی اپنے مالک سے کہہ رہی تھی : ’’اے ربّ کائنات! آج پاک انسانوں کی جگہ مجھ پر ناپاک لوگ حکمرانی کا آغاز کرنے والے ہیں۔‘‘ انگریز اپنے منصوبوں کے مطابق اپنی تمام تیاریاں مکمل کرچکے تھے... قلعے کے اندر اور باہر سازشیں مکمل ہو چکی تھیں... ضمیر فروش ملک اور قوم کا سودا کر چکے تھے... ملک کے غداروں کی طرف سے سلطان کا فیصلہ اور ان کی تیاریوں کی پل پل کی رپورٹ بھی کرنل دندلی رہی تھی... میر صادق اپنے شیطان صفت ساتھیوں کے ساتھ مل کر انگریز کے قلعے پر حملے کا پورا منصوبہ واضح کرچکا تھا... انگریز کو اس پر اور اس کے ساتھیوں پر پورا پورا بھروسہ تھا... کیونکہ وہ پہلے ہی سلطان کی کمر میں خنجر گھونپ چکے تھے... نا اُمیدی کے اس طوفان میں ابھی اُمید کی ایک شمع روشن تھی... یہ سلطان کے وفا داروں اور جانثاروں کا وہ دستہ تھا جس نے اپنے وطن اور مذہب کی حفاظت کے لیے آخری دم تک اس کے شانہ بشانہ لڑنے کا عہد اپنے اللہ سے کرر کھا تھا... اللہ نے بھی انہیں اپنے ارادوں پر قائم رکھا... وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُن میں شہادت کا شوق اور جنت میں پہنچنے کی تڑپ بڑھتی ہی چلی جار ہی تھی۔ یہ سید عبدالغفار کا دستہ تھا... اس دستے کے بعض سپاہیوں کے ناموں سے سلطان واقف نہیں تھے، لیکن ان کے چہروں کی نورانیت اور بشاشت یہ گواہی دے رہی تھی کہ یہ اپنے خون کے آخری قطروں سے قوم اور وطن کی ایک سنہری تاریخ لکھنے جا رہے ہیں... اس طرح آج انسانی تاریخ کا ایک اہم واقعہ رونما ہونے چلا تھا... وطن کی مکمل آزادی کا خواب دیکھنے والے انسان کی زندگی کا وہ آخری دن تھا۔
فجر کی نماز اور تلاوت سے فارغ ہونے کے بعد سلطان اپنی آخری تیاریوں کا جائزہ لے رہے تھے کہ چند نجومی اندر داخل ہوئے... انہوں نے ہاتھ جوڑ کر کہا: ’’حضور! آج کا دن آپ کے لیے اچھا معلوم نہیںہو رہا۔‘‘ سلطان ایک عالمِ دین تھے... وہ جانتے تھے کہ بذاتِ خود دن اور رات میں اللہ نے کوئی خرابی نہیں رکھی... اچھا بُرا جو کچھ بھی ہے، صرف اللہ کی مرضی سے ہے... پھر حدیث کی روشنی میں سلطان یہ بات بھی جانتے تھے کہ صدقات اور خیرات آنے والے مصائب کو ٹالتے ہیں... اس لیے انہوں نے اسی وقت قیمتی ہیرے، جواہرات اور خوب صورت ہاتھی اور 200 روپے نقد خیرات میں دے دیے... ان چیزوں کے علاوہ کچھ بیل، بھینس، بکرے اور کپڑے وغیرہ بھی فقرا اور مسکینوں میں تقسیم کیے۔
4 مئی کی صبح سویرے انگریزوں نے جنرل بیرڈ کی قیادت میں اپنے منصوبے کے مطابق مغربی محاذ سے جنوب میں قلعے کے اس حصے پر حملہ کردیا جہاں پہلے ہی شگاف پڑچکا تھا... سلطان کو مصروف رکھنے کے لیے شمال سے بھی گولہ باری کی گئی... اس طرف سلطانی محل موجود تھا... پہلے سے طے شدہ منصوبہ اور سازش کے مطابق شگاف کی حفاظت پر موجود سلطانی فوج سے میر صادق اور پورنیا نے کہا: ’’مسجدِ اعلیٰ کے پاس تنخواہیں تقسیم ہو رہی ہیں... جا کر پہلے تنخواہ وصول کر لو۔‘‘ سپاہی یہ حکم سن کر مسجدِ اعلیٰ کی طرف چلے گئے... جونہی وہ شگاف کے پاس سے مسجد کی طرف گئے... میر معین الدین نے طے شدہ اشارے کے مطابق سفید رومال ہلا دیا... یعنی اس نمک حرام غدار نے انگریز کو بتا دیا : ’’ میدان صاف ہے... بلا کھٹکے چلے آئیں۔‘‘ فوری طور پر 5 ہزار انگریز سپاہی اس شگاف میں سے بغیر کسی رکاوٹ کے ایک قطار کی صورت میں اندر آگئے۔
انگریز سپاہیوں کو شگاف سے اندر آنے کا راستہ دکھانے کا کام غدار میر قاسم نے کیا... یہ بات بعد میں خود انگریز سپاہیوں نے بتائی۔ قلعے کے جنوب میں جب تنخواہ کے بہانے سلطانی سپاہیوں کو میر صادق نے ہٹا دیا توسلطان کے وفا دار فوجی سید عبدالغفار نے یہ منظر صاف طور پر دیکھا... وہ فوراً سمجھ گیا کہ میر صادق کیا نمک حرامی کر رہا ہے... کیونکہ تھوڑی دیر پہلے ہی میر صادق نے اس سے کہا تھا : ’’سید صاحب! آپ جا کر سلطان کو انگریز کے حملے کی خبر دے آئیں۔‘‘ سید عبدالغفار تیزی کے عالم میں وہاں سے گئے۔
سلطان کو اطلاع دیتے ہی فوراً لوٹ آئے... اس وقت انہوں نے دیکھا... میر صادق سپاہیوں سے کہہ رہا تھا : ’’تم لوگ مسجدِ اعلیٰ کے پا س جا کر تنخواہیں وصول کرلو۔‘‘ اس سب سے بڑے غدار کا حکم سن کر سپاہی وہاںسے چلے گئے... یہ منظر عبدالغفّار نے اس وقت دیکھا جب وہ سلطان کو انگریزی حملے کی اطلاع دے کر لوٹ رہے تھے... میر معین الدین غدار فوراً سید عبد الغفّار کے پاس آیا اور کہنے لگا : ’’اب مقابلہ بے کا رہے... ہمیں قلعے سے دور چلے جانا چاہیے... قلعہ تو ہاتھ سے جا ہی رہا ہے...جانیں تو بچ جائیں گی۔‘‘ یہ سنتے ہی سید عبد الغفّار کے تن بدن میں آ گ لگ گئی... ان کی غیر ت جو ش میں آگئی... انہوں نے تو اپنے وطن کے ایک ایک انچ کی حفاظت کی قسم کھائی تھی... وہ پسپائی کیسے برداشت کر لیتے... انہوں نے اسے گھور کر دیکھا اور بولے : ’’جان کی پرواہ تم جیسے بزدل کیا کرتے ہیں۔‘‘ ان کے الفاظ کے ساتھ ہی میر معین الدین نے سید عبدالغفّار پر سبز رنگ کی چھتری سے سایہ کر دیا... یہ بھی انگریز کے لیے اشارہ تھا کہ انہیں نشانہ بنا ڈالو۔ بس پھر کیا تھا... انگریزی توپ کا رُخ سید عبد الغفّار کی طرف ہو گیا... کئی گولے اوپر تلے سلطان کے اس وفا دار سپاہی کو لگے۔ انہوں نے جامِ شہادت نوش فرمایا... ان کے گرنے کے بعدکہیں جا کر انگریزی فوج قلعہ کے اندر داخل ہو سکی۔
قلعہ کی مختلف فصیلوں کا معاینہ کرتے کرتے سلطان دمِ لینے کے لیے ایک سایہ دار درخت کے نیچے بیٹھ گئے... اسی وقت ایک خادم اس خیال سے کہ سلطان صبح سے بھوکے ہیں، کھانا لے آیا... سلطان نے ایک لقمہ توڑا۔ اسے منہ میں رکھا تھا کہ ایک سپاہی دوڑتا ہوا آیا... اس نے آتے ہی کہا: ’’حضور! سید عبد الغفّار شہید ہو گئے ہیں۔ انگریز فوج قلعے میں داخل ہوگئی ہے۔‘‘ سلطان تو صبح ہی سے یہ خبر سننے کے لیے تیار تھے... انہیں تو پہلے ہی یقین ہو چکا تھا کہ آج شہادت کا دن ہے... انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا بھی تھا : ’’لگتا ہے... ہم اب کچھ ہی دیر کے مہمان ہیں۔‘‘ انہوں نے کھانا اسی طرح چھوڑا... اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے۔ دونالی بندوق کندھے پرلٹکائی... تلوار ہاتھ میں لی اور گھوڑے کو ایڑ لگائی... ان کا رُخ دشمن کی طرف تھا... راستے میں نمک حرام، ملت فروش میر صادق، میر معین الدین اور پورنیا وغیر ہ ملے... اس سے پہلے میر صادق کچھ کہتا، سلطان بول پڑے: ’’ایسی بات نہیں کہ ہم تمہاری غداری سے واقف نہیں۔ تم اپنی اس غداری کا مزہ بہت جلد چکھو گے۔ تمہاری آیندہ آنے والی نسلیں ان سیاہ کارناموں کی نحوست سے دانے دانے کو ترسیں گی۔‘‘ یہ کہتے ہوئے سلطان آگے بڑھ گئے... یہ نمک حرام اب بھی نہ رُکا... اس نے فوراً انگریز فوج کو اطلاع بھیجی : ’’سلطان محل سے نکل کر ڈوڈی دروازے کے قریب پہنچ رہے ہیں۔‘‘ ایک روایت کے مطابق یہ بات سامنے آئی ہے سلطان نے اسی صبح غداروں کی ایک فہرست تیار کی تھی... انہیں دوسرے دن پھانسی دی جانی تھی... اس میں سب سے اوپر میر صادق کا نام تھا اور میر صادق کو بھی یہ اطلاع مل چکی تھی۔
سلطان ڈوڈی دروازے سے باہر نکلے... دہلی دروازے کے پاس پہنچے... انگریز فوجی وہاں تک آچکے تھے... انہوں نے ان سے تلوار سے مقابلہ شروع کردیا... مقابلے میں لمحہ بہ لمحہ تیزی آتی گئی۔ سلطان تلوار کے جوہر دکھا رہے تھے... دُشمن سپاہی کٹ کٹ کر گر رہے تھے... لیکن دشمن ہزاروں تھے، ان کا دبائو بڑھتا چلا گیا... اس عالم میں سلطان نے ڈوڈی دروازے کا رُخ کیا، لیکن اس طرف میر صادق موجود تھا... اس نے فوراً دروازہ بند کردیا تھا کہ سلطان اس طرف سے نہ نکل سکیں۔ اسے دروازہ بند کر تے سلطان کے ایک وفا دار سپاہی احمد خان نے دیکھ لیا... وہ فوراً چلّایا: ’’ نمک حرام! سلطان کو دُشمنوں کے منہ میں دے کر خود کہاں بچ کر جا رہا ہے؟‘‘ ان الفاظ کے ساتھ ہی اس نے میر صادق پر تلوار کا ایک بھر پور وار کیا... اس وار سے اس کا سر تن سے جد ا ہوگیا... اسے تو اپنی غداری کی اور نمک حرامی کی سزا نقد ہی مل گئی... یعنی سلطان کی شہادت سے بھی پہلے
جہنم رسید ہو گیا... الحمد للہ!
تاریخ کی کتابوںمیں لکھا ہے... اس کی لاش چار دن تک پڑی سٹرتی رہی۔ اس کا پورا حلیہ بگڑ گیا تھا... آخر چند لوگوں نے بدبو سے پریشان ہو کر اس کی لاش کو ایک گڑھے میں دبا دیا... جب بھی کوئی اس گڑھے کے پاس سے گزرتا، وہ اس پر تھوکتا ضرورتھا... غدار معین الدین بھی اسی روز ایک خندق میں گر کر مر گیا۔
سلطان نے جب ڈوڈی دروازے سے واپس ہونا چاہا تو دروازہ بند پایا... اب وہ شمالی دروازے کی طرف بڑھے، لیکن معلوم ہوا، میر معین الدین کی غداری سے دُشمن اس دروازے پر قبضہ کرچکے تھے... اس کے بعد مشرقی اور جنوبی فصیل پر قبضہ کر چکے تھے۔ اس طرح سلطان اب چاروں طرف سے گھر گئے... انہوں نے اس حالت میں دُشمن پر فائر کیے۔ 5 سپاہی اسی وقت گر گئے... سلطان پر ہر طرف سے گولیوں کی بارش ہو رہی تھی... ان گولیوں سے سلطان کو کئی زخم آ چکے تھے... لیکن وہ پھر بھی دُشمنوں کے مقابلے میں ڈٹے ہوئے تھے... جنگ صبح شروع ہوئی تھی۔ اب عصر کا وقت ہو چکا تھا... اب تو مردوں کے ساتھ خواتین بھی شامل ہو گئی تھیں... وہ بھی انگریزوں پر بڑھ بڑھ کر حملے کر رہی تھیں... سلطان کے جانثار ایک ایک کر کے شہید ہو رہے تھے... شہید ہو کر بتا رہے تھے... وہ وفار دا ر ہیں، غدار نہیں... ان جانثاروں اور وفاداروں کی لاشیں ہر طرف بکھری پڑی تھیں... ایسے میں سلطان کے ایک خادم راجہ خان نے قدرے فاصلے سے انہیں آواز دی :’’حضور! اگر آپ اب بھی ہتھیار ڈال دیں... اور گرفتاری دے دیں تو دشمن آپ کے مرتبے کا خیال کرتے ہوئے آپ کی جان بخش دیں گے۔‘‘ یہ الفاظ سن کر سلطان جلا ل میں آگئے... غصے کی حالت میں راجہ خان کی طرف مڑے اور گرج کر بولے: ’’میرے نزدیک شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔‘‘
سلطان کا یہ جملہ تاریخ کی پیشانی پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رقم ہو گیا، زندہ جاوید بن گیا۔ کچھ ہی دیر بعد سلطان کے گھوڑے طائو س کی کمر میں گولی لگی... وہ گر گیا... سلطان بھی زمین پر آگرے... ان کی دستار بھی سر سے الگ ہو کر گر پڑی... اب سلطان پیدل لڑ رہے تھے... دیکھتے ہی دیکھتے کئی انگریز افسر سلطان کی تلوار کی ز د میں آئے او ر کٹ کر گرے... ادھر سلطان کو گولیوں کے دو شدید زخم آچکے تھے... ان پر کمزوری غالب آرہی تھی... کمزوری لمحہ بہ لمحہ بڑھ رہی تھی... پھر بھی شیر دل سلطان تھک کر زخموں سے چور ہو کر بیٹھ نہیں گئے... وہ اب بھی لڑ رہے تھے... ان کے جانثار سپاہی جو گولے دُشمن کی طرف پھینک رہے تھے، ان میں میر صادق کی غداری کی وجہ سے بارود کی بجائے مٹی بھری ہوئی تھی... اس لیے انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچ رہاتھا... آخر غداروں نے چاروں طرف یہ خبر پھیلا دی کہ سلطان اس مقام پر گھر گئے ہیں... اب تو ہر طرف سے دشمن اس طرف کا رُخ کر نے لگے۔
سلطا ن ٹیپو ان تمام لڑائیوں میں شریک رہے... نواب حیدر علی کے بعد انگریز جان چکا تھا... نواب حیدر علی کی طرح وہ سلطان ٹیپوکو بھی شکست نہیں دے سکیں گے... لہٰذا انہوں نے اپنا وہی پرانا حربہ اختیا رکیا... جسے غداری کہا جاتا ہے... نواب حیدر علی کی وفات کے بعد بھی 1773ء سے سلطان ٹیپو 1799ء تک انگریز سے لڑتا رہا... اس نے شروع میں انگریزوں کو خوب شکستیں دیں... لیکن انگریز کے حربے آڑے آنے لگے... یہاں تک کہ مئی 1799ء کا دن آپہنچا... یہ ان کی زندگی کا آخری دن تھا۔
4مئی 1799ء کی صبح سلطان نے معمول کے مطابق فجر کی نماز مسجد ِاعلیٰ میں ادا کی... نماز کے بعد سلطان کے مشیر میر حبیب اللہ نے عرض کیا : ’’ حضور! وقت کا تقاضا ہے، آپ اپنی جانِ عزیز پر رحم فرمائیں... شہزادوں کی یتیمی اور قید وبند کا خیال فرمائیں... اور دشمن سے صلح کر لیں۔‘‘ اس کی بات سن کر سلطان نے کہا: ’’ہم یہاں سا لہا سال سے اس سلطنتِ خدا دادا کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں... یہ ہماری رعایا کی ملکیت ہے... لیکن ہمارے وزرا اور افسران اس کی تباہی چاہتے ہیں... انسان کو موت صرف ایک بار آتی ہے... اس سے ڈرنا لا حاصل ہے... اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ وہ کب اور کہاں آئے گی...؟ میں اپنی ذات کو مع اپنی اولاد کے دینِ اسلام پرنثار کرنے کا فیصلہ کر چکا ہوں۔‘‘
میر حبیب اللہ کے پاس، ان کے یہ الفاظ سن کر کہنے کے لیے کچھ نہ بچا... ادھر سورج معمول کے مطابق طلوع ہو رہا تھا... اور سلطان کا سورج غروب ہونے چلا تھا... انسانی تاریخ آج آزادی اور خو د داری کا ایک باب ختم کر رہی تھی۔ غلامی کا نیا باب شرو ع کرنے والی تھی۔ سرنگا پٹم کی سر زمین بھی اپنے مالک سے کہہ رہی تھی : ’’اے ربّ کائنات! آج پاک انسانوں کی جگہ مجھ پر ناپاک لوگ حکمرانی کا آغاز کرنے والے ہیں۔‘‘ انگریز اپنے منصوبوں کے مطابق اپنی تمام تیاریاں مکمل کرچکے تھے... قلعے کے اندر اور باہر سازشیں مکمل ہو چکی تھیں... ضمیر فروش ملک اور قوم کا سودا کر چکے تھے... ملک کے غداروں کی طرف سے سلطان کا فیصلہ اور ان کی تیاریوں کی پل پل کی رپورٹ بھی کرنل دندلی رہی تھی... میر صادق اپنے شیطان صفت ساتھیوں کے ساتھ مل کر انگریز کے قلعے پر حملے کا پورا منصوبہ واضح کرچکا تھا... انگریز کو اس پر اور اس کے ساتھیوں پر پورا پورا بھروسہ تھا... کیونکہ وہ پہلے ہی سلطان کی کمر میں خنجر گھونپ چکے تھے... نا اُمیدی کے اس طوفان میں ابھی اُمید کی ایک شمع روشن تھی... یہ سلطان کے وفا داروں اور جانثاروں کا وہ دستہ تھا جس نے اپنے وطن اور مذہب کی حفاظت کے لیے آخری دم تک اس کے شانہ بشانہ لڑنے کا عہد اپنے اللہ سے کرر کھا تھا... اللہ نے بھی انہیں اپنے ارادوں پر قائم رکھا... وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُن میں شہادت کا شوق اور جنت میں پہنچنے کی تڑپ بڑھتی ہی چلی جار ہی تھی۔ یہ سید عبدالغفار کا دستہ تھا... اس دستے کے بعض سپاہیوں کے ناموں سے سلطان واقف نہیں تھے، لیکن ان کے چہروں کی نورانیت اور بشاشت یہ گواہی دے رہی تھی کہ یہ اپنے خون کے آخری قطروں سے قوم اور وطن کی ایک سنہری تاریخ لکھنے جا رہے ہیں... اس طرح آج انسانی تاریخ کا ایک اہم واقعہ رونما ہونے چلا تھا... وطن کی مکمل آزادی کا خواب دیکھنے والے انسان کی زندگی کا وہ آخری دن تھا۔
فجر کی نماز اور تلاوت سے فارغ ہونے کے بعد سلطان اپنی آخری تیاریوں کا جائزہ لے رہے تھے کہ چند نجومی اندر داخل ہوئے... انہوں نے ہاتھ جوڑ کر کہا: ’’حضور! آج کا دن آپ کے لیے اچھا معلوم نہیںہو رہا۔‘‘ سلطان ایک عالمِ دین تھے... وہ جانتے تھے کہ بذاتِ خود دن اور رات میں اللہ نے کوئی خرابی نہیں رکھی... اچھا بُرا جو کچھ بھی ہے، صرف اللہ کی مرضی سے ہے... پھر حدیث کی روشنی میں سلطان یہ بات بھی جانتے تھے کہ صدقات اور خیرات آنے والے مصائب کو ٹالتے ہیں... اس لیے انہوں نے اسی وقت قیمتی ہیرے، جواہرات اور خوب صورت ہاتھی اور 200 روپے نقد خیرات میں دے دیے... ان چیزوں کے علاوہ کچھ بیل، بھینس، بکرے اور کپڑے وغیرہ بھی فقرا اور مسکینوں میں تقسیم کیے۔
4 مئی کی صبح سویرے انگریزوں نے جنرل بیرڈ کی قیادت میں اپنے منصوبے کے مطابق مغربی محاذ سے جنوب میں قلعے کے اس حصے پر حملہ کردیا جہاں پہلے ہی شگاف پڑچکا تھا... سلطان کو مصروف رکھنے کے لیے شمال سے بھی گولہ باری کی گئی... اس طرف سلطانی محل موجود تھا... پہلے سے طے شدہ منصوبہ اور سازش کے مطابق شگاف کی حفاظت پر موجود سلطانی فوج سے میر صادق اور پورنیا نے کہا: ’’مسجدِ اعلیٰ کے پاس تنخواہیں تقسیم ہو رہی ہیں... جا کر پہلے تنخواہ وصول کر لو۔‘‘ سپاہی یہ حکم سن کر مسجدِ اعلیٰ کی طرف چلے گئے... جونہی وہ شگاف کے پاس سے مسجد کی طرف گئے... میر معین الدین نے طے شدہ اشارے کے مطابق سفید رومال ہلا دیا... یعنی اس نمک حرام غدار نے انگریز کو بتا دیا : ’’ میدان صاف ہے... بلا کھٹکے چلے آئیں۔‘‘ فوری طور پر 5 ہزار انگریز سپاہی اس شگاف میں سے بغیر کسی رکاوٹ کے ایک قطار کی صورت میں اندر آگئے۔
انگریز سپاہیوں کو شگاف سے اندر آنے کا راستہ دکھانے کا کام غدار میر قاسم نے کیا... یہ بات بعد میں خود انگریز سپاہیوں نے بتائی۔ قلعے کے جنوب میں جب تنخواہ کے بہانے سلطانی سپاہیوں کو میر صادق نے ہٹا دیا توسلطان کے وفا دار فوجی سید عبدالغفار نے یہ منظر صاف طور پر دیکھا... وہ فوراً سمجھ گیا کہ میر صادق کیا نمک حرامی کر رہا ہے... کیونکہ تھوڑی دیر پہلے ہی میر صادق نے اس سے کہا تھا : ’’سید صاحب! آپ جا کر سلطان کو انگریز کے حملے کی خبر دے آئیں۔‘‘ سید عبدالغفار تیزی کے عالم میں وہاں سے گئے۔
سلطان کو اطلاع دیتے ہی فوراً لوٹ آئے... اس وقت انہوں نے دیکھا... میر صادق سپاہیوں سے کہہ رہا تھا : ’’تم لوگ مسجدِ اعلیٰ کے پا س جا کر تنخواہیں وصول کرلو۔‘‘ اس سب سے بڑے غدار کا حکم سن کر سپاہی وہاںسے چلے گئے... یہ منظر عبدالغفّار نے اس وقت دیکھا جب وہ سلطان کو انگریزی حملے کی اطلاع دے کر لوٹ رہے تھے... میر معین الدین غدار فوراً سید عبد الغفّار کے پاس آیا اور کہنے لگا : ’’اب مقابلہ بے کا رہے... ہمیں قلعے سے دور چلے جانا چاہیے... قلعہ تو ہاتھ سے جا ہی رہا ہے...جانیں تو بچ جائیں گی۔‘‘ یہ سنتے ہی سید عبد الغفّار کے تن بدن میں آ گ لگ گئی... ان کی غیر ت جو ش میں آگئی... انہوں نے تو اپنے وطن کے ایک ایک انچ کی حفاظت کی قسم کھائی تھی... وہ پسپائی کیسے برداشت کر لیتے... انہوں نے اسے گھور کر دیکھا اور بولے : ’’جان کی پرواہ تم جیسے بزدل کیا کرتے ہیں۔‘‘ ان کے الفاظ کے ساتھ ہی میر معین الدین نے سید عبدالغفّار پر سبز رنگ کی چھتری سے سایہ کر دیا... یہ بھی انگریز کے لیے اشارہ تھا کہ انہیں نشانہ بنا ڈالو۔ بس پھر کیا تھا... انگریزی توپ کا رُخ سید عبد الغفّار کی طرف ہو گیا... کئی گولے اوپر تلے سلطان کے اس وفا دار سپاہی کو لگے۔ انہوں نے جامِ شہادت نوش فرمایا... ان کے گرنے کے بعدکہیں جا کر انگریزی فوج قلعہ کے اندر داخل ہو سکی۔
قلعہ کی مختلف فصیلوں کا معاینہ کرتے کرتے سلطان دمِ لینے کے لیے ایک سایہ دار درخت کے نیچے بیٹھ گئے... اسی وقت ایک خادم اس خیال سے کہ سلطان صبح سے بھوکے ہیں، کھانا لے آیا... سلطان نے ایک لقمہ توڑا۔ اسے منہ میں رکھا تھا کہ ایک سپاہی دوڑتا ہوا آیا... اس نے آتے ہی کہا: ’’حضور! سید عبد الغفّار شہید ہو گئے ہیں۔ انگریز فوج قلعے میں داخل ہوگئی ہے۔‘‘ سلطان تو صبح ہی سے یہ خبر سننے کے لیے تیار تھے... انہیں تو پہلے ہی یقین ہو چکا تھا کہ آج شہادت کا دن ہے... انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا بھی تھا : ’’لگتا ہے... ہم اب کچھ ہی دیر کے مہمان ہیں۔‘‘ انہوں نے کھانا اسی طرح چھوڑا... اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے۔ دونالی بندوق کندھے پرلٹکائی... تلوار ہاتھ میں لی اور گھوڑے کو ایڑ لگائی... ان کا رُخ دشمن کی طرف تھا... راستے میں نمک حرام، ملت فروش میر صادق، میر معین الدین اور پورنیا وغیر ہ ملے... اس سے پہلے میر صادق کچھ کہتا، سلطان بول پڑے: ’’ایسی بات نہیں کہ ہم تمہاری غداری سے واقف نہیں۔ تم اپنی اس غداری کا مزہ بہت جلد چکھو گے۔ تمہاری آیندہ آنے والی نسلیں ان سیاہ کارناموں کی نحوست سے دانے دانے کو ترسیں گی۔‘‘ یہ کہتے ہوئے سلطان آگے بڑھ گئے... یہ نمک حرام اب بھی نہ رُکا... اس نے فوراً انگریز فوج کو اطلاع بھیجی : ’’سلطان محل سے نکل کر ڈوڈی دروازے کے قریب پہنچ رہے ہیں۔‘‘ ایک روایت کے مطابق یہ بات سامنے آئی ہے سلطان نے اسی صبح غداروں کی ایک فہرست تیار کی تھی... انہیں دوسرے دن پھانسی دی جانی تھی... اس میں سب سے اوپر میر صادق کا نام تھا اور میر صادق کو بھی یہ اطلاع مل چکی تھی۔
سلطان ڈوڈی دروازے سے باہر نکلے... دہلی دروازے کے پاس پہنچے... انگریز فوجی وہاں تک آچکے تھے... انہوں نے ان سے تلوار سے مقابلہ شروع کردیا... مقابلے میں لمحہ بہ لمحہ تیزی آتی گئی۔ سلطان تلوار کے جوہر دکھا رہے تھے... دُشمن سپاہی کٹ کٹ کر گر رہے تھے... لیکن دشمن ہزاروں تھے، ان کا دبائو بڑھتا چلا گیا... اس عالم میں سلطان نے ڈوڈی دروازے کا رُخ کیا، لیکن اس طرف میر صادق موجود تھا... اس نے فوراً دروازہ بند کردیا تھا کہ سلطان اس طرف سے نہ نکل سکیں۔ اسے دروازہ بند کر تے سلطان کے ایک وفا دار سپاہی احمد خان نے دیکھ لیا... وہ فوراً چلّایا: ’’ نمک حرام! سلطان کو دُشمنوں کے منہ میں دے کر خود کہاں بچ کر جا رہا ہے؟‘‘ ان الفاظ کے ساتھ ہی اس نے میر صادق پر تلوار کا ایک بھر پور وار کیا... اس وار سے اس کا سر تن سے جد ا ہوگیا... اسے تو اپنی غداری کی اور نمک حرامی کی سزا نقد ہی مل گئی... یعنی سلطان کی شہادت سے بھی پہلے
جہنم رسید ہو گیا... الحمد للہ!
تاریخ کی کتابوںمیں لکھا ہے... اس کی لاش چار دن تک پڑی سٹرتی رہی۔ اس کا پورا حلیہ بگڑ گیا تھا... آخر چند لوگوں نے بدبو سے پریشان ہو کر اس کی لاش کو ایک گڑھے میں دبا دیا... جب بھی کوئی اس گڑھے کے پاس سے گزرتا، وہ اس پر تھوکتا ضرورتھا... غدار معین الدین بھی اسی روز ایک خندق میں گر کر مر گیا۔
سلطان نے جب ڈوڈی دروازے سے واپس ہونا چاہا تو دروازہ بند پایا... اب وہ شمالی دروازے کی طرف بڑھے، لیکن معلوم ہوا، میر معین الدین کی غداری سے دُشمن اس دروازے پر قبضہ کرچکے تھے... اس کے بعد مشرقی اور جنوبی فصیل پر قبضہ کر چکے تھے۔ اس طرح سلطان اب چاروں طرف سے گھر گئے... انہوں نے اس حالت میں دُشمن پر فائر کیے۔ 5 سپاہی اسی وقت گر گئے... سلطان پر ہر طرف سے گولیوں کی بارش ہو رہی تھی... ان گولیوں سے سلطان کو کئی زخم آ چکے تھے... لیکن وہ پھر بھی دُشمنوں کے مقابلے میں ڈٹے ہوئے تھے... جنگ صبح شروع ہوئی تھی۔ اب عصر کا وقت ہو چکا تھا... اب تو مردوں کے ساتھ خواتین بھی شامل ہو گئی تھیں... وہ بھی انگریزوں پر بڑھ بڑھ کر حملے کر رہی تھیں... سلطان کے جانثار ایک ایک کر کے شہید ہو رہے تھے... شہید ہو کر بتا رہے تھے... وہ وفار دا ر ہیں، غدار نہیں... ان جانثاروں اور وفاداروں کی لاشیں ہر طرف بکھری پڑی تھیں... ایسے میں سلطان کے ایک خادم راجہ خان نے قدرے فاصلے سے انہیں آواز دی :’’حضور! اگر آپ اب بھی ہتھیار ڈال دیں... اور گرفتاری دے دیں تو دشمن آپ کے مرتبے کا خیال کرتے ہوئے آپ کی جان بخش دیں گے۔‘‘ یہ الفاظ سن کر سلطان جلا ل میں آگئے... غصے کی حالت میں راجہ خان کی طرف مڑے اور گرج کر بولے: ’’میرے نزدیک شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔‘‘
سلطان کا یہ جملہ تاریخ کی پیشانی پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رقم ہو گیا، زندہ جاوید بن گیا۔ کچھ ہی دیر بعد سلطان کے گھوڑے طائو س کی کمر میں گولی لگی... وہ گر گیا... سلطان بھی زمین پر آگرے... ان کی دستار بھی سر سے الگ ہو کر گر پڑی... اب سلطان پیدل لڑ رہے تھے... دیکھتے ہی دیکھتے کئی انگریز افسر سلطان کی تلوار کی ز د میں آئے او ر کٹ کر گرے... ادھر سلطان کو گولیوں کے دو شدید زخم آچکے تھے... ان پر کمزوری غالب آرہی تھی... کمزوری لمحہ بہ لمحہ بڑھ رہی تھی... پھر بھی شیر دل سلطان تھک کر زخموں سے چور ہو کر بیٹھ نہیں گئے... وہ اب بھی لڑ رہے تھے... ان کے جانثار سپاہی جو گولے دُشمن کی طرف پھینک رہے تھے، ان میں میر صادق کی غداری کی وجہ سے بارود کی بجائے مٹی بھری ہوئی تھی... اس لیے انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچ رہاتھا... آخر غداروں نے چاروں طرف یہ خبر پھیلا دی کہ سلطان اس مقام پر گھر گئے ہیں... اب تو ہر طرف سے دشمن اس طرف کا رُخ کر نے لگے۔
سلطان کو اطلاع دیتے ہی فوراً لوٹ آئے... اس وقت انہوں نے دیکھا... میر صادق سپاہیوں سے کہہ رہا تھا : ’’تم لوگ مسجدِ اعلیٰ کے پا س جا کر تنخواہیں وصول کرلو۔‘‘
4 مئی کا دن بہت گرم تھا... اس خونیں معرکے میں شدید گرمی، چلچلاتی دھوپ اور مسلسل جنگ، بلکہ دشمنوں سے دست بدست جنگ کی وجہ سے ظہر سے مغرب تک سلطان کو پینے کے لیے پانی نہیں ملا تھا... پیاس نے انہیں بے دم کر رکھا تھا... انہیں اپنی پیاس بجھانے کا کوئی موقع نہیں ملا تھا۔ ظہر کے قریب جب سلطان جنگ کے لیے نکلے تھے، اس وقت ان کے ساتھ ا ن کا خاص خادم راجہ خان بھی تھا... یہ نیا نیا مسلمان ہوا تھا... اس نے سلطان کے حکم سے پانی کی چھاگل (چھوٹی سی مشک) بھی بھر رکھی تھی... لیکن سلطان کو کیا معلوم تھا کہ ان کا تربیت یافتہ غلام بھی ان کے خاتمے کے لیے انگریزوں کے ساتھ مل چکا ہے... جنگ کے دوران سلطان نے کئی بار اس سے پانی مانگا، مگر اس سنگ دل نمک حرام، ضمیر فروش نے سلطان کو پانی نہ دیا... اس طرح اللہ نے انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے سیّد امام حسینؓ کی سنت پر عمل نصیب کیا...
صبح سے شروع ہونے والی اس لڑائی کا سلسلہ عصر کے بعد بھی جاری رہا... دُشمنوں سے دست بدست جنگ میں سلطان کے جسم پر کئی گولیاں لگ چکی تھیں... وہ بُری طرح زخمی ہو چکے تھے... مغرب کا وقت اب قریب تھا... صبح کا نکلا سورج بھی اب غروب ہو نے والا تھا... ادھر سلطان کی زندگی کا سورج غروب ہونے کے قریب تھا... 50 سال تک مسلسل جدوجہد کرنے والے سلطان اب تھک چکے تھے... بے وفا انسانوں کی بے وفائی سے تنگ آکر رات کی تاریکی انہیں اپنی گودمیں لینے کے لیے بے قرار تھی... پیاس نے اُنہیں بُری طرح نڈھال کر دیا تھا... زخموں نے بے حال کر دیا تھا... لیکن ان سب کے با وجود وہ آخری سانس تک لڑنے کی قسم کھا چکے تھے... یہ غیر ت مند انسان اب اپنے مالکِ حقیقی کی بار گاہ میں پہنچنے کے لیے تیار تھا... آخر ایک غدار نے انگریزوں کو اشارہ کیا : ’’ میں جس کی کمر کے پیچھے کھڑا ہوں، وہ ہی سلطان ٹیپو ہے۔‘‘
بس پھر کیا تھا... یکایک قلعے کی فصیل سے گولیوں کی باڑھ ماری گئی۔ ایک گولی سلطان کے سینے میں لگی... اس گولی سے وہ نیم جا ن ہو کر گرے... جسم سے خو ن بہت تیزی سے بہنے لگا۔ ایک گورا سپاہی قریب ہی موجود تھا... ا س نے خیال کیا، سلطان کا کام تمام ہو گیا... وہ فوراً ان کی طرف لپکا اور ان کی کمر سے ہیروں سے جڑے تلوار بند کو اتارنے کی کوشش کی... اس وقت سلطان کی آنکھیں کھلی تھیں۔ آخری سانس چل رہا تھا... ایسے میں بھی انہوں نے یہ توہین برداشت نہ کی کہ کوئی گورا ان کے جیتے جی ان کے جسم کو ہاتھ لگائے... وہ اُٹھے اور تلوار کا وار اس پر کیا... اس نے خود کو بچانے کے لیے بندوق آگے کر دی... اس کی بندوق ٹوٹ گئی... سلطان نے دوسر ا وار کیا۔ اس وار کی زد میں ایک دوسرا انگریز سپاہی آگیا... اس کا کام تمام ہو گیا... اس حالت میں بھی انہوں نے کئی گوروں کو جہنم رسید کر ڈالا۔ ایسے میں ایک انگریز نے سلطان کی کن پٹی پر فائر کیا... گولی ان کے دائیں کان کے ذرا اوپر لگی... دیکھتے ہی دیکھتے سلطان گر گئے... اور ساتھ ہی ان کی روح پرواز کر گئی۔
وہ مغر ب کا وقت تھا... تاریکی پھیل رہی تھی... ہر طرف لاشوں کا اَنبار لگا تھا... 12 ہزار سلطانی سپاہی اس دن وطن کی آزادی کے لیے اپنی جانیں نثار کرچکے تھے۔ ادھر انگریزوں کو ابھی تک یقین نہیں آرہا تھا کہ سلطان شہید ہوگئے ہیں... ان کا خیال تھا سلطان فرانسیسیوں کے مشورے پر ’’چتل ورگ‘‘ چلے گئے ہیں۔ وہاں پہنچ کر دوبارہ لڑائی کی تیاری کر رہے ہیں...قلعہ اور محل کی تلاشی لی گئی... لیکن سلطان کی لاش نظرنہ آئی... آخر میجر بائرڈ خود اندھیرے میں مشعل لے کر ایک ایک لاش کو شناخت کرنے لگا... سلطان کے غدار خادم راجہ کی نشان دہی پر اسے لاش ملی۔ سلطان کی آنکھیں کھلی تھیں... جسم گرم تھا... نبض پر ہاتھ رکھ کر یقین کیا گیا کہ روح پرواز کرچکی ہے... مرنے کے باوجود چہرے کے رعب و جلال میں ابھی تک کوئی کمی نہیں آئی تھی... یوں لگ رہاتھا جیسے ابھی دشمن کو آنکھیں دکھا رہے ہوں... ایک موقعے کا گواہ میجر ایلن لکھتا ہے : ’’سلطان کو پھاٹک سے باہر لایا گیا... ان کی آنکھیں کھلی تھیں... جسم گرم تھا... چند لمحوں کے لیے کرنل ولز لی کو شک گزرا کہ شاید سلطان ابھی زندہ ہیں، لیکن نبض اور دل کی حرکت دیکھنے کے بعد شک رفع ہو گیا... جسم پر نفیس کپڑے تھے... کمرکے گرد ریشمی پٹکا تھا... سر سے ننگے تھے... کیونکہ دستار تو گر گئی تھی... چہرے پر بے پناہ وقار تھا۔‘‘ ایک انگریز نے لکھا ہے : ’’ان کے چہرے پر ایک غیرمعمولی وقار تھا... خوشی اور خوش خلقی ٹپک رہی تھی... جو زندگی میں بھی انہیں دوسروں سے نمایاں رہی تھی۔‘‘
اس پورے معرکے میں انگریز کے 15 سو سپاہی مارے گئے... انگریز کا اس جنگ میں بہت کم نقصان ہوا... ایسا غداروں کی غداری او ر سازش کی وجہ سے ہوا... کیونکہ یہ جنگ طاقت سے نہیں... سازش سے لڑی گئی تھی... ہندوستان کو غلامی کے غار میں دھکیل دینے والا یہ سانحہ 4 مئی 1799ء کو پیش آیا... اس وقت سلطان کی عمر تقریباً 49 سال تھی... سلطان 20 نومبر 1750 ء کو پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے دنیا میں کل 48 سال 5 ماہ اور 14 دن گزارے۔ سلطان کی شہادت اور 12 ہزار وفاداروں کی وفاداری کے ساتھ ہی میسور کی یہ چوتھی فیصلہ کن لڑائی ختم ہوگئی... اس جنگ میں سینکڑوں مسلمان اور ہندو عورتوں اور شاہی خاندان کی عورتوں نے بھی حصہ لیا...فوج میں جو فرانسیسی سپاہی شامل تھے... انہوں نے سلطان کی شہادت کے ساتھ ہی ہتھیار ڈال دیے اور شکست مان لی... اس کے بعد دارالسلطنت پر دُشمنوں کا قبضہ ہوگیا... جنرل ہارس جب سلطان کی لاش کے پاس پہنچا تو اس نے خوشی سے چلّا کر کہا: ’’آج سے ہندوستا ن ہمارا ہے۔‘‘
سلطان کیا شہید ہوئے، ملک کی آزادی کا دروازہ بند ہوگیا... ملک میں آزادی کا پرچم سرنگوں ہوگیا... ہندوستان کی سیاسی موت واقع ہوگئی... وطن کا شان دار ماضی اور روشن حال تاریکیوں میں ڈوب گیا۔ سلطان کی شہادت کے بعد نظام حیدر کی فوج بھی سرنگا پٹم میں داخل ہوگئی... فتح کی خوشی میں گورے سپاہیوں نے اپنا اصل روپ دکھایا... وہ درندگی کی تمام حددو کو پار کر گئے... خوب شراب پی گئی... گھروں میں چھپی ہوئی عورتوں کو کونوں کھدروں سے نکال نکال کر ان کی عظمتیں لوٹی گئیں... انہوں نے وہ کچھ کیا کہ انسانیت کانپ کانپ گئی... یہاں تک کہ ان گوروں نے میر صادق، میر قمر الدین اور پورنیا کے گھروں کو بھی نہ چھوڑا... جبکہ ان لوگوں نے ہی انگریزوں کو فتح کا راستہ دکھایا تھا... ان غداروں کے گھروں کو بھی دوسرے گھروں کی طرح لوٹا... ان کی عورتو ں کی عزتیں بھی محفوظ نہ رہیں۔
جب سلطان کو قبر میں اُتارا گیا تو اچانک بجلیاں کڑکیں... گرج، چمک اور کڑک کے بعداچانک بارش ہونے لگی... ادھر انگریز سپاہی سلطان کو آخری سلامی کے طور پر ہو ا میں فائر کر رہے تھے... لیکن آسمانی کڑک کی آواز میں فائروں کی آوازیں دب گئیں... موسم بارشوں کا نہیں تھا... لیکن آسمان کو بھی رونا آگیا... لہٰذا وہ بھی بر س رہا تھا۔ رات کے وقت بجلی انگریزی کیمپ پرگری... اس سے 2 انگریزی سپاہی ہلاک اور کئی زخمی ہو ئے... گھروں میں بند لوگوں پر بھی اس ماحول سے لرزہ طاری ہوگیا... بادلوں کی ہولناک آوازوں سے کانوں کے پردے پھٹنے لگے... دریائے کاویری میں بھی طغیانی آگئی... خود سرنگا پٹم میں رہنے والے بڑے بوڑھوں نے کہا:
’’دریائے کا ویری میں ایسی طغیانی انہوں نے کبھی نہیں دیکھی۔‘‘ … جعفر از بنگال و صادق از دکن … ننگِ ملت ننگِ دیں ننگ ِ وطن!!
صبح سے شروع ہونے والی اس لڑائی کا سلسلہ عصر کے بعد بھی جاری رہا... دُشمنوں سے دست بدست جنگ میں سلطان کے جسم پر کئی گولیاں لگ چکی تھیں... وہ بُری طرح زخمی ہو چکے تھے... مغرب کا وقت اب قریب تھا... صبح کا نکلا سورج بھی اب غروب ہو نے والا تھا... ادھر سلطان کی زندگی کا سورج غروب ہونے کے قریب تھا... 50 سال تک مسلسل جدوجہد کرنے والے سلطان اب تھک چکے تھے... بے وفا انسانوں کی بے وفائی سے تنگ آکر رات کی تاریکی انہیں اپنی گودمیں لینے کے لیے بے قرار تھی... پیاس نے اُنہیں بُری طرح نڈھال کر دیا تھا... زخموں نے بے حال کر دیا تھا... لیکن ان سب کے با وجود وہ آخری سانس تک لڑنے کی قسم کھا چکے تھے... یہ غیر ت مند انسان اب اپنے مالکِ حقیقی کی بار گاہ میں پہنچنے کے لیے تیار تھا... آخر ایک غدار نے انگریزوں کو اشارہ کیا : ’’ میں جس کی کمر کے پیچھے کھڑا ہوں، وہ ہی سلطان ٹیپو ہے۔‘‘
بس پھر کیا تھا... یکایک قلعے کی فصیل سے گولیوں کی باڑھ ماری گئی۔ ایک گولی سلطان کے سینے میں لگی... اس گولی سے وہ نیم جا ن ہو کر گرے... جسم سے خو ن بہت تیزی سے بہنے لگا۔ ایک گورا سپاہی قریب ہی موجود تھا... ا س نے خیال کیا، سلطان کا کام تمام ہو گیا... وہ فوراً ان کی طرف لپکا اور ان کی کمر سے ہیروں سے جڑے تلوار بند کو اتارنے کی کوشش کی... اس وقت سلطان کی آنکھیں کھلی تھیں۔ آخری سانس چل رہا تھا... ایسے میں بھی انہوں نے یہ توہین برداشت نہ کی کہ کوئی گورا ان کے جیتے جی ان کے جسم کو ہاتھ لگائے... وہ اُٹھے اور تلوار کا وار اس پر کیا... اس نے خود کو بچانے کے لیے بندوق آگے کر دی... اس کی بندوق ٹوٹ گئی... سلطان نے دوسر ا وار کیا۔ اس وار کی زد میں ایک دوسرا انگریز سپاہی آگیا... اس کا کام تمام ہو گیا... اس حالت میں بھی انہوں نے کئی گوروں کو جہنم رسید کر ڈالا۔ ایسے میں ایک انگریز نے سلطان کی کن پٹی پر فائر کیا... گولی ان کے دائیں کان کے ذرا اوپر لگی... دیکھتے ہی دیکھتے سلطان گر گئے... اور ساتھ ہی ان کی روح پرواز کر گئی۔
وہ مغر ب کا وقت تھا... تاریکی پھیل رہی تھی... ہر طرف لاشوں کا اَنبار لگا تھا... 12 ہزار سلطانی سپاہی اس دن وطن کی آزادی کے لیے اپنی جانیں نثار کرچکے تھے۔ ادھر انگریزوں کو ابھی تک یقین نہیں آرہا تھا کہ سلطان شہید ہوگئے ہیں... ان کا خیال تھا سلطان فرانسیسیوں کے مشورے پر ’’چتل ورگ‘‘ چلے گئے ہیں۔ وہاں پہنچ کر دوبارہ لڑائی کی تیاری کر رہے ہیں...قلعہ اور محل کی تلاشی لی گئی... لیکن سلطان کی لاش نظرنہ آئی... آخر میجر بائرڈ خود اندھیرے میں مشعل لے کر ایک ایک لاش کو شناخت کرنے لگا... سلطان کے غدار خادم راجہ کی نشان دہی پر اسے لاش ملی۔ سلطان کی آنکھیں کھلی تھیں... جسم گرم تھا... نبض پر ہاتھ رکھ کر یقین کیا گیا کہ روح پرواز کرچکی ہے... مرنے کے باوجود چہرے کے رعب و جلال میں ابھی تک کوئی کمی نہیں آئی تھی... یوں لگ رہاتھا جیسے ابھی دشمن کو آنکھیں دکھا رہے ہوں... ایک موقعے کا گواہ میجر ایلن لکھتا ہے : ’’سلطان کو پھاٹک سے باہر لایا گیا... ان کی آنکھیں کھلی تھیں... جسم گرم تھا... چند لمحوں کے لیے کرنل ولز لی کو شک گزرا کہ شاید سلطان ابھی زندہ ہیں، لیکن نبض اور دل کی حرکت دیکھنے کے بعد شک رفع ہو گیا... جسم پر نفیس کپڑے تھے... کمرکے گرد ریشمی پٹکا تھا... سر سے ننگے تھے... کیونکہ دستار تو گر گئی تھی... چہرے پر بے پناہ وقار تھا۔‘‘ ایک انگریز نے لکھا ہے : ’’ان کے چہرے پر ایک غیرمعمولی وقار تھا... خوشی اور خوش خلقی ٹپک رہی تھی... جو زندگی میں بھی انہیں دوسروں سے نمایاں رہی تھی۔‘‘
اس پورے معرکے میں انگریز کے 15 سو سپاہی مارے گئے... انگریز کا اس جنگ میں بہت کم نقصان ہوا... ایسا غداروں کی غداری او ر سازش کی وجہ سے ہوا... کیونکہ یہ جنگ طاقت سے نہیں... سازش سے لڑی گئی تھی... ہندوستان کو غلامی کے غار میں دھکیل دینے والا یہ سانحہ 4 مئی 1799ء کو پیش آیا... اس وقت سلطان کی عمر تقریباً 49 سال تھی... سلطان 20 نومبر 1750 ء کو پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے دنیا میں کل 48 سال 5 ماہ اور 14 دن گزارے۔ سلطان کی شہادت اور 12 ہزار وفاداروں کی وفاداری کے ساتھ ہی میسور کی یہ چوتھی فیصلہ کن لڑائی ختم ہوگئی... اس جنگ میں سینکڑوں مسلمان اور ہندو عورتوں اور شاہی خاندان کی عورتوں نے بھی حصہ لیا...فوج میں جو فرانسیسی سپاہی شامل تھے... انہوں نے سلطان کی شہادت کے ساتھ ہی ہتھیار ڈال دیے اور شکست مان لی... اس کے بعد دارالسلطنت پر دُشمنوں کا قبضہ ہوگیا... جنرل ہارس جب سلطان کی لاش کے پاس پہنچا تو اس نے خوشی سے چلّا کر کہا: ’’آج سے ہندوستا ن ہمارا ہے۔‘‘
سلطان کیا شہید ہوئے، ملک کی آزادی کا دروازہ بند ہوگیا... ملک میں آزادی کا پرچم سرنگوں ہوگیا... ہندوستان کی سیاسی موت واقع ہوگئی... وطن کا شان دار ماضی اور روشن حال تاریکیوں میں ڈوب گیا۔ سلطان کی شہادت کے بعد نظام حیدر کی فوج بھی سرنگا پٹم میں داخل ہوگئی... فتح کی خوشی میں گورے سپاہیوں نے اپنا اصل روپ دکھایا... وہ درندگی کی تمام حددو کو پار کر گئے... خوب شراب پی گئی... گھروں میں چھپی ہوئی عورتوں کو کونوں کھدروں سے نکال نکال کر ان کی عظمتیں لوٹی گئیں... انہوں نے وہ کچھ کیا کہ انسانیت کانپ کانپ گئی... یہاں تک کہ ان گوروں نے میر صادق، میر قمر الدین اور پورنیا کے گھروں کو بھی نہ چھوڑا... جبکہ ان لوگوں نے ہی انگریزوں کو فتح کا راستہ دکھایا تھا... ان غداروں کے گھروں کو بھی دوسرے گھروں کی طرح لوٹا... ان کی عورتو ں کی عزتیں بھی محفوظ نہ رہیں۔
جب سلطان کو قبر میں اُتارا گیا تو اچانک بجلیاں کڑکیں... گرج، چمک اور کڑک کے بعداچانک بارش ہونے لگی... ادھر انگریز سپاہی سلطان کو آخری سلامی کے طور پر ہو ا میں فائر کر رہے تھے... لیکن آسمانی کڑک کی آواز میں فائروں کی آوازیں دب گئیں... موسم بارشوں کا نہیں تھا... لیکن آسمان کو بھی رونا آگیا... لہٰذا وہ بھی بر س رہا تھا۔ رات کے وقت بجلی انگریزی کیمپ پرگری... اس سے 2 انگریزی سپاہی ہلاک اور کئی زخمی ہو ئے... گھروں میں بند لوگوں پر بھی اس ماحول سے لرزہ طاری ہوگیا... بادلوں کی ہولناک آوازوں سے کانوں کے پردے پھٹنے لگے... دریائے کاویری میں بھی طغیانی آگئی... خود سرنگا پٹم میں رہنے والے بڑے بوڑھوں نے کہا:
’’دریائے کا ویری میں ایسی طغیانی انہوں نے کبھی نہیں دیکھی۔‘‘ … جعفر از بنگال و صادق از دکن … ننگِ ملت ننگِ دیں ننگ ِ وطن!!
Ma Ma Je-
192
Join date/تاریخ شمولیت : 18.04.2014
Age/عمر : 69
Page 1 of 1
Permissions in this forum:
You cannot reply to topics in this forum
Tue Feb 04, 2020 6:49 pm by munsab
» گوگل کرُوم
Tue Dec 03, 2019 8:35 pm by Munsab Ali
» فوٹو شاپ
Tue Dec 03, 2019 8:33 pm by Munsab Ali
» شمشیر بے نیام قسط نمبر 2
Sat Nov 30, 2019 11:25 pm by Munsab Ali
» شمشیر بے نیام قسط نمبر 1
Sat Nov 30, 2019 9:56 pm by Munsab Ali
» متنازع سائبر کرائم بل 2015 متفقہ طور پر منظور کرلیا۔ -
Wed Jul 27, 2016 11:54 am by Munsab Ali
» All in One
Fri Dec 25, 2015 10:23 pm by RASHID KHAN
» Best Action Movies 2015 English Hollywood - TOM CRUISE - New Adventure Movies 2015
Thu Dec 10, 2015 2:05 pm by Munsab Ali
» Shinobido - Ninja
Thu Dec 10, 2015 1:53 pm by Munsab Ali