Munsab Ali Warsak
براے مہر بانی نیچے رجسٹریشن کلک کریں اور اگر آپ کا ریجسٹریشن ہوئی ہیں تو لوگ ان کلک کریں ، آپ سے گزارش ہیں کہ رجسٹریشن کرنے کے بعد لوگ ان ہوجائے - مدیر اعلٰی منصب علی

Join the forum, it's quick and easy

Munsab Ali Warsak
براے مہر بانی نیچے رجسٹریشن کلک کریں اور اگر آپ کا ریجسٹریشن ہوئی ہیں تو لوگ ان کلک کریں ، آپ سے گزارش ہیں کہ رجسٹریشن کرنے کے بعد لوگ ان ہوجائے - مدیر اعلٰی منصب علی
Munsab Ali Warsak
Would you like to react to this message? Create an account in a few clicks or log in to continue.

عید مبارک

Go down

عید مبارک Empty عید مبارک

Post by Munsab Ali Mon Nov 17, 2014 1:54 pm

عید مبارک Eid-mubarak

’’ول ڈیورنٹ‘‘ کو موجودہ دور کے بلند پایہ تاریخ دانو ں میں شامل کیا جاتا ہے۔ وہ بنیادی طور پر ایک شاندار فلاسفر تھا۔ اس کی فہم و فراست پڑھے لکھے حلقوں میں ایک استعارہ بن گئی ہے۔ گوروں کا تعصب اس کے خمیر میں شامل نہ تھا۔ اس نے 11 جلدوں پر ’’اسٹوری آف سولائزیشن‘‘ لکھی۔ کتاب کی جلد اسلامی تہذیب و تمدن سے متعلق ہے۔ اس نے مسلمانوں کے دور عروج کا معاشی جائزہ بھی پیش کیا ہے۔ اسلام کے سنہری دور میں دنیا بھر کے مسلمان نہایت درجہ خوشحال تھے۔ خلافت نے ان کو ایک لڑی میں پرو رکھا تھا۔ گتے اور کھانڈ کی تیاری کے طریقے یورپ نے عربوں سے سیکھے۔ سفید فاموں نے سب سے پہلے کپاس کی کاشت مسلمانوں سے جانی۔ عربوں نے آبپاشی کا نظام متعارف کروایا۔ دلدلی زمینیں صاف کروائی گئیں ۔ چار اراضی بہشتوں کو متعارف کرایا گیا۔ یہ جنوبی فارس، جنوبی عراق، دمشق سمرقند اور بخارا کا درمیانی علاقہ تھا۔ زمین سے سونا، چاندی، فولا د، سیسہ، پارہ، اینٹی منی، سلفر، ایسٹس، سنگ مرمر اور دوسرے قیمتی پتھرنکالے گئے۔
غواصوں نے خلیج فارس میں موتی تلاش کرنے کے لیے غوطے لگائے۔
گھروں، دست کاروں کی دکانوں اور تجارتی انجمنوں کے درمیان ایک مربوط نیٹ ورک بنایا گیا۔
 
ہوائی چکیاں تعمیر کی گئیں۔ یورپ نے 12 ویں صدی میں انہیں عربوں سے نقل کیا۔ مکینکل قابلیت مسلم زمینوں میں اپنے بلند نقطے کو چھو گئی۔ آبی گھڑی بنائی گئی جو چمڑے اور مرصع کاری شدہ تانبے سے بنی ہوئی تھی۔ ہر گھنٹہ مکمل ہونے پر دھاتی چوبدار ایک دروازہ کھولتا تھا۔ فارسی، شامی اور مصری ٹیکسٹائل نے بلندی کی طرف سفر طے کیا۔ موصل اپنے سوتی ململ کے لیے مشہور ہوا۔ دمشق کی لینن دنیا بھر میں معروف ہوئی۔ اسی شہر کی تلواروں نے بھی سب کو مات دے دی۔ بغداد میں شیشے اور ظروف سازی کی صنعتوں نے نام بنایا۔ اسے برتنوں، سوئیوں اور کنگھوں میں سب سے آگے نکل گیا۔ رقہ زیتون کے تیل اور صابن سازی میں نام کما گیا۔ فارس عطر اور چٹائیوں میں سب کو پیچھے چھوڑ گیا۔ مسلمانوں نے مشرق و مغرب میں تجارت کو بڑے پیمانے پر فروغ دیا۔ حضرت زبیرؓ پر خدا کی کرم نوازی ہوئی۔ ان کے کئی شہروں میں محلات تھے۔ ان کے پاس ایک ہزار گھوڑے اور 10 ہزار غلام تھے۔ حضرت عبدالرحمنؓ کے پاس ایک ہزار اونٹ، 10 ہزار بھیڑیں اور نقد میں 40 ہزار دینار تھے۔ یہ اہل ثروت کثرت سے صدقہ اور خیرات کرتے تھے۔ جی بھرکے زکوۃ ادا کرتے تھے۔ 
وقت کے ساتھ ساتھ خلافت دنیا بھر میں پھیلتی گئی۔ مسلمانوں کے سنہری عہد نے اوج ثریا کو چھونا شروع کردیا، ملکہ آئرینے نے خلفا ء کو سالانہ 70 ہزار دینار ادا کر کے صلح کرلی۔ خلافت کی سالانہ آمدنی خلیفہ ہارون الرشید کے عہد میں 90 کروڑ درہم سے بڑھ گئی تھی۔ ہارون الرشید نے خزانے میں 4 کروڑ 80 لاکھ دینار چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوا۔ ہارون کے وزیر یحییٰ برمکی نے ایک قیمتی ڈبیا کے بدلے 2 کروڑ درہم دینے کی پیش کش کی، سودا طے نہ پا سکا۔ خلیفہ ممصلی المکتفی 2 کروڑ دینار کے زیور اور قیمتی خوشبوئیں چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوا۔ بغداد کے شاہی محل میں 22 ہزار قالین بچھے ہوئے تھے۔ دیواروں پر گل بافت کے 38 ہزار نمونے تھے، جن میں سے 12 ہزار 5 سو ریشم کے بنے ہوئے تھے۔ المقتدر نے اپنا پلیا دیس کا محل تعمیر کروایا، جس پر 4 لاکھ دینار خرچ ہوئے۔ اس محل کے طول وعرض کا اندازہ اس کے اصطبل سے لگایا جا سکتا ہے۔ اس میں 9 ہزار گھوڑے، اونٹ اور خچر تھے۔ خلیفہ المکتفی کے محل کے باغات 9 مربع میل پر پھیلے ہوئے تھے۔ 
خلیفہ المقتدرکے باغ والے تالاب میں سونے اور چاندی کا ایک پورا درخت تھا۔ چاندی کے پتوں پر نقرئی پرندے اور سونے کے پتوں پر طلائی پرندے سے بیٹھے ہوئے تھے۔ اس خلیفہ نے یونانی سفیروں کو اپنے 22 محلات دکھائے۔ جن میں سنگ مر مر کے دالان، آرائشی قالینوں پر جادو کر دینے والے مناظر، گھوڑوں کی طلائی اور نقرئی کاٹھیاں، کشادہ ترین باغوں میں قسم قسم کے سدھائے ہوئے پرندے اور جانور تھے۔ فاطمی خلیفہ مصر کی دو بہنیں فوت ہوئیں تو مال متروکہ میں 27 لاکھ دیناراور 12 ہزار عبائیں تھیں۔ 3 ہزار چاندی کی صراحیاں، 400 مرصع تلواریں، قصیلہ کی ٹیکسٹائل کے 30 ہزار پارچے اور بے شمار زیورات بھی ملے۔ ابن ا طولون کی مسجد میں 18 ہزار چراغ روشن کیے جاتے تھے۔ ہر چراغ پر چاندی کا قیمتی کام کیا گیاتھا۔ المتوکل نے 7 لاکھ دینار سے ایک انتہائی دیدہ زیب مسجد تعمیر کروائی تھی۔ بغداد کی مسجدیں اپنی وسعت، فن تعمیر اور نقش کاری میں مشہور تھیں۔ 
عرب تاجروں کی تجارت دنیا کے طول و عرض میں پھیل گئی۔ ان کی دولت شمار میں نہ آتی تھی۔ خلیفہ المتقدر نے مشہورسنار ابن االجنساس کے ایک کروڑ 60 لاکھ دینار ضبط کرلیے، مگر وہ بدستور امیر کبیر رہا۔ بہت سے مسلمان تاجر سمندر پار 40 لاکھ دیناروں تک کے مالک تھے۔ اسلامی دور کے فقط عروج پر ہزاروں تاجر 10 ہزار سے لے کر 30 ہزار دیناروں سے تعمیر شدہ گھروں میںرہائش پذیر تھے۔ ان کی تجارت کے قافلے عموماً 4 ہزار 700 اونٹوںپرمشتمل ساری دنیا میں محو گامزن رہتے۔ روپیہ پیسہ ہن کی طرح برستا تھا۔ سوہر سو خوشحالی کے شادیانے بجتے تھے۔ بہت سی تجارت دریائوں اور نہروں کے ذریعے تکمیل کو پہنچتی تھی۔ بغداد میں 750 فٹ چوڑے کشتیوں کے 3 پل بنائے گئے۔ ان سے دریائے دجلہ کو پار کیا جاتا تھا۔ 4357 کارواں سرائیں، شفاخانے اور عارضی آرام گھر بنائے گئے۔ جانوروں کے سستانے کے لیے 10 ہزار سے زائد اصطبل بنائے گئے۔ کوئی بے گھر فرد ڈھونڈنے سے بھی نہ ملتا تھا۔ اگر ملتا تو وہ شہر کی سب سے خوبصورت مسجد میں رات گزار سکتا تھا۔ 
ڈیورنٹ کے مطابق عربوں کے غلاموں کی حالت انیسویں صدی کے یورپ کے فیکٹری مزدورں سے بدر جہ ابہتر تھی۔ مسلمانوں کی معاشی ساکھ اس طور پر مضبوط تھی کہ ’’پرامیسری نوٹوں‘‘ (Promissory Notes)کا اجراح ان کے دور میں ہوا۔ ابن حوقل نے مراکش کے ایک تاجر کے 4 لاکھ 29 ہزار دیناروںکے پرامیسری نوٹ کا ذکر کیا۔ عربی زبان کا لفظ ’’سک‘‘ (Sakh) سے انگریزی کا لفظ چیک بنا۔ یورپی زبانوں نے ٹیرف، ٹریفک، میگزین، کارواں، بازار وغیرہ کے سارے Conceptsاور الفاظ عربی سے لیے۔ (باقی صفحہ5پر) مسلم تہذیب کے بلند ترین دور میں شہروں اور ملکوں میں میلے ٹھیلے ہنڈیاں اور بازار فروخت کا ری سے ہمہ وقت ہمہماتے تھے۔ 
دسویں صدی عیسوی میں تجارتی سرگرمیاں اپنے عروج پر پہنچ گئیں۔ یہ وہ وقت تھا جب سارے کا سارا یورپ جہل کی پستی میں دھنسا ہوا تھا۔ مسلم تجارت تیونس، قصیلہ، مراکش، سپین، یونان، گال، اٹلی، منگولیا، فن لینڈ، ناروے، جرمنی، ڈنمارک اور سویڈن تک پھیلی ہوئی تھی۔ یورپی باشندے دم بخود اور چندھیائی آنکھوں سے دنیا کی عظیم ترین تہذیب کی چمک دیکھ رہے تھے۔ ڈیورنٹ کے الفاظ میں اسلامی دنیا کی روشنیاں مل کر ایک کہکشاں بناتی تھیں جن سے آسمان عالم جگمگا رہا تھا۔ صنعتی اور تجارتی اعتبار سے خلافت اس بلندی تک پہنچی کہ سارے کے سارے مسلمان اس کے خوشہ چین بن گئے۔ معیشت کی مضبوطی سے عام مسلمان بھی فراواں اور خوشحال زندگی بسر کر رہے تھے۔ بڑی شاہرایں بغداد سے نکل کر نیشاپور، مرو، بخارا، سمر قند اور کاشغر تک کوفہ سے لے کر مدینہ، مکہ، عدن، موصل اور دمشق تک پھیلی ہوئی تھیں۔ سبسڈی (Subsidy) کا جدید نظام خلافت نے متعارف کروایا۔ کسی بھی ضروری شے کی کمی پر حکومت حرکت میں آتی ۔ شاہی خزانے سے اس کے نرخ ادا کرکے اس کی فراوانی کو لازمی بناتی تھی۔ مسلم تہواروں اور عیدوں پر اسلامی دنیا کی خوشحالی نکھر کر سامنے آجاتی۔ خصوصاً عیدقرباں پر غربا اور مسکینوں کو ڈھونڈا جاتا تو اسلامی دنیا میں وہ خال خال ملتے تھے۔ یورپ تک سے قربانی کے جانور لائے جاتے۔ خلافت نے ہر مسلمان کو ثواب میں شریک کرنے کے لیے ایک مربوط پالیسی بنا رکھی تھی۔ عید قربان سے چند ماہ پہلے ہی قربانی کے جانوروں کے جھتے جمع کیے جاتے اور سلطنت کے طول و عرض میں بہم کر دیئے جاتے۔ کبھی بھی نہ مویشیوں کا کال پڑتا، نہ ان کے نرخ بلند ہوتے۔ سارا عالم اسلام خشوح وخضوع کے ساتھ سنت ابراہیمی ادا کرتا۔ خلافت کے خوشحالی کارواں میں سب چھوٹے بڑے شریک تھے۔ 
جب خلافت کا شیرازہ بکھرا تو مسلم دنیا 56 چھوٹے بڑے ملکوں میں بٹ گئی۔ وہ سارے ثمرات جو ایک بہت بڑی سلطنت کے شجر سے آتے تھے معدوم ہو کر رہ گئے۔ مسلمان کی اخوت ایک خواب بن کر رہ گئی۔ مسلم دنیا کی اکثریت میں ایسے حکمران آئے جنوں نے ناک کی نوک سے آگے دیکھنا جرم قرار دے دیا۔ آج کہنے کو دنیا میں 58مسلم ملک ہیں۔ ان کی قوت کو یورپیوں نے سلب کر رکھا ہے۔ حاکم گوری چمڑی والوں کے زرخرید غلام بن کر رہ گئے ہیں۔ ان میں بیشتر کھربوں پتی اور عوام نہایت درجہ مفلوک الحال ہے۔ تہواروں پر یہ فلاکت کھل کر اپنا تماشا دکھاتی ہے۔ ملک کیا ہیں 56کنویں ہیں جن میں اقتدار کے مینڈک ٹراتے رہتے ہیں۔ ساری دنیا میں مسلمان زبوں حال ہیں۔ فلسطین، لبنان، شام، عراق، افغانستان، لیبیا اور مصر میں ان پرسخت کڑا وقت آیا ہوا ہے۔ ان کے ہونٹوں پر یاس کی بیڑیاں جمعی ہوئی ہیں۔ ان کے پیروں کو دکھوں کے کانٹوں نے لہولہان کیا ہوا ہے۔ ان کی سہمی نظروں میںتباہی اور بربادی کی راکھ دکھائی دیتی ہے۔ ان کی آہ و فغان اجڑی ہوئی دنیا کے سنسان کناروں میں گونجتی پھرتی ہے۔ نوحے مسلم بستیوں میں سر پٹکتے پھرتے ہیں۔ دکھ درد ہیں کہ سینوں پر پہاڑوں کی طرح کھڑے ہو گئے ہیں۔ آنسوئوں کے سیلاب سمندروں کو شرمندہ کیے دے رہے ہیں۔ مسلم دنیا کی اکثریت ظلم سہتے ہوئے حبشی کی طرح ریت پر رینگ رہی ہے۔ ان کے گلو ں میں غلامی کے طوق اپنوں ہی نے کس رکھے ہیں۔ ان کے جسموں پر دروں اور کوڑوں کے زخم غیروں نے اتنے نہیں لگائے جتنے کہ اپنے بھائی بندوں کی مہربانی سے لگے ہیں۔ نیل سے کاشغر تک ہر مسلم تہوار پر امت کی تنگی داماں پوری طرح آشکار ہو جاتی ہے۔ مسلم ملک چڑھے ہوئے پانیوں کے جزیرے ہیں جن پر عذاب ناک موجیں پہم سر مارتی رہتی ہیں۔ 
ہم جب سے مغربی نظریات کے بوجھ تلے آئے ہیں ہماری عقل و خرد مکمل طور پر گم ہو رہ گئی ہے۔ ہم بے روح جمہوریت کے پجاری بن گئے ہیں۔ ہم نے اپنی میراث کھوئی ہے تو غیر بھی ہمیں گلے لگانے کو نفر ت کے قابل سمجھنے لگے ہیں۔ ہم نے خلافت کا آب حیات رد کیا تو ساحلوں کی تشنگی ہمارا مقدر بن گئی۔ آج ہم اپنے ماضی کی حقیقتوںکو خواب و خیال کے قصوں کی طرح سنتے ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ جب ہم خلافت کی مالا کے موتی تھے تو اس کا نور آنکھوں کو خیرہ کرتا تھا۔ جب مالا ٹوٹی تو ہر موتی ریت میںگم ہو کر اپنا وجود کھو بیٹھا۔ آج ہم 58اکائیاں ہیں ایک امت نہیں ہیں۔ 
آپ صرف پاکستان کو دیکھئے۔ اس میں آج 10 لاکھ مسلمان اپنے گھربار چھوڑ چھاڑ کر مہاجر ہو گئے ہیںاور خواروزبوں پھر رہے ہیں۔ 2 کروڑ لوگ سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔ حکومت کی رٹ شاہراہ دستور اسلام پر قائم نہیں ہے۔ ہماری سیاسی قیادت اقتدار کی کڑاہی میں پانچوں انگلیاں اور سر دیے بیٹھی ہے۔ ملک پر قرضوں کا اربوں ڈالرز بوجھ لاد دیا گیا ہے۔ اسمبلیاں مجسم رعونت لوگوں سے لبالب بھر ہوئی ہیں۔ عام پاکستانی کو مہنگائی کے عفریت کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ وہ تہواروں پر خوشیاں منانے کے حس ہی کھو بیٹھا ہے۔ اس کے دامن میںسو سو چھید ہیں۔ بجلی کے بلو ں نے اسے ایسے ایسے کرنٹ لگائے ہیںکہ اس کے بدن میں لہو باقی نہیں رہا۔ زندگی کی سچی تڑپ ناپید ہو کر رہ گئی ہے۔ خوشیوں کے پتے خشک ہو کر رہ گئے ہیں۔ 
کاش! یہ اُمت دوبارہ خلافت کے زیر سایہ آجائے، یا سب مسلمان ملکوں کا یورپی یونین جیسا ایک بلاک بن جائے۔ سب کی کرنسی ایک ہو۔ مسلمان آزادانہ ان میں سفر کر سکیں۔ معاش کی بے رحم زنجیروں سے اتنی آزادی تو ہو کہ یہ سانس لینے کے قابل ہو سکیں۔ ایسا بلاک اس ہلاکت خیز وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ ان ملکوں کے درمیان تجارت اس بڑے پیمانے پر ہو کہ ہر شے از اں نرخوں پر دستیاب ہو جائے۔ اگر صدیوں ملک ایک دوسرے کا لہو بہانے والا یورپ شیر و شکر ہو سکتا ہے۔ اگر دنیا بھر کے عیسائی اکٹھ کر سکتے ہیں۔ تو ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے۔ ایسا ہونے سے مسلمان ایک دوسرے کے نزدیک آئیں گے۔ خوشحالی اور فراوانی کی نئی صبحیں طلوع ہوں گی۔ ہمارے تہواروں کی بے رنگی اور بے نوری دور ہو جائے گی۔ ہم عید الفطر اور عید قربان کو صحیح معنوں میں تہواروں کی طرح منا پائیں گے۔ مسلم دنیا کا قرب ہمارے بے شمار زخموں کا مرہم ہے۔ مسلم بلاک وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ ہمیں دورانگی چھوڑ کر یک رنگ ہونا ہی پڑے گا۔ یہی دنیاوی اور دینوی نجات کا واحد راستہ ہے۔
Munsab Ali
Munsab Ali
Admin
Admin

Monkey
1013
Join date/تاریخ شمولیت : 07.03.2014
Age/عمر : 43
Location/مقام : pakistan

https://munsab.forumur.net

Back to top Go down

Back to top


 
Permissions in this forum:
You cannot reply to topics in this forum