Munsab Ali Warsak
براے مہر بانی نیچے رجسٹریشن کلک کریں اور اگر آپ کا ریجسٹریشن ہوئی ہیں تو لوگ ان کلک کریں ، آپ سے گزارش ہیں کہ رجسٹریشن کرنے کے بعد لوگ ان ہوجائے - مدیر اعلٰی منصب علی

Join the forum, it's quick and easy

Munsab Ali Warsak
براے مہر بانی نیچے رجسٹریشن کلک کریں اور اگر آپ کا ریجسٹریشن ہوئی ہیں تو لوگ ان کلک کریں ، آپ سے گزارش ہیں کہ رجسٹریشن کرنے کے بعد لوگ ان ہوجائے - مدیر اعلٰی منصب علی
Munsab Ali Warsak
Would you like to react to this message? Create an account in a few clicks or log in to continue.

امن کی تلاش

Go down

امن کی تلاش Empty امن کی تلاش

Post by Munsab Ali Mon Nov 17, 2014 1:34 pm

’’نوم چومسکی‘‘ (Noam Chomsky) امریکا کے ایک بہت بڑے دانشور ہیں۔ وہ ہارورڈ یونیورسٹی میں پروفیسر کے عہدے پر فائز رہے۔ Psycho Linguistics پر انہوں نے بہت سی کتابیں مرتب کیں۔ ان کی عالمی شہرت کی ایک بہت بڑی وجہ امریکی استعمار پر ان کی بے لاگ تنقید رہی ہے۔ امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا تو انہوں نے ڈٹ کر اس کی مخالفت کی۔ ان کے مضامین اخباروں میں چھپتے ہی عالمی سطح پر سرا ہے جانے لگے۔ ان کا سب سے زودار آرٹیکل ’’امریکی سامراج‘‘ تھا۔ اس کا ترجمہ دنیا کی ہر زبان میں ہوا اور یہ مظلوموں کے دلوں کی آواز بن گیا۔ انہوں نے امریکی سامراجیت کا پوسٹ مارٹم کردیا۔ اس مضمون کے آغاز میں انہوں نے امریکیوں کو مخاطب کر کے کہا: ’’ہماری آج کی دنیا بظاہر علم کی ہے۔ پر اس میں دانش مفقود ہے۔ یہ زندہ ضمیر سے محروم طاقت کی اندھی دنیا بن کر رہ گئی ہے۔ ہم امریکی زندہ رکھنے کے علم سے کہیں زیادہ ہلاک کردینے کے علم پر دسترس رکھتے ہیں۔ ہم امریکی امن سے زیادہ جنگی جنون پر مہارت کے حامل ہیں۔ ہم جوہری ہتھیاروں کے اعتبار سے تو جن بن گئے، لیکن اخلاقی اعتبار سے بونوں کے درجے پر فائز ہوگئے۔‘‘ 
اسی مضمون میں چومسکی کچھ آگے جا کر لکھتے ہیں: ’’11 ستمبر کا واقعہ محض اس لیے تاریخی اہمیت نہیں رکھتا کہ اس میں تباہ کاری کا حجم زیادہ تھا۔
یہ اس لیے اہم ہے کہ اس کا نشانہ امریکا بنا۔ 1814ء میں واشنگٹن پر برطانوی بمباری کے بعد امریکا پر پہلی بار حملہ ہوا۔ دو صدیوں تک امریکا دنیا بھر میں حملے کرتا رہا۔ وہ مظلوموں کو روندتا رہا، کچلتا رہا، وہ مقامی آبادیوں کی ہولناک ہلاکت میں ملوث رہا۔ 11 ستمبر کو پہلی بار توپوں کا رُخ اس کی طرف مڑا۔ دنیا بھر میں دہشت گردی کرنے والا امریکا خود اس کا نشانہ بن گیا۔ بارود کی بو جب امریکی نتھنوں میں گھسی تو وہ اس سے پاگل ہوگیا۔ ہوش و ہواس مکمل طور پر کھو بیٹھا ۔ دوسروں کو پاگل قرار دے کر واویلا کرنے والا امریکا خود خوفناک پاگل بن کر شکار ہوگیا۔‘‘ 
’’ نوم چومسکی‘‘ کے اس مضمون کے شائع ہوتے ہی امریکا میں غیض و غضب کا طوفان آگیا۔ جنونی امریکی اس کے بدترین دشمن بن گئے۔ امریکی حکومت نے چومسکی کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دے دیا۔ ان کی آزاد دانہ نقل و حرکت کو نہایت درجہ محدود کر دیا گیا۔ اخبارات کو ان کے آرٹیکل شائع نہ کرنے ہدایات جاری کردی گئیں۔ تقریبات میں ان کے خطاب پر پابندی لگا دی گئی۔ چومسکی کی آواز کو، مگر دبایا نہ جا سکا۔ انہوں نے اپنے بلاگ کے ذریعے کروڑوں لوگوں کو امریکی سنگدلی اور حیوانیت سے آگاہ رکھا۔ لوگ ایک دہائی تک اس عظیم دانشور کے تبصروں سے روشنی اور حرارت لیتے رہے۔
 
امن کی تلاش Quotation
امریکی اور برطانوی فوجوںکا آخری دستہ افغانستان سے کو چ کرگیا۔ سامان سمیٹ کر جہازوں میں بیٹھے اور پرواز کرگئے۔

اس دوران امریکا اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ جارج بش جیسے بھیریے نے فوجوں کو آرڈ دیا: ’’Round the clock bombing is needed intense bombing carpet bombing‘‘ (24 گھنٹے مسلسل بمباری چاہیے، شدید بمباری، زمین پر قالین کی طرح بارود بچھا دینے والی بمباری) یوں اس سپر پاور نے زمین میں بارود کا بیج بویا۔ آسمانوں سے قہر کی بارشیں برسائیں۔ انسانی سروں کی بے محابا فصل کاٹی جانے لگی۔ انسانی لہو سے پیاسی زمینیں سیراب کی جانے لگیں۔ دریائوں کا اُجلا شفاف پانی لہو رنگ بنادیا گیا۔ مہر و محبت کا ہر پھول بھاری بوٹوں تلے روند دیا گیا۔

بچوں کے مسکراتے چہرے تہہ خاک چھپا دیے گئے۔ عورتوں کے سہاگ چھین لیے گئے۔ نگر نگر سے آہیں اور سسکیاں طوفان کی طرح اُٹھنا شروع ہوگئیں۔ کبھی مندمل نہ ہونے والے انسانی زخموں کو تقسیم کیا جانے لگا۔ چھائوں بھرے ہر نخلستان کو مسموم ہوائوں سے بھردیا گیا۔ انسانی مقدر کو بے نشاں رہگذاروں کی دھول بنادیا گیا۔ امریکی استعمار کی چڑیل نے بستی بستی اپنے پنجے گاڑ دیے۔ لوگوں کی شہ رگ کو اپنے دانتوں سے جھنجھوڑا۔ افغانستان کے روشن مستقبل کی قندیل بجھادی گئی۔ طالبان بوریا نشینوں کا بوریا چھین لیا گیا۔ مضبوط ہوتے ہوئے نظام کی بنیادیں بٹھادی گئیں۔ افغانستان کے اُفق پر اُمنڈتے سویرے کو رات کی چادر پہنادی گئی۔ شب پرستوں نے روشنی کی داستان لکھنے والوں کے ہاتھ ہی قلم کردیے۔

1988ء سے 1996ء تک افغانستان میں سخت داخلی شورش رہی ۔ 60 ہزار افغان شمالی اتحاد کے ہاتھوں قتل ہوگئے۔ وار لارڈز نے ملک کے حصے بخرے کرلیے۔ ملک تباہ حال اور عوام مفلوک الحال ہو چکے تھے۔ ایسی صورت حال میں طالبان کی آمد سے منظر نامہ یکسر بدل کر رہ گیا۔ انہوں نے امن کے لیے ترسے ملک کو امن کے بے بہا دولت دی۔ عدالتی نظام کو ٹھوس بنیادوں پر استوار کرنا شروع کردیا۔ پولیس کو نہایت درجہ منظم بناکر جرائم کا خاتمہ کردیا۔ لوگوں کے لیے نت نئے روزگار میسر آگئے۔ ملک سے افلاس کی بدلیاں چھٹنے لگیں۔ کھنڈروں میں زندگی کی نئی نئی کونپلیں نکلنا شروع ہوگئیں۔ وہ خاک نشین کسی وار لارڈ شاہی خانوادے یا ڈرگ مافیا سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔ وہ درویشی اور قلندری حرزجاں بنائے ہوئے تھے۔ وہ رسمی حاکم کبھی نہ تھے۔ وہ حقیقتاً عوام کے سچے اور پکے خادم تھے۔ انہوں نے مساوات کا ایسا نظام وضع کیا جو آج کی دنیا میں خواب و خیال کی بات تھی۔ حکومت کسی پروٹوکول، کسی قدغن، کسی بھی رکاوٹ سے مبرا تھی۔ عام لوگ امیرالمؤمینن سے آزاد انہ نہ مل سکتے تھے۔ وہ لوگ خدمت خلق کے لیے بے تاب اور پرسوز تھے۔ ملک میں جرائم کی کھیتیاں ویران ہو گئی تھیں۔ جرم بے اولاد اور بانجھ ہوگیا تھا۔ معاشی ترقی کی رفتار تیز تر ہوئی۔ ہر چہرے پہ سکھ کی آسودگی چمکنے لگی۔ لہو و لعب ترک کیا جانے لگا اور خدا سے لو گائی جانے لگی۔ سینمائوں کو مسمار کردیا گیا۔ کلبوں کو گر ا دیا گیا۔

اشرافیہ کے ہر اشتہار کو نابود کردیا گیا۔ دینی علوم کی پھوار سے ہر روح مشکبار ہونے لگی۔ ملک سے ہر قسم کا غیرقانونی اسلحہ اکھٹا کرلیا گیا۔ بندوق کی بجائے ہل اور بارود کی بجائے علم کاشت ہونا شروع ہوگیا۔ بیرونی دنیا میں مقیم افغان مہاجرین جوق در جوق وطن واپس لوٹنے لگے۔ امن کی بانسری کی لے سے ان کے قدم اپنی منزل کی سمت بڑھنے لگے۔ طالبان نے بیرونی دنیا سے برابری سطح پر تعلقات کا ڈول ڈالا۔ وہ خوشامد کا سہ لیسی اور مکروفریب سے واقف تک نہ تھے۔ ملا محمد عمر کے ایک حکم پر افغانستان میں دنیا کی 75 فیصد افیون کی کاشت یکسر بند ہوگئی۔ اقوام متحدہ کے United Nation Drug Control Programe کے سربراہ برنارڈ ایف نے دنیا کو بتایا کہ اربوں ڈالرز مالیت کی افیون افغانستان میں تلف کردی گئی ہے۔ ترقی اور خوشحالی کی طرف قدم اٹھائے ۔افغانستان پر اکتوبر 2001ء میں امریکا نے شب خون مارا۔ پر سکون پانیوں، بدامنی اور انتشار کا مہیب پتھر لڑھکا دیا۔

2001ء میں اقتدار طالبان سے چھین لیا گیا۔ اسے شمالی اتحاد اور ستم کے بھیڑیوں کے حوالے کردیا گیا۔ اس ننگ دین مخلوق نے قلعہ جنگی اور دہشت لیلیٰ برپا کیے۔ افغانستان کا صحت افزا امن غارت کردیا گیا۔ طالبان کا بنا بنایا سسٹم جڑوں سے اکھاڑ پھینکا گیا۔ شورش ہر قریے ہر بستی سے سر اٹھانا شروع ہوگئی۔ سڑکیں تباہ، ادارے بربار اور نظامِ زندگی درہم برہم کردیا گیا۔ ترقی کے زینے چڑھتا افغانستان دوبارہ پاتال کی پستیوں کی طرف گامزن ہوگیا۔ افغانستان کو پتھر کے دور میں دوبارہ دھکیل دیا گیا۔ روز گار ٹھپ ہوگئے۔ بھوک ننگ کا دور دورہ ہوگیا۔ تعلیم کے لیے طالبان کا قائم کر دہ ساز گار ماحول سبو تاژکردیا گیا۔ اسپتالوں میں چمگادڑوں نے اپنے مسکن بنالیے۔ دوا اور مرہم پٹی ندارد ہوگئی۔ ضروریاتِ زندگی کا حصول فرہاد کی نہر کھودنے جتنا دشوار ہوگیا۔ زندگی مہنگی اور موت سستے داموں قابل حصول ہوگئی۔ معاشرتی قدریں مستقل الام نے کھرچ کے رکھ دیں۔ جرائم ملک کے طول و عرض میں دوبارہ وبائوں کی طرح پھیل گئے۔ چوری چکاری، ڈاکہ زنی اور لوٹ مار دن رات کی عام کہانیاں بننا شروع ہوگئیں۔ عام افغان کے لباس پر اتنے پیوند لگے کہ وہ خود ان کا شمار بھول گیا۔ پڑوسی ملکوں میں دوبارہ افغان مہاجرین کے کیمپ بھرے جانے لگے۔ ان کیمپوںمیں انسانوں کی سمائی مشکل ہوگئی۔ عصمت و عفت جنس بازار بننا شروع ہوگئی۔ معصوم انسان بچے کو ڑے کے دھیروں سے رزق حاصل کرنے کے لیے سرگرداں ہوگئے۔ دنیا کی سپر پاوروںنے مجبوروں اور لاچاروں پر دل کھول کر اپنی قوتوں کی آزمایا۔ ان سب شپ و ستم کے باوجود امریکا کو طالبان کی طرف سے آ ہنی مزحمت کا سامنا کرنا پڑا ۔ وہ جو ’’واک اوور‘‘ کے نشے میں دھت بدمستوں کی طرح آئے تھے۔ آج ان کی رخصتی دیکھنے کے قابل ہے۔ فتوحات کے سکے امریکا کی کشکول میں ندارد ہیں۔ اسے دبے پائوں افغانستان سے نکلنا پڑا ہے۔ امریکا آج رسوا اور زلیل ہو کر افغانستان سے نکلا ہے۔

سوموار 27 اکتوبر کو امریکی اور برطانوی فوجوںکا آخری دستہ افغانستان سے کو چ کرگیا۔ ہلمند پر آفتاب غروب ہونے کو تھا کہ یہ سامان سمیٹ کر جہازوں میں بیٹھے اور پرواز کرگئے۔ یہ افغانستان میں امریکا کا سب سے بڑا فوجی اڈّا تھا۔ اس کا رقبہ 6500 ایکٹر ہے۔ افغانستان فوجی کی 215 ویں کورنے اس کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ امریکا اور برطانیہ کے پرچم اتار کر تہہ کیے گئے۔ ان کا گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔ یوں چوری چھپے بغیر پیشگی اطلاع کے یہ لوگ ملک سے فرار ہوگئے۔ طالبان نے امریکی فوجوں کے انخلاکو اپنی فتح قرار دیا ہے۔ انہوں نے 29 ستمبر کو حلف اٹھانے والی نئی افغان حکومت کو مغرب کا ٹٹو کہا ہے۔ طالبان نے افغانوں کو اس حکومت کا ساتھ نہ دینے پر زور دیا ہے۔ طالبان نئے افغانستان کے لیے سفر تیز تر کرنے والے ہیں۔ امریکا برطانیہ اور دیگر نیٹو ملکوں نے افغانستان میں بھاری جانی و مالی نقصان اٹھایا ہے۔ طالبان نے ان لوگوں کا بھرکس نکال دیاہے۔ 2001ء میں امریکا کے 12فوجی ہلاک ہوئے۔ 2002میں امریکا کے 49برطانیہ کے 3اور دوسرے ملکوں کے 18فوجی جنم رسید ہوئے۔ 2003ء میں 48 امریکی اور 10 نیٹو فوجی طالبان کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اترے۔ 2004ء میں 52 امریکی اور 8 نیٹو فوجی ہلاک ہوئے۔ 2005ء میں امریکا نے 99 تابوت اٹھائے، جبکہ نیٹو کے 32 فوجی قتل ہوئے۔ 2006ء میں 98 امریکی، 39 برطانوی اور 54 دوسرے ملکوں کے فوجی طالبان کے ہاتھوں جان سے گئے۔ 2007ء میں یہ تعداد مزید بڑھی۔ امریکا کے 117، برطانیہ کے 42 اور دوسرے ملکوں کے 73 فوجی ہلاک ہوگئے۔ 2008ء میں امریکا کے 155، برطانیہ کے 51 اور دوسرے ملکوں کے 89 فوجی مرے۔ 2009ء میں امریکا کے 317، برطانیہ کے 108 اور دوسرے ملکوں نے 96 لاشیں اٹھائیں۔ 2010ء میں امریکا کے 499، برطانیہ کے 103 اور دوسرے ملکوں کے 109 فوجی جاں بحق ہوئے۔ 2011ء میں 418 امریکی، 46 برطانوی اور نیٹو ملکوں کے 102 فوجیوں کو تابوت میں اپنے اپنے ملکوں کو بھیجے دیے گئے۔ 2012ء میں 310 امریکی، 44 برطانوی اور 48 نیٹو ملکوں کے فوجی جنم رسید ہوگئے۔ 2013ء میں 315 امریکی، 42 برطانوی اور 51 نیٹو ملکوں کے فوجی اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔ ان افواج کے بیسویں جہاز تباہ ہوئے۔ اربوں ڈالرز کا اسلحہ و بارود جنگ میں کام آیاہزاروں امریکی اور نیٹو فوجی مستقل ذہنی مریض بن گئے۔ امریکا برطانیہ اور دوسرے بڑے ملکوںکے اسپتالوں میں ان کا ہجوم ہے۔ نصف سے زیادہ افغانستان ان 13 برسوں میں امریکیوں کے ہاتھ نہ آسکا ۔ درحقیقت مفتوح رقبہ مستقل سکٹرتا رہا۔ انجام کار ہتھیارو ں کے زور پر افغانستان کو فتح کرنے کا امریکی خواب ٹوٹ گیا۔ روسیوں اور انگریزوں کی طرح امریکی بھی نیل مرام واپس لوٹ گئے۔

آج نومبر 2014ء میں کابل میں اشرف غنی صدر ہے۔ عبداللہ عبداللہ سی ای او ہے۔ افغان فوج طالبان کے ممکنہ حملوں سے لرزہ براندام ہے۔ افغانستان پوست کی کاشت میںنئے ریکارڈ بنا رہا ہے۔ عام افغان روٹی کپڑے اور چھت سے محروم ہے۔ ایسے حالات میں افغانستان کو داخلی امن کی اشد ضرورت ہے۔ اس امن کے لیے سب افغانوں کو آگے آنا ہو گا اور 1996ء سے2001ء تک کا امن واپس لانا ہو گا۔ امید ہے ک سب متحارب گروہ آپس میں صلح کریں گے۔ ملک کی تعمیر و ترقی اپنا رول ادا کریں گے۔ افغان نہایت سخت جان قوم ہیں ۔ اعلیٰ لیڈر شپ کے ملتے ہی وہ سوئے منزل گامزن ہو جائیں گے۔ ملک میں طالبان ایک بہت بڑی قوت ہیں۔ ان کے پاس جذبہ ایمانی ہے۔ کردار کی تلوار اور اخلاص کی ڈھال ہے۔ ان کو اقتدار میں شریک کرنا ہو گا تا کہ وہ اپنے ملک کی تعمیر میں پازیٹو رول پلے کر سکیں۔ انہیں ان کے جائز حق سے محروم کرنے کا نتیجہ مزید انتشار کی صورت نکلے گا، جس کا متحمل افغانستان نہیں ہو سکتا۔ یہ بدامنی کی بہت بڑی قیمت پہلے ہی ادا کر چکا ہے۔
-
Munsab Ali
Munsab Ali
Admin
Admin

Monkey
1013
Join date/تاریخ شمولیت : 07.03.2014
Age/عمر : 43
Location/مقام : pakistan

https://munsab.forumur.net

Back to top Go down

Back to top

- Similar topics

 
Permissions in this forum:
You cannot reply to topics in this forum