Munsab Ali Warsak
براے مہر بانی نیچے رجسٹریشن کلک کریں اور اگر آپ کا ریجسٹریشن ہوئی ہیں تو لوگ ان کلک کریں ، آپ سے گزارش ہیں کہ رجسٹریشن کرنے کے بعد لوگ ان ہوجائے - مدیر اعلٰی منصب علی

Join the forum, it's quick and easy

Munsab Ali Warsak
براے مہر بانی نیچے رجسٹریشن کلک کریں اور اگر آپ کا ریجسٹریشن ہوئی ہیں تو لوگ ان کلک کریں ، آپ سے گزارش ہیں کہ رجسٹریشن کرنے کے بعد لوگ ان ہوجائے - مدیر اعلٰی منصب علی
Munsab Ali Warsak
Would you like to react to this message? Create an account in a few clicks or log in to continue.

دو احتجاج ، ایک سوال

Go down

دو احتجاج ، ایک سوال Empty دو احتجاج ، ایک سوال

Post by Ma Ma Je Fri May 16, 2014 5:57 pm

سوال بہت آسان، سادہ اور معصومانہ ہے۔ اس سوال نے گزشتہ ہفتے ہونے والے دو الگ الگ احتجاج کی کوکھ سے جنم لیا۔ 22 اپریل کو سندھ حکومت کی جانب سے گندم کی امدادی قیمت بڑھانے کے خلاف فلور ملوں کا احتجاج شروع ہوا۔نتیجے میں صوبے بھر میں فلور ملیں بند ہونے لگیں۔ اس کے آفٹر ایفیکٹس کے طور پر 50 کلو آٹے کے نرخوں میں 500 روپے تک کااضافہ کردیا گیا۔ ناجائز منافع خوروں کی چاندی ہوگئی۔ آٹا نایاب ہونے سے پرائیویٹ چکی والوں نے بھی آٹا 6 روپے کلو مہنگا کردیا۔ فلور ملوں کا مطالبہ تھا اگر گندم کی امدادی قیمت بڑھائی ہی ہے تو آٹے کے سرکاری دام میں بھی اضافہ کیا جائے۔ حکومت نے اسے ماننے سے انکار کیا تو فلورملوں کی ہڑتال کے باعث آٹا خود بخود مہنگا ہوگیا۔ یہ ہڑتال 7 دن جاری رہی۔ اس دوران عوام کو شدید مشکلات سے دوچار ہونا پڑا۔ 
یہ عوام کا دبائو تھا یا فلور ملوں کی بلیک میلنگ، حکومت فلور ملز ایسوسی ایشن سے مذاکرات سے مجبور ہوئی۔ 29 اپریل کو جب مذاکرات کامیاب ہونے کی خبر آئی تو اس میں عوام کے لیے کچھ نہیں تھا۔ گندم کی بین الصوبائی نقل و حمل پر پابندی برقرار رکھتے ہوئے فلور ملوں کے تمام تر مطالبات تسلیم کرلیے گئے۔ مذاکرات میں ہڑتال کے دوران آٹے کی قیمت میں اضافہ واپس لینے کا معاملہ گول کردیا گیا۔ شاید یہی فلور ملوں کا مطالبہ تھا۔ اس سے محض ایک دن پہلے اسلام آباد کے ڈی چوک پر بھی کچھ لوگوں کی
جانب سے اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ وہی ڈی چوک ہے جہاں گزشتہ سال جنوری میں ڈاکٹر طاہر القادری نے 5دن تک لاحاصل جلسے کیے تاہم اس وقت کی حکومت کی جانب سے ایک گولی چلی نہ لاٹھی برسی۔ انہوں نے کنٹینر بند مذاکرات کیے جو محض آدھے گھنٹے ہی میں کامیاب ہوگئے تھے، لیکن 28 اپریل کو ہونے والے پُر امن احتجاج کو ن لیگ کی حکومت یہ سہولت دینے سے قاصر رہی۔ پہلے ہی روز احتجاجی کیمپ اکھاڑ پھینکا گیا۔ کبھی بغیر اسکارف نظر نہ آنے والی خواتین کے دوپٹے کھینچے گئے۔ دیگر مظاہرین پر بھی لاٹھی چارج کیا گیا۔ یہ ٹھیک ہے حکومت نے واقعے کے ازالے کے لیے بعد میں ذمہ داران کو معطل کرکے تحقیقاتی کمیشن بنادیا، مگر یہ واقعہ حکومت کی نیک نامی اور اس حوالے سے ن لیگ کے اٹل موقف پر دھبّا ضرور لگاگیا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ان سینکڑوں مظاہرین پر کار سرکار میں مداخلت کا مقدمہ بھی درج کردیا گیا۔ مظاہرے میں شریک ایک شخص کا کہنا تھا:’’آج افتخار چودھری بہت یاد آرہے ہیں۔‘‘ 
ان واقعات سے آسان، سادہ اور معصومانہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس ملک میں موثر اور مطالبات منوانے والے احتجاج کے لیے بلیک میلنگ یا تماشا لگانا ضروری ہے۔ عجیب بات ہے فلور ملیں آٹا مہنگا کرنے پر اڑ جائیں تو ان سے مذاکرات ہوتے ہیں، کینیڈا سے آئے ’’قائد انقلاب‘‘ انتخابات ملتوی کرنے کی ضد کردیں تو انہیں بات چیت سے منایا جاتا ہے۔ چند لوگ بینر اٹھا کر خاموش مظاہرہ کریں تو ان کا علاج ڈنڈوں سے کیا جاتا ہے۔ جمہوری اور مہذب معاشروں میں احتجاج ہر شخص کا حق ہے، مگر شرط یہ ہے کہ اس سے عام لوگوں کا کاروبار زندگی متاثر نہیں ہونا چاہیے۔ فلور ملوں نے 7 دن عوام کو پریشان کیا، مگر اسے احتجاج سمجھ کر نظر انداز کیا گیا۔ طاہر القادری نے 5دن قوم کو بے یقینی کی کیفیت میں رکھا لیکن اسے بھی آئینی حق قرار دیا گیا اور جس احتجاج سے گملا ٹوٹا نہ پتّا، اسے کچلنے کے لیے طاقت استعمال کی گئی۔ لیگی حکومت کے بعض لوگ اسے اتفاقی غلطی قرار دے رہے ہیں، اللہ کرے ایسا ہی ہو اور انسانی حقوق اور جمہوریت کے علم بردار اسے دہرانے سے گریز کریں، مگر اس کے ساتھ ساتھ انہیں سر جھکا کر اپنے دامن پر لگے دھبے کو بھی دیکھ لینا چاہیے ، اسے مٹانے کی بھی فکر کرنا ہوگی۔
Ma Ma Je
Ma Ma Je

Goat
192
Join date/تاریخ شمولیت : 18.04.2014
Age/عمر : 69

Back to top Go down

Back to top


 
Permissions in this forum:
You cannot reply to topics in this forum