استنباط اور استقراء
Page 1 of 1
استنباط اور استقراء
معلومات کے حصول کے لیے دو طریقے اختیار کیے جاتے ہیں. استنباط اور استقراء، استنباط (Deductive Reasoning) کو استعمال کرتے ہوئے ہم ایک عام معلومہ سے خاص معلومات حاصل کر سکتے ہیں، تمام انسان مرتے ہیں (عام معلومہ) زید انسان ہے لہذا زید بھی مرے گا (زید کے لیے خاص معلومہ)، جبکہ استقراء میں ہم خاص معلومہ سے عام معلومہ حاصل کرتے ہیں، اس آگ نے میرا ہاتھ جلا دیا، لہذا آگ (عام طور پر) جلاتی ہے۔
استنباط کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ معلومات کے حصول کا سب سے بہترین طریقہ ہے بلکہ بعض فلاسفہ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ استنباط ہی معلومات کے حصول کا واحد ذریعہ ہے، اگر عام معلومہ درست ہو تو استنباط کے نتیجے کو بھی لازماً درست ہونا چاہیے چاہے وہ نتیجہ کچھ بھی ہو، اگر ہم ریاضی پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ استنباط پر مبنی ہے، ریاضی کا ہر معاملہ کچھ بدیہیات سے شروع ہوتا ہے اور پھر ان بدیہیات سے استنباط کرتے ہوئے ہم نظریات تک پہنچتے ہیں، مثال کے طور پر ریاضیاتی ہندسہ پانچ بدیہیات پر مشتمل ہے ان بدیہیات کو استنباط کے ساتھ استعمال کرتے ہوئے ہم تمام تر ہندسی حقائق اور نظریات تک پہنچ سکتے ہیں، اگرچہ یہ نتیجہ درست ہے تاہم یہ کوئی نئی معلومہ نہیں ہے، یعنی کسی پیچیدہ مساوات کو حل کرنے سے ایسی کوئی نئی معلومہ حاصل نہیں ہوتی جو مساوات میں موجود نہ ہو، چنانچہ استنباط کوئی نئی معلومات نہیں دے سکتا۔
استنباط میں مسئلہ یہ ہے کہ یہ بدیہیات پر انحصار کرتا ہے جن کا درست ہونا ضروری ہے تاکہ ان بدیہیات پر کھڑی کی گئی نتائج کی عمارت بھی درست ہو، چنانچہ سوال یہ ہے کہ یہ بدیہیات کہاں سے لائی جائیں؟ ریاضی میں بدیہیات تلاش کرنا آسان ہے (مثلاً کون سے دو نقطوں سے ہم انہیں آپس میں جوڑ کر ایک خط مستقیم حاصل کر سکتے ہیں) لیکن کیا حیاتیات جیسے علم کے لیے بدیہیات تلاش کی جاسکتی ہیں؟
سترہویں صدی میں علمی انقلاب کے آغاز خاص کر فرانسس بیکن کے زمانے میں استقراء (Inductive Reasoning) ایک ایسے اوزار کے طور پر استعمال ہونے لگا جس کے ذریعہ ہم معلومات کی تعمیم کر سکیں، تاہم استقراء سے حاصل کردہ معلومات استنباط سے حاصل کردہ معلومات کی طرح نہیں جن کا درست ہونا لازماً ضروری ہوتا ہے، استقراء سے حاصل کردہ معلومات ایسی معلومات ہوتی ہیں جو درست ہوسکتی ہیں، یہ قطعی درست نہیں ہوتیں بلکہ یہ بہت حد تک درست ہوتی ہیں، مثال کے طور پر ہم نے سو شیر دیکھے مگر ان میں سے کسی شیر کے پر نہیں تھے، چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ شیروں کے پر نہیں ہوتے لیکن ہم غلط بھی ہوسکتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ کسی شیر میں مخصوص میوٹیشن کی وجہ سے پر نکل آئیں، لہذا جس قدر مشاہدات کی تعداد زیادہ ہوگی اسی قدر اس خاص معلومہ کی درستگی کی شرح بڑھ جائے گی، لہذا استقراء قطعی درست معلومات فراہم نہیں کر سکتا، تھوڑا سا ہی سہی پر غلطی کا امکان بہرحال موجود رہتا ہے۔
ہمارے ارد گرد کی علمی ترقی استقراء کے ہی سبب ہے، سترہویں صدی سے اب تک جتنی بھی علمی ایجادات ہوئی ہیں یہ سب استقراء کا ہی نتیجہ ہے اسلوبِ علم (Scientific method) استقراء پر اس قدر انحصار کرتا ہے کہ کسی ایک کی دوسرے کے بغیر موجودگی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، استنباط میں منطق حقائق کا تعین کرتی ہے، عام معلومہ پر منطقی اوزار لاگو کرنے سے لازماً درست معلومہ حاصل ہوتی ہے، استقراء میں مشاہدہ حقائق کا تعین کرتا ہے، اگر معلومہ ہمارے مشاہدے کے مطابق نہ ہو تو اس معلومہ میں تبدیلی کر کے اسے مشاہدے کے مطابق کیا جاتا ہے۔
استنباط کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ معلومات کے حصول کا سب سے بہترین طریقہ ہے بلکہ بعض فلاسفہ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ استنباط ہی معلومات کے حصول کا واحد ذریعہ ہے، اگر عام معلومہ درست ہو تو استنباط کے نتیجے کو بھی لازماً درست ہونا چاہیے چاہے وہ نتیجہ کچھ بھی ہو، اگر ہم ریاضی پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ استنباط پر مبنی ہے، ریاضی کا ہر معاملہ کچھ بدیہیات سے شروع ہوتا ہے اور پھر ان بدیہیات سے استنباط کرتے ہوئے ہم نظریات تک پہنچتے ہیں، مثال کے طور پر ریاضیاتی ہندسہ پانچ بدیہیات پر مشتمل ہے ان بدیہیات کو استنباط کے ساتھ استعمال کرتے ہوئے ہم تمام تر ہندسی حقائق اور نظریات تک پہنچ سکتے ہیں، اگرچہ یہ نتیجہ درست ہے تاہم یہ کوئی نئی معلومہ نہیں ہے، یعنی کسی پیچیدہ مساوات کو حل کرنے سے ایسی کوئی نئی معلومہ حاصل نہیں ہوتی جو مساوات میں موجود نہ ہو، چنانچہ استنباط کوئی نئی معلومات نہیں دے سکتا۔
استنباط میں مسئلہ یہ ہے کہ یہ بدیہیات پر انحصار کرتا ہے جن کا درست ہونا ضروری ہے تاکہ ان بدیہیات پر کھڑی کی گئی نتائج کی عمارت بھی درست ہو، چنانچہ سوال یہ ہے کہ یہ بدیہیات کہاں سے لائی جائیں؟ ریاضی میں بدیہیات تلاش کرنا آسان ہے (مثلاً کون سے دو نقطوں سے ہم انہیں آپس میں جوڑ کر ایک خط مستقیم حاصل کر سکتے ہیں) لیکن کیا حیاتیات جیسے علم کے لیے بدیہیات تلاش کی جاسکتی ہیں؟
سترہویں صدی میں علمی انقلاب کے آغاز خاص کر فرانسس بیکن کے زمانے میں استقراء (Inductive Reasoning) ایک ایسے اوزار کے طور پر استعمال ہونے لگا جس کے ذریعہ ہم معلومات کی تعمیم کر سکیں، تاہم استقراء سے حاصل کردہ معلومات استنباط سے حاصل کردہ معلومات کی طرح نہیں جن کا درست ہونا لازماً ضروری ہوتا ہے، استقراء سے حاصل کردہ معلومات ایسی معلومات ہوتی ہیں جو درست ہوسکتی ہیں، یہ قطعی درست نہیں ہوتیں بلکہ یہ بہت حد تک درست ہوتی ہیں، مثال کے طور پر ہم نے سو شیر دیکھے مگر ان میں سے کسی شیر کے پر نہیں تھے، چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ شیروں کے پر نہیں ہوتے لیکن ہم غلط بھی ہوسکتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ کسی شیر میں مخصوص میوٹیشن کی وجہ سے پر نکل آئیں، لہذا جس قدر مشاہدات کی تعداد زیادہ ہوگی اسی قدر اس خاص معلومہ کی درستگی کی شرح بڑھ جائے گی، لہذا استقراء قطعی درست معلومات فراہم نہیں کر سکتا، تھوڑا سا ہی سہی پر غلطی کا امکان بہرحال موجود رہتا ہے۔
ہمارے ارد گرد کی علمی ترقی استقراء کے ہی سبب ہے، سترہویں صدی سے اب تک جتنی بھی علمی ایجادات ہوئی ہیں یہ سب استقراء کا ہی نتیجہ ہے اسلوبِ علم (Scientific method) استقراء پر اس قدر انحصار کرتا ہے کہ کسی ایک کی دوسرے کے بغیر موجودگی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، استنباط میں منطق حقائق کا تعین کرتی ہے، عام معلومہ پر منطقی اوزار لاگو کرنے سے لازماً درست معلومہ حاصل ہوتی ہے، استقراء میں مشاہدہ حقائق کا تعین کرتا ہے، اگر معلومہ ہمارے مشاہدے کے مطابق نہ ہو تو اس معلومہ میں تبدیلی کر کے اسے مشاہدے کے مطابق کیا جاتا ہے۔
Page 1 of 1
Permissions in this forum:
You cannot reply to topics in this forum
Tue Feb 04, 2020 6:49 pm by munsab
» گوگل کرُوم
Tue Dec 03, 2019 8:35 pm by Munsab Ali
» فوٹو شاپ
Tue Dec 03, 2019 8:33 pm by Munsab Ali
» شمشیر بے نیام قسط نمبر 2
Sat Nov 30, 2019 11:25 pm by Munsab Ali
» شمشیر بے نیام قسط نمبر 1
Sat Nov 30, 2019 9:56 pm by Munsab Ali
» متنازع سائبر کرائم بل 2015 متفقہ طور پر منظور کرلیا۔ -
Wed Jul 27, 2016 11:54 am by Munsab Ali
» All in One
Fri Dec 25, 2015 10:23 pm by RASHID KHAN
» Best Action Movies 2015 English Hollywood - TOM CRUISE - New Adventure Movies 2015
Thu Dec 10, 2015 2:05 pm by Munsab Ali
» Shinobido - Ninja
Thu Dec 10, 2015 1:53 pm by Munsab Ali