ھمیں جس ملکِ یزداں میں رہنے کی سعادتِ سعید نصیب ہویؑ ہے اس بھشتِ بریں کا اسمِ تکلم پاکستان ہے
Page 1 of 1
ھمیں جس ملکِ یزداں میں رہنے کی سعادتِ سعید نصیب ہویؑ ہے اس بھشتِ بریں کا اسمِ تکلم پاکستان ہے
ھمیں جس ملکِ یزداں میں رہنے کی سعادتِ سعید نصیب ہویؑ ہے اس بھشتِ بریں کا اسمِ تکلم پاکستان ہے۔ پاکستان کی چار اقسام ہیں:
1۔ نیا پاکستان (خیبر پختونخوا)
2۔ پرانا پاکستان (پنجاب)
3۔ مشکوک پاکستان (بلوچستان)
4۔ گیا پاکستان (سندھ)
پاکستان کو اقوامِ عالم میں دائمی مقبولیت حاصل ہے اور یہ حسین حادثہ محض ابھی رونما نہیں ہوا بلکہ کیؑ صدیوں سے ہم اس مسند پر نہایت کروفر سے اور مکمل اطمنعان سے براجمان ہیں۔ کرہِ ارض کے اس خطے کو محمد بن قاسم، محمود غزنوی،ابدالی،مغل،راجپوتوں اور شاہ سوریوں جیسے دیدہ ور نصیب ہوےؑ ہیں جنہوں نے اس سرزمینِ مسلمانان پر راجہ داہر جیسے کافر، بد قماش اور بد کردار لوگ اٹھا کر تاریخ کے کچرے میں پھینک دیے۔ اس خطہِ سرزمین کی لوگوں کے دلوں میں اتنی محبت ہے کہ لوگ عراق، یونان، اور قسطنطنیہ سے یہاں حج کرنے آتے ہیں۔
محمد بن قاسم بھی ایک ایسا ہی حاجی تھا جسے گائے کی کھال میں سی کار واپس عرب لے جایا گیا۔ مشہور حاجیوں میں محمود غزنوی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ موصوف کو اس سرزمین کی دن میں پل پل یاد ستاتی تھی اور ان کی مضطرب اور بےچیین طبیعت کو تبھی چین آیا جب انہوں نے سوغات کے طور پر سومنات کے بت کی ناک کی بالی اتار کر اپنی پوشاک کی اندر والی جیب میں ڈال لی۔ ہندو ظالموں کے کام دیکھو، ایک بت کو سونے، چاندی کے چڑھاوے چڑھا کر سب ضایعؑ کرتے ہیں، بندہ کسی مسلمان کو ہی دے دیتا ہے۔ خیر ہندو بدھو لوگ ھوتے ہیں اور انکا یہی بدھوپن انہیں لے ڈوبے گا۔
پاکستان میں چار صوبوں کی عوام رہتی ہے جو فلاں ترتیب میں ہیں:-
پنجابی ایک بہت وسیع القلب قوم ہے جس نے اس ملک میں دوسری چھوٹی موٹی قوموں، جن میں سندھی،بلوچی اور پختون، سرایکی وغیرہ شامل ہیں، کو رہنے کی جگہ اور کھانے کو روٹی دے رکھی ہے۔ آج کے اس مادہ پرست دور میں ایسی فراخدِلی عنقا ہو چکی ہے۔ پنجابیوں کا ان بھوکے ننگے لوگوں پر یہ احسانِ عظیم تاریخ کے سنہرے حروف میں لکھا جانا چاہیے۔ پنجابیوں نے ایک اور شودر ذات بنگالیوں کی تین لاکھ لڑکیوں کو بھی اپنی مہمان نوازی پیش کی تھی مگر بنگالی چونکہ تھوڑے کوڑھ مغز واقع ہوےؑ ہیں، اس لےؑ وہ ناراض ھو گےؑ، بھیؑ پیار ہی تو کیا تھا کونسا غلط کام کیا تھا؟ آج وہ پاگل بنگالی لادینیت کی طرف سرگرداں ہیں اور دین و آخرت کی تباہی اپنے نام کرا چکے ہیں۔ انکا (جی – ڈی – پی) گروتھ پاکستان سے کہیں زیادہ ہے مگر سیانے کہتے ہیں کہ یہ شعلے کا بجھنے سے پہلے آخری بار ٹمٹمانا ہے۔ صحیح ہی کہتے ہیں۔
اچھایؑ کے مخالف ہمیشہ موجود ہوتے ہیں۔ ان پاگل بلوچوں کو ہی لے لیجےؑ۔ کھانے کو من و سلویٰ اور پینے کو جامِ کوثر مِلتا ہے مگر کتے کی دم ہے کہ ٹیڑھی ہی رہے گی۔ کہتے ہیں ہمیں آزادی چاہیے۔ کویؑ کرنے والی بات ہے یہ بھلا؟ بلوچوں کو مکمل آزادی ہے کہ وہ کسی بھی وقت رینجرز کی گولیوں کا نشانہ بن سکتے ہیں، اب اس سے زیادہ کیا چاہتے ہیں وہ؟ فی امان الحفیظ ! یہی خلش ان کند مغز سندھیوں کو بھی ستا رہی ہے۔ یہ سب بنی اسراییلؑ کی طرح ہیں۔ اپنی حرکتوں کی وجہ سے رحمت و برکت سے دور صحرا میں بھٹکنا چاہتے ہیں۔ باولے ہیں سب۔
شکر ہے کہ ابھی کچھ اصحابِ عقل یہاں موجود ہیں۔ ان عظیم دانشوروں، تاریخ سازوں، عالموں، عاقبت اندیشوں اور بزرگانِ قوم میں علامہ اوریا مقبول جان، مفتی انصار عباسی، مولوی ہارون الرشید اور کمانڈر زید حامد شامِل ہیں۔ ان حضراتِ باکمال کی وجہ سے پاکستان پر اللہ کا قہر نازل ہونے سے رکا ہوا ہے اور ہم طوفانِ نوح جیسی کسی آفت سے بچے ہوےؑ ہیں۔ چند شریر لوگوں نے ان جیسا مرتبہ حاصل کرنے کی سعیِ ناتمام کی تھی۔ عبد السلام بھی ایک ایسا ہی دماغ سے پیدل شخص تھا جسے پتہ نہیں کس سرپِھرے نے نیوکلیایؑ طبیعات میں ڈِگری دے دی تھی۔ ہمت تو دیکھو اس کافر کی، کس بے باقی سے خود کو پاکستانی اور اس سے بڑھ کر ظلم، خود کو مسلمان کہتا تھا۔ صحیح ہوا اس نامعقول آدمی کے ساتھ اور اسکی قبر کے ساتھ ۔
اس قوم نے چند سر پھرے بھی پیدا کیے ہیں، جن میں جون ایلیا، منٹو جیسے لوگ بھی شامل ہیں۔ عجیب ہی لوگ تھے کہتے تھے ” ہم پچھلے ایک ہزار برس سے تاریخ کے دستر خوان پر حرام خوری کے سوِا کچھ بھی نہیں کر رہے. پاکستان یقیناَ ایک موجزہ ہے ایک ایسا موجزہ 1971 میں جسکے چاند کی طرح دو ٹکڑے کر دئیے گئے تھے، اسکو ہم سب ملکر گندہ کریں گے، اپنے سواء ہر کسی کہ کافر کہہ کر ماریں گے کرپشن اپنے عروج پر ہوگی، حکمراں کرپٹ ترین ہونگے ڈالر کی قیمت کم ہونے کے باواجود مہنگائی کا ننگا ناچ ہوگا، مگر پھر بھی شرم نہ کرنا دوستو: کیوں کے پاکستان کی جاہل عوام کے عظیم مفکر بابا اشفاق احمد فرما گئے ہیں کہ پاکستان قیامت تک قائم رہنے کے لئیے بنا ہے، تو کیا ہوا اگر یہ اپنی پیدائش کے محض چوبیس سال بعد ہی ٹوٹ گیا تو، بابا نے شاید باقی مانندہ پاکستان کے لئیے یہ ارشادِ عظیم فرمایا ہوگا، چلو جی جو کرنا ہے کرو، اسے تو تباہ ہونا نہیں ہے تو پھر ہم کیوں ہاتھہ ہولا رکھیں؟ لٹوتے پھٹو۔۔۔۔۔۔ جئے نواز شریف، جئے عمران خان، جئے بھٹو۔
کیا قوم ہیں ہم نہ جیت میں وقار نہ ہار میں بردباری۔
by fikrepakistan
قتل و غارت کے دوران، طالبان کے ہاتھوں ہر روز معصوم لوگوں کی شہادت کے دوران، تھر میں قحط سے سینکڑوں بچوں کی ہلاکت کے دوران آپکو اپنی خوشی منانے کا پورا حق حاصل ہے، لیکن کسی کو بھی کسی کے غم کا مذاق اڑا کر اپنی خوشی منانے کا حق ہرگز حاصل نہیں ہے، یہ خوشی کی فطرت کے خلاف ہے کہ کسی کے ماتم کو بنیاد بنا کر اپنی خوشی کی بنیاد رکھی جائے، پاکستان کی ٹیم بنگلہ دیش سے جیتی اس پر خوش ہونا ہر پاکستانی کا حق بنتا ہے لیکن ہارے ہوئے لوگوں کے روتے ہوئے چہروں کو اخباروں میں شہہ سرخیوں کے ساتھ شائع کرنا کہ پاکستانی ٹیم نے بنگلہ دیشیوں کو سر پکڑنے پر مجبور کر دیا، بنگلہ دیشیوں کا رو رو کار برا حال، اور اس ہی طرح کی گھٹیا قسم کی شہہ سرخیاں لگائی گئیں جنکا اخلاقیات سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوسکتا، یہ ہی رویہ سوشل میڈیا پر بھی دیکھنے میں آیا۔
سری لنکا کی بیٹنگ شروع ہونے سے پہلے میں مجبور ہوگیا اپنے فیس بک وال پر یہ میسچ شیئر کرنے پر،
میں نہیں چاہتا کے پاکستان یہ میچ جیتے، کیوں کے اگر پاکستان میچ جیت گیا تو یہ جانور جنہیں خوشی منانے تک کا سلیقہ نہیں ہے یہ پھر سے ہوائی فائرنگ کریں گے اور پھر سے اسکی زد میں آکر کتنی ہی معصوم جانیں جائیں گی، اگر ایک میچ ہار کے ہم کچھہ معصوم جانیں بچا سکتے ہیں تو یہ بہت ہی سستا سودا ہوگا۔ جس قوم میں سمائی نہ ہو اس قوم کو خوشی منانے کا بھی کوئی حق نہیں ہوتا۔
اب زرا تصور کریں کہ اگر دنیا ہمارے غم پر ہنسنے پر آجائے تو کیا ہوگا؟ ہمیں تو دنیا کے غم پر ہنسنے کا موقع کبھی پانچ دس سال میں ایک دو بار ہی ملتا ہے، اگر دنیا بھی ہماری روش اپنا لے تو دنیا کو یہ مواقعے ہر روز بلکے ایک دن میں کئی کئی بار میسر آئیں گے، کہیں خودکش حملے، کہیں فائرنگ سے اموات، کہیں بھوک ننگ قحط سے اموات، کہیں نوزائیدہ بچی کے ساتھہ زنا، تو کہیں حج میں کرپشن، کہیں مسجد میں بم دھماکہ، کوئی ایک وجہ ملے گی دنیا کو ہم پر ہنسنے کی؟ اتنا ہنسے گی دنیا کہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوجائیں گے لوگ، انکا اتنا خون بنے گا کے انکے بلڈ بینکوں پر تالے پڑ جائیں گے۔
میں نے آج سری لنکا کے تمام اخبارات سرچ کر ڈالے مگر کہیں ڈھونڈنے سے بھی کوئی ایک تصویر ایسی نہ مل سکی جس سے یہ تاثر بھی ملتا ہو کہ سری لنکن نے پاکستانی شائقین کے ہار کے غم کا جشن منایا ہے، انکے تمام اخبارات نے اپنی ٹیم کی جیت کی خبر انتہائی با وقار طریقے سے شائع کی، تمام اخبارات میں ایک جیسے ہی تصاویریں تھیں کہیں کسی اخبار میں ہارنے والے شائقین کی ماتم کرتی تصاویر کا شائبہ تک نظر نہیں آیا، یہ ہوتے ہیں انسان اور یہ ہوتا ہے خوشی کو با وقار طریقے سے منانے کا طریقہ۔
آج سمجھہ میں آیا کے کیسے سری لنکا نے تامل ٹائیگر جیسے عفریت کو اپنی قوم کے ساتھہ مل کر صفحہِ ہستی سے مٹا دیا، اور ہم پاکستانی کیوں آج مٹھی بھر طالبان دہشتگردوں کے آگے مذاکرات کی میز سجائے رحم کی بھیک مانگنے پر مجبور ہیں، مشہور محاورہ ہے، مارننگ شوز دی ڈے، ہمارے روئیے اگر اب بھی نہ بدلے تو وہ وقت دور نہیں جب دنیا کو ہم پر ہنسنے تک کی توفیق نہ ہوگی۔
اب آپ فرق دیکھہ لیجئیے یہ ہے وہ تصویر جو ایشیاء کپ جیتنے کے بعدتمام سری لنکن اخباروں میں آج شائع ہوئی ہے
اور یہ ہیں وہ تصویریں جو بنگلہ دیش سے محض راونڈ کا میج جیتنے کے بعد پاکستانی اخباروں اور سوشل میڈیا پر شائع ہوئی ہیں، ان تصاویر کو دیکھہ کر مجھے ایک لطیفہ یاد آگیا، کڑکے چوھدری صاحب سڑک پر خوشی سے لڈیاں ڈال رہے تھے ناچ ناچ کار بے حال ہوئے جارہے تھے، کسی نے پوچھا خیریت ہے چوھدری صاحب آج پی لی ہے کیا؟ چوھدری صاحب لڈی ڈالتے ہوئے بولے نہیں ابھی تو منگوائی ہے۔
1۔ نیا پاکستان (خیبر پختونخوا)
2۔ پرانا پاکستان (پنجاب)
3۔ مشکوک پاکستان (بلوچستان)
4۔ گیا پاکستان (سندھ)
پاکستان کو اقوامِ عالم میں دائمی مقبولیت حاصل ہے اور یہ حسین حادثہ محض ابھی رونما نہیں ہوا بلکہ کیؑ صدیوں سے ہم اس مسند پر نہایت کروفر سے اور مکمل اطمنعان سے براجمان ہیں۔ کرہِ ارض کے اس خطے کو محمد بن قاسم، محمود غزنوی،ابدالی،مغل،راجپوتوں اور شاہ سوریوں جیسے دیدہ ور نصیب ہوےؑ ہیں جنہوں نے اس سرزمینِ مسلمانان پر راجہ داہر جیسے کافر، بد قماش اور بد کردار لوگ اٹھا کر تاریخ کے کچرے میں پھینک دیے۔ اس خطہِ سرزمین کی لوگوں کے دلوں میں اتنی محبت ہے کہ لوگ عراق، یونان، اور قسطنطنیہ سے یہاں حج کرنے آتے ہیں۔
محمد بن قاسم بھی ایک ایسا ہی حاجی تھا جسے گائے کی کھال میں سی کار واپس عرب لے جایا گیا۔ مشہور حاجیوں میں محمود غزنوی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ موصوف کو اس سرزمین کی دن میں پل پل یاد ستاتی تھی اور ان کی مضطرب اور بےچیین طبیعت کو تبھی چین آیا جب انہوں نے سوغات کے طور پر سومنات کے بت کی ناک کی بالی اتار کر اپنی پوشاک کی اندر والی جیب میں ڈال لی۔ ہندو ظالموں کے کام دیکھو، ایک بت کو سونے، چاندی کے چڑھاوے چڑھا کر سب ضایعؑ کرتے ہیں، بندہ کسی مسلمان کو ہی دے دیتا ہے۔ خیر ہندو بدھو لوگ ھوتے ہیں اور انکا یہی بدھوپن انہیں لے ڈوبے گا۔
پاکستان میں چار صوبوں کی عوام رہتی ہے جو فلاں ترتیب میں ہیں:-
1۔ پنجابی
2۔ پنجابی
3۔ پنجابی
4۔ پنجابی
پنجابی ایک بہت وسیع القلب قوم ہے جس نے اس ملک میں دوسری چھوٹی موٹی قوموں، جن میں سندھی،بلوچی اور پختون، سرایکی وغیرہ شامل ہیں، کو رہنے کی جگہ اور کھانے کو روٹی دے رکھی ہے۔ آج کے اس مادہ پرست دور میں ایسی فراخدِلی عنقا ہو چکی ہے۔ پنجابیوں کا ان بھوکے ننگے لوگوں پر یہ احسانِ عظیم تاریخ کے سنہرے حروف میں لکھا جانا چاہیے۔ پنجابیوں نے ایک اور شودر ذات بنگالیوں کی تین لاکھ لڑکیوں کو بھی اپنی مہمان نوازی پیش کی تھی مگر بنگالی چونکہ تھوڑے کوڑھ مغز واقع ہوےؑ ہیں، اس لےؑ وہ ناراض ھو گےؑ، بھیؑ پیار ہی تو کیا تھا کونسا غلط کام کیا تھا؟ آج وہ پاگل بنگالی لادینیت کی طرف سرگرداں ہیں اور دین و آخرت کی تباہی اپنے نام کرا چکے ہیں۔ انکا (جی – ڈی – پی) گروتھ پاکستان سے کہیں زیادہ ہے مگر سیانے کہتے ہیں کہ یہ شعلے کا بجھنے سے پہلے آخری بار ٹمٹمانا ہے۔ صحیح ہی کہتے ہیں۔
اچھایؑ کے مخالف ہمیشہ موجود ہوتے ہیں۔ ان پاگل بلوچوں کو ہی لے لیجےؑ۔ کھانے کو من و سلویٰ اور پینے کو جامِ کوثر مِلتا ہے مگر کتے کی دم ہے کہ ٹیڑھی ہی رہے گی۔ کہتے ہیں ہمیں آزادی چاہیے۔ کویؑ کرنے والی بات ہے یہ بھلا؟ بلوچوں کو مکمل آزادی ہے کہ وہ کسی بھی وقت رینجرز کی گولیوں کا نشانہ بن سکتے ہیں، اب اس سے زیادہ کیا چاہتے ہیں وہ؟ فی امان الحفیظ ! یہی خلش ان کند مغز سندھیوں کو بھی ستا رہی ہے۔ یہ سب بنی اسراییلؑ کی طرح ہیں۔ اپنی حرکتوں کی وجہ سے رحمت و برکت سے دور صحرا میں بھٹکنا چاہتے ہیں۔ باولے ہیں سب۔
شکر ہے کہ ابھی کچھ اصحابِ عقل یہاں موجود ہیں۔ ان عظیم دانشوروں، تاریخ سازوں، عالموں، عاقبت اندیشوں اور بزرگانِ قوم میں علامہ اوریا مقبول جان، مفتی انصار عباسی، مولوی ہارون الرشید اور کمانڈر زید حامد شامِل ہیں۔ ان حضراتِ باکمال کی وجہ سے پاکستان پر اللہ کا قہر نازل ہونے سے رکا ہوا ہے اور ہم طوفانِ نوح جیسی کسی آفت سے بچے ہوےؑ ہیں۔ چند شریر لوگوں نے ان جیسا مرتبہ حاصل کرنے کی سعیِ ناتمام کی تھی۔ عبد السلام بھی ایک ایسا ہی دماغ سے پیدل شخص تھا جسے پتہ نہیں کس سرپِھرے نے نیوکلیایؑ طبیعات میں ڈِگری دے دی تھی۔ ہمت تو دیکھو اس کافر کی، کس بے باقی سے خود کو پاکستانی اور اس سے بڑھ کر ظلم، خود کو مسلمان کہتا تھا۔ صحیح ہوا اس نامعقول آدمی کے ساتھ اور اسکی قبر کے ساتھ ۔
اس قوم نے چند سر پھرے بھی پیدا کیے ہیں، جن میں جون ایلیا، منٹو جیسے لوگ بھی شامل ہیں۔ عجیب ہی لوگ تھے کہتے تھے ” ہم پچھلے ایک ہزار برس سے تاریخ کے دستر خوان پر حرام خوری کے سوِا کچھ بھی نہیں کر رہے. پاکستان یقیناَ ایک موجزہ ہے ایک ایسا موجزہ 1971 میں جسکے چاند کی طرح دو ٹکڑے کر دئیے گئے تھے، اسکو ہم سب ملکر گندہ کریں گے، اپنے سواء ہر کسی کہ کافر کہہ کر ماریں گے کرپشن اپنے عروج پر ہوگی، حکمراں کرپٹ ترین ہونگے ڈالر کی قیمت کم ہونے کے باواجود مہنگائی کا ننگا ناچ ہوگا، مگر پھر بھی شرم نہ کرنا دوستو: کیوں کے پاکستان کی جاہل عوام کے عظیم مفکر بابا اشفاق احمد فرما گئے ہیں کہ پاکستان قیامت تک قائم رہنے کے لئیے بنا ہے، تو کیا ہوا اگر یہ اپنی پیدائش کے محض چوبیس سال بعد ہی ٹوٹ گیا تو، بابا نے شاید باقی مانندہ پاکستان کے لئیے یہ ارشادِ عظیم فرمایا ہوگا، چلو جی جو کرنا ہے کرو، اسے تو تباہ ہونا نہیں ہے تو پھر ہم کیوں ہاتھہ ہولا رکھیں؟ لٹوتے پھٹو۔۔۔۔۔۔ جئے نواز شریف، جئے عمران خان، جئے بھٹو۔
کیا قوم ہیں ہم نہ جیت میں وقار نہ ہار میں بردباری۔
by fikrepakistan
قتل و غارت کے دوران، طالبان کے ہاتھوں ہر روز معصوم لوگوں کی شہادت کے دوران، تھر میں قحط سے سینکڑوں بچوں کی ہلاکت کے دوران آپکو اپنی خوشی منانے کا پورا حق حاصل ہے، لیکن کسی کو بھی کسی کے غم کا مذاق اڑا کر اپنی خوشی منانے کا حق ہرگز حاصل نہیں ہے، یہ خوشی کی فطرت کے خلاف ہے کہ کسی کے ماتم کو بنیاد بنا کر اپنی خوشی کی بنیاد رکھی جائے، پاکستان کی ٹیم بنگلہ دیش سے جیتی اس پر خوش ہونا ہر پاکستانی کا حق بنتا ہے لیکن ہارے ہوئے لوگوں کے روتے ہوئے چہروں کو اخباروں میں شہہ سرخیوں کے ساتھ شائع کرنا کہ پاکستانی ٹیم نے بنگلہ دیشیوں کو سر پکڑنے پر مجبور کر دیا، بنگلہ دیشیوں کا رو رو کار برا حال، اور اس ہی طرح کی گھٹیا قسم کی شہہ سرخیاں لگائی گئیں جنکا اخلاقیات سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوسکتا، یہ ہی رویہ سوشل میڈیا پر بھی دیکھنے میں آیا۔
سری لنکا کی بیٹنگ شروع ہونے سے پہلے میں مجبور ہوگیا اپنے فیس بک وال پر یہ میسچ شیئر کرنے پر،
میں نہیں چاہتا کے پاکستان یہ میچ جیتے، کیوں کے اگر پاکستان میچ جیت گیا تو یہ جانور جنہیں خوشی منانے تک کا سلیقہ نہیں ہے یہ پھر سے ہوائی فائرنگ کریں گے اور پھر سے اسکی زد میں آکر کتنی ہی معصوم جانیں جائیں گی، اگر ایک میچ ہار کے ہم کچھہ معصوم جانیں بچا سکتے ہیں تو یہ بہت ہی سستا سودا ہوگا۔ جس قوم میں سمائی نہ ہو اس قوم کو خوشی منانے کا بھی کوئی حق نہیں ہوتا۔
اب زرا تصور کریں کہ اگر دنیا ہمارے غم پر ہنسنے پر آجائے تو کیا ہوگا؟ ہمیں تو دنیا کے غم پر ہنسنے کا موقع کبھی پانچ دس سال میں ایک دو بار ہی ملتا ہے، اگر دنیا بھی ہماری روش اپنا لے تو دنیا کو یہ مواقعے ہر روز بلکے ایک دن میں کئی کئی بار میسر آئیں گے، کہیں خودکش حملے، کہیں فائرنگ سے اموات، کہیں بھوک ننگ قحط سے اموات، کہیں نوزائیدہ بچی کے ساتھہ زنا، تو کہیں حج میں کرپشن، کہیں مسجد میں بم دھماکہ، کوئی ایک وجہ ملے گی دنیا کو ہم پر ہنسنے کی؟ اتنا ہنسے گی دنیا کہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوجائیں گے لوگ، انکا اتنا خون بنے گا کے انکے بلڈ بینکوں پر تالے پڑ جائیں گے۔
میں نے آج سری لنکا کے تمام اخبارات سرچ کر ڈالے مگر کہیں ڈھونڈنے سے بھی کوئی ایک تصویر ایسی نہ مل سکی جس سے یہ تاثر بھی ملتا ہو کہ سری لنکن نے پاکستانی شائقین کے ہار کے غم کا جشن منایا ہے، انکے تمام اخبارات نے اپنی ٹیم کی جیت کی خبر انتہائی با وقار طریقے سے شائع کی، تمام اخبارات میں ایک جیسے ہی تصاویریں تھیں کہیں کسی اخبار میں ہارنے والے شائقین کی ماتم کرتی تصاویر کا شائبہ تک نظر نہیں آیا، یہ ہوتے ہیں انسان اور یہ ہوتا ہے خوشی کو با وقار طریقے سے منانے کا طریقہ۔
آج سمجھہ میں آیا کے کیسے سری لنکا نے تامل ٹائیگر جیسے عفریت کو اپنی قوم کے ساتھہ مل کر صفحہِ ہستی سے مٹا دیا، اور ہم پاکستانی کیوں آج مٹھی بھر طالبان دہشتگردوں کے آگے مذاکرات کی میز سجائے رحم کی بھیک مانگنے پر مجبور ہیں، مشہور محاورہ ہے، مارننگ شوز دی ڈے، ہمارے روئیے اگر اب بھی نہ بدلے تو وہ وقت دور نہیں جب دنیا کو ہم پر ہنسنے تک کی توفیق نہ ہوگی۔
اب آپ فرق دیکھہ لیجئیے یہ ہے وہ تصویر جو ایشیاء کپ جیتنے کے بعدتمام سری لنکن اخباروں میں آج شائع ہوئی ہے
اور یہ ہیں وہ تصویریں جو بنگلہ دیش سے محض راونڈ کا میج جیتنے کے بعد پاکستانی اخباروں اور سوشل میڈیا پر شائع ہوئی ہیں، ان تصاویر کو دیکھہ کر مجھے ایک لطیفہ یاد آگیا، کڑکے چوھدری صاحب سڑک پر خوشی سے لڈیاں ڈال رہے تھے ناچ ناچ کار بے حال ہوئے جارہے تھے، کسی نے پوچھا خیریت ہے چوھدری صاحب آج پی لی ہے کیا؟ چوھدری صاحب لڈی ڈالتے ہوئے بولے نہیں ابھی تو منگوائی ہے۔
Ma Ma Je-
192
Join date/تاریخ شمولیت : 18.04.2014
Age/عمر : 69
Similar topics
» پاکستان کا ائی ایس پی یار
» پاکستان میں امریکی سرگرمیاں
» ترکی اور پاکستان موازنہ
» پاکستان اور بنگلہ دیش کے خلاف
» بین الخدماتی مخابرات آی ایس آی
» پاکستان میں امریکی سرگرمیاں
» ترکی اور پاکستان موازنہ
» پاکستان اور بنگلہ دیش کے خلاف
» بین الخدماتی مخابرات آی ایس آی
Page 1 of 1
Permissions in this forum:
You cannot reply to topics in this forum
Tue Feb 04, 2020 6:49 pm by munsab
» گوگل کرُوم
Tue Dec 03, 2019 8:35 pm by Munsab Ali
» فوٹو شاپ
Tue Dec 03, 2019 8:33 pm by Munsab Ali
» شمشیر بے نیام قسط نمبر 2
Sat Nov 30, 2019 11:25 pm by Munsab Ali
» شمشیر بے نیام قسط نمبر 1
Sat Nov 30, 2019 9:56 pm by Munsab Ali
» متنازع سائبر کرائم بل 2015 متفقہ طور پر منظور کرلیا۔ -
Wed Jul 27, 2016 11:54 am by Munsab Ali
» All in One
Fri Dec 25, 2015 10:23 pm by RASHID KHAN
» Best Action Movies 2015 English Hollywood - TOM CRUISE - New Adventure Movies 2015
Thu Dec 10, 2015 2:05 pm by Munsab Ali
» Shinobido - Ninja
Thu Dec 10, 2015 1:53 pm by Munsab Ali