13 برس کی جنگ
Page 1 of 1
13 برس کی جنگ
افغانستان میں مخلوط حکومت کے قیام کے بعد اتحادی فوجوں کا انخلاء شروع ہوچکا ہے۔ آسٹریلیا، جرمنی، کینیڈا اور فرانس کے بعد برطانیہ نے بھی اپنے تمام فوجی کانوائے واپس بلالیے۔ اگلے 2 ماہ میں امریکا کے اکثر فوجی دستے واپس چلے جائیں گے تاہم 10 ہزار امریکی فوجی افغان پولیس کی ٹریننگ اور مدد کے لیے افغانستان میں رہیں گے۔ 13 برس پر محیط اس جنگ کے خاتمے کا اعلان رواں سال کے پہلے مہینے میں ہی امریکی صدر بارک اوباما نے کیا تھا، لیکن اس 13 برسوں کی جنگ میں اتحادی افواج نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ یہ آج کا ملین ڈالر کا سوال ہے۔ یہ سوال بھی اپنی جگہ اتنی ہی اہمیت کا حامل ہے کہ کیا القاعدہ کو ختم کرنے کا جواز لے کر افغانستان کو تورا بورا بنانے کے بعد کیا طالبان کا عمل دخل کم ہوگیا؟ کیا افغانستان پر طالبان کی عملداری ختم ہوگئی؟ کیا طالبان کی چھاپہ مار کارروائیاں رُک گئیں؟ کیا طالبان کا کنٹرول ختم ہوگیا؟کیا افغانستان زیادہ محفوظ ملک بن گیا؟ کیا آج بھی افغان خواتین برقعے میں نظر نہیں آتیں؟ کیا بازاروں اور گلیوں میں خواتین آزادانہ گھومتی پھرتی دکھائی دیتی ہیں؟ کیا جم، بارز اور ڈسکوز کی نام نہاد ـ’’آزاد خیالی‘‘ عام ہوچکی؟ کیا چرچ اور کلیسا آباد ہوگئے ہیں؟ کیا مساجد سے اللہ اکبر کی آوازدبا دی گئی؟
کیا ایک اسلامی نظام کے خاتمے کے بعد افغانستان کے عوام خود کو زیادہ محفوظ سمجھ رہے ہیں؟ کیا افغان عوام کے چہروں پر خوشی اور اطمینان لوٹ آیا ہے؟ کیا اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کا اقتدار زیادہ مضبوط ہوگا؟ کیا ان کے اقتدار کو خطرات لاحق نہیں؟ کیا افغانستان ایک خوشحال اور پرامن ملک کی پٹڑی پر آگیاہے؟ اور کیا افغانستان میں راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے؟
دنیاکو یہ بھی تسلیم کرلینا چاہیے کہ جن طالبان کے 13برس کی جنگ میں ایک مرتبہ بھی حوصلے پست نہیں ہوئے وہ اتنے آرام سے امریکی چہیتوں کو حکومت نہیں کرنے دیں گے۔ ٭ افغان طالبان عوام میں اپنی محبت اور حمایت حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں، اب جبکہ اتحادی افواج رخصت ہو رہی ہیں، طالبان اقتدار حاصل کرنے کے لیے بھی دوبارہ متحرک ہو رہے ہیں۔
ان سب سوالوں کا جواب یقینا نہیں ہے تو پھر سوال یہ ہے اتحادی ممالک کے لائو لشکرنے 13 برس کے آگ و آہن برسانے کے باوجود پایا کیا؟ کہا تو یہ بھی جاتا تھا کہ القاعدہ اور طالبان سے امریکا کو خطرات لاحق ہیں، لہٰذا افغانستان میں القاعدہ اور طالبان کو ختم کرکے دنیا کو محفوظ بنا ئیں گے؟ کیا یہ دعوے حقیقت کا روپ دھار چکے؟ اگر ہم چند لمحوں کے لیے یہ مان بھی لیں، طالبان اور القاعدہ سے امریکا کو خدشات تھے تو کیا 13 برس کے اس جنگ و جدل کے بعد دنیا محفوظ ہوگئی؟ یا آج اسے اس سے زیادہ خطرات کا سامنا ہے؟ میں اس سلسلے میں ایک انٹرنیشنل میڈیا گروپ کا تازہ ترین سروے آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔
افغانستان سے برطانیہ کے آخری فوجی دستے کی واپسی کے بعد اس میڈیا گروپ نے برطانوی شہریوں سے یہ سروے کیا۔ اس سروے میں شہریوں سے پوچھا گیا: ’’کیا برطانیہ افغان جنگ سے پہلے زیادہ محفوظ تھا یا اب؟‘‘ آپ کے لیے یہ بڑا دلچسپ ہو گا کہ 42 فیصد لوگوں نے برطانیہ کو 13 برس پہلے کی نسبت زیادہ غیرمحفوظ قرار دیا ہے۔ صرف 28 فیصد نے اسے محفوظ کہا ہے۔ 19 فیصد نے معلوم نہیں۔ 11 فیصد نے افغان جنگ کو دنیا کے لیے زیادہ خطرناک قرار دیا ہے۔ اسی طرح لوگوں سے پوچھا گیا افغانستان میں کی گئی کارروائی فائدے مند تھی یا نہیں؟ 68 فیصد لوگوں کا کہنا تھا: ’’افغانستان میں کی گئی یہ کارروائی فائدہ مند نہیں تھی۔‘‘ یہی حال امریکی شہریوں کا ہے۔ امریکی رائے عامہ کے ایک جائزے میں افغان جنگ کو ویت نام جنگ سے بھی غیرمقبول قرار دیا گیا۔ 82 فیصد امریکیوں کا خیال ہے امریکا کو افغانستان پر دھاوا نہیں بولنا چاہیے تھا۔(باقی صفحہ5پر) ان لوگوں کا خیال ہے امریکا افغان جنگ شروع کر کے جہاں سیکورٹی خطرات میں گھر گیا ہے، وہیں معاشی حوالے سے بھی امریکا پہلے کی نسبت کہیں زیادہ غیرمحفوظ ہو گیا ہے۔ یہ انتہائی حیران کن ہے امریکا کے صرف 11 فیصد شہری افغان جنگ کو مثبت قدم قرار دے رہے ہیں۔ صرف 22 فیصد امریکی افغانستان سے امریکی انخلاء کو کامیابی گردانتے ہیں۔
آپ کے لیے یہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا امریکی مبصرین اور تجزیہ کار افغانستان میں امریکی مداخلت اور جنگ کو حماقت سے تعبیر کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے ’’عراق کے بعد افغانستان میں لشکر کشی ایک ایسی سنگین غلطی ہے جس کا خمیازہ امریکا کو اگلے 50 برس تک بھگتنا پڑے گا۔‘‘ یوں اگر ہم ان سرویز اور تجزیات کو سامنے رکھیں تو اس میں کوئی شک نہیں رہتا۔ افغان جنگ کی شروعات اور طوالت امریکا کی ناقص منصوبہ بندی کا بین ثبوت ہے۔ آج 13 برس بعد امریکا کے سپرپاور کے دعوے افغانستان کے ریگزاروں میں بکھرے پڑے ہیں۔ ہزاروں اتحادی فوجیوں کے تابوت اور ناکامیوں کے تمغے بھی امریکا کا منہ چڑا رہے ہیں۔ افغان جنگ میں اتحادی افواج کی ناکامی کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ دارالحکومت کابل میں بھی امریکن نواز حکومت کا مکمل کنٹرول نہیں۔ طالبان کا اثر و رسوخ نہ صرف شمالی افغانستان میں ہے، بلکہ ملک بھر میں امریکی نفرت طالبان حمایت میں اضافہ کا موجب بھی ہے۔ یہ بھی ایک بڑی ڈویلپمنٹ ہے کہ طالبان افغان عوام کے مسائل کے حل میں بھی دلچسپی لے رہے ہیں۔ آہستہ آہستہ لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے بھی اپنے موقف میں تبدیلی لارہے ہیں۔ عوام میں اپنی محبت اور حمایت حاصل کرنے کے لیے طالبان تیزی سے سرگرم ہیں۔ اب جبکہ اتحادی افواج رخصت ہو رہی ہیں، طالبان اقتدار حاصل کرنے کے لیے بھی دوبارہ متحرک ہو رہے ہیں۔
اس سلسلے میں عام لوگوں کے ساتھ ہمدردی کا جذبہ بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ مثلاً ’’سردار‘‘ نامی ایک افغان نوجوان کا زمین کی ملکیت کا تنازعہ کئی سال سے حل طلب تھا۔ یہ شخص ایک عرصے تک مقامی حکام سے انصاف طلب کرتا رہا، لیکن اسے انصاف نہ ملا، تنگ آ کر اس نے طالبان کا دروازہ کھٹکھٹا دیا۔ طالبان رہنما ’’چہار درہ‘‘ میں اس کے گھر آئے۔ پھر دو دنوں میں ہی جائیداد سے متعلق تنازعہ حل کروا دیا، چنانچہ یہ وہ حکمت عملی ہے جس کی وجہ سے طالبان اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہے ہیں۔ ساتھ ہی تیزی سے منظم بھی ہورہے ہیں۔ ایسے واقعات کابل حکومت، امریکا اور نیٹو کی قیادت کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں۔ امریکا، نیٹو اور کابل حکومت نے اس مقصد کے لیے اربوں ڈالر خرچ کیے۔ ہزاروں انسانی جانوں کی قربانی بھی دی کہ کسی طرح بدامنی کا شکار ملک غیر ملکی جنگی دستوں کے انخلاء کے وقت تک ایک پر امن جمہوریت بن جائے، مگر اس کا نتیجہ مثبت دکھائی نہیں دے رہا۔ آج بھی قندوز میں مقامی حکام کے مطابق 7 میں سے 2 اضلاع مکمل طور پر طالبان کے کنٹرول میں ہیں۔ ان میں ’’چہار درہ‘‘ کا ضلع بھی شامل ہے۔ دیگر علاقوں میں بھی طالبان عسکریت پسندوں کی طاقت اور اثر و رسوخ میں اضافہ ہورہا ہے، کیونکہ ملک کے کئی حصوں میں ریاست کی حاکمیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ افغان باشندے حکومتی اہلکاروں کو زیادہ تر بد اعتمادی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اگرچہ ڈاکٹر اشرف غنی نے اقتدار میں آنے کے بعد طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کا کہا ہے۔ انہوں نے طالبان سے مذاکرات کی پیش کش کی۔ افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے مل جل کر آگے بڑھیں، لیکن ڈاکٹر اشرف غنی کی اس پیش کش کا طالبان نے جواب دینا ہی مناسب نہ سمجھا۔
یہ بات طے ہے حامد کرزئی ہو یا ڈاکٹراشرف غنی یا عبداللہ عبداللہ۔ یہ طالبان کی حمایت کے بغیر زیادہ دیر تک اقتدار پر براجمان نہیں رہ سکتے۔ دنیا بالخصوص امریکا اور امریکا کی کاسہ لیس افغان حکومت کو بھی سمجھ لینا چاہیے۔ طالبان اس دنیا کی ایک بڑی حقیقت ہیں۔ ان کا اپنا طرز عمل اور طرز فکر ہے۔ یہ طرز عمل کسی صورت ناجائز نہیں۔ کیا اسلامی قوانین کا نفاذ جرم ہے؟ کیا لوگوںکو دہلیز پر انصاف دینا غیر انسانی فعل ہے؟ کیا ملک میں جرائم کی بیخ کنی غلط اقدام ہے؟ کیا اپنے اپنے مذہب کے مطابق زندگی بسر کرنا گناہ ہے؟ طاغوتی قوتوں کو سمجھنا ہوگا جس طرح یہودی اور عیسائی اپنے مذہب کے پیروکار اور پروموٹر ہیں بالکل اسی طرح اسلام اور مسلمان بھی ایک حقیقت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ افغان حکومت کو بھی یہ حقیقت جان اور مان لینی چاہیے طالبان افغانستان کی بڑی سچائی ہیں۔ ان کاعوام کی نبض پر ہاتھ ہے۔ افغان دلوں میں ان کے لیے بڑی محبت ہے، لہٰذا میرا خیال ہے جو امریکا اور اس کے اتحادی 13 برسوں کی جنگ کے بعد طالبان کا خاتمہ نہیں کر سکے۔ ان کے کاسہ لیس افغان حکمران طالبان سے آنکھیں پھیر کر افغانستان کو خوشحال نہیں بنا سکتے۔
دنیاکو یہ بھی تسلیم کرلینا چاہیے جن طالبان کے 13برس کی جنگ میں ایک مرتبہ بھی حوصلے پست نہیں ہوئے وہ اتنے آرام سے امریکی چہیتوں کو حکومت نہیں کرنے دیں گے۔ وہ پھر سے اسلام کے نفاذ کے لیے متحرک ہوں گے۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کو یہ بھی مان لینا چاہیے طالبان جلد یا بدیر دوبارہ اقتدار پر قابض ہوں گے، کیونکہ دارالحکومت کابل تک پر حکومتی کنٹرول نظر نہیں آ رہا۔ حالات کے یہ حقائق بتا رہے ہیں، امریکا اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان کو تو فتح کر لیا۔ اپنی حکومت بھی قائم کر لی، لیکن یہ افغان عوام کو فتح نہیں کر سکا۔
Page 1 of 1
Permissions in this forum:
You cannot reply to topics in this forum
Tue Feb 04, 2020 6:49 pm by munsab
» گوگل کرُوم
Tue Dec 03, 2019 8:35 pm by Munsab Ali
» فوٹو شاپ
Tue Dec 03, 2019 8:33 pm by Munsab Ali
» شمشیر بے نیام قسط نمبر 2
Sat Nov 30, 2019 11:25 pm by Munsab Ali
» شمشیر بے نیام قسط نمبر 1
Sat Nov 30, 2019 9:56 pm by Munsab Ali
» متنازع سائبر کرائم بل 2015 متفقہ طور پر منظور کرلیا۔ -
Wed Jul 27, 2016 11:54 am by Munsab Ali
» All in One
Fri Dec 25, 2015 10:23 pm by RASHID KHAN
» Best Action Movies 2015 English Hollywood - TOM CRUISE - New Adventure Movies 2015
Thu Dec 10, 2015 2:05 pm by Munsab Ali
» Shinobido - Ninja
Thu Dec 10, 2015 1:53 pm by Munsab Ali