Munsab Ali Warsak
براے مہر بانی نیچے رجسٹریشن کلک کریں اور اگر آپ کا ریجسٹریشن ہوئی ہیں تو لوگ ان کلک کریں ، آپ سے گزارش ہیں کہ رجسٹریشن کرنے کے بعد لوگ ان ہوجائے - مدیر اعلٰی منصب علی

Join the forum, it's quick and easy

Munsab Ali Warsak
براے مہر بانی نیچے رجسٹریشن کلک کریں اور اگر آپ کا ریجسٹریشن ہوئی ہیں تو لوگ ان کلک کریں ، آپ سے گزارش ہیں کہ رجسٹریشن کرنے کے بعد لوگ ان ہوجائے - مدیر اعلٰی منصب علی
Munsab Ali Warsak
Would you like to react to this message? Create an account in a few clicks or log in to continue.

دلچسپ دنیا

Go down

دلچسپ دنیا Empty دلچسپ دنیا

Post by Munsab Ali Sat Jul 12, 2014 1:40 pm

بارش کے لیے دنیا کے مختلف خطوں میں پائی جانے والی دل چسپ اور عجیب رسمیں
رواں برس 17جنوری کو امریکی ریاست کیلی فورنیا کے گورنر نے خشک سالی کے خطرے کا اعلان کیا تو اس کے دو دن بعد یہاں کی ایک رہایشی لینی رینا (Laynee Reyna) نے اپنے ریڈ انڈین قبیلے کی پرانی رسم کے مطابق بارش کے لیے ایک خاص رقص کا اہتمام کیا۔اس تقریب میں علاقے کے پادری اور گورنر نے بھی شرکت کی۔دیکھتے ہی دیکھتے شرکاء کی تعداد 75تک جا پہنچی۔ دائرے میں کیے جانے والے اس رقص میں ہر شخص نے اپنے ہاتھ میں پانی کی بوتل تھام رکھی تھی، رقص کے دوران شرکاء پانی کا گھونٹ بھرتے اور آسمان کی طرف رُخ کر کے پچکاری مار تے ۔لینی کہتی ہے کہ پانی ، پانی کو کھینچتا ہے۔ رقص کے دوران لینی ریڈ انڈین زبان میں بارش کا قدیم گیت گاتی، ’’ہم تمھارے لیے رقص کر رہے ہیں، اے بارش کی گرج جاگ جا۔‘‘ رقص کے شرکاء اس کے جواب میں زور زور سے ، بارش، بارش، بارش کہتے۔ لینی نے اعلان کیا کہ جب تک بارش نہیں ہو تی، وہ ہر اتوار کو صبح ساڑھے نو بجے اپنے گھر کے احاطے میں رقص کیا کرے گی۔ بارش قدرت کا وہ انمول تحفہ ہے، جس پر ہر جان دار کی زندگی کا انحصار ہے۔ بارش اگر روٹھ جائے تو زندگی روٹھ جایا کرتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ انسان صدیوں سے کالے بادلوں کی آمد کا منتظر رہا اور بارش کے دیوتا کو خوش کرنے کے لیے طرح طرح کی رسمیں انجام دیتا رہا۔یہ طور طریقے اُسے اپنے آباو اجداد سے ورثے میں ملے۔ ’میگھ راجا‘ کو منانے اور اُسے خوش کرنے کے لیے آج بھی دنیا کے مختلف خطوں میں عجیب و غریب رسمیں کی جا رہی ہیں،جن سے پتا چلتا ہے کہ ہر دَور کا انسان توہمات اور ُمعتقدات کاشکار رہا ہے۔ ان رسومات میں بعض دل چسپ اور بعض اذیت ناک ہیں۔ بارش ایک قدرتی عمل ہے۔ سمندر کاپانی بخارات کی شکل اختیار کر کے بادلوں کا روپ دھاڑتا ہے اور زمین پربارش کی شکل میں برس جاتا ہے۔ لیکن اعتقاد ات اور توہمات کو سائنسی اُصولوں سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔بارش نہ ہونے کی صورت میں لوگ اپنی اپنی مذہبی اور قبائلی رسومات پر عمل پیراہو کر کالی گھٹاؤں کو بُلانے کے جتن کرنے لگتے ہیں۔ انڈیا کی ریاست گجرات میں میگھ راجا کو بُلانے کے لیے لوگ مینڈک اورمینڈکی کی شادی کرتے ہیں۔ بارش کے لیے مینڈک کے ناز اُٹھانے کی یہ عجیب وغریب رسم انڈیا سمیت دنیا کے دیگر خطوں میں بھی رائج ہے۔اس رسم کی وجہ بارش اور مینڈک کے درمیان خاص تعلق ہے۔ اگرچہ برسات ہر جان دارکے لیے خوشی کا پیغام لاتی ہے، لیکن مینڈک کی افزائشِ نسل کا دارومدار بڑی حد تک بارش کے پانی پر ہوتا ہے۔ اس لیے مینہ برستے ہی مینڈک خوشی سے اُچھلنے کودنے لگتے ہیں اور جنگل ان کی ٹر ٹر کی آوازوں سے گونجنے لگتا ہے۔ مینڈک اور بارش کے اس تال میل کے مشاہدے سے صدیوں پہلے کے انسان نے اپنی ناقص سمجھ کے مطاق یہ قیاس کر لیا کہ مینڈک کا برسات کے دیوتا کے ساتھ کوئی نہ کوئی تعلق ضرور ہوتا ہے،چناں چہ اگر مینڈک کو خوش کیا جائے تو دیوتا خوش ہو کر پانی برسائے گا۔ بارش سے متعلق ایک اور رسم میں ریاست بہار میں میگھ راجا کی منت سماجت کے لیے لوگ مینڈک پکڑ کر پڑوسی کے گھر چھوڑ دیتے ہیں۔ بہار کے علاقے دربھنگا کے دیہات میں بچے مینڈک کا روپ دھاڑ کر ٹرٹراتے ہوئے پڑوسیوں کے گھر جاتے ہیں۔ پڑوسی ان بچوں پربالٹی سے پانی بھر بھر کر ڈالتے ہیں۔بچے خوشی میں ناچنے لگتے ہیں۔ ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ یہ منظر دیکھ کر بارش کا دیوتا خوش ہوتا ہے۔ بارش کے لیے جہاں مینڈک کے ناز نخرے اُٹھائے جاتے ہیں، وہی بعض علاقوں میں اُسے قربانی کا بکرا بھی بنناپڑتا ہے اور اس معصوم جانورکو اذیت دی جاتی ہے۔ انڈیا کے بعض علاقوں میں لوگ مینڈک کو بانس سے باندھ کر اسے بھوکا پیاسا تڑپتا ہُوا چھوڑ دیتے ہیں۔ اُن کے خیال میں مینڈک کو اذیت میں مبتلا دیکھ کر برسات کے دیوتا کو اس پر رحم آتاہے اور وہ پانی برسانا شروع کر دیتا ہے۔ انڈیا کے علاوہ بعض دیگر ممالک میں بھی میگھ راجا یا بارش کے دیوتا یا دیوی کو خوش کرنے کی رسموں میں مینڈک استعمال ہوتے ہیں۔ پیرو میںبارش نہ ہو تو لوگ مٹی کے مینڈک بناکر اُنھیں پہاڑپر بلند مقام پر رکھ دیتے ہیں۔ اس رسم کے ادا کرنے والے سمجھتے ہیں کہ جب بادل اس پہاڑ پر سے گزریں گے تو مینڈکوں کا لمس پاتے ہی برس پڑیں گے۔نیپال میں مینڈک کی پوجا کرتے ہوئے اس سے التجا کی جاتی ہے کہ اے دھرتی کے بھگوان ہم پر رحم کر اور ہم پر بارش برسا۔ جنوبی مغربی روس میںبارش نہ ہونے پر لوگ چرچ میں عبادت کرتے ہیں اور پھر پادری کو مکمل لبادے کے ساتھ زمین پر لٹا کر اسے غسل کرایا جاتا ہے۔ جنوبی روس کے علاقے میں بارش کے لیے خواتین اکھٹی ہو کر نکلتی ہیں اور جہاںانھیں کوئی تنہا مرد نظر آتا ہے اُسے پکڑ کردریا یا کسی ذخیرہ ِ آب میں غوطے دیتی ہیں۔ ان کے خیال میں ایسا کرنے سے بارش کے امکانات روشن ہو جاتے ہیں۔ روس کے بعض دیہاتوں میں بارش کے لیے خواتین کو ہل کے ساتھ جوتا جاتا ہے۔ خواتین ہل چلاتی ہیں اور ا ن کے پیچھے چلنے والے بارش کے دیوتا سے فریاد کرتے ہیں کہ اگر تو نہ آیا تو ہمارے مویشی مر جائیں گے اور خواتین کو ہل چلانے پڑیں گے۔ افریقا اور جنوبی امریکا میں بارش نہ ہو تو ایک خاص قسم کی پوجا کی جاتی ہے، جس میں لکڑی کا ایک مخصوص بُت بنا کر اس میں چھوٹے چھوٹے سوراخ کیے جاتے ہیں۔ پوجا کی رسم ادا کر کے اس بُت کو پکڑ کر ہَوا میں زور زور سے گھمایا جاتا ہے۔ لکڑی میں موجودسوراخوں سے جب ہَوا گزرتی ہے تو اس سے سنسناہٹ جیسی آواز نکلتی ہے۔یہ رسم انجام دینے والوں کا عقیدہ ہے کہ ان آوازوں کو سُن کر بادل برسنے لگتے ہیں۔ بحر الکاہل کے جزیرے نیو کیلی ڈونیا نامی جزیرے میں بارش کے دیوتا کو منانے کے لیے بے حد عجیب رسم ادا کی جاتی ہے۔ اس جزیرے پر آباد ایک قبیلے کے لوگ بارش نہ ہونے پر قبرستان جا کر قبر کھود تے ہیں اور اس میں دفن لاش نکال کر اس پر جھاڑ پھونک کرتے ہیں۔ لاش سے گوشت الگ کر کے ڈھانچے کو درخت پر لٹا کر اس پر پانی ڈالا جاتا ہے۔ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ اس عمل سے مرنے والے کی روح اس پانی کو بارش سے بدل دیتی ہے۔ فیلولی نامی جزیرے پر بارش کے لئے لوگ جادوگر کی مدد لیتے ہیں۔ جادوگر درخت کی ایک سرسبز شاخ کو پانی میں ڈال کر آہستہ آہستہ اسے باہر نکالتا ہے۔پھر شاخ کو زور زور سے گھماتا ہے جس سے شاخ کے پتوں سے پانی زمین پر بارش کی مانند برسنے لگتا ہے۔ ان لوگوں کا اعتقاد ہے کہ جادور گر کے اس عمل سے بارش ہوجاتی ہے۔ ریڈ انڈین کے بعض قبائل کا اس پر اعتقادہے کہ بارش اور ہَوا دوسگے بھائی ہیں اور دونوں ایک ساتھ گھومتے پھرتے ہیں۔ اگر بارش نہ ہو توسمجھا جاتا ہے کہ دونوں بھائیوں کے درمیان کسی بات پر انَ بن ہوگئی ہے۔ان بھائیوں کی ناراضی ختم کرنے کے لیے قبیلے کے لوگ جڑواں بچوں کی پوجا کر کے انھیں خوش کرتے ہیں۔ بعض افریقی قبائل بارش نہ ہونے پرپہاڑ پر جاتے ہیں اور وہاں سے آسمان کی جانب برچھی یا نیزہ اُچھالتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ کوئی بھوت پریت ہَوا میں گھوم رہا ہے جو بارش کو نیچے آنے نہیں دے رہا۔ ہَوا میں برچھی یا نیزہ پھینکتے رہنے سے جس سے بھوت کی موت واقع ہو جاتی ہے اور بارش برسنے لگتی ہے۔ احمد آباد کے مضافات میں واقع واسترل گاؤں کے کبیر آشرم مندر میں چار پنڈت بارش کے دیوتا کو خوش کرنے اور اسے منانے کے لیے آگ جلاتے ہیں اور اس کے چاروں کونوں میں پانی اور گلاب کی پتیوں سے بھرے چار بڑے پتیلوںکے اندر بیٹھ کر ’پرجنیا یگنا‘‘ (Parjanya Yagna)کا پاٹ کرتے ہیں۔ ہندو روایات کے مطابق کئی صدیوں پہلے شولا پور ضلعے میں بارش نہ ہونے کے کارن سوکھا پڑ گیا تھا۔ لوگوں نے ایک مہارشی کو پوجا کے لیے بُلایا تو اس کے پاٹ کرنے پر اتنا پانی برسا کہ تمام ندی نالے بھر گئے۔ اس روایات کو سچ مانتے ہوے آج بھی انڈیا کے کئی علاقوں میںبارش کے لیے یہ رسم ادا کی جاتی ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ 2012میںریاست کرناٹک کے سابق وزیر اعلیٰ جگدیش شیتار، جو خدا کے وجودکے انکاری ہیں، پرجنیا یگنا کی رسم کے لیے 35 ہزار مندروں میں سے ہر ایک کو 5ہزار روپے دیے تھے۔ انڈیا کی ریاست جھار کھنڈ کے صوبائی دارالحکومت رانچی (Ranchi) میں بارش کے لیے لوگ شیوا مندر کے باہر لیٹ کر پوجا کرتے ہیں۔ ہر شخص نے اپنے ہاتھ میں ایک لاٹھی پکڑی ہوتی ہے، جس کا دوسرا سرا پاؤں کے انگوٹھے اور برابر والی انگلی کے درمیان دبا ہوتا ہے۔ عبادت ختم ہونے کے بعد لیٹے ہوئے لوگوں پر پانی چھڑکا جاتا ہے۔ اس طرح بارش کی منظر کشی کرتے ہوئے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ دیوتا نے پوجا سے خوش ہو کر بارش برسائی ہے۔ الہٰ آبادسے 30 میل دُور ناری باری کے قصبے میں بارش کے لیے بچے اپنے جسم پر چکنی مٹی لیپ کر دائرے کی شکل میں زمین پر لیٹ جاتے ہیں اور ہاتھ جوڑ کر بارش کے لیے التجائیں کرتے ہیں۔ انڈونیشیا کے بعض علاقوں میں بارش کے لیے ایک دوسرے کو کوڑے مارے جاتے ہیں۔ یہ سالانہ تہوار کے طور پر نہیں ہوتا، بل کہ جب بھی لوگ بارش کی کمی محسوس کرتے ہیں، وہ ایک پنڈال میں جمع ہو جاتے ہیں ۔ اس رسم کے لیے باقاعدہ اکھاڑا تیار ہوتا ہے اور ریفری مقرر کیا جاتا ہے۔ دونوں حریف پام کی چھال سے بنے کوڑے ہَوا میں گھماتے ہوئے زور سے ایک دوسرے کے جسم پر مارتے ہیں۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ اس طرح زخموںسے خون نکلنے سے موسم کے مزاج پر اثر پڑتا ہے اور بارش ہونے لگتی ہے۔ یہ قدیم رسم انڈونیشیا کے چرواہوں نے شروع کی تھی، جن کے مویشی بارش نہ ہونے کے باعث مرنے لگے تھے اور سبزہ ختم ہوتا جا رہا تھا۔ اس خونی کھیل کو دیکھنے کے لیے لوگ بڑی تعداد میں جمع ہوتے ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ دونوںغصّے کے بہ جائے ہنستے ہوئے ایک دوسرے پر کوڑے برساتے ہیں۔ لوگ اپنے پرکھوں کی ریت روایات سے بندھے ہوتے ہیں اور سائنس کی ترقی کے باوجود پرانی رسموں اور اعتقادات کوچھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ان رسموں سے اگر اتفاق سے بارش ہو جائے تو اُن کا یقین اور بھی پختہ ہوجاتا ہے، اگر بارش نہ ہو تو وہ خود کو گناہ گار تسلیم کرتے ہوئے اور دیوتاؤں کو اور زیادہ خوش کرنے لگتے ہیں۔ اس طرح یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا رہتا ہے۔ ٭٭٭
Munsab Ali
Munsab Ali
Admin
Admin

Monkey
1013
Join date/تاریخ شمولیت : 07.03.2014
Age/عمر : 44
Location/مقام : pakistan

https://munsab.forumur.net

Back to top Go down

Back to top

- Similar topics

 
Permissions in this forum:
You cannot reply to topics in this forum