Munsab Ali Warsak
براے مہر بانی نیچے رجسٹریشن کلک کریں اور اگر آپ کا ریجسٹریشن ہوئی ہیں تو لوگ ان کلک کریں ، آپ سے گزارش ہیں کہ رجسٹریشن کرنے کے بعد لوگ ان ہوجائے - مدیر اعلٰی منصب علی

Join the forum, it's quick and easy

Munsab Ali Warsak
براے مہر بانی نیچے رجسٹریشن کلک کریں اور اگر آپ کا ریجسٹریشن ہوئی ہیں تو لوگ ان کلک کریں ، آپ سے گزارش ہیں کہ رجسٹریشن کرنے کے بعد لوگ ان ہوجائے - مدیر اعلٰی منصب علی
Munsab Ali Warsak
Would you like to react to this message? Create an account in a few clicks or log in to continue.

بھارت کا جنگی جنون

Go down

بھارت کا جنگی جنون Empty بھارت کا جنگی جنون

Post by Munsab Ali Mon Nov 17, 2014 1:45 pm

یہ 13 دسمبر 2001ء کی سہ پہر کا ذکر ہے۔ بھارتی راجیہ سبھا اور لوک سبھا کا اجلاس ہو رہا تھا۔ ممبران دھواں دار تقریریں کررہے تھے۔ اچانک سائرن بجنے لگے۔ گولیوں اور بموں کے دھماکوں سے ایوانوں کے در و دیوار تھرتھرانے لگے۔ حملہ آور 5 افراد تھے۔ انہوں نے 6 پولیس اہلکاروں اور سیکورٹی گارڈوں کو نشانہ بنایا۔ وہ اسمبلیوں میں گھسنے ہی والے تھے کہ خفیہ پولیس نے ان کا راستہ روک لیا۔ بھارتی حکومت نے کسی بھی تحقیق کے بغیر الزام پاکستان کے سر دھر دیا۔ ’’آپریشن پر اکرام‘‘ شروع کردیا گیا۔ دو ر دراز علاقوں سے بھارتی افواج مشرقی سرحدوں پر گِدھوں کی طرح منڈلانا شروع ہوگئیں۔ پاکستان کی ساری مشرقی سرحد پر ہندو سپاہ نے ڈیرے ڈال دیے۔ بھارتی فضائیہ نے پاکستانی حدود میں پروازیں شروع کردیں۔ پاکستانی فوج حرکت میں آئی۔ دونوں افواج سرحدوں پر جنگ کے لیے تیار ہوگئیں۔ 2003ء تک صورت حال بدستور کشیدہ رہی۔ اس سال ایل او سیز معاہدہ عمل میں آیا۔ دونوں ملکوں نے امن کے اس معاہدے پر دستخط کیے۔ 2006ء تک بھارتی خباثت سوئی رہی۔اس برس یہ بیدار ہوئی اور 3 بار لائن آف کنٹرول کی دھجیاں بکھیری گئیں۔
2007ء میں 21 ایسے واقعات ہوئے جب بھارت نے پاکستانی علاقوں پر بلا اشتعال فائرنگ کی۔ انسانی بستیوں پر مہلک گولے برسائے۔ 2008ء میں بھارتی جارحیت کا یہ ننگا ناچ 77 بار ہوا۔ پاکستانی فوج کی جوابی کاروائی سے سرحدوں پر وقتی خاموشی ہوگئی۔ 2009ء میں 28 بار بھارت نے اس طرح اپنی اَزلی پاکستان دشمنی کے ثبوت دیے۔ 2010ء میں 44 بار پھر ایسا کیا گیا۔ 2011ء میں 51 مرتبہ رقص ابلیس کا مظاہرہ ہوا۔ 2012ء میں 71 بار چانکیہ کے چیلوں نے چھپ کر وار کیے۔ اگست 2013ء میں بھارت نے اپنے 5 فوجیوں کے مارے جانے کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دیا۔ دوبارہ سرحدوں پر جنگ کے بادل منڈلانا شروع ہوگئے۔ 4 اگست سے 16 اگست 2013ء کو بھارتی فوج نے 34 بار لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی۔ اگست اور ستمبر 2013ء کے دو ماہ میں سامبا سیکٹر، پائونڈ سیکٹر، سیالکوٹ سیکٹر، نکیال سیکٹر، کوٹلی آزاد کشمیر بٹل سیکٹر، چڑی کوٹ سیکٹر، شکرگڑھ سیکٹر، لنجوٹ سیکٹر، شکما سیکٹر، راولا کوٹ سیکٹر اور دیوارناڑی سیکٹر میںہمارے ازلی دشمن نے پاکستانی علاقوں میںفائرنگ کی۔ فوجیوں اور عام شہریوں کو نشانہ بنایا۔ 9 اگست 2013ء کو عید الفطر کے دن بھارتی حملوں میں تیزی آگئی۔ 12 اگست 2013ء کو بھارت نے بغیر اطلاع دیے دریائے ستلج میں آبی جارحیت کرتے ہوئے 87 ہزار کیوسک سیلابی پانی کا ریلا چھوڑ دیا جس نے پاکستان میں سیلابوں کے نقصانات کو کئی گنا بڑھا دیا۔ اس برس اگست میں دھرنوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارتی سپاہ نے سیالکوٹ ورکنگ بائونڈری پر اندھا دھند فائرنگ شروع کردی تھی۔ مودی کی تاج پوشی کی تقریب میں ہمارے وزیراعظم کی شرکت کا یہ صلہ دیا گیا۔
بھارت کا جنگی جنون Quotation

٭ اگر بھارت اپنے دفاعی اخراجات میں 20 فیصد کمی کر دے تو پاکستان بھی سکون کی سانس لے گا۔ وہ بھی اس پوزیشن میں آجائے تو ہمارے ملک میں سالانہ 7065 اسکول یا 8400 ہسپتال کھولے جا سکتے ہیں۔ ٭

26ستمبر 2014ء کو وزیراعظم نواز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیر کے مسئلے کو دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بنادیا۔ ہندوستان اپنی ہزیمت کو ہضم نہ کر پایا۔ اس نے یکم اکتوبر کو پاکستانی علاقوں میں جارحیت کا نیا سلسلہ شروع کردیا۔ 6، 7 اور 8 اکتوبر کو عید کے تینوں دن میں مسلسل فائرنگ کی جاتی رہی۔ ورکنگ بائونڈری کے چارو اسجیت ہر پال، بجوات چپٹر اڑ سیکٹروں میں عام شہری بھارتی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ 12 افراد شہید ہو گئے، 42زخمی ہوئے اور 70 ہزار افرادشدید طورپر متاثر ہوئے۔ 20 ہزار کو نقل مکانی کرنی پڑی۔ 9 اکتوبر کو گولہ باری سے مزید 5 افراد کو شہید کردیا گیا۔ 50 سے زائد زخمی ہوگئے۔ 120 تعلیمی ادارے بند ہوگئے۔ دہشت گردی کا دائرہ ناروال، ظفر وال، شکرگڑھ تک پھیل گیا۔ 64 دیہات کو آبادی سے خالی کروانا پڑگیا۔ یوں بھارت نے 2013ء اور 2014ء میں 245 بار سیز فائر کی خلاف ورزی کی۔ 31 ہزار مارٹر گولے فائر کیے۔ وزیراعظم نے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایا۔ انہوں نے آرمی اور نیول چیف سے علیحدہ ملاقاتیں بھی کیں۔ بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کا تہیہ کیا گیا۔ بان کیمون کو خط لکھ کر حالات کی سنگینی کے بارے میںمطلع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اب ہمارے شہر شہر مظاہرے جاری ہیں۔ ہر پاکستانی لیڈر بھارتی ظلم کے خلاف بیانات دے رہا ہے۔ ظلم و بربریت پر آواز اٹھا رہا ہے۔ 

اکنامک سروے آف انڈیا دیکھیں تو ملک کی آبادی 220 بلین افراد پر مشتمل ہے۔ 2 ڈالر سے کم آمدنی والی آبادی 860 ملین افراد پر مشتمل ہے۔ 500 ملین افراد خوراک کی شدید کمی میں مبتلاہیں۔ ہر ہزار بچوں میں سے 132 شیر خوارگی میں کمی خوراک کے ہاتھوں جاں بحق ہو رہے ہیں۔ ہندوستان کا بجٹ خسارہ 100 بلین ڈالرز ہے۔ تجارتی خسارہ 190 بلین ڈالر، جبکہ عوامی قرضہ جی ڈی پی کا 27 فیصد ہے۔ انڈیا اپنے دفاع پر 42 بلین ڈالرز سالانہ لگا رہا ہے۔ 1984ء سے سیاچن میں بھارت نے 150 چھائونیاں قائم کی ہوئی ہیں۔ یہاں 30 ہزار بھارتی فوجی مقیم ہیں۔ سالانہ لاگت 200 سے 300 بلین ہے۔ ہندوستان اس مد میں اربوں ڈالرز لگا چکا ہے۔ ہزاروں بھارتی فوجی اس جنگ میں ہلاک ہوچکے ہیں۔ بھارتی جنگی جنون ایک خطرناک نفسیاتی عارضہ بن گیا ہے۔ 

وہ معیشت میں چین اور جاپان سے کسی بھی طور پر مسابقت نہیں کرسکا۔ اس نے اپنی کمزوریوں کو جنگی ماسک پہنادیا ہے۔ اپنے قیام سے اب تک بھات کو جنگ کا خمار رہا ہے۔ اس نے روس اور اسرائیل سے جنگی مقاصد کے لیے ٹھوس تعلقات بنائے۔ اس نے ملک میں بخار اور سر درد کی گولیوں کی بجائے بارود کے ڈھیر لگائے۔ ایٹم بم بنائے اور جنوبی ایشیا میں ہتھیاروں کی نہ ختم ہونے والی دوڑ شروع کی۔ ماہرین معاشیات کے مطابق اگر بھارت اپنے دفاعی اخراجات میں 20 فیصد کمی کر دے تو پاکستان بھی سکون کی سانس لے گا۔ وہ بھی اس پوزیشن میں آجائے تو ہمارے ملک میں سالانہ 7065 اسکول یا 8400 ہسپتال کھولے جا سکتے ہیں۔ اس کی بجائے بھارت نے وہ راستہ اختیار کیا ہے جس پر اس کے 50فیصد فوجی سیاچن میں ڈیوٹی دینے کے بعد مستقل ذہنی عارضوں میں مبتلا ہو کر اسپتالوں میں بستر جمائے بیٹھے ہیں۔ نئے اسپتال کھولنے کے لیے جو وژن چاہیے اسے ہلاکت خیز جنون نے ختم کر کے رکھ دیا ہے۔ 

بھارت پاکستانی مذاکرات کی تاریخ دراصل ہندو ذہنیت کی نقاب کشائی کا عمل رہا ہے۔ 1947ء میںجناح مائونٹ بیٹن ملاقات، 1949ء میں کراچی میں سمجھوتہ، 1950ء میں لیاقت نہرو معاہدہ، 1953ء میں بوگرہ نہرو ملاقاتیں، 1960ء میںسندھ طاس معاہدہ، 1965ء میں معاہدہ تاشقند، 1972ء میں شملہ معاہدہ، 1973ء میں دہلی سمجھوتہ، 1988ء میں معاہدہ اسلام آباد، 1999ء میں اعلامیہ لاہور، 2001ء میں آگرہ مذاکرات، 2009ء میں گیلانی من موہن ملاقاتیں، 2012ء میں زرداری من موہن ملاقات اور 2014ء میں نواز شریف مودی ملاقات ہوئی۔ 1990ء کو خارجہ سیکرٹریوں کی ملاقاتیں شروع ہوئیں۔ بیک ڈور ڈپلومیسی کے ہتھیار کو بھی کئی بار آزمایا گیا۔ دونوں ملکوں کے ڈائریکٹر ز جنرل ملٹری آپریشنز کے درمیان ہاٹ لائن پر گفت و شنید اور سیکٹر کمانڈروں کی ملاقاتوں کا ڈول بھی ڈالا گیا۔ ہر بار ہندوستان نے امن کی فاختہ کا گلا گھونٹ دیا۔ اس کے پر نوچ کر ہوائوں کے حوالے کردیے۔ پاکستان جب بھی داخلی طور پر کمزور ہوا ہندو عصبیت حملہ آور ہو گئی۔ 1948ء میں نوازئیدہ مملکت کے سر سے کشمیر کا تاج نوچ لیا گیا۔ 1965ء میں پاکستان پر چوروں کی طرح حملہ کردیا گیا۔ 1971ء میں داخلی بدامنی کے شعلوں کو ہوا دے کر مشرقی پاکستان کو کاٹ کر پھینک دیا گیا۔ 1988ء میںراجیو گاندھی نے پاکستان پر حملے کی تیاریاں مکمل کر لی تھیں۔ جنرل ضیا الحق کی بصیرت نے خطے کو جنگی الائو سے بچا لیا۔ 1999ء میں کار گل جنگ میںبھارتی پاگل پن دنیا پر عیاں ہو گیا۔ 21ویں صدی کے ان برسوں میں کانگرس اور جنتا پارٹی کے ہر الیکشن میںپاکستان دشمنی نعروں تقریروں فرمانوں میں سب سے آگے رہی۔ مودی نے اس برس الیکشن میں اپنے ہر خطاب میں پاکستان کو مشق ستم بنائے رکھا، اس کی دیکھا دیکھی انتہا پسند ہندووں نے اقتدار میں آتے ہی اپنے دانت تیز کرنا شروع کردیے۔ اپریل 2014ء کو وزیر اعظم نواز شریف کو دہلی میں خفت کا شکار ہونا پڑا۔ وہ جو انکساری سے حلف برداری کی تقریب کے لیے گئے تھے، لمبے ڈیمانڈ نوٹس کو تھامے واپس آئے۔ 

اس وقت جب افواج پاکستان کی تمام تر توجہ آپریشن ضرب عضب پر مرکوز ہے، ملک 10 لاکھ آئی ڈی پیز کی عارضی رہائش و خوراک کے بندوبست کے لیے کوشاں ہے۔ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنوں نے 3 ماہ سے کاروبار مملکت تلپٹ کرکے رکھ دیا ہے۔ چین اور سری لنکا کے صدور کے دورے ملتوی ہوچکے ہیں۔ ملک میں ترقیاتی کاموں کو بریک لگی ہوئی ہے۔ پاکستان کا بیشتر رقبہ بدترین سیلاب کی تباہ کاریوں کا شکار ہو کر رہ گیا ہے۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہو کر حکومتی مدد کے سہارے شب روز گزار رہے ہیں۔ ایسے کڑے حالات میں بھارت نے پاکستان کی اندرونی کمزوریوں سے فائدہ اٹھایا ہے اور حملہ آور ہو گیا ہے۔ 

اگر ہم پاکستان اور بھارت کے مابین صرف تجارت کی فیگرز کو دیکھیں تو ہمیں کمزور صورت حال کی سنگینی کا بخوبی اندازہ ہوجائے گا۔ ہم پچھلے 22، 23 سالوں میں اکانومی کے بیٹھ جانے کی وجہ سے ہندوستان پر زیادہ سے زیادہ تکیہ کر کے بیٹھ گئے ہیں۔ 1951-60ء کی دہائی میں پاکستان نے ہندوستان کو 364.31 ملین ڈالرز کا سامان بیچا اور اس سے صرف 97.95 ملین ڈالرز کا مال خریدا۔ 1961-70ء کی دہائی میں ہم نے 168.36 ملین ڈالرز کا مال بیچا اور 119.46ملین ڈالرز کا سامان خریدا۔ 1971-80ء کی دہائی میں ہم نے 221.79 ملین ڈالرز کا سامان بیچا اور 106.98 ملین ڈالرز کا مال خریدا۔ اس کے بعد توازن بگڑا۔ 1991-2000ء کی دہائی میں ہم نے 717.66 ملین کا سامان بیچ کر 1023.6 ملین ڈالرز کا سامان خریدا۔ 2001-11کی دہائی میں ہماری پسپائی سب سے زیادہ رہی۔ ہم نے 2300.6 ملین ڈالرز کا مال بیچ کر ہندوستان سے 9420.9 ملین ڈالرز کا مال خریدا۔ افیون پر ایسا لگایا گیا ہے کہ ملک بھارتی منڈیوں کی کموڈیٹی بن کر رہ گیا ہے۔ جیسے ہی ہم شکستگی کا شکار ہوتے ہیں، وہ ہم پر گولیاں اور بم برسانے شروع کر دیتا ہے۔ ہم ہیں کہ مذاکرات مذاکرات پکارتے ہی رہ جاتے ہیں۔ ’’انڈین ایکسپریس‘‘ بھارت کا مشہور اخبار ہے۔ اس میں ایک سابق سفارت کار ایس کے بھاٹیہ کا ایک مضمون شائع ہوا۔ اس نے ان پندرہ بیس سالوں میں بھارتی سفارت کاری کا جائزہ لیا ہے۔ وہ اسے ڈپلومیسی کا سنہری دور قرار دیتا ہے۔ دنیا بھر میں بھارتی ہائی کمیشنوں اور سفارت خانوں میں نہایت زیرک افراد کو بھرتی کیا گیا۔ انہیںملکوں کے مابین بہترین تعلقات قائم کرنے کے گر سکھائے گئے۔ اعلیٰ ڈپلومیٹس بہت تجربہ کار افراد کو لیا گیا۔ یوں بھارت نے امریکا، روس، اسرائیل، برطانیہ، جرمنی، فرانس وغیرہ سے شالی مراسم استوار کرلیے۔ بنگلور کے قریب ’’بھارتی سیلی کان ویلی‘‘ بنائی گی۔ ان ملکوں کے سرمایہ کا ر ارزاں افرادی قوت اور پرکشش بھارتی پیش کشوں پر کھنچے چلے آئے۔ یوں دنیا کے طاقتور ملکوں کے ہندوستان سے تعلقات مضبوط تر ہوتے چلے گئے۔ بھارتیوں نے اسٹیٹ آف دی آرٹ اسلحہ و بارود خریدنا شروع کردیا۔ اس کا تکبر و غرورو پھولتے غبارے کی طرح پھیلنا شروع ہوگیا۔ 

دوسری طرف پاکستان نے سفارت کاری کے بہترین فن کو لطیفہ گوئی کا درجہ دے دیا۔ ایک سے ایک گھامڑ سرکاری خرچوں پر سہولتیں انجوائے کرنے لگا۔ ان مفاد پرستوں نے بدلتی دنیا کی نزاکتوں کو سمجھنے سے سرد مہری اور بیگانگی برتی۔ قوموں کے درمیان سر اٹھاکے جینے کا کیا مطلب ہوتا ہے یہ نادان کبھی نہ جان پائے۔ یہ کج فہم بھارت سے پاکستانی تجارت کو اوج ثریا قرار دے رہے ہیں۔ بھارتی بمباری پر ان کی دلیلیں اپنے منہ پہ چپت کی آوازیں دے رہی ہیں۔ یہ نہیں جانتے کہ آج کی دنیا میں طاقتور اور کمزور کے درمیان مذاکرات کا نتیجہ ’’بھیڑیے اور میمنے کی کہانی‘‘ کے سبق سے مختلف نہیں ہوا کرتا۔ داخلی امن و خوشحالی اعلیٰ ترین معیشت کے شجر سے آنے والے ثمر ہیں۔ آج قومیں بہترین لیڈر شپ سے اوپر اٹھ رہی ہیں۔ آج طاقتور ملکوں پر جبر اور زور سے من چاہے مطالبات نہیں ٹھونسے جاسکتے۔ وہ ملک جہاں بیرونی قیادت بلوائیوں کے خوف سے دورے ملتوی کر دے ایک بیمار جسم کی مانند ہے جس پر طاقت ور جراثیم حملہ آور ہو جاتا ہے۔ پاکستان کی داخلی قسمت مندی ہی وہ ڈھال ہے جس سے ٹکرا کر ہر منڈتا بھارتی تیر اُچٹ جائے گا، ناکارہ اور ناکام ہو کر رہے گا۔
-
Munsab Ali
Munsab Ali
Admin
Admin

Monkey
1013
Join date/تاریخ شمولیت : 07.03.2014
Age/عمر : 44
Location/مقام : pakistan

https://munsab.forumur.net

Back to top Go down

Back to top


 
Permissions in this forum:
You cannot reply to topics in this forum