چار ابعادی عجیب کائنات!
Page 1 of 1
چار ابعادی عجیب کائنات!
اگر کسی ایسے شخص کو - جس کا ریاضیاتی سائنس سے کوئی تعلق نہ ہو - یہ بتا دیا جائے کہ کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جو چار ابعادی صفت کی حامل ہیں تو اس کے بدن میں یقیناً جھرجھری سی دوڑ جائے گی، اس کے با وجود ہمیں اپنی زبان میں ایسا کوئی لفظ نہیں ملتا جس کے ذریعے ہم اسے بیان کر سکیں سوائے یہ کہنے کے کہ جس دنیا میں ہم رہتے ہیں وہ سوائے چار ابعادی زمان ومکان کی استمراری کے کچھ نہیں!
کائنات کو آئن سٹائن نے اسی طرح بیان کیا جیسا کہ اسے وہ اپنی ریاضیاتی مساواتوں میں نظر آتی تھی، اور جیسا کہ دیگر ریاضی دانوں کو نظر آتی ہے.. صرف اسی زبان سے - ریاضیاتی سائنس کی زبان - وہ ہمارے ارد گرد پھیلی ہوئی کائنات کی حقیقت سے قریب تر تصویر نکالنے کی کوشش کرتے ہیں، اس کے با وجود ہم عقل سے اس کا ادراک اور اپنے خیال سے اس کا تصور نہیں کر سکتے.
چار ابعادی کائنات سے آئن سٹائن کی کیا مراد تھی، اسے سمجھنے کے لیے ہم اپنے تخیل کے کچھ گھوڑے دوڑانے کی کوشش کرتے ہیں.. اور ایک ایسی مخلوقات کا تصور کرتے ہیں جو صرف ایک ابعادی کائنات میں رہتی ہے.. اس صورت میں ان مخلوقات کو اپنaی دنیا اس طرح نظر نہیں آئے گی جس طرح کہ ہمیں اپنی دنیا نظر آتی ہے.. وہ جب حرکت کرتے ہیں تو گویا صراطِ مستقیم پر ہوتے ہیں، یعنی صرف خطِ مستقیم پر ہی حرکت کر سکتے ہیں.. انہیں نہیں معلوم کہ دائیں بائیں کس طرح جایا جائے، کیونکہ انہیں دائیں بائیں کے معنی کا ادراک ہی نہیں.. وہ صرف ایک ہی بعد جانتے ہیں یعنی وہ پتلی سی لائن جس کے اندر انہیں صرف آگے اور پیچھے حرکت کرنی ہے اور بس.. جس طرح چیونٹی ایک لمبی پتلی لائن میں چلتی ہے یا جس طرح سرکس کا وہ کھلاڑی جو رسی پر چلتا ہے جس میں وہ صرف آگے یا پیچھے ہی جاسکتا ہے.. اس ایک ابعادی کائنات کی مخلوق کچھ ایسی ہی ہوگی.. وہ اسی میں پیدا ہوئی اور اسی کی عادی ہوگئی اسی لیے اسے اس میں کوئی بھی غیر معمولی چیز نظر نہیں آتی.. ان کے لیے یہ ایک قطعی منطقی اور معقول دنیا ہے.. بالکل جس طرح ہم اپنی دنیا کو دیکھتے ہیں.
اور اب فرض کرتے ہیں کہ اس ایک ابعادی دنیا میں ایک ریاضیاتی سائنس دان آتا ہے اور اپنی کائنات پر ذرا گہرے انداز میں غور وفکر کرتا ہے اور اپنی ریاضیاتی مساواتوں سے ایک دوسرا بعد دریافت کرتا ہے جسے وہ “چوڑائی” کا نام دیتا ہے.. اور جب وہ اپنی دنیا کی مخلوقات میں اپنی دریافت کا اعلان کرتا ہے تو کوئی اعتراضاً اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور کہتا ہے: تمہاری چوڑائی جائے بھاڑ میں، یہ فلسفہ اپنے پاس ہی رکھو، ہمیں تم پر یقین نہیں، تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے.
مگر کچھ سمجھدار لوگ اس سے اس معاملے پر بحث کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ: اس دوسرے بعد سے تمہارا کیا مطلب ہے جسے تم نے “چوڑائی” کا نام دیا ہے؟ .. تو جواباً وہ کہتا ہے کہ: اس کا مطلب ایک سطح یا رقبے کا وجود ہے جس میں ہم کسی بھی سمت میں گھوم سکتے ہیں.. تو وہ کہتے ہیں: یہ سطح اور سمت سے تمہاری کیا مراد ہے، ہمارا دماغ تو صرف یہی ایک واحد بعد ہی کا ادراک کر سکتا ہے جو کہ ہمارا مقدر ہے؟ .. تو وہ کہتا ہے: آپ لوگ میری مساوات کے ذریعے اس کا تصور کر سکتے ہیں، کیونکہ یہ واضح کرتی ہے کہ اگر خطِ مستقیم کی چوڑائی ہو تو وہ اس طرح پھیلتا چلا جائے گا کہ ایک سطح بنا لے گا.. جیسے؟ .. جیسے کیا؟.. (یقیناً یہ بات ہمارے لیے آسان ہے کیونکہ ہم مثلاً کہہ سکتے ہیں کہ اس کاغذ کی طرح کیونکہ اس کی لمبائی بھی ہے اور چوڑائی بھی).
اور پھر وہ سائنسدان خاموش ہوجاتا ہے، کیونکہ اسے اپنی دنیا میں کسی بھی “سطح دار” چیز کی کوئی بھی زندہ مثال نہیں ملتی.. اس میں صرف سیدھی لائنیں ہیں، وہاں کی مخلوقات نے ایک کے سوا کبھی کوئی دوسرا بعد دیکھا ہی نہیں، تب وہ سائنسدان کہے گا کہ: دراصل اسے سمجھانے کے لیے میں کوئی ایسا لفظ تلاش نہیں کر پارہا ہوں، میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ جو دنیا میں نے اپنی ریاضیاتی مساواتوں سے دریافت کی ہے وہ دو ابعاد میں طول و عرض (لمبائی اور چوڑائی) کی استمراری کے اور کچھ نہیں... اب وہ جتنی بھی تقریر کر لے کوئی بھی اس کا کبھی تصور نہیں کر سکے گا.. کیونکہ ان کے دماغ ایک بعد میں محدود ہیں.
اس کے بعد ہمیں چاہیے کہ ہم ایک ایسی مخلوقات کا تصور کریں جو دو ابعادی کائنات میں رہتی ہو، طول اور عرض.. یہ دو بعد ایک سطح دار رقبہ بناتے ہیں، اور ان میں یہ مخلوقات جس سمت میں چاہتی ہیں حرکت کرتی ہیں مگر وہ اوپر کی طرف کود (جمپ) نہیں سکتیں، اور نا ہی انہیں اپنی کائنات کی کوئی گہرائی نظر آتی ہے.. ان کا ادراک ان دونوں ابعاد میں محدود ہے.. ان کی دنیا میں اگر کوئی بال گرجائے، تو وہ انہیں اس طرح نظر نہیں آئے گی جس طرح وہ ہمیں اپنی دنیا میں نظر آتی ہے.. بلکہ وہ انہیں ایک دائرے کی طرح نظر آئے گی، بالکل اس طرح جس طرح اگر ہم زمین پر یا کسی سطح پر کوئی دائرہ بنائیں.. یعنی انہیں اپنی دنیا میں ہر چیز اس طرح نظر آئے گی جس طرح ہم اپنی دنیا میں کوئی سایہ دیکھتے ہیں، اور زمین پر سایہ کی نا تو کوئی اونچائی ہوتی ہے اور نا ہی گہرائی.. مختصراً یہ کہ یہ مخلوقات اوپر نیچے کا مطلب نہیں سمجھتیں، کیونکہ ان کے ادراک کا انحصار صرف دو متصل ابعاد پر ہی منحصر ہے.. طول اور عرض.
تب اگر ان میں کوئی ریاضی داں آکر یہ کہے کہ اس نے - اپنی مساواتوں کے ذریعے - ایک تیسرا بعد دریافت کیا ہے جس میں چیزیں مجسم نظر آتی ہیں.. تو لوگ حیرت سے سر ہلا کر کہیں گے کہ: مجسم چیزوں سے تمہاری کیا مراد ہے؟ .. تو وہ کہے گا: یعنی اس چیز کا ایک تیسرا بعد ہے جو اسے گہرائی دیتا ہے؟ .. تو لوگ کہیں گے کہ: تو گہرائی کا کیا مطلب ہے؟ .. تو وہ کہے گا کہ: یہ تیسرا بعد یا اونچائی ہے جس سے ہمیں کائنات میں خلاء (SPACE) نظر آئے گی جس میں چیزیں مجسم ہوسکیں گی.. جیسے.. جیسے کیا؟.. وہ سائنسدان - جو ایسی کائنات میں رہتا ہے جس کی مخلوقات صرف دو ابعاد ہی سمجھ سکتی ہیں - کچھ دیر خاموش ہوکر کہتا ہے: دراصل اسے سمجھانے کے لیے میں کوئی ایسا لفظ تلاش نہیں کر پارہا ہوں، میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ جو دنیا میں نے اپنی ریاضیاتی مساواتوں سے دریافت کی ہے وہ تین ابعاد میں طول و عرض اور گہرائی (لمبائی، چوڑائی اور اونچائی) کی استمراری کے اور کچھ نہیں.. وہ چاہے جتنا بھی تیسرے بعد یا گہرائی کا مطلب سمجھاتا رہے، اس کی دنیا کا کوئی بھی شخص تیسرے بعد کے وجود کا تصور نہیں کر سکے گا، کیونکہ ان کے دماغ صرف دو ابعاد کو ہی سمجھ سکتے ہیں.
اور اب ہم ایک تین ابعادی دنیا کی طرف آتے ہیں جس میں طول، عرض اور گہرائی موجود ہے، اس دنیا میں ہر چیز مجسم نظر آتی ہے.. پہاڑ، درخت، گھر، گاڑیاں، ہوائی جہاز، راکٹ ور ایک وسیع فضاء جسے اس دنیا کے لوگ اپنی آنکھوں اور دوربینوں سے کچھ نہ کچھ دریافت کرنے کی غرض سے تکتے ہی رہتے ہیں، انہیں اس کی گہرائی میں ہر سمت ستارے، سیارے اور کہکشائیں نظر آتی ہیں.. یہ ہماری دنیا ہے جس کا ہم ادراک رکھتے ہیں اور اپنے تمام تر احساسات سے اس میں رہتے ہیں، اور پھر ہمارے درمیان کچھ ریاضی دان نمودار ہوتے ہیں - جو اپنی ریاضیاتی مساواتوں سے - ہمیں ایک چوتھے بعد کے وجود کے بارے میں بتاتے ہیں جسے وہ زمانی بعد کا نام دیتے ہیں، اور جو ہمارے محسوس کردہ تین ابعاد میں کہیں سمایا ہوا ہے، تو ہم کہتے ہیں کہ: اس زمانی بعد کی حقیقت کیا ہے؟ تو وہ کہتے ہیں کہ: یہ سمٹتا یا پھیلتا ہے! .. تو ہم کہتے ہیں کہ: یہ کیسے ہوتا ہے؟ .. وہ جواب دیتے ہیں کہ: کیونکہ اس کا انحصار حرکت اور رفتار پر ہے؟.. تو ہم پوچھتے ہیں کہ: تو کیا ہم اسے دیکھ سکتے ہیں؟.. ان کا جواب آتا ہے کہ: صرف ریاضی کی مساواتوں کے ذریعے.. اس پر آئن سٹائن نے کہا تھا کہ: اس کے با وجود ہمیں اپنی زبان میں اسے بیان کرنے کے لیے کوئی لفظ نہیں ملتا، ہم صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ: جس دنیا میں ہم رہتے ہیں وہ سوائے زمان ومکان میں چار ابعادی کی استمراری کے سوا کچھ نہیں.. بالکل اس سائنسدان کی طرح جو اپنی ایک ابعادی دنیا میں رہتا تھا اور اس نے اپنی قوم کو دو ابعادی دنیا کا مطلب سمجھانا چاہا.. یا پھر وہ سائنسدان جو دو ابعادی دنیا کا رہائشی تھا، اور اس نے اپنی قوم کی نظر میں گہرائی شامل کرنا چاہی (گہرائی جسے ہم مکان بھی کہہ سکتے ہیں.. کیونکہ ہم اس میں مجسم جگہ گھیرتے ہیں).
اس دنیا کا کوئی بھی انسان زمان ومکان میں جاری وساری چار ابعاد میں نہیں دیکھ سکتا.. کیونکہ ہمارا ادراک اس سے قاصر ہے، اور اگر ہمیں چاروں ابعاد کی حقیقت کا ادراک ہوجائے، تو شاید مستقبل اپنے تمام تر آنے والے واقعات، اور ماضی اپنی تمام تر فانی تصویروں کے ساتھ ہم پر منکشف ہوجائے.. پر خدا کا شکر ہے کہ اس نے اسے ہم سے چھپا رکھا ہے، ورنہ شاید ہماری مصیبت بہت بڑی ہوتی.. آپ سوچ سکتے ہیں کہ اس کا کیا مطلب ہوسکتا ہے، اللہ واقعی حلیم وستار ہے.. اور “اگر تم غیب کا علم رکھتے تو حال کا ہی انتخاب کرتے”.. اتنا ہی بہت ہے.. کیونکہ ہم جس چیز کا علم نہیں رکھتے اس پر بحث نہیں کرنا چاہتے.
ہمیں اب سوال اٹھانا چاہیے کہ: اگر ہم کائنات کو زمان ومکان میں دیکھیں.. تو کیا وہ ہمیں اپنی حقیقت میں نظر آئے گی؟ .. حقیقت یہ ہے کہ ہمیں حقیقت نا تو زمان میں اور نا ہی مکان میں ہی نظر آتی ہے.. ہمیں ستارے وہاں نظر نہیں آتے جہاں وہ دراصل ہوتے ہیں، بلکہ ہمیں ان کا ماضی نظر آتا ہے.. جب وہ وہاں سینکڑوں یا شاید ہزاروں سال پہلے موجود تھے.. کیونکہ ہمیں ان کے وجود کا تعین ان سے آتی روشنی سے ہی کرنا ہوتا ہے.. اور یہ روشنی ہم تک سینکڑوں یا کروڑوں نوری سالوں میں ہی پہنچ پاتی ہے.. یعنی ان کی روشنی جو اس وقت ہم تک پہنچ رہی ہے وہ دراصل ایک طویل عرصہ پہلے بھیجی گئی تھی، چنانچہ ہم اس وقت ان کے وجود اور مقام کا تعین نہیں کر سکتے، بلکہ یہ دیکھتے ہیں کہ وہ ایک طویل عرصہ پہلے کہاں اور کیسے تھے، کیونکہ وہ ہمیشہ زمان ومکان میں حرکت کرتے رہتے ہیں، اور چونکہ ہم چشمِ زدن میں زمان ومکان کو سمجھنے سے قاصر ہیں، اس لیے ہمیں کائنات میں ہر چیز اپنی حقیقت پر نظر آتی ہے، اس کی وجہ ہمارے قاصر دماغ، اور ہمارے حواس ہیں جو صرف تنگ حدود میں ہی دیکھتے اور سنتے ہیں.. بہرحال یہ ایک الگ طویل بحث ہے جس کی یہاں گنجائش نہیں.
تو یہ تھا خصوصی نظریہ اضافیت کا کچھ سطحی سا بیان، کیونکہ اس کا ریاضیاتی مطلب اس سے کہیں گہرا ہے جو بیان کیا گیا ہے، ہم قاری کو علمی بھول بھلیا میں دھکیلنا نہیں چاہتے تھے، اس میں کچھ میری کم علمی کا بھی دخل ہے، اسے کامیابی سے پیش کرنے کی میں صرف امید ہی کرسکتا ہوں.
یہ صفحات سمیٹنے سے پہلے یہ کہنا لازمی ہے کہ صرف اللہ کو ہی ہر چیز کے علم کا احاطہ ہے، اسے چشمِ زدن میں، شروع سے آخر تک اپنی بنائی ہوئی کائنات اپنی مطلق حقیقی حالت میں نظر آتی ہے، اس نے اس عظیم کائنات کے راز دریافت کرنے کے لیے ہمیں عقل دی ہے، شاید کبھی ہم حقیقت تک پہنچ سکیں.. یہاں کوئی کہہ سکتا ہے کہ حقیقت سے ہماری کیا مراد ہے جبکہ نظریہ اضافیت ہر چیز کو اضافیتی (یا نسبتی) ثابت کرتا ہے؟ .. اور اگر یہی بات ہے، تو کیا کبھی انسان مطلق حقیقت تک پہنچ سکے گا؟ .. اور اگر پہنچ گیا تو اس کا کیا مطلب ہوگا؟
اگر ہم فرض کریں کہ انسان نے مطلق حقیقت دریافت کر لی ہے، تب وہ اپنے خالق کے مرتبہ پر ہوگا، اور یہ ہو نہیں سکتا کہ کبھی مخلوق خالق کے مرتبہ پر پہنچ سکے، کیونکہ وہ کُل میں سے صرف ایک جزو ہے، اس لیے انسان جو بھی کچھ دریافت کرتا ہے وہ دراصل نسبتی حقیقت ہے نا کہ مطلق، کیونکہ مطلق صرف اللہ کے لیے ہے اور اس کے سوا سب کچھ نسبتی.
اور پھر کچھ بھی ہو، کائنات کے راز کبھی ختم نہیں ہوں گے.. کیونکہ یہ ایک سمندر ہے جس کا ہم نے ابھی صرف ایک قطرہ ہی حاصل کیا ہے.. اور اس ایک قطرے کو لے کر ہم اتنے پریشان ہیں.. کائنات کے متلاطم رازوں کے سامنے ہماری عقل ہمیشہ مبتلائے حیرت رہے گی.
ختم شدہ
کائنات کو آئن سٹائن نے اسی طرح بیان کیا جیسا کہ اسے وہ اپنی ریاضیاتی مساواتوں میں نظر آتی تھی، اور جیسا کہ دیگر ریاضی دانوں کو نظر آتی ہے.. صرف اسی زبان سے - ریاضیاتی سائنس کی زبان - وہ ہمارے ارد گرد پھیلی ہوئی کائنات کی حقیقت سے قریب تر تصویر نکالنے کی کوشش کرتے ہیں، اس کے با وجود ہم عقل سے اس کا ادراک اور اپنے خیال سے اس کا تصور نہیں کر سکتے.
چار ابعادی کائنات سے آئن سٹائن کی کیا مراد تھی، اسے سمجھنے کے لیے ہم اپنے تخیل کے کچھ گھوڑے دوڑانے کی کوشش کرتے ہیں.. اور ایک ایسی مخلوقات کا تصور کرتے ہیں جو صرف ایک ابعادی کائنات میں رہتی ہے.. اس صورت میں ان مخلوقات کو اپنaی دنیا اس طرح نظر نہیں آئے گی جس طرح کہ ہمیں اپنی دنیا نظر آتی ہے.. وہ جب حرکت کرتے ہیں تو گویا صراطِ مستقیم پر ہوتے ہیں، یعنی صرف خطِ مستقیم پر ہی حرکت کر سکتے ہیں.. انہیں نہیں معلوم کہ دائیں بائیں کس طرح جایا جائے، کیونکہ انہیں دائیں بائیں کے معنی کا ادراک ہی نہیں.. وہ صرف ایک ہی بعد جانتے ہیں یعنی وہ پتلی سی لائن جس کے اندر انہیں صرف آگے اور پیچھے حرکت کرنی ہے اور بس.. جس طرح چیونٹی ایک لمبی پتلی لائن میں چلتی ہے یا جس طرح سرکس کا وہ کھلاڑی جو رسی پر چلتا ہے جس میں وہ صرف آگے یا پیچھے ہی جاسکتا ہے.. اس ایک ابعادی کائنات کی مخلوق کچھ ایسی ہی ہوگی.. وہ اسی میں پیدا ہوئی اور اسی کی عادی ہوگئی اسی لیے اسے اس میں کوئی بھی غیر معمولی چیز نظر نہیں آتی.. ان کے لیے یہ ایک قطعی منطقی اور معقول دنیا ہے.. بالکل جس طرح ہم اپنی دنیا کو دیکھتے ہیں.
اور اب فرض کرتے ہیں کہ اس ایک ابعادی دنیا میں ایک ریاضیاتی سائنس دان آتا ہے اور اپنی کائنات پر ذرا گہرے انداز میں غور وفکر کرتا ہے اور اپنی ریاضیاتی مساواتوں سے ایک دوسرا بعد دریافت کرتا ہے جسے وہ “چوڑائی” کا نام دیتا ہے.. اور جب وہ اپنی دنیا کی مخلوقات میں اپنی دریافت کا اعلان کرتا ہے تو کوئی اعتراضاً اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور کہتا ہے: تمہاری چوڑائی جائے بھاڑ میں، یہ فلسفہ اپنے پاس ہی رکھو، ہمیں تم پر یقین نہیں، تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے.
مگر کچھ سمجھدار لوگ اس سے اس معاملے پر بحث کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ: اس دوسرے بعد سے تمہارا کیا مطلب ہے جسے تم نے “چوڑائی” کا نام دیا ہے؟ .. تو جواباً وہ کہتا ہے کہ: اس کا مطلب ایک سطح یا رقبے کا وجود ہے جس میں ہم کسی بھی سمت میں گھوم سکتے ہیں.. تو وہ کہتے ہیں: یہ سطح اور سمت سے تمہاری کیا مراد ہے، ہمارا دماغ تو صرف یہی ایک واحد بعد ہی کا ادراک کر سکتا ہے جو کہ ہمارا مقدر ہے؟ .. تو وہ کہتا ہے: آپ لوگ میری مساوات کے ذریعے اس کا تصور کر سکتے ہیں، کیونکہ یہ واضح کرتی ہے کہ اگر خطِ مستقیم کی چوڑائی ہو تو وہ اس طرح پھیلتا چلا جائے گا کہ ایک سطح بنا لے گا.. جیسے؟ .. جیسے کیا؟.. (یقیناً یہ بات ہمارے لیے آسان ہے کیونکہ ہم مثلاً کہہ سکتے ہیں کہ اس کاغذ کی طرح کیونکہ اس کی لمبائی بھی ہے اور چوڑائی بھی).
اور پھر وہ سائنسدان خاموش ہوجاتا ہے، کیونکہ اسے اپنی دنیا میں کسی بھی “سطح دار” چیز کی کوئی بھی زندہ مثال نہیں ملتی.. اس میں صرف سیدھی لائنیں ہیں، وہاں کی مخلوقات نے ایک کے سوا کبھی کوئی دوسرا بعد دیکھا ہی نہیں، تب وہ سائنسدان کہے گا کہ: دراصل اسے سمجھانے کے لیے میں کوئی ایسا لفظ تلاش نہیں کر پارہا ہوں، میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ جو دنیا میں نے اپنی ریاضیاتی مساواتوں سے دریافت کی ہے وہ دو ابعاد میں طول و عرض (لمبائی اور چوڑائی) کی استمراری کے اور کچھ نہیں... اب وہ جتنی بھی تقریر کر لے کوئی بھی اس کا کبھی تصور نہیں کر سکے گا.. کیونکہ ان کے دماغ ایک بعد میں محدود ہیں.
اس کے بعد ہمیں چاہیے کہ ہم ایک ایسی مخلوقات کا تصور کریں جو دو ابعادی کائنات میں رہتی ہو، طول اور عرض.. یہ دو بعد ایک سطح دار رقبہ بناتے ہیں، اور ان میں یہ مخلوقات جس سمت میں چاہتی ہیں حرکت کرتی ہیں مگر وہ اوپر کی طرف کود (جمپ) نہیں سکتیں، اور نا ہی انہیں اپنی کائنات کی کوئی گہرائی نظر آتی ہے.. ان کا ادراک ان دونوں ابعاد میں محدود ہے.. ان کی دنیا میں اگر کوئی بال گرجائے، تو وہ انہیں اس طرح نظر نہیں آئے گی جس طرح وہ ہمیں اپنی دنیا میں نظر آتی ہے.. بلکہ وہ انہیں ایک دائرے کی طرح نظر آئے گی، بالکل اس طرح جس طرح اگر ہم زمین پر یا کسی سطح پر کوئی دائرہ بنائیں.. یعنی انہیں اپنی دنیا میں ہر چیز اس طرح نظر آئے گی جس طرح ہم اپنی دنیا میں کوئی سایہ دیکھتے ہیں، اور زمین پر سایہ کی نا تو کوئی اونچائی ہوتی ہے اور نا ہی گہرائی.. مختصراً یہ کہ یہ مخلوقات اوپر نیچے کا مطلب نہیں سمجھتیں، کیونکہ ان کے ادراک کا انحصار صرف دو متصل ابعاد پر ہی منحصر ہے.. طول اور عرض.
تب اگر ان میں کوئی ریاضی داں آکر یہ کہے کہ اس نے - اپنی مساواتوں کے ذریعے - ایک تیسرا بعد دریافت کیا ہے جس میں چیزیں مجسم نظر آتی ہیں.. تو لوگ حیرت سے سر ہلا کر کہیں گے کہ: مجسم چیزوں سے تمہاری کیا مراد ہے؟ .. تو وہ کہے گا: یعنی اس چیز کا ایک تیسرا بعد ہے جو اسے گہرائی دیتا ہے؟ .. تو لوگ کہیں گے کہ: تو گہرائی کا کیا مطلب ہے؟ .. تو وہ کہے گا کہ: یہ تیسرا بعد یا اونچائی ہے جس سے ہمیں کائنات میں خلاء (SPACE) نظر آئے گی جس میں چیزیں مجسم ہوسکیں گی.. جیسے.. جیسے کیا؟.. وہ سائنسدان - جو ایسی کائنات میں رہتا ہے جس کی مخلوقات صرف دو ابعاد ہی سمجھ سکتی ہیں - کچھ دیر خاموش ہوکر کہتا ہے: دراصل اسے سمجھانے کے لیے میں کوئی ایسا لفظ تلاش نہیں کر پارہا ہوں، میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ جو دنیا میں نے اپنی ریاضیاتی مساواتوں سے دریافت کی ہے وہ تین ابعاد میں طول و عرض اور گہرائی (لمبائی، چوڑائی اور اونچائی) کی استمراری کے اور کچھ نہیں.. وہ چاہے جتنا بھی تیسرے بعد یا گہرائی کا مطلب سمجھاتا رہے، اس کی دنیا کا کوئی بھی شخص تیسرے بعد کے وجود کا تصور نہیں کر سکے گا، کیونکہ ان کے دماغ صرف دو ابعاد کو ہی سمجھ سکتے ہیں.
اور اب ہم ایک تین ابعادی دنیا کی طرف آتے ہیں جس میں طول، عرض اور گہرائی موجود ہے، اس دنیا میں ہر چیز مجسم نظر آتی ہے.. پہاڑ، درخت، گھر، گاڑیاں، ہوائی جہاز، راکٹ ور ایک وسیع فضاء جسے اس دنیا کے لوگ اپنی آنکھوں اور دوربینوں سے کچھ نہ کچھ دریافت کرنے کی غرض سے تکتے ہی رہتے ہیں، انہیں اس کی گہرائی میں ہر سمت ستارے، سیارے اور کہکشائیں نظر آتی ہیں.. یہ ہماری دنیا ہے جس کا ہم ادراک رکھتے ہیں اور اپنے تمام تر احساسات سے اس میں رہتے ہیں، اور پھر ہمارے درمیان کچھ ریاضی دان نمودار ہوتے ہیں - جو اپنی ریاضیاتی مساواتوں سے - ہمیں ایک چوتھے بعد کے وجود کے بارے میں بتاتے ہیں جسے وہ زمانی بعد کا نام دیتے ہیں، اور جو ہمارے محسوس کردہ تین ابعاد میں کہیں سمایا ہوا ہے، تو ہم کہتے ہیں کہ: اس زمانی بعد کی حقیقت کیا ہے؟ تو وہ کہتے ہیں کہ: یہ سمٹتا یا پھیلتا ہے! .. تو ہم کہتے ہیں کہ: یہ کیسے ہوتا ہے؟ .. وہ جواب دیتے ہیں کہ: کیونکہ اس کا انحصار حرکت اور رفتار پر ہے؟.. تو ہم پوچھتے ہیں کہ: تو کیا ہم اسے دیکھ سکتے ہیں؟.. ان کا جواب آتا ہے کہ: صرف ریاضی کی مساواتوں کے ذریعے.. اس پر آئن سٹائن نے کہا تھا کہ: اس کے با وجود ہمیں اپنی زبان میں اسے بیان کرنے کے لیے کوئی لفظ نہیں ملتا، ہم صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ: جس دنیا میں ہم رہتے ہیں وہ سوائے زمان ومکان میں چار ابعادی کی استمراری کے سوا کچھ نہیں.. بالکل اس سائنسدان کی طرح جو اپنی ایک ابعادی دنیا میں رہتا تھا اور اس نے اپنی قوم کو دو ابعادی دنیا کا مطلب سمجھانا چاہا.. یا پھر وہ سائنسدان جو دو ابعادی دنیا کا رہائشی تھا، اور اس نے اپنی قوم کی نظر میں گہرائی شامل کرنا چاہی (گہرائی جسے ہم مکان بھی کہہ سکتے ہیں.. کیونکہ ہم اس میں مجسم جگہ گھیرتے ہیں).
اس دنیا کا کوئی بھی انسان زمان ومکان میں جاری وساری چار ابعاد میں نہیں دیکھ سکتا.. کیونکہ ہمارا ادراک اس سے قاصر ہے، اور اگر ہمیں چاروں ابعاد کی حقیقت کا ادراک ہوجائے، تو شاید مستقبل اپنے تمام تر آنے والے واقعات، اور ماضی اپنی تمام تر فانی تصویروں کے ساتھ ہم پر منکشف ہوجائے.. پر خدا کا شکر ہے کہ اس نے اسے ہم سے چھپا رکھا ہے، ورنہ شاید ہماری مصیبت بہت بڑی ہوتی.. آپ سوچ سکتے ہیں کہ اس کا کیا مطلب ہوسکتا ہے، اللہ واقعی حلیم وستار ہے.. اور “اگر تم غیب کا علم رکھتے تو حال کا ہی انتخاب کرتے”.. اتنا ہی بہت ہے.. کیونکہ ہم جس چیز کا علم نہیں رکھتے اس پر بحث نہیں کرنا چاہتے.
ہمیں اب سوال اٹھانا چاہیے کہ: اگر ہم کائنات کو زمان ومکان میں دیکھیں.. تو کیا وہ ہمیں اپنی حقیقت میں نظر آئے گی؟ .. حقیقت یہ ہے کہ ہمیں حقیقت نا تو زمان میں اور نا ہی مکان میں ہی نظر آتی ہے.. ہمیں ستارے وہاں نظر نہیں آتے جہاں وہ دراصل ہوتے ہیں، بلکہ ہمیں ان کا ماضی نظر آتا ہے.. جب وہ وہاں سینکڑوں یا شاید ہزاروں سال پہلے موجود تھے.. کیونکہ ہمیں ان کے وجود کا تعین ان سے آتی روشنی سے ہی کرنا ہوتا ہے.. اور یہ روشنی ہم تک سینکڑوں یا کروڑوں نوری سالوں میں ہی پہنچ پاتی ہے.. یعنی ان کی روشنی جو اس وقت ہم تک پہنچ رہی ہے وہ دراصل ایک طویل عرصہ پہلے بھیجی گئی تھی، چنانچہ ہم اس وقت ان کے وجود اور مقام کا تعین نہیں کر سکتے، بلکہ یہ دیکھتے ہیں کہ وہ ایک طویل عرصہ پہلے کہاں اور کیسے تھے، کیونکہ وہ ہمیشہ زمان ومکان میں حرکت کرتے رہتے ہیں، اور چونکہ ہم چشمِ زدن میں زمان ومکان کو سمجھنے سے قاصر ہیں، اس لیے ہمیں کائنات میں ہر چیز اپنی حقیقت پر نظر آتی ہے، اس کی وجہ ہمارے قاصر دماغ، اور ہمارے حواس ہیں جو صرف تنگ حدود میں ہی دیکھتے اور سنتے ہیں.. بہرحال یہ ایک الگ طویل بحث ہے جس کی یہاں گنجائش نہیں.
تو یہ تھا خصوصی نظریہ اضافیت کا کچھ سطحی سا بیان، کیونکہ اس کا ریاضیاتی مطلب اس سے کہیں گہرا ہے جو بیان کیا گیا ہے، ہم قاری کو علمی بھول بھلیا میں دھکیلنا نہیں چاہتے تھے، اس میں کچھ میری کم علمی کا بھی دخل ہے، اسے کامیابی سے پیش کرنے کی میں صرف امید ہی کرسکتا ہوں.
یہ صفحات سمیٹنے سے پہلے یہ کہنا لازمی ہے کہ صرف اللہ کو ہی ہر چیز کے علم کا احاطہ ہے، اسے چشمِ زدن میں، شروع سے آخر تک اپنی بنائی ہوئی کائنات اپنی مطلق حقیقی حالت میں نظر آتی ہے، اس نے اس عظیم کائنات کے راز دریافت کرنے کے لیے ہمیں عقل دی ہے، شاید کبھی ہم حقیقت تک پہنچ سکیں.. یہاں کوئی کہہ سکتا ہے کہ حقیقت سے ہماری کیا مراد ہے جبکہ نظریہ اضافیت ہر چیز کو اضافیتی (یا نسبتی) ثابت کرتا ہے؟ .. اور اگر یہی بات ہے، تو کیا کبھی انسان مطلق حقیقت تک پہنچ سکے گا؟ .. اور اگر پہنچ گیا تو اس کا کیا مطلب ہوگا؟
اگر ہم فرض کریں کہ انسان نے مطلق حقیقت دریافت کر لی ہے، تب وہ اپنے خالق کے مرتبہ پر ہوگا، اور یہ ہو نہیں سکتا کہ کبھی مخلوق خالق کے مرتبہ پر پہنچ سکے، کیونکہ وہ کُل میں سے صرف ایک جزو ہے، اس لیے انسان جو بھی کچھ دریافت کرتا ہے وہ دراصل نسبتی حقیقت ہے نا کہ مطلق، کیونکہ مطلق صرف اللہ کے لیے ہے اور اس کے سوا سب کچھ نسبتی.
اور پھر کچھ بھی ہو، کائنات کے راز کبھی ختم نہیں ہوں گے.. کیونکہ یہ ایک سمندر ہے جس کا ہم نے ابھی صرف ایک قطرہ ہی حاصل کیا ہے.. اور اس ایک قطرے کو لے کر ہم اتنے پریشان ہیں.. کائنات کے متلاطم رازوں کے سامنے ہماری عقل ہمیشہ مبتلائے حیرت رہے گی.
ختم شدہ
Page 1 of 1
Permissions in this forum:
You cannot reply to topics in this forum
Tue Feb 04, 2020 6:49 pm by munsab
» گوگل کرُوم
Tue Dec 03, 2019 8:35 pm by Munsab Ali
» فوٹو شاپ
Tue Dec 03, 2019 8:33 pm by Munsab Ali
» شمشیر بے نیام قسط نمبر 2
Sat Nov 30, 2019 11:25 pm by Munsab Ali
» شمشیر بے نیام قسط نمبر 1
Sat Nov 30, 2019 9:56 pm by Munsab Ali
» متنازع سائبر کرائم بل 2015 متفقہ طور پر منظور کرلیا۔ -
Wed Jul 27, 2016 11:54 am by Munsab Ali
» All in One
Fri Dec 25, 2015 10:23 pm by RASHID KHAN
» Best Action Movies 2015 English Hollywood - TOM CRUISE - New Adventure Movies 2015
Thu Dec 10, 2015 2:05 pm by Munsab Ali
» Shinobido - Ninja
Thu Dec 10, 2015 1:53 pm by Munsab Ali