کیا دستور پاکستان ایک ’کفریہ‘ دستور ہے؟ ایمن الظواہری کے موقف کا تنقیدی جائزہ
Page 1 of 1
کیا دستور پاکستان ایک ’کفریہ‘ دستور ہے؟ ایمن الظواہری کے موقف کا تنقیدی جائزہ
القاعدہ کے راہنما شیخ ایمن الظواہری نے کچھ عرصہ پہلے ’’الصبح والقندیل‘‘ کے زیر عنوان اپنی ایک کتاب میں دستور پاکستان کی اسلامی حیثیت کو موضوع بنایا ہے۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ ’’سپیدۂ سحر اور ٹمٹماتا چراغ‘‘ کے نام سے شائع ہوا ہے۔ ظواہری دستور پاکستان کے مطالعہ کے بعد ’’پوری بصیرت‘‘ کے ساتھ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ’’پاکستان ایک غیر اسلامی مملکت ہے اور اس کا دستور بھی غیر اسلامی ہے، بلکہ اسلامی شریعت کے ساتھ کئی اساسی اور خطرناک تناقضات پر مبنی ہے۔ نیز مجھ پر یہ بھی واضح ہوا کہ پاکستانی دستور بھی اسی مغربی ذہنیت کی پیداوار ہے جو عوام کی حکمرانی اور عوام کے حق قانون سازی کے نظریے پر یقین رکھتی ہیں اور بلاشبہ یہ نظریہ اسلام کے عطا کردہ عقیدے سے صراحتاً متصادم ہے۔‘‘ (ص ۱۶، ۱۷)
ظواہری کے طرز استدلال کو درست طو رپر سمجھنے اور اس کی علمی وفکری قدر وقیمت متعین کرنے کے لیے نہ صرف مصنف کے فکری پس منظر بلکہ حالات وواقعات کی ترتیب کو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے۔ ایمن الظواہری کا تعلق مصر سے ہے جو عالم عرب کی معروف انقلابی مذہبی تحریک الاخوان المسلمون کی جاے پیدائش ہے۔ مصر کے ارباب اقتدار کی طرف سے اسلام پسندوں کے خلاف جبر وتشدد کے رد عمل میں حکمرانوں کے خلاف نفرت کی ایک شدید لہر پیدا ہوئی جس نے بعض شرعی تصورات کا سہارا لے کر باقاعدہ ایک فکر کی صورت اختیار کر لی۔ اس فکر کی رو سے جدید جمہوری نظام حکومت کفر اور شریعت کی بالادستی کی نفی پر مبنی ہے اور مسلمان ممالک میں نظام کی تبدیلی کے لیے حکمرانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانا ایک دینی فریضے کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایمن الظواہری اسی انقلابی نظریہ سیاست کے داعی ہیں اور اخوان سے نکلنے والے ایک انتہا پسند مسلح گروہ ’’اسلامی جہاد‘‘ کے ساتھ منسلک رہے ہیں۔ ۸۰ء کی دہائی میں افغان جنگ کے دوران میں وہ یہاں منتقل ہو گئے اور طالبان کے دور حکومت میں افغانستان ان کی امریکہ مخالف سرگرمیوں کا مرکز قرار پایا۔ ان کا شمار القاعدہ کی صف اول کی قیادت میں ہوتا ہے اور وہ نہ صرف نائن الیون اور اس نوعیت کے دوسرے واقعات کو شرعی طور پر جائز سمجھتے ہیں بلکہ ان کی ذمہ داری بھی قبول کرتے ہیں۔ نائن الیون کے بعد جب امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک نے افغانستان میں اپنی فوجیں بھیجیں تو امریکی صدر کی دھمکی پر اس وقت کے حکمران جنرل پرویز مشرف نے ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ میں امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر لیا۔ اگرچہ عسکری پالیسی سازی کی قیادت میں اس حوالے سے دو مخالف رجحانات موجود رہے، تاہم جنرل مشرف چونکہ پوری دیانت داری اور ذہنی یکسوئی کے ساتھ یہ فیصلہ کر چکے تھے، اس لیے اس کے نتیجے میں بہرحال القاعدہ اور ا س کے ساتھ ہمدردی رکھنے والے عناصر کو پاکستانی فوج کی کارروائیوں کا نشانہ بننا پڑا اور یوں پاکستان اور پاکستانی فوج بھی بتدریج جہادی عناصر کے غم وغصہ کا نشانہ اور اس کی مسلح کارروائیوں کا ہدف بنتی چلی گئی اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ افواج پاکستان کو شمالی علاقہ جات میں مختلف قبائل کے خلاف باقاعدہ فوجی آپریشن کرنے پڑے۔
اس تناظر میں پاکستان کے مذہبی حلقوں کا عمومی موقف یہ رہا ہے کہ حکومت کا افغانستان پر حملہ کرنے میں امریکا کو تعاون فراہم کرنے اور اسی کے ذیل میں قبائل کے خلاف فوجی آپریشن کا فیصلہ شرعی لحاظ سے درست نہیں ہے اور امریکا کے ساتھ تعاون کا سلسلہ فی الفور ختم کر کے قبائل کے ساتھ اختلافات کو مذاکرات کے ذریعے سے پرامن طریقے سے حل کرنا چاہیے، تاہم مذہبی طبقات نے صورت حال کی پیچیدگی کا بجا طور پر ادراک کرتے ہوئے حکومتی پالیسیوں پر تنقید کے باوجود ریاست کے خلاف بغاوت اور ریاستی اداروں کے خلاف مسلح جدوجہد کا طریقہ اختیار کرنے کی بھی کوئی واضح تائید یا حمایت عمومی طور پر نہیں کی اور ایک مخصوص صورت حال کے تناظر میں بڑی حد تک حالات کے جبر کے تحت اختیار کی جانے والی ناروا حکومتی پالیسیوں کو اس بات کے لیے مناسب جواز تسلیم نہیں کیا کہ پورے ریاستی نظام کی رٹ کو چیلنج کر دیا جائے یا اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے یا کمزور کرنے کی کوششیں شروع کر دی جائیں۔
ظواہری کی زیر نظر تصنیف دراصل اسی صورت حال میں پاکستان کے عوام اور اہل علم کے نقطۂ نظر کو تبدیل کرنے کی ایک کوشش ہے اور چونکہ مقصود پاکستان کے عوام کے سامنے شریعت کی بالادستی قائم کرنے کا کوئی متبادل لائحہ عمل پیش کرنا یا جمہوری جدوجہد سے ہٹ کر کوئی دوسرا طریقہ اختیار کرنے پر آمادہ کرنا نہیں، اس لیے کم سے کم زیر نظر تصنیف میں ان پہلووں پر کوئی بحث بھی نہیں کی گئی۔ اس تصنیف کی حد تک ظواہری کا مطمح نظر بس اتنا ہے کہ ریاست پاکستان اور شمالی علاقہ جات (جہاں مبینہ طور پر القاعدہ کی قیادت پناہ لیے ہوئے ہے) کے بعض قبائل کے مابین جاری جنگ میں ریاست کے بجائے باغی عناصر کا ساتھ دیا جائے یا کم سے کم ان کی مخالفت نہ کی جائے۔ ظواہری لکھتے ہیں:
’’پس اگر آپ کلی طور پر ہماری موافقت نہ بھی کریں تو اتنا تو کر ہی سکتے ہیں کہ جرات ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمارے فقہی موقف کی درستی تسلیم کریں اور ان ظالم وفاجر لوگوں کی صفوں میں شامل ہونے سے انکار کر دیں جو دشمنان دین کے ساتھی بن کر ہمارے مقابل کھڑے ہیں۔ .... پس قبائل میں برسرپیکار مجاہدین کی حمایت کرنا آپ کا شرعی فریضہ ہے۔ آخر یہی تو وہ فی سبیل اللہ مجاہدین ہیں جو نہ صرف امریکہ اور عالمی صلیبی طاقتوں کے مد مقابل ڈٹے ہوئے ہیں، بلکہ اس صلیبی اتحاد کے اساسی رکن پاکستان کی فوج کے مظالم بھی ثابت قدمی سے برداشت کر رہے ہیں۔ لہٰذا ان حالات میں شریعت کا کم سے کم تقاضا یہ بھی ہے کہ امریکہ کی وفادار اور اسلام سے غدار حکومتوں کے خلاف خروج کرنے والوں کی مخالفت نہ کی جائے۔‘‘ (ص ۱۸۳)
ظواہری کی کاوش کے اس عملی محرک کو سامنے رکھا جائے تو وہ پاکستان کے علما اور عوام کی صحیح راہ نمائی سے زیادہ تحفظ ذات کے جذبے کی غمازی کرتی ہے۔ وہ دستور کے فنی تجزیے، اسلام اور جمہوریت کے علمی تقابل اور پاکستانی نظام کی خرابیوں جیسی اعلیٰ علمی بحثیں چھیڑ کر تاثر تو یہ پیدا کرتے ہیں کہ ان کے لیے اس ساری جہد وکاوش کا محرک نفاذ شریعت کی جدوجہد میں پاکستان کے اہل علم اور مذہبی قیادت کا قبلہ درست کرنے کاجذبہ بنا ہے، لیکن بحث کی تان جس نکتے پر آکر ٹوٹتی ہے، وہ یہ ہے کہ شمالی علاقہ جات کے قبائل کی بغاوت کی تائید کی جائے جو اس وقت القاعدہ کی قیادت کے لیے بظاہر دنیا کی آخری پناہ گاہ ہے۔ ہمارے نزدیک یہ نکتہ ان کی اس ساری سعی کی فکری قدر وقیمت متعین کرنے میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔
بہرحال، آئیے پاکستان کو ایک غیر اسلامی ریاست اور دستور پاکستان کو ایک غیر اسلامی دستور ثابت کرنے کے لیے ظواہری کے استدلالی مقدمے کا جائزہ لیتے ہیں۔
پاکستان میں اسلامی جماعتوں کے داعی اور کارکن عام طور پر یہ رائے رکھتے ہیں کہ ’’پاکستان کا دستور صحیح اسلامی اساس پر قائم ہے ۔یہ دستور عامۃ المسلمین کو اپنے نمائندے چننے اور شریعت کی روشنی میں اپنے حکام کا محاسبہ کرنے کی مکمل آزادی فراہم کرتا ہے۔ پس مسئلہ دستور یا نظام کا نہیں، بلکہ اس فاسد حکمران طبقے کا ہے جو کبھی بزور قو ت اور کبھی دیگر ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے اقتدار پر قابض ہے اور دستور میں درج امور کی پابندی نہیں کرتا۔‘‘ (ص ۱۵، ۱۶) ظواہری کو اس رائے سے اختلاف ہے ۔ ان کا موقف یہ ہے کہ:
’’دستور پاکستان کے مطالعہ سے مجھ پر یہ حقیقت بھی منکشف ہوئی کہ یہ دستور کچھ ایسے مکر وفریب کے انداز میں لکھا گیا ہے کہ مسلم عوام سے شریعت کے نفاذ کا وعدہ بھی ہو جائے، لیکن وہ وعدہ کبھی وفا بھی نہ ہو سکے۔ مجھے تو تعجب ہوتا ہے کہ اس وقت کے بڑے بڑے علماء اور داعی حضرات بھی اس دھوکے کا شکار ہو کر دستور کی تعریف وتقدیس بیان کرتے رہے۔ (ہاں! اس میں کچھ شک نہیں کہ ان حضرات کا اس دستور سے نیا نیا واسطہ پڑا تھا اور ابھی اس کے عملی اثرات بھی پوری طرح واضح نہیں ہو پائے تھے، لہٰذا غلط فہمی میں مبتلا ہونے کا شاید کوئی امکان موجود تھا) .... البتہ اصل تعجب کے لائق تو ہمارے وہ فاضل دوست ہیں جو نفاذ شریعت کے جھوٹے وعدوں کو ساٹھ (۶۰) سال گزر جانے کے بعد بھی وہی گھسے پٹے اوہام واشکالات دہرائے چلے جا رہے ہیں اور آج تک دستور پاکستان کی اسلامیت کے فریب سے دامن نہیں چھڑا پائے۔‘‘ (ص ۲۶)
ظواہری نے جن استدلالات کی بنیاد پر دستور پاکستان کا مبنی بر’کفر‘ ہونا ثابت کیا ہے، ان پر نظر ڈالنے سے پہلے تکفیر کے ضمن میں فقہا کے دو متفقہ اصولوں کا ذکر کر دینا ضروری معلوم ہوتا ہے۔
تکفیر کا سب سے بنیادی اصول یہ ہے کہ کوئی بھی قول، چاہے وہ بظاہر کفریہ ہی کیوں نہ دکھائی دیتا ہو، اگر وہ ایک سے زیادہ مفاہیم کا احتمال رکھتا ہو اور ان میں سے کوئی ایک ضعیف احتمال بھی ایسا ہو جو اسے کفر کے دائرے سے نکال دیتا ہو تو اسے اسی مفہوم پر محمول کیا جائے گا تا آنکہ قائل خود یہ صراحت نہ کر دے کہ اس کی مراد کفریہ مفہوم ہی ہے۔ ابن نجیم لکھتے ہیں:
اذا کان فی المسالۃ وجوہ توجب التکفیر ووجہ واحد یمنع التکفیر فعلی المفتی ان یمیل الی الوجہ الذی یمنع التکفیر تحسینا للظن بالمسلم.
(البحر الرائق ۵/۱۳۴)
’’اگر کسی مسئلے میں کئی احتمال ایسے ہوں جو تکفیر کو واجب کرتے ہوں اور صرف ایک احتمال تکفیر سے مانع ہو تو مفتی کا فرض ہے کہ وہ مسلمان کے ساتھ حسن ظن کی بنیاد پر اس وجہ کو اختیار کرے جو تکفیر سے مانع ہو۔‘‘
علماء کلام نے اس کی ایک واضح نشانی یہ بتائی ہے کہ جس قول یا عمل کو کفر کہا جا رہا ہے، اس کا کفر ہونا ایسا واضح ہو کہ مسلمان بالاجماع اسے کفر قرار دینے میں کوئی تردد محسوس نہ کریں۔ باقلانی لکھتے ہیں:
ولا یکفر بقول ولا رای الا اذا اجمع المسلمون علی انہ لا یوجد الا من
’’کسی بات یا رائے پر اس وقت تک تکفیر نہ کی جائے جب تک مسلمانوں کا اس پر اجماع نہ ہو کہ وہ بات کسی
کافر ویقوم دلیل علی ذلک فیکفر.
(فتاویٰ السبکی ۲/۵۷۸)
کافر ہی سے صادر ہو سکتی ہے اور اس پر دلیل قائم ہو جائے، تب اسے کفر قرار دیا جائے گا۔‘‘
دوسرا اصول یہ ہے کہ کسی استنباطی یا اجتہادی شرعی مسئلے کے انکار کی بنیاد پر، چاہے اس پر فقہا کا اجماع ہی کیوں نہ ہو، کسی کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔ تکفیر کے لیے ضروری ہے کہ آدمی نے قطعی، واضح اور غیر محتمل نص سے ثابت شریعت کے کسی اصولی اور اساسی حکم کا انکار کیا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جنرل ایوب خان کے دور میں جو عائلی قوانین منظور کیے گئے، اس کی بہت سی شقیں متفق علیہ شرعی احکام کے منافی تھیں، لیکن چونکہ وہ دین کے اصولی نہیں، بلکہ فروعی مسائل تھے اور قطعی طور پر منصوص نہیں بلکہ استنباطی تھے، اس لیے اس وقت سے آج تک کسی بھی ذمہ دار عالم یا مفتی نے اس پر ’کفر‘ کافتویٰ صادر نہیں کیا۔
ان اصولوں کی رعایت ایک عام فرد کی تکفیر میں بھی ضروری ہے، جبکہ معاملہ اگر ایک پورے نظام ریاست اور اس کے دستور کا ہوجس کی ترتیب وتدوین میں وقت کے جید ترین اور اکابر علما شریک رہے ہوں اور وہ پورے اعتماد کے ساتھ اس دستور کو ایک اسلامی دستور قرار دے رہے ہوں تو اس دستور کی کسی دفعہ سے ’کفر‘ اخذ کرتے ہوئے مذکورہ اصولوں کی اہمیت کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
ان اصولوں کی روشنی میں اب یہ دیکھیے کہ ظواہری نے دستور پاکستان کو ’کفر‘ قراردینے کے لیے کیا دلائل پیش کیے ہیں۔
ظواہری نے سب سے پہلا اور بنیادی نکتہ یہ اٹھایا ہے کہ دستور، ارکان پارلیمان کو مطلق طور پر دستور کی کسی بھی شق میں ترمیم کا حق دیتا ہے اور چونکہ یہاں بظاہر ایسی کوئی قید نہیں لگائی جس سے معلوم ہوتا ہو کہ پارلیمنٹ قرآن و سنت کی بالادستی کو تسلیم کرنے اور قانون سازی میں شریعت کی پابندی کی شقوں میں ترمیم کرنے کی مجاز نہیں ہے، اس لیے اپنے اطلاق کے لحاظ سے یہ دستور پارلیمنٹ کو اختیار دیتا ہے کہ وہ چاہے تو شریعت کی بالادستی کو تسلیم کرنے سے بھی انکار کر سکتی ہے۔
ہم نے تکفیر کا جو پہلا اصول بیان کیا ہے، اس کی روشنی میں دیکھا جائے تو ظواہری کا یہ استدلال سرے سے بے بنیاد ہے۔ سیدھا سا سوال ہے کہ کیا آئین میں ترمیم کا حق دینے والی اس شق کی جو تعبیر ظواہری نے پیش کی ہے، وہی اس کی واحد ممکن تعبیر ہے یا اس کے علاوہ بھی کوئی تعبیر ممکن ہے جو اسے ’کفر‘ سے بچاتی ہو؟ ہمارے علم کی حد تک پاکستان کی دستوری تاریخ میں اس شق کا یہ مطلب سب سے پہلے ظواہری نے پیش کیا ہے، جبکہ علما، ججز اور قانون دان طبقے میں سے کسی نے بھی اس سے یہ مفہوم اخذ نہیں کیا۔ یہ ایک سادہ اصول ہے کہ کسی بھی دستاویز کے کسی جز کا منشا و مراد اس دستاویز کے اصولی ونظری مفروضات، مجموعی مزاج اور دستاویز میں شامل دیگر تصریحات کو نظر انداز کر کے متعین نہیں کیا جا سکتا۔ آئین یہ تصریح کرتا ہے کہ اسے ایک اسلامی مملکت کے منتخب نمائندے اس مقصد کے لیے وضع کر رہے ہیں کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے اس ملک کے اجتماعی نظام کو اللہ اور اس کے رسول کی منشا کے مطابق چلایا جا سکے۔ گویا ’مسلمان‘ ہونا اور اللہ اور اس کے رسول کی ہدایات کی پابندی کو قبول کرنا آئین کا بنیادی مفروضہ ہے، جبکہ اس کی کسی بھی شق کے محض ظاہری الفاظ کے اطلاق سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ دستور کو تشکیل دینے والے اپنے لیے قرآن وسنت کی بالادستی کے انکار کی گنجائش بھی دستور میں رکھنا چاہتے ہیں، اس بنیادی مفروضے کے بالکل خلاف ہے۔ اس لحا ظ سے ظواہری کا یہ استنتاج صرف احمقانہ اور بے بنیاد نہیں، بلکہ سخت اشتعال انگیز بھی ہے۔
مذکورہ بنیادی نکتے کے علاوہ ظواہری نے دستور میں سات مزید ایسے امورکی نشان دہی کی ہے جو شریعت کے منافی ہیں۔ یہ امور حسب ذیل ہیں:
۱۔ آئین میں بعض اشخاص اور اداروں کو قانونی محاسبہ سے بالاتر رکھا گیا ہے۔
۲۔ آئین کی رو سے سربراہ ریاست کو کسی بھی جرم پر سزاے موت کو معاف کرنے کا اختیار حاصل ہے۔
۳۔ آئین میں قاضی کے لیے عادل ہونے کی شرط نہیں لگائی گئی جبکہ مسلمان ہونے کی شرط صرف شرعی عدالت کے قاضی کے لیے لگائی گئی ہے۔
۴۔ آئین میں سربراہ ریاست کے لیے مرد ہونے کی شرط نہیں لگائی گئی۔
۵۔ ایسے افراد کو سزا سے تحفظ فراہم کیا گیا ہے جنھوں نے اس فعل کو قانونی طور پر جرم قرار دیے جانے سے پہلے اس جرم کا ارتکاب کیا ہو۔
۶۔ ایک جرم پر دو مرتبہ سزا دینے کی ممانعت کی گئی ہے۔
۷۔ دستور میں سو د کے خاتمے کا صرف وعدہ کیا گیا ہے جس پر آج تک عمل نہیں ہوا۔
ظواہری کا کہنا ہے کہ مذکورہ تمام امور شریعت کے خلاف ہیں اور کسی بھی خلاف شریعت امر کو قانون کا درجہ دینا کفر ہے، اس لیے مذکورہ امور کو دستور کا حصہ بنانا اسے ایک ’کفریہ‘دستور کا درجہ دے دیتا ہے۔
مذکورہ دفعات کی نشان دہی اور پھر ان کا تجزیہ کرتے ہوئے ظواہری نے دستور اور قانون کے فہم کا ایک ایسا نمونہ پیش کیا ہے جسے کسی بھی طرح قابل رشک نہیں کہا جا سکتا۔ ان کے ’تکفیری‘ رجحان کا سب سے دل کش نمونہ سود کے حوالے سے دستور کی دفعہ ۳۸ کو کفر قرار دینے کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ یہ دفعہ یہ کہتی ہے کہ عوام کی معاشی او ر معاشرتی فلاح وبہبود کی خاطر جس قدر جلد ممکن ہو، سود کو ختم کیا جائے گا۔ اب اس دفعہ کو مثبت ذہن سے دیکھا جائے تو یہ دستور کی ’اسلامیت‘ کا اظہار کرتی ہے کہ اس میں سود کے خاتمے کو مقصد قرار دیا گیا ہے، البتہ چونکہ اسے پورے نظام سے فوری طور پر ختم کرنا ممکن نہیں، اس لیے اسے حالات کی سازگاری پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ تاہم ظواہری کی باریک بیں نگاہ نے اس دفعہ میں بھی ’کفر‘ کو تلاش کر لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ محض ایک وعدہ ہے جسے آج تک ایفا نہیں کیا گیا۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس پر کیا تبصرہ کیا جائے؟ اگر وعدے کو ایفا نہیں کیا گیا تو یہ دستور کا قصور ہے یا قانون ساز اداروں کا؟ ارباب اقتدار کے منافقانہ رویوں کی وجہ سے دستور کی یہ دفعہ جو انھیں سود کے خاتمے کا پابند بنا رہی ہے، کیسے ’کفر‘ بن گئی؟ اپنی بات سمجھانے کے لیے ظواہری نے یہ مثال دی ہے کہ ’’جیسے ایک شخص کہے کہ میں عنقریب نماز پڑھوں گا یا میں عنقریب اسلام قبول کروں گا تو کیا محض ایک زبانی وعدے پر یہ شخص نمازی یا مسلمان کہلا سکتا ہے؟‘‘ (ص ۱۲۱) یہ ارشاد بھی ’جو بات کی، خدا کی قسم لا جواب کی‘ کا ایک نمونہ ہے۔ اگر ایک مسلمان یہ کہتا ہے کہ میں عنقریب نماز پڑھوں گا اور پھر نہ پڑھے تو اسے یقیناًنمازی نہیں کہا جائے گا، لیکن کیا اس سے وہ ’کافر‘ ہو جائے گا؟ دستور کی ہدایات اور اس پر عمل درآمد کرنے والی قانونی وانتظامی مشینری کے باہمی فرق کو سامنے رکھا جائے تو ظواہری کے اس فتوے کی مثال یوں بنتی ہے کہ اگر ایک شخص دوسرے سے یہ کہے کہ تم سود لینا چھوڑ دو، لیکن دوسرا شخص اس کی ہدایت پر عمل نہ کرے تو اس سے پہلا شخص کافر ہو جائے گا۔
اگر ظواہری یہ کہنا چاہتے ہیں کہ سود کے خاتمے کے لیے مہلت دینا اور ’تدریج‘ کا طریقہ اختیار کرنا ’کفر‘ہے تو پھر یہ مسئلہ ایک نازک اصولی بحث سے متعلق ہو جاتا ہے۔ اگر وہ واقعی عملی حکمت ومصلحت کے لحاظ سے کسی فرد یا گروہ یا معاشرے کو احکام شریعت کا پابند بنانے میں تدریج کے طریقے کو ’کفر‘ سمجھتے ہیں تو پھر انھیں اس سوال کا جواب دینا ہوگا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو اسلام قبول کرنے کے بعد اس کے مطالبے پر یہ رخصت کیوں دی تھی کہ وہ سردست صرف دو نمازیں ادا کر لیا کرے؟ (الآحاد والمثانی، رقم ۹۴۱۔ اسد الغابہ، ۶/۴۷۵) اسی طرح آپ نے بنو ثقیف سے اسلام کی بیعت لیتے ہوئے ان کی یہ شرط کیوں قبول کی کہ وہ زکوٰۃ نہیں دیں گے اور جہاد بھی نہیں کریں گے؟ آپ نے فرمایا کہ جب وہ صحیح معنوں میں مسلمان ہو جائیں گے تو زکوٰۃ بھی دینے لگیں گے اور جہاد بھی کریں گے۔ (سنن ابی داود، رقم ۳۲۰۵)
’کفر سازی‘ اور ’کفر‘ کشید کرنے کے اسی ذہنی رجحان کا اظہار ظواہری نے باقی مثالوں میں بھی کیا ہے۔ مثال کے طور پر دستور کی دفعہ ۴۸ صدر کے کسی کو جواب دہ نہ ہونے کے معاملے کو واضح طور پر ان مخصوص معاملات تک محدود کرتی ہے جن میں اسے دستور کی رو سے صواب دیدی اختیار حاصل ہو، جبکہ اس کے علاوہ باقی امور کی انجام دہی میں صدر کو کابینہ یا وزیر اعظم کے مشورے کا پابندبنایا گیا ہے۔ واضح لفظوں میں لکھی ہوئی اس تصریح کے باوجود ظواہری اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ’’یہ دفعہ صدر کو اس کے ہر فعل میں کھلی چھوٹ اور تحفظ فراہم کرتی ہے، خواہ اس کا فعل شریعت سے موافق ہو یا شریعت کے مخالف۔‘‘ (ص ۸۹) اس کی مثال انھوں نے یہ دی ہے کہ ’’اگر صدر پاکستان فوج کو یہ حکم دے کہ قبائل پر حملہ کر کے انھیں روند ڈالو ..... یا اسی طرح انھیں حکم دے کہ گرفتار شدہ مجاہدین امریکہ کے حوالے کر دو تو اسے یہ سب احکامات صادر کرنے کا اختیار حاصل ہے ..... نہ اس سے پوچھ گچھ ممکن ہے نہ ہی اس کے خلاف یہ حجت قائم کرنا ممکن ہے‘‘ (ص ۸۸)۔ دستور اور نظام حکومت سے واقف ایک مبتدی طالب علم بھی یہ جانتا ہے کہ مذکورہ احکامات سرے سے صدر کے دائرۂ اختیار میں آتے ہی نہیں۔ یہ اختیار وزیر اعظم کے پاس ہے جو اپنے فیصلوں کے لیے پارلیمنٹ کو جواب دہ ہے۔ یہاں دستور کو سمجھنے کے لیے ظواہری نے دراصل جنرل پرویز مشرف کے ان فیصلوں اور اقدامات کو اپنا ماخذ بنایا ہے جو انھوں نے دستور کو پامال کر کے سارے اختیارات طاقت کے زور پر اپنی ذات میں مرتکز کر لینے کے بعد کیے تھے۔
یہی صورت حال دستور کی دفعہ ۱۴۸ کی ہے جو صدر، وزیر اعظم، گورنر، وزراے اعلیٰ اور وفاقی وصوبائی وزرا کو ان افعال کے لیے عدالتی جواب دہی سے مستثنیٰ قرار دیتی ہے جو انھوں نے اپنے حکومتی فرائض کی انجام دہی کے دوران میں کیے ہوں۔ اس پر ظواہری کا تبصرہ یہ ہے کہ یہ دفعہ ’’جو بعض حکومتی عہدے داران کو عدالت میں پیشی سے تحفظ فراہم کرتی ہے، شریعت سے صراحتاً متصادم ہے اور یہ بات تو ہم پہلے ہی بیان کر چکے ہیں کہ شریعت کی مخالفت کو قانون کی شکل دینا کفر ہے، اگرچہ وہ مخالفت بذات خود صرف فسق ہی ہو۔‘‘ (ص ۹۱)
یہاں بھی قانون کا وہی سطحی فہم کارفرما ہے جس کا نمونہ ہم گزشتہ مثال میں دیکھ چکے ہیں۔ دستور کی یہ دفعہ مذکورہ حکومتی عہدے داروں کو مطلقاً محاکمے اور محاسبے سے نہیں، صرف ’’عدالتی‘‘ محاسبے سے مستثنیٰ قرار دے رہی ہے اور اس کے پس منظر میں ان کے قانون سے بالاتر ہونے کا تصور نہیں بلکہ نظام حکومت کو چلانے میں مختلف اداروں کو ایک دوسرے کے دائرۂ کار میں بے جا مداخلت سے روکنا ہے۔ یہ انتظام اس لیے کیا گیا ہے کہ اگر حکمرانوں کو عدالتی محاسبہ سے مستثنیٰ نہ رکھاجائے تو ان کے لیے روز مرہ کے انتظامی اور حکومتی معاملات چلانا بھی دشوار ہو جائے گا۔ یقیناًاس کے کچھ منفی اثرات بھی ہیں اور اس انتظام سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے، لیکن بہرحال اس کا اصل پس منظر یہی ہے اور اسے ’کفر‘سے موسوم کرنا محض ظواہری کی انتہا پسندانہ سوچ کا نتیجہ ہے۔ اس سے ملتی جلتی ایک نظیر خود اسلامی فقہ میں موجود ہے، چنانچہ امام ابوحنیفہ ایک خاص قانونی نکتے کی روشنی میں اس بات کے قائل ہیں کہ ریاست کا سربراہ اعلیٰ اگر کسی قابل حد جرم مثلاً زنا، چوری وغیرہ کا مرتکب ہو تو اس کا مواخذ ہ نہیں کیا جا سکتا۔ ابن الہمام لکھتے ہیں:
وکل شی فعلہ الامام الذی لیس فوقہ امام مما یجب بہ الحد کالزنا والشرب والقذف والسرقۃ لا یواخذ بہ الا القصاص والمال .... لان الحد حق اللہ تعالی وہو المکلف باقامتہ وتعذر اقامتہ علی نفسہ لان اقامتہ بطریق الخزی والنکال ولا یفعل احد ذلک بنفسہ ولا ولایۃ لاحد علیہ لیستوفیہ.(فتح القدیر ۵/۲۷۷)
’’قصاص اور مالی بدعنوانی کے علاوہ ہر ایسا قابل حد جرم جس کا ارتکاب وہ حکمران کرے جس کے اوپر کوئی حکمران نہیں، جیسا کہ زنا، شراب نوشی، قذف اور چوری، اس کا مواخذہ نہیں کیا جائے گا، کیونکہ حد، حق اللہ ہے اور حاکم اعلیٰ ہی حدود کو (رعیت پر) قائم کرنے کا مکلف ہے۔ اس کا خود اپنی ذات پر حد قائم کرنا متعذر ہے کیونکہ حد تو رسوائی اور عبرت کے طریقے پر قائم کی جاتی ہے اور کوئی شخص خود اپنے ساتھ یہ سلوک نہیں کر سکتا، جبکہ کسی دوسرے کو اس پر ولایت (قانونی اختیار) حاصل نہیں کہ وہ اس پر حد نافذ کر سکے۔‘‘
اس رائے سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، لیکن بہرحال یہ ائمہ مجتہدین میں سے ایک مسلمہ اور مستند امام کی رائے ہے جسے ظواہری اپنے سطحی قانونی فہم کے تحت چھوٹتے ہی ’کفر‘ کا عنوان دے دیا ہے۔
سربراہ ریاست کے مرد ہونے اور قاضی کے مسلمان اور عادل ہونے کی شرائط اپنی جگہ اہمیت رکھنے کے باوجود ایسی نہیں ہیں کہ دستور میں ان کو شامل نہ کیے جانے کو ’کفر‘ کے ہم معنی قرار دیا جائے۔ قاضی کے مسلمان اور عادل ہونے کی شرائط فقہا کی استنباط کردہ ہیں اور قرآن یا حدیث کی کسی نص میں واضح طور پر قاضی کے لیے ان شرائط کولازم نہیں کہا گیا۔ حکمران کے مرد ہونے کی شرط نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک تبصرے سے اخذ کی گئی ہے جو آپ نے اہل فارس کے کسریٰ کی بیٹی کو حکمران بنانے پر کیا تھا۔ اصول فقہ کی رو سے اس ارشاد کو براہ راست حرمت کا بیان نہیں کہا جا سکتا، اس لحاظ سے یہ شرط بھی بنیادی طور پر استنباطی ہے۔ مزید برآں ماضی قریب میں برصغیر کے ایک جید فقیہ اور عالم مولانا اشرف علی تھانوی یہ نقطۂ نظر پیش کر چکے ہیں کہ اس ممانعت کی اصل علت عورت کی رائے پر حتمی اور کلی انحصار ہے، اس لیے جمہوری نظام حکومت میں ، جہاں حکمران اپنے فیصلوں کے لیے اصولی طور پر پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے، عورت کے حاکم بننے پر پابندی نہیں۔ چنانچہ دستور میں مذکورہ شرائط میں سے کسی بھی شرط کو شامل نہ کرنا شریعت کے نہیں، بلکہ شریعت کی ایک خاص اجتہادی واستنباطی تعبیر کے خلاف ہے جسے کسی بھی لحاظ سے ’کفر‘ سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔
ظواہری کے پیش کردہ نکات میں سے صرف ایک نکتہ ایسا ہے جسے فی الواقع دستور میں شریعت کے ساتھ تصادم کی مثال کے طو رپر پیش کیا جا سکتا ہے ، یعنی سربراہ مملکت کے لیے کسی بھی جرم میں سزاے موت کو معاف کر دینے یا اس میں تخفیف کرنے کا اختیار ۔ قصاص کے مقدمات کے علاوہ عمومی طور پر سربراہ مملکت کے لیے یہ اختیار تو ہمارے نزدیک شریعت کے کسی صریح حکم کے ساتھ متصادم نہیں، اگرچہ اس پر بعض دیگر سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں، البتہ قصاص کے مقدمے میں سزاے موت کی معافی ازروے شریعت مقتول کے ورثا کی رضامندی کے ساتھ مشروط ہے جس کا اس دفعہ میں لحاظ نہیں رکھا گیا۔ اس اعتبار سے اس شق کو جزوی طورپر شریعت کے منافی کہا جا سکتا ہے، تاہم تکفیر کے پہلے اصول کے تحت اس کو ’کفر‘ سے تعبیر کرنا اس لیے ممکن نہیں کہ اول تو دستور وضع کرنے والوں کے نیت اور ارادے کے بارے میں یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ انھوں نے اس شق کے الفاظ کو قصداً اور ارادۃً یہ جانتے ہوئے عام رکھا ہے کہ اس کا نتیجہ شریعت کی ایک ہدایت کی خلاف ورزی کی صورت میں نکل رہا ہے۔ ایسا بالکل ممکن ہے کہ یہ شق دستور میں درج کرتے ہوئے اس کا یہ اطلاقی پہلو کہ بعض صورتوں میں یہ اختیار شریعت کے منافی ہے، سرے سے واضعین کے سامنے ہی نہ ہو۔ ظاہر ہے کہ توجہ نہ ہونے کی بنا پر نادانستہ ایسی کوئی بات کہہ دینے سے ہرگز کفر لازم نہیں آتا۔ پھر یہ کہ دستور کی اس شق کے بارے میں عدالتی سطح پر یہ باقاعدہ بحث رہی ہے کہ دستور کی ان شقوں کی موجودگی میں جو شریعت کی بالادستی کی ضمانت دیتی ہیں، زیر بحث شق قابل عمل اور قابل نفاذ بھی ہے یا نہیں۔
ظواہری نے اس ضمن میں حاکم خان کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا ہے جس میں قرار دیا گیا ہے کہ دستور کی یہ دونوں شقیں مساوی درجہ رکھتی ہیں اور کوئی ایک شق دوسری کو کالعدم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ تاہم یہ واضح ہے کہ دستور کی تعبیر کے حوالے سے یہ رائے کوئی اتنی واضح اور قطعی نہیں کہ اس سے مختلف کسی تعبیر کا امکان ہی نہ ہو اور اسی نکتے کے حوالے سے ہائی کورٹ اس کے برعکس یہ رائے دے چکی ہے کہ اسلامی شریعت کی بالادستی کی دفعہ دیگر دفعات پر بالادستی رکھتی ہے۔ اگرچہ عملی طور پر اس معاملے میں سپریم کورٹ کی تعبیر موثر ہے، لیکن ہائی کورٹ کے فیصلے سے یہ بات بہرحال واضح ہے کہ علمی طو رپر اس سے مختلف تعبیر کا امکان موجود ہے۔ پھریہ کہ اس شق کے حوالے سے تمام تر قانونی بحث کا حاصل صرف یہ ہے کہ دستور میں قرآن وسنت کی بالادستی کی جو ضمانت دی گئی ہے، اس کے حوالے سے ایک ایسی الجھن موجود ہے جو ’’تکنیکی‘‘ طور پر اس بات سے مانع ہے کہ عدالتیں دستور کی اس شق کی بنیاد پر قرآن وسنت کے منافی کسی حکم کو کالعدم قرار دیں، نہ یہ کہ اس ضمانت کی سرے سے کوئی حیثیت ہی نہیں، جیسا کہ ظواہری اس سے یہ نتیجہ اخذ کر کے دستور کو ’’کافرانہ‘‘ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حاکم خان کیس میں عدالت نے اس نکتے کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اس تکنیکی الجھن کے حل کے لیے عدالت عالیہ کی طرف نہیں، بلکہ پارلیمنٹ کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔
یہ ہے دلائل کی وہ کل کائنات جن سے ظواہری نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ پاکستان میں مسئلہ محض حکمران طبقے کا نہیں، بلکہ پاکستان کا دستور او ر نظام حکومت بھی غیر اسلامی ہے اور اس وقت ملک میں اور خاص طور پر ریاستی پالیسیوں کی سطح پر جو بگاڑ نظر آ رہا ہے، وہ غیر اسلامی دستور ہی کا نتیجہ ہے۔ ظواہری کے پہلے سے طے شدہ مقصد کے لحاظ سے ان کا یہ استدلال قابل فہم ہے، کیونکہ اگر ریاست کو نظری اساسات کی حد تک ’اسلامی‘ تسلیم کر لیا جائے جبکہ بگاڑ کا ذمہ دار صرف ارباب اقتدار کے فکری رویوں اور پالیسیوں کو سمجھا جائے تو اس کی وجہ سے پورے ریاستی نظام کے خلاف بغاوت کا جواز ثابت نہیں کیا جا سکتا، جبکہ ظواہری یہ چاہتے ہیں کہ مذہبی طبقات اور اہل علم کو ریاست کے خلاف خروج کی باقاعدہ تائید پر آمادہ کیا جائے۔ اس پہلو سے دستور کے کفریہ ہونے کی بحث کسی حد تک اس نتیجے تک پہنچا سکتی ہے جو ظواہری کو مطلوب ہے۔ تاہم ان کے اس تجزیے پر چند در چند منطقی سوالات پیدا ہوتے ہیں جن کا کوئی جواب ان کے ہاں نہیں ملتا۔
مثال کے طور پر ظواہری کے استدلال کا ایک منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انھوں نے دستور میں جن خرابیوں کی نشان دہی کی ہے، اگر انھیں درست کر لیا جائے تو پھر عملی بگاڑ کی جو صورت حال ہے، وہ باقی نہیں رہنی چاہیے۔ ظاہر ہے کہ جب ان کے تجزیے کے مطابق خرابی کا اصل منبع مقتدر طبقات کے رویے نہیں، بلکہ خود دستور ہے تو پھر اس کی اصلاح کے بعد وہ نتائج بھی باقی نہیں رہنے چاہییں جنھیں ظواہری ایک غیر اسلامی دستورکا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر دستور میں ارکان پارلیمان کو دو تہائی اکثریت سے کسی بھی ترمیم کا جو حق دیا گیا ہے، اگر اسے مطلق رہنے کے بجائے مقید کر دیا جائے، بعض اشخاص اور اداروں کو محاسبہ ومواخذہ سے حاصل استثنا ختم کر دیا جائے، صدر مملکت کا بعض سزاؤں کی معافی کا اختیار کالعدم کر دیا جائے، سربراہ مملکت کے لیے مرد ہونے جبکہ قاضی کے لیے عادل اور مسلمان ہونے کی شرط لگا دی جائے ، سود کے خاتمے کے ایک غیر معین وعدے کے بجائے اسے ایک متعین مدت میں ختم کر دینے کی پابندی عائد کر دی جائے، شریعت کی بالادستی کے ضمن میں دستور کی بعض دفعات میں پائے جانے والے تضاد کو دور کر دیا جائے اور وفاقی شرعی عدالت کے دائرۂ اختیار کو تمام قوانین تک وسیع کر دیا جائے تو ظواہری کے طرز استدلال کی رو سے نظام ریاست کا بگاڑ درست ہو جانا چاہیے، کیونکہ ان کے خیال میں بگاڑ کی اصل وجہ حکمران طبقات نہیں، بلکہ دستور کے مذکورہ نقائص ہیں۔ اب یہ استدلال منطقی لحاظ سے کتنا مضبوط ہے، اس پر شاید تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں۔
ظواہری نے اپنے موقف پر خود یہ سوال اٹھایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’صاحب کتاب کا موقف ہے کہ پاکستان کے قانونی ودستوری نظام میں اصولی اور مہلک خرابیاں پائی جاتی ہیں، لیکن پاکستان کی بہت سی دینی تحریکوں کے قائدین اور داعیان دین اس رائے سے اختلاف رکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک پاکستانی نظام اصولی اعتبار سے بالکل ٹھیک ہے اور تمام تر بگاڑ نظام پر قابض حکمران طبقے کا پیدا کردہ ہے۔ یہ لوگ پاکستان کے حالات سے زیادہ آگاہ ہیں اور اصلاح احوال کے طریقہ کار کو زیادہ بہتر طور پر جانتے ہیں ..... تو پھر مصنف ان سب حضرات کی رائے کو وزن کیوں نہیں دیتے اور اسے کیوں نہیں اپناتے؟‘‘ (ص ۱۸۱)
ظواہری اس سوال کے جواب میں دستور وقانون کی مذکورہ خرابیوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور اس کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ:
’’کتاب میں بیان کردہ موقف کا سب سے بڑا ثبوت خود پاکستان کی عملی صورت حال ہے۔ ایک فاسد دستوری وقانونی نظام پر قائم یہ ریاست اپنے قیام کے ساٹھ سال گزرنے کے بعد بھی بد سے بد تر کی طرف گام زن ہے۔ خائن ملت فوجی اور سیاسی قائدین یکے بعد دیگرے اسی بہانے کے ساتھ اقتدار پر قابض ہوتے رہے ہیں کہ وہ ملکی سیاست سے بد عنوانی ورشوت ستانی کا خاتمہ کرنے اٹھے ہیں، لیکن اقتدار سنبھالنے کے بعد ہر بار وہی مکروہ کھیل دہرایا جاتا ہے ..... یعنی پہلے سرکاری خزان سے بھاری رشوتیں دے دے کر سیاست دانوں کی وفاداریاں خریدی جاتی ہیں اور پھر ارکان پارلیمان کی غالب اکثریت کو اپنے ساتھ ملا کر ایک نئی آئینی ترمیم منظورکی جاتی ہے جس کے ذریعے حکمرانوں اور ان کے حاشیہ نشینوں کو ہر قسم کی عدالتی کارروائی اور جواب دہی سے تحفظ حاصل ہو جاتا ہے۔ یوں لوٹ مار اور فساد وبگاڑ کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جس کے خاتمے کے لیے جلد ہی کوئی دوسرا نجات دہندہ اٹھ کھڑا ہو جاتا ہے۔‘‘ (ص ۱۸۲)
لیکن بالبداہت واضح ہے کہ یہ اصل سوال کا جواب نہیں۔ سوال یہ تھا کہ اس سارے بگاڑ کی ذمہ داری حکمران طبقات پر عائد ہوتی ہے یا دستور پر؟ ظواہری کو جواب میں یہ بتانا چاہیے تھا کہ دستور کی فلاں فلاں شقیں ہیں جو حکمرانوں کے مذکورہ طرز عمل کو جواز یا تائید فراہم کرتی ہیں، جبکہ معمولی عقل رکھنے والا شخص بھی یہ سمجھ سکتاہے کہ ایسا نہیں ہے۔ ظواہری نے دستور میں جن خرابیوں کی نشان دہی کی ہے، ان کے اپنی جگہ قابل توجہ ہونے کے باوجود اس بگاڑ کے ساتھ ان کا براہ راست کوئی تعلق نہیں جس کی منظر کشی ظواہری نے کی ہے۔ ظواہری کے سارے زور بیان کے باوجود حقیقت حال یہی ہے کہ پاکستان میں اصل مسئلہ دستور یا آئین کا نقص نہیں، بلکہ قوم کا فکری ونظریاتی انتشار اور حکمران طبقات بلکہ تمام کے تمام طبقات کی غلط اور مفاد پرستانہ ترجیحات ہیں۔ ظواہری نے دستور میں جتنی خرابیوں کی نشان دہی کی ہے، اگر مقتدر طبقات کا فکری قبلہ درست ہو جائے تو ان خرابیوں کو درست کرنے کا داعیہ ازخود بیدار ہو جائے گا۔
ظواہری لکھتے ہیں:
’’دستور پاکستان کے مطالعہ سے مجھ پر یہ حقیقت بھی منکشف ہوئی کہ یہ دستور کچھ ایسے مکر وفریب کے انداز میں لکھا گیا ہے کہ مسلم عوام سے شریعت کے نفاذ کا وعدہ بھی ہو جائے ، لیکن وہ وعدہ کبھی وفا بھی نہ ہو سکے۔‘‘ (ص ۲۶)
ظواہری کی اس تنقید سے واضح ہے کہ وہ پاکستان میں دستوری اور قانونی سطح پر اسلامائزیشن کی پوری جدوجہد اور اس کے مختلف مراحل سے بالکل ناواقف ہیں۔ غالباً ان کا خیال یہ ہے کہ پاکستان بننے کے بعد اوپر بیٹھی ہوئی کسی طاقت نے عوام اور علما کو دھوکہ دینے کے لیے دستور میں کچھ اسلامی قسم کی باتیں اس انداز سے لکھ دی تھیں کہ لوگ مطمئن ہو جائیں کہ یہ ایک اسلامی مملکت ہے، لیکن عملاً اسلام نافذ نہ ہو سکے اور چونکہ دستور بنانے والوں کی نیت اور عزائم میں کھوٹ تھا، اس لیے دستور میں جان بوجھ کر ایسے نقائص رکھ دیے گئے جو اسے حقیقت کے اعتبار سے ایک ’کفریہ‘ دستور بنا دیتے ہیں۔ اب جو شخص بھی دستور کی اسلامائزیشن کی تاریخ سے واقف ہے، وہ سمجھ سکتا ہے کہ ظواہری کی اس تنقید کو (جو بالبداہت ایک سطحی اورجذباتی تنقید ہے) درست مانا جائے تو اس کی زد میں براہ راست پاکستان وہ چوٹی کی مذہبی قیادت آتی ہے جو دستور سازی کے مختلف مراحل میں شریک رہی اور ان کے اتفاق اور جدوجہد سے ہی پاکستان نے دستوری اعتبار سے ایک اسلامی مملکت کا تشخص حاصل کیا۔ یہی معاملہ قوانین کا ہے۔ ریاست پاکستان کو انگریزی دور کا قانونی ڈھانچہ وراثت میں ملا تھا اور علی الفور اس کی جگہ ایک متبادل قانونی ڈھانچہ کھڑا کر دینا نہ قابل عمل تھا اور نہ مطلوب، چنانچہ قوانین کی اصلاح کے لیے تدریج کا طریقہ اختیار کیا گیا اور مختلف مراحل پر بعض اہم شعبوں میں قوانین کی اسلامائزیشن کے میدان میں قابل لحاظ پیش رفت سامنے آئی۔ تاہم ظاہر ہے کہ اس سارے عمل میں بہت سے نقائص اب بھی موجود ہیں۔ اب اگر دستور اور قانون کی ساری غیر شرعی خامیوں پر ظواہری کی پوری تنقید کو من وعن درست مان لیا جائے تو بھی زیادہ سے زیادہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ مذہبی طبقے کی اب تک کی ساری جدوجہد کے باوجود دستور اور قانون میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو شریعت کے مکمل نفاذ کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ تنقید اس حد تک ہوتی تو وہ بجا بھی ہوتی اور اس کا وزن بھی محسوس کیا جاتا، لیکن ظواہری کا اصل مقصد چونکہ ریاست پاکستان کے خلاف خروج کا شرعی جواز ثابت کرنا ہے، اس لیے وہ مجبور ہیں کہ نہ صرف دستور کو سرے سے ایک ’کفریہ‘ دستور قرار دے دیں بلکہ اس کی ترتیب وتدوین میں شریک اعلیٰ ترین مذہبی قیادت کے خلوص اور نیک نیتی پر بھی حملہ آور ہوں اور دستور کی اسلامائزیشن کی اس ساری جدوجہد پر دھوکے او ر فریب کا لیبل چسپاں کر دیں۔
ظواہری نے افغانستان پر امریکی حملے کے حوالے سے پاکستان کی ریاستی پالیسی اور خاص طور پر پاکستانی فوج کے کردار کا بھی بالکل یک رخا اور نہایت جانب دارانہ تجزیہ کیا ہے اور چونکہ وہ ایک غیر جانب دار مبصر کی حیثیت سے نہیں، بلکہ جنگ کے ایک فریق کی حیثیت سے اپنا موقف بیان کر رہے ہیں، اس لیے ظاہر ہے کہ انھیں ایسا ہی کرنا چاہیے۔ تاہم یہ ساری صورت حال پیدا کرنے کی بنیادی ذمہ داری خود القاعدہ پر بھی عائد ہوتی ہے۔ اس ضمن میں القاعدہ کے کردار پر جو سوالات کسی بھی سوچنے سمجھنے والے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں، ظواہری نے ان سے کوئی تعرض نہیں کیا۔ مثلاً ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ امریکا کو کس کی ’حرکتوں‘ نے افغانستان میں آنے کی دعوت دی اور وہ اقدامات جن کو جواز بنا کر اس نے افغانستان پر حملہ کیا، ان کا ذمہ دار کون تھا؟ آخر شریعت اور فقہ کا یا عمومی اخلاقیات کا کون سا اصول بن لادن اور ظواہری کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ افغانستان میں بیٹھ کر وہاں کی اسلامی حکومت کی اجازت کے بغیر امریکہ پر حملوں کی منصوبہ بندی کریں جس کے نتیجے میں اپنے ان کرم فرما مہمانوں کی میزبانی کرتے ہوئے طالبان کو اپنا اقتدار قربان کرنا پڑے، پھر یہ حضرات وہاں سے بھاگ کر پاکستان کے علاقے میں پناہ لے لیں اور پاکستانی سرزمین کو اس جنگ میں استعمال کر کے ریاست پاکستان کو بھی اس مشکل سے دوچار کر دیں کہ وہ یا تو اپنی سرزمین پر امریکہ کے براہ راست حملے کا خطرہ مول لے اور یا پھر اس جنگ میں اپنی سرزمین کے استعمال کو (دنیا کی نظروں میں ہی سہی) روکنے کے لیے اپنے ہی باشندوں کے خلاف عسکری کارروائی کرے؟ جنگ کے ایک فریق، بلکہ لڑائی کا شیرہ لگانے والے کی حیثیت سے ظواہری کے لیے یہ الزام لگانا بہت آسان بھی ہے اور ان کے مفاد کا تقاضا بھی کہ پاکستانی فوج اس ’’صلیبی جنگ‘‘ میں مکمل طور پر امریکا کی آلہ کار بن چکی ہے، لیکن حالات وواقعات پر نظر رکھنے والے کوئی بھی غیر جانب دار مبصر اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کر سکتا کہ پاکستانی فوج نے امریکا کو لاجسٹک سپورٹ دینے یا قبائلی علاقوں کے آپریشن میں سے کوئی بھی فیصلہ خوش دلی اور آزادانہ اختیار کے ساتھ نہیں کیا۔ ان فیصلوں کی غلطی کتنی ہی سنگین اور نتائج کے لحاظ سے کتنی ہی تباہ کن کیوں نہ ہو، عملی محرکات کے لحاظ سے یہ صرف اور صرف حالات کے جبر کے تحت کیے گئے فیصلے تھے جس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ ہماری خفیہ ایجنسیاں شروع سے اب تک کسی نہ کسی انداز میں افغانستان میں جا کر طالبان کی حمایت میں لڑنے والوں کو سہولیات فراہم کر رہی ہے اور ایسے بہت سے قبائل کے ساتھ جو افغانستان کی جنگ میں عملاً شریک ہیں لیکن ریاست پاکستان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتے، فوج اور ریاست کے دوستانہ تعلقات قائم ہیں۔ پاکستان کی ریاستی وعسکری پالیسی کے نقائص اپنی جگہ ناقدانہ تجزیے کے مستحق ہیں اور خاص طور پر ان میں پایا جانے والا دوغلا پن اور جنگی اخلاقیات کی پامالی کسی بھی لحاظ سے تائید کی مستحق نہیں، لیکن ظواہری کو پاکستانی ریاست اور فوج کے کردار پر انگلی اٹھانے سے پہلے خود اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ انھوں نے نائن الیون جیسا تباہ کن اقدام کر کے دو مسلمان ملکوں کی ریاست، فوج اور عوام کو کشت وخون کی جس دلدل میں لا پھنسایا ہے، اس پر اسلام اور مسلمان دوستی کا آخر کون سا تمغہ ان کے سینے پر سجایا جائے؟
القاعدہ اور اس قبیل کے عناصر کی اب تک کی ساری جہد وکاوش کا خلاصہ یہی ہے کہ وہ مسلم معاشرے کی تائید اور ہمدردی حاصل کرنے کے لیے نعرہ تو بلند کرتے ہیں اسلام دشمن طاقتوں کے مقابلے کا، لیکن حکمت عملی ایسی اختیار کرتے ہیں کہ ان کی سرگرمیوں، جدوجہد اور تباہ کاریوں کا سارا رخ خود مسلم معاشروں کے داخلی نظام اور ڈھانچے کی طرف ہو جاتا ہے۔ پھر جب ایک طرف امت کی مشکلات کے حل میں کوئی کامیابی نہیں ہوتی اور دوسری طرف خود مسلم معاشرے بھی اس طرز فکر کو عمومی تائید فراہم نہیں کرتے تو اس سے ایک نفسیاتی فرسٹریشن پیدا ہوتی ہے جس کا اظہار مسلم حکمرانوں اور بارسوخ فکری طبقات کی تکفیر اور عام مسلمانوں کی کم سے کم تفسیق اور تنفیق کے فتووں کی صورت میں اور جہاں موقع ملے، ان کے خلاف مسلح جدوجہد کی شکل میں ہوتا ہے۔ جذباتی لفاظی اور الفاظ کی ملمع سازی سے صرف نظر کر لیا جائے تو القاعدہ کا اب تک کا نامہ اعمال اس کے سوا کچھ نہیں کہ اس نے ’’جہاد‘‘ کے نام پر نائن الیون اور سیون سیون جیسے غیر شرعی کارنامے انجام دیے جس کے نتیجے میں پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کی نہایت منفی تصویر ابھری اور امریکہ کو وار آن ٹیرر کے نام سے افغانستان اور عراق پر حملے کرنے کا موقع ملا۔ اسی کے براہ راست نتیجے کے طور پر افغانستان کی امارت اسلامیہ کا سقوط ہوا اور پھر افغانستان میں گھیرا تنگ ہونے پر ان عناصر نے پاکستان کے قبائلی علاقہ جات میں آ پناہ لی۔ یوں اپنے وجود اور حرکتوں سے اس علاقے کے مسلمانوں کو بھی شدید مشکلات ومصائب کا نشانہ بنا دیا۔ اور اب امت مسلمہ کے مفاد میں یہ ساری ’’خدمات‘‘ انجام دینے کے بعد ان کی نظر کرم پاکستان پر ہے اور وہ یہاں کے عوام اور اہل علم کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ وہ پاکستان کے امن و امان اور ریاستی وحکومتی ڈھانچے کو تباہ کرنے کے اس ’’کار خیر‘‘ میں ان کا ہاتھ بٹائیں تاکہ عراق اور افغانستان کی طرح امریکہ اور عالمی طاقتوں کو یہاں بھی گھس آنے کا موقع ملے اور یوں ’’مجاہدین‘‘ امت مسلمہ کی سربلندی کا ایک اور کارنامہ اپنے نامہ اعمال میں درج کرا سکیں۔
یہ طرز فکر اور حکمت عملی دراصل ایک خاص ذہنی رویے کی پیداوار ہے اور وہ یہ ہے کہ ہماری غیرت وحمیت نے اسلام کا بول بالا کرنے کے لیے جو حکمت عملی ہمیں سجھا دی ہے، وہ باقی ہر چیز سے زیادہ قیمتی اور خطا کے امکان سے کلیتاً مبرا ہے ۔ چنانچہ اگر طالبان کی حکومت کو اس کی بھینٹ چڑھایا جا سکتا ہے جو دنیا کی واحد حکومت تھی جس نے ساری دنیا کی مخالفت مول لے کر القاعدہ کی قیادت کو اپنا مہمان بنا رکھا تھا تو پاکستان کے دستور کے اسلامی تشخص کی بیک قلم نفی کر دینا کیا معنی رکھتا ہے، بھلے پاکستان کی مذہبی قیادت ساٹھ سال سے اسے قائم رکھنے کے لیے مسلسل اور ان تھک جدوجہد کر رہی ہو اور چاہے اسے پاکستان میں مذہبی طبقات کی سیاسی جدوجہد کے تنہا حاصل کی حیثیت حاصل ہو۔ کسی فر د یا گروہ نے عملاً کسی میدان میں جدوجہد کر کے کوئی مقصد حاصل نہ کیا ہو تو اسے اس کی واقعی قدر و قیمت کا احساس نہ ہونا ایک قابل فہم بات ہے، لیکن القاعدہ کی ذہنی کیفیت ’عدم احساس‘ سے کہیں آگے بڑھی ہوئی ہے اور وہ دوسرے مذہبی طبقات کی محنت اور جدوجہد کے ہر اس حاصل کو قربانی کی بھینٹ چڑھا دینے کو عین دین و شریعت کا تقاضا تصور کرتی ہے جو اس کی حکمت عملی سے ہم آہنگ نہ ہو۔
ظواہری کے بعض جملوں سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ان کا ذہن اس پہلو کی طرف کم از کم متوجہ ضرور ہو سکتا ہے ۔ چنانچہ پاکستان کو ایک کفریہ ریاست قرار دینے کے ضمن میں اپنے موقف پر، جو یہاں کے جمہور اہل علم سے مختلف ہے، انھوں نے خود یہ سوال اٹھایا ہے کہ:
’’مصنف ان سب حضرات کی رائے کو وزن کیوں نہیں دیتے اور اسے کیوں نہیں اپناتے؟ خصوصاً جبکہ پاکستانی نظام کو غیر شرعی قرار دینے کے نتیجے میں تشدد، تصادم اور فتنوں کی آگ بھڑک اٹھنے کا امکان ہے جس سے تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں حاصل ہوگا۔‘‘ (ص ۱۸۱)
تاہم سوال اٹھانے کے بعد وہ اس خاص پہلو کا براہ راست کوئی جواب نہیں دیتے اور ہمارے خیال میں خود سوال اٹھا کر جواب میں خاموشی اختیار کر لینا بڑا معنی خیز ہے بلکہ بجائے خود ایک واضح جواب کا درجہ رکھتا ہے۔ گویا وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کے فلسفے کے مطابق تو ’’تشدد، تصادم اور فتنوں کی آگ بھڑک اٹھنے‘‘ میں ہی امت کی نجات پوشیدہ ہے اور اس سے ’’تباہی وبربادی کے سوا‘‘ بھلے کچھ حاصل نہ ہو، ’’فریضہ جہاد‘‘ کا احیا تو بہرحال ہو ہی جائے گا! اس ذہنی رویے پر ان کی خدمت میں اس کے سوا کیا عرض کیا جا سکتا ہے کہ
ہوئے تم دوست جس کے، دشمن اس کا آسماں کیوں ہو!
ظواہری کے طرز استدلال کو درست طو رپر سمجھنے اور اس کی علمی وفکری قدر وقیمت متعین کرنے کے لیے نہ صرف مصنف کے فکری پس منظر بلکہ حالات وواقعات کی ترتیب کو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے۔ ایمن الظواہری کا تعلق مصر سے ہے جو عالم عرب کی معروف انقلابی مذہبی تحریک الاخوان المسلمون کی جاے پیدائش ہے۔ مصر کے ارباب اقتدار کی طرف سے اسلام پسندوں کے خلاف جبر وتشدد کے رد عمل میں حکمرانوں کے خلاف نفرت کی ایک شدید لہر پیدا ہوئی جس نے بعض شرعی تصورات کا سہارا لے کر باقاعدہ ایک فکر کی صورت اختیار کر لی۔ اس فکر کی رو سے جدید جمہوری نظام حکومت کفر اور شریعت کی بالادستی کی نفی پر مبنی ہے اور مسلمان ممالک میں نظام کی تبدیلی کے لیے حکمرانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانا ایک دینی فریضے کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایمن الظواہری اسی انقلابی نظریہ سیاست کے داعی ہیں اور اخوان سے نکلنے والے ایک انتہا پسند مسلح گروہ ’’اسلامی جہاد‘‘ کے ساتھ منسلک رہے ہیں۔ ۸۰ء کی دہائی میں افغان جنگ کے دوران میں وہ یہاں منتقل ہو گئے اور طالبان کے دور حکومت میں افغانستان ان کی امریکہ مخالف سرگرمیوں کا مرکز قرار پایا۔ ان کا شمار القاعدہ کی صف اول کی قیادت میں ہوتا ہے اور وہ نہ صرف نائن الیون اور اس نوعیت کے دوسرے واقعات کو شرعی طور پر جائز سمجھتے ہیں بلکہ ان کی ذمہ داری بھی قبول کرتے ہیں۔ نائن الیون کے بعد جب امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک نے افغانستان میں اپنی فوجیں بھیجیں تو امریکی صدر کی دھمکی پر اس وقت کے حکمران جنرل پرویز مشرف نے ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ میں امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر لیا۔ اگرچہ عسکری پالیسی سازی کی قیادت میں اس حوالے سے دو مخالف رجحانات موجود رہے، تاہم جنرل مشرف چونکہ پوری دیانت داری اور ذہنی یکسوئی کے ساتھ یہ فیصلہ کر چکے تھے، اس لیے اس کے نتیجے میں بہرحال القاعدہ اور ا س کے ساتھ ہمدردی رکھنے والے عناصر کو پاکستانی فوج کی کارروائیوں کا نشانہ بننا پڑا اور یوں پاکستان اور پاکستانی فوج بھی بتدریج جہادی عناصر کے غم وغصہ کا نشانہ اور اس کی مسلح کارروائیوں کا ہدف بنتی چلی گئی اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ افواج پاکستان کو شمالی علاقہ جات میں مختلف قبائل کے خلاف باقاعدہ فوجی آپریشن کرنے پڑے۔
اس تناظر میں پاکستان کے مذہبی حلقوں کا عمومی موقف یہ رہا ہے کہ حکومت کا افغانستان پر حملہ کرنے میں امریکا کو تعاون فراہم کرنے اور اسی کے ذیل میں قبائل کے خلاف فوجی آپریشن کا فیصلہ شرعی لحاظ سے درست نہیں ہے اور امریکا کے ساتھ تعاون کا سلسلہ فی الفور ختم کر کے قبائل کے ساتھ اختلافات کو مذاکرات کے ذریعے سے پرامن طریقے سے حل کرنا چاہیے، تاہم مذہبی طبقات نے صورت حال کی پیچیدگی کا بجا طور پر ادراک کرتے ہوئے حکومتی پالیسیوں پر تنقید کے باوجود ریاست کے خلاف بغاوت اور ریاستی اداروں کے خلاف مسلح جدوجہد کا طریقہ اختیار کرنے کی بھی کوئی واضح تائید یا حمایت عمومی طور پر نہیں کی اور ایک مخصوص صورت حال کے تناظر میں بڑی حد تک حالات کے جبر کے تحت اختیار کی جانے والی ناروا حکومتی پالیسیوں کو اس بات کے لیے مناسب جواز تسلیم نہیں کیا کہ پورے ریاستی نظام کی رٹ کو چیلنج کر دیا جائے یا اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے یا کمزور کرنے کی کوششیں شروع کر دی جائیں۔
ظواہری کی زیر نظر تصنیف دراصل اسی صورت حال میں پاکستان کے عوام اور اہل علم کے نقطۂ نظر کو تبدیل کرنے کی ایک کوشش ہے اور چونکہ مقصود پاکستان کے عوام کے سامنے شریعت کی بالادستی قائم کرنے کا کوئی متبادل لائحہ عمل پیش کرنا یا جمہوری جدوجہد سے ہٹ کر کوئی دوسرا طریقہ اختیار کرنے پر آمادہ کرنا نہیں، اس لیے کم سے کم زیر نظر تصنیف میں ان پہلووں پر کوئی بحث بھی نہیں کی گئی۔ اس تصنیف کی حد تک ظواہری کا مطمح نظر بس اتنا ہے کہ ریاست پاکستان اور شمالی علاقہ جات (جہاں مبینہ طور پر القاعدہ کی قیادت پناہ لیے ہوئے ہے) کے بعض قبائل کے مابین جاری جنگ میں ریاست کے بجائے باغی عناصر کا ساتھ دیا جائے یا کم سے کم ان کی مخالفت نہ کی جائے۔ ظواہری لکھتے ہیں:
’’پس اگر آپ کلی طور پر ہماری موافقت نہ بھی کریں تو اتنا تو کر ہی سکتے ہیں کہ جرات ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمارے فقہی موقف کی درستی تسلیم کریں اور ان ظالم وفاجر لوگوں کی صفوں میں شامل ہونے سے انکار کر دیں جو دشمنان دین کے ساتھی بن کر ہمارے مقابل کھڑے ہیں۔ .... پس قبائل میں برسرپیکار مجاہدین کی حمایت کرنا آپ کا شرعی فریضہ ہے۔ آخر یہی تو وہ فی سبیل اللہ مجاہدین ہیں جو نہ صرف امریکہ اور عالمی صلیبی طاقتوں کے مد مقابل ڈٹے ہوئے ہیں، بلکہ اس صلیبی اتحاد کے اساسی رکن پاکستان کی فوج کے مظالم بھی ثابت قدمی سے برداشت کر رہے ہیں۔ لہٰذا ان حالات میں شریعت کا کم سے کم تقاضا یہ بھی ہے کہ امریکہ کی وفادار اور اسلام سے غدار حکومتوں کے خلاف خروج کرنے والوں کی مخالفت نہ کی جائے۔‘‘ (ص ۱۸۳)
ظواہری کی کاوش کے اس عملی محرک کو سامنے رکھا جائے تو وہ پاکستان کے علما اور عوام کی صحیح راہ نمائی سے زیادہ تحفظ ذات کے جذبے کی غمازی کرتی ہے۔ وہ دستور کے فنی تجزیے، اسلام اور جمہوریت کے علمی تقابل اور پاکستانی نظام کی خرابیوں جیسی اعلیٰ علمی بحثیں چھیڑ کر تاثر تو یہ پیدا کرتے ہیں کہ ان کے لیے اس ساری جہد وکاوش کا محرک نفاذ شریعت کی جدوجہد میں پاکستان کے اہل علم اور مذہبی قیادت کا قبلہ درست کرنے کاجذبہ بنا ہے، لیکن بحث کی تان جس نکتے پر آکر ٹوٹتی ہے، وہ یہ ہے کہ شمالی علاقہ جات کے قبائل کی بغاوت کی تائید کی جائے جو اس وقت القاعدہ کی قیادت کے لیے بظاہر دنیا کی آخری پناہ گاہ ہے۔ ہمارے نزدیک یہ نکتہ ان کی اس ساری سعی کی فکری قدر وقیمت متعین کرنے میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔
بہرحال، آئیے پاکستان کو ایک غیر اسلامی ریاست اور دستور پاکستان کو ایک غیر اسلامی دستور ثابت کرنے کے لیے ظواہری کے استدلالی مقدمے کا جائزہ لیتے ہیں۔
پاکستان میں اسلامی جماعتوں کے داعی اور کارکن عام طور پر یہ رائے رکھتے ہیں کہ ’’پاکستان کا دستور صحیح اسلامی اساس پر قائم ہے ۔یہ دستور عامۃ المسلمین کو اپنے نمائندے چننے اور شریعت کی روشنی میں اپنے حکام کا محاسبہ کرنے کی مکمل آزادی فراہم کرتا ہے۔ پس مسئلہ دستور یا نظام کا نہیں، بلکہ اس فاسد حکمران طبقے کا ہے جو کبھی بزور قو ت اور کبھی دیگر ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے اقتدار پر قابض ہے اور دستور میں درج امور کی پابندی نہیں کرتا۔‘‘ (ص ۱۵، ۱۶) ظواہری کو اس رائے سے اختلاف ہے ۔ ان کا موقف یہ ہے کہ:
’’دستور پاکستان کے مطالعہ سے مجھ پر یہ حقیقت بھی منکشف ہوئی کہ یہ دستور کچھ ایسے مکر وفریب کے انداز میں لکھا گیا ہے کہ مسلم عوام سے شریعت کے نفاذ کا وعدہ بھی ہو جائے، لیکن وہ وعدہ کبھی وفا بھی نہ ہو سکے۔ مجھے تو تعجب ہوتا ہے کہ اس وقت کے بڑے بڑے علماء اور داعی حضرات بھی اس دھوکے کا شکار ہو کر دستور کی تعریف وتقدیس بیان کرتے رہے۔ (ہاں! اس میں کچھ شک نہیں کہ ان حضرات کا اس دستور سے نیا نیا واسطہ پڑا تھا اور ابھی اس کے عملی اثرات بھی پوری طرح واضح نہیں ہو پائے تھے، لہٰذا غلط فہمی میں مبتلا ہونے کا شاید کوئی امکان موجود تھا) .... البتہ اصل تعجب کے لائق تو ہمارے وہ فاضل دوست ہیں جو نفاذ شریعت کے جھوٹے وعدوں کو ساٹھ (۶۰) سال گزر جانے کے بعد بھی وہی گھسے پٹے اوہام واشکالات دہرائے چلے جا رہے ہیں اور آج تک دستور پاکستان کی اسلامیت کے فریب سے دامن نہیں چھڑا پائے۔‘‘ (ص ۲۶)
ظواہری نے جن استدلالات کی بنیاد پر دستور پاکستان کا مبنی بر’کفر‘ ہونا ثابت کیا ہے، ان پر نظر ڈالنے سے پہلے تکفیر کے ضمن میں فقہا کے دو متفقہ اصولوں کا ذکر کر دینا ضروری معلوم ہوتا ہے۔
تکفیر کا سب سے بنیادی اصول یہ ہے کہ کوئی بھی قول، چاہے وہ بظاہر کفریہ ہی کیوں نہ دکھائی دیتا ہو، اگر وہ ایک سے زیادہ مفاہیم کا احتمال رکھتا ہو اور ان میں سے کوئی ایک ضعیف احتمال بھی ایسا ہو جو اسے کفر کے دائرے سے نکال دیتا ہو تو اسے اسی مفہوم پر محمول کیا جائے گا تا آنکہ قائل خود یہ صراحت نہ کر دے کہ اس کی مراد کفریہ مفہوم ہی ہے۔ ابن نجیم لکھتے ہیں:
اذا کان فی المسالۃ وجوہ توجب التکفیر ووجہ واحد یمنع التکفیر فعلی المفتی ان یمیل الی الوجہ الذی یمنع التکفیر تحسینا للظن بالمسلم.
(البحر الرائق ۵/۱۳۴)
’’اگر کسی مسئلے میں کئی احتمال ایسے ہوں جو تکفیر کو واجب کرتے ہوں اور صرف ایک احتمال تکفیر سے مانع ہو تو مفتی کا فرض ہے کہ وہ مسلمان کے ساتھ حسن ظن کی بنیاد پر اس وجہ کو اختیار کرے جو تکفیر سے مانع ہو۔‘‘
علماء کلام نے اس کی ایک واضح نشانی یہ بتائی ہے کہ جس قول یا عمل کو کفر کہا جا رہا ہے، اس کا کفر ہونا ایسا واضح ہو کہ مسلمان بالاجماع اسے کفر قرار دینے میں کوئی تردد محسوس نہ کریں۔ باقلانی لکھتے ہیں:
ولا یکفر بقول ولا رای الا اذا اجمع المسلمون علی انہ لا یوجد الا من
’’کسی بات یا رائے پر اس وقت تک تکفیر نہ کی جائے جب تک مسلمانوں کا اس پر اجماع نہ ہو کہ وہ بات کسی
کافر ویقوم دلیل علی ذلک فیکفر.
(فتاویٰ السبکی ۲/۵۷۸)
کافر ہی سے صادر ہو سکتی ہے اور اس پر دلیل قائم ہو جائے، تب اسے کفر قرار دیا جائے گا۔‘‘
دوسرا اصول یہ ہے کہ کسی استنباطی یا اجتہادی شرعی مسئلے کے انکار کی بنیاد پر، چاہے اس پر فقہا کا اجماع ہی کیوں نہ ہو، کسی کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔ تکفیر کے لیے ضروری ہے کہ آدمی نے قطعی، واضح اور غیر محتمل نص سے ثابت شریعت کے کسی اصولی اور اساسی حکم کا انکار کیا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جنرل ایوب خان کے دور میں جو عائلی قوانین منظور کیے گئے، اس کی بہت سی شقیں متفق علیہ شرعی احکام کے منافی تھیں، لیکن چونکہ وہ دین کے اصولی نہیں، بلکہ فروعی مسائل تھے اور قطعی طور پر منصوص نہیں بلکہ استنباطی تھے، اس لیے اس وقت سے آج تک کسی بھی ذمہ دار عالم یا مفتی نے اس پر ’کفر‘ کافتویٰ صادر نہیں کیا۔
ان اصولوں کی رعایت ایک عام فرد کی تکفیر میں بھی ضروری ہے، جبکہ معاملہ اگر ایک پورے نظام ریاست اور اس کے دستور کا ہوجس کی ترتیب وتدوین میں وقت کے جید ترین اور اکابر علما شریک رہے ہوں اور وہ پورے اعتماد کے ساتھ اس دستور کو ایک اسلامی دستور قرار دے رہے ہوں تو اس دستور کی کسی دفعہ سے ’کفر‘ اخذ کرتے ہوئے مذکورہ اصولوں کی اہمیت کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
ان اصولوں کی روشنی میں اب یہ دیکھیے کہ ظواہری نے دستور پاکستان کو ’کفر‘ قراردینے کے لیے کیا دلائل پیش کیے ہیں۔
ظواہری نے سب سے پہلا اور بنیادی نکتہ یہ اٹھایا ہے کہ دستور، ارکان پارلیمان کو مطلق طور پر دستور کی کسی بھی شق میں ترمیم کا حق دیتا ہے اور چونکہ یہاں بظاہر ایسی کوئی قید نہیں لگائی جس سے معلوم ہوتا ہو کہ پارلیمنٹ قرآن و سنت کی بالادستی کو تسلیم کرنے اور قانون سازی میں شریعت کی پابندی کی شقوں میں ترمیم کرنے کی مجاز نہیں ہے، اس لیے اپنے اطلاق کے لحاظ سے یہ دستور پارلیمنٹ کو اختیار دیتا ہے کہ وہ چاہے تو شریعت کی بالادستی کو تسلیم کرنے سے بھی انکار کر سکتی ہے۔
ہم نے تکفیر کا جو پہلا اصول بیان کیا ہے، اس کی روشنی میں دیکھا جائے تو ظواہری کا یہ استدلال سرے سے بے بنیاد ہے۔ سیدھا سا سوال ہے کہ کیا آئین میں ترمیم کا حق دینے والی اس شق کی جو تعبیر ظواہری نے پیش کی ہے، وہی اس کی واحد ممکن تعبیر ہے یا اس کے علاوہ بھی کوئی تعبیر ممکن ہے جو اسے ’کفر‘ سے بچاتی ہو؟ ہمارے علم کی حد تک پاکستان کی دستوری تاریخ میں اس شق کا یہ مطلب سب سے پہلے ظواہری نے پیش کیا ہے، جبکہ علما، ججز اور قانون دان طبقے میں سے کسی نے بھی اس سے یہ مفہوم اخذ نہیں کیا۔ یہ ایک سادہ اصول ہے کہ کسی بھی دستاویز کے کسی جز کا منشا و مراد اس دستاویز کے اصولی ونظری مفروضات، مجموعی مزاج اور دستاویز میں شامل دیگر تصریحات کو نظر انداز کر کے متعین نہیں کیا جا سکتا۔ آئین یہ تصریح کرتا ہے کہ اسے ایک اسلامی مملکت کے منتخب نمائندے اس مقصد کے لیے وضع کر رہے ہیں کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے اس ملک کے اجتماعی نظام کو اللہ اور اس کے رسول کی منشا کے مطابق چلایا جا سکے۔ گویا ’مسلمان‘ ہونا اور اللہ اور اس کے رسول کی ہدایات کی پابندی کو قبول کرنا آئین کا بنیادی مفروضہ ہے، جبکہ اس کی کسی بھی شق کے محض ظاہری الفاظ کے اطلاق سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ دستور کو تشکیل دینے والے اپنے لیے قرآن وسنت کی بالادستی کے انکار کی گنجائش بھی دستور میں رکھنا چاہتے ہیں، اس بنیادی مفروضے کے بالکل خلاف ہے۔ اس لحا ظ سے ظواہری کا یہ استنتاج صرف احمقانہ اور بے بنیاد نہیں، بلکہ سخت اشتعال انگیز بھی ہے۔
مذکورہ بنیادی نکتے کے علاوہ ظواہری نے دستور میں سات مزید ایسے امورکی نشان دہی کی ہے جو شریعت کے منافی ہیں۔ یہ امور حسب ذیل ہیں:
۱۔ آئین میں بعض اشخاص اور اداروں کو قانونی محاسبہ سے بالاتر رکھا گیا ہے۔
۲۔ آئین کی رو سے سربراہ ریاست کو کسی بھی جرم پر سزاے موت کو معاف کرنے کا اختیار حاصل ہے۔
۳۔ آئین میں قاضی کے لیے عادل ہونے کی شرط نہیں لگائی گئی جبکہ مسلمان ہونے کی شرط صرف شرعی عدالت کے قاضی کے لیے لگائی گئی ہے۔
۴۔ آئین میں سربراہ ریاست کے لیے مرد ہونے کی شرط نہیں لگائی گئی۔
۵۔ ایسے افراد کو سزا سے تحفظ فراہم کیا گیا ہے جنھوں نے اس فعل کو قانونی طور پر جرم قرار دیے جانے سے پہلے اس جرم کا ارتکاب کیا ہو۔
۶۔ ایک جرم پر دو مرتبہ سزا دینے کی ممانعت کی گئی ہے۔
۷۔ دستور میں سو د کے خاتمے کا صرف وعدہ کیا گیا ہے جس پر آج تک عمل نہیں ہوا۔
ظواہری کا کہنا ہے کہ مذکورہ تمام امور شریعت کے خلاف ہیں اور کسی بھی خلاف شریعت امر کو قانون کا درجہ دینا کفر ہے، اس لیے مذکورہ امور کو دستور کا حصہ بنانا اسے ایک ’کفریہ‘دستور کا درجہ دے دیتا ہے۔
مذکورہ دفعات کی نشان دہی اور پھر ان کا تجزیہ کرتے ہوئے ظواہری نے دستور اور قانون کے فہم کا ایک ایسا نمونہ پیش کیا ہے جسے کسی بھی طرح قابل رشک نہیں کہا جا سکتا۔ ان کے ’تکفیری‘ رجحان کا سب سے دل کش نمونہ سود کے حوالے سے دستور کی دفعہ ۳۸ کو کفر قرار دینے کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ یہ دفعہ یہ کہتی ہے کہ عوام کی معاشی او ر معاشرتی فلاح وبہبود کی خاطر جس قدر جلد ممکن ہو، سود کو ختم کیا جائے گا۔ اب اس دفعہ کو مثبت ذہن سے دیکھا جائے تو یہ دستور کی ’اسلامیت‘ کا اظہار کرتی ہے کہ اس میں سود کے خاتمے کو مقصد قرار دیا گیا ہے، البتہ چونکہ اسے پورے نظام سے فوری طور پر ختم کرنا ممکن نہیں، اس لیے اسے حالات کی سازگاری پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ تاہم ظواہری کی باریک بیں نگاہ نے اس دفعہ میں بھی ’کفر‘ کو تلاش کر لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ محض ایک وعدہ ہے جسے آج تک ایفا نہیں کیا گیا۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس پر کیا تبصرہ کیا جائے؟ اگر وعدے کو ایفا نہیں کیا گیا تو یہ دستور کا قصور ہے یا قانون ساز اداروں کا؟ ارباب اقتدار کے منافقانہ رویوں کی وجہ سے دستور کی یہ دفعہ جو انھیں سود کے خاتمے کا پابند بنا رہی ہے، کیسے ’کفر‘ بن گئی؟ اپنی بات سمجھانے کے لیے ظواہری نے یہ مثال دی ہے کہ ’’جیسے ایک شخص کہے کہ میں عنقریب نماز پڑھوں گا یا میں عنقریب اسلام قبول کروں گا تو کیا محض ایک زبانی وعدے پر یہ شخص نمازی یا مسلمان کہلا سکتا ہے؟‘‘ (ص ۱۲۱) یہ ارشاد بھی ’جو بات کی، خدا کی قسم لا جواب کی‘ کا ایک نمونہ ہے۔ اگر ایک مسلمان یہ کہتا ہے کہ میں عنقریب نماز پڑھوں گا اور پھر نہ پڑھے تو اسے یقیناًنمازی نہیں کہا جائے گا، لیکن کیا اس سے وہ ’کافر‘ ہو جائے گا؟ دستور کی ہدایات اور اس پر عمل درآمد کرنے والی قانونی وانتظامی مشینری کے باہمی فرق کو سامنے رکھا جائے تو ظواہری کے اس فتوے کی مثال یوں بنتی ہے کہ اگر ایک شخص دوسرے سے یہ کہے کہ تم سود لینا چھوڑ دو، لیکن دوسرا شخص اس کی ہدایت پر عمل نہ کرے تو اس سے پہلا شخص کافر ہو جائے گا۔
اگر ظواہری یہ کہنا چاہتے ہیں کہ سود کے خاتمے کے لیے مہلت دینا اور ’تدریج‘ کا طریقہ اختیار کرنا ’کفر‘ہے تو پھر یہ مسئلہ ایک نازک اصولی بحث سے متعلق ہو جاتا ہے۔ اگر وہ واقعی عملی حکمت ومصلحت کے لحاظ سے کسی فرد یا گروہ یا معاشرے کو احکام شریعت کا پابند بنانے میں تدریج کے طریقے کو ’کفر‘ سمجھتے ہیں تو پھر انھیں اس سوال کا جواب دینا ہوگا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو اسلام قبول کرنے کے بعد اس کے مطالبے پر یہ رخصت کیوں دی تھی کہ وہ سردست صرف دو نمازیں ادا کر لیا کرے؟ (الآحاد والمثانی، رقم ۹۴۱۔ اسد الغابہ، ۶/۴۷۵) اسی طرح آپ نے بنو ثقیف سے اسلام کی بیعت لیتے ہوئے ان کی یہ شرط کیوں قبول کی کہ وہ زکوٰۃ نہیں دیں گے اور جہاد بھی نہیں کریں گے؟ آپ نے فرمایا کہ جب وہ صحیح معنوں میں مسلمان ہو جائیں گے تو زکوٰۃ بھی دینے لگیں گے اور جہاد بھی کریں گے۔ (سنن ابی داود، رقم ۳۲۰۵)
’کفر سازی‘ اور ’کفر‘ کشید کرنے کے اسی ذہنی رجحان کا اظہار ظواہری نے باقی مثالوں میں بھی کیا ہے۔ مثال کے طور پر دستور کی دفعہ ۴۸ صدر کے کسی کو جواب دہ نہ ہونے کے معاملے کو واضح طور پر ان مخصوص معاملات تک محدود کرتی ہے جن میں اسے دستور کی رو سے صواب دیدی اختیار حاصل ہو، جبکہ اس کے علاوہ باقی امور کی انجام دہی میں صدر کو کابینہ یا وزیر اعظم کے مشورے کا پابندبنایا گیا ہے۔ واضح لفظوں میں لکھی ہوئی اس تصریح کے باوجود ظواہری اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ’’یہ دفعہ صدر کو اس کے ہر فعل میں کھلی چھوٹ اور تحفظ فراہم کرتی ہے، خواہ اس کا فعل شریعت سے موافق ہو یا شریعت کے مخالف۔‘‘ (ص ۸۹) اس کی مثال انھوں نے یہ دی ہے کہ ’’اگر صدر پاکستان فوج کو یہ حکم دے کہ قبائل پر حملہ کر کے انھیں روند ڈالو ..... یا اسی طرح انھیں حکم دے کہ گرفتار شدہ مجاہدین امریکہ کے حوالے کر دو تو اسے یہ سب احکامات صادر کرنے کا اختیار حاصل ہے ..... نہ اس سے پوچھ گچھ ممکن ہے نہ ہی اس کے خلاف یہ حجت قائم کرنا ممکن ہے‘‘ (ص ۸۸)۔ دستور اور نظام حکومت سے واقف ایک مبتدی طالب علم بھی یہ جانتا ہے کہ مذکورہ احکامات سرے سے صدر کے دائرۂ اختیار میں آتے ہی نہیں۔ یہ اختیار وزیر اعظم کے پاس ہے جو اپنے فیصلوں کے لیے پارلیمنٹ کو جواب دہ ہے۔ یہاں دستور کو سمجھنے کے لیے ظواہری نے دراصل جنرل پرویز مشرف کے ان فیصلوں اور اقدامات کو اپنا ماخذ بنایا ہے جو انھوں نے دستور کو پامال کر کے سارے اختیارات طاقت کے زور پر اپنی ذات میں مرتکز کر لینے کے بعد کیے تھے۔
یہی صورت حال دستور کی دفعہ ۱۴۸ کی ہے جو صدر، وزیر اعظم، گورنر، وزراے اعلیٰ اور وفاقی وصوبائی وزرا کو ان افعال کے لیے عدالتی جواب دہی سے مستثنیٰ قرار دیتی ہے جو انھوں نے اپنے حکومتی فرائض کی انجام دہی کے دوران میں کیے ہوں۔ اس پر ظواہری کا تبصرہ یہ ہے کہ یہ دفعہ ’’جو بعض حکومتی عہدے داران کو عدالت میں پیشی سے تحفظ فراہم کرتی ہے، شریعت سے صراحتاً متصادم ہے اور یہ بات تو ہم پہلے ہی بیان کر چکے ہیں کہ شریعت کی مخالفت کو قانون کی شکل دینا کفر ہے، اگرچہ وہ مخالفت بذات خود صرف فسق ہی ہو۔‘‘ (ص ۹۱)
یہاں بھی قانون کا وہی سطحی فہم کارفرما ہے جس کا نمونہ ہم گزشتہ مثال میں دیکھ چکے ہیں۔ دستور کی یہ دفعہ مذکورہ حکومتی عہدے داروں کو مطلقاً محاکمے اور محاسبے سے نہیں، صرف ’’عدالتی‘‘ محاسبے سے مستثنیٰ قرار دے رہی ہے اور اس کے پس منظر میں ان کے قانون سے بالاتر ہونے کا تصور نہیں بلکہ نظام حکومت کو چلانے میں مختلف اداروں کو ایک دوسرے کے دائرۂ کار میں بے جا مداخلت سے روکنا ہے۔ یہ انتظام اس لیے کیا گیا ہے کہ اگر حکمرانوں کو عدالتی محاسبہ سے مستثنیٰ نہ رکھاجائے تو ان کے لیے روز مرہ کے انتظامی اور حکومتی معاملات چلانا بھی دشوار ہو جائے گا۔ یقیناًاس کے کچھ منفی اثرات بھی ہیں اور اس انتظام سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے، لیکن بہرحال اس کا اصل پس منظر یہی ہے اور اسے ’کفر‘سے موسوم کرنا محض ظواہری کی انتہا پسندانہ سوچ کا نتیجہ ہے۔ اس سے ملتی جلتی ایک نظیر خود اسلامی فقہ میں موجود ہے، چنانچہ امام ابوحنیفہ ایک خاص قانونی نکتے کی روشنی میں اس بات کے قائل ہیں کہ ریاست کا سربراہ اعلیٰ اگر کسی قابل حد جرم مثلاً زنا، چوری وغیرہ کا مرتکب ہو تو اس کا مواخذ ہ نہیں کیا جا سکتا۔ ابن الہمام لکھتے ہیں:
وکل شی فعلہ الامام الذی لیس فوقہ امام مما یجب بہ الحد کالزنا والشرب والقذف والسرقۃ لا یواخذ بہ الا القصاص والمال .... لان الحد حق اللہ تعالی وہو المکلف باقامتہ وتعذر اقامتہ علی نفسہ لان اقامتہ بطریق الخزی والنکال ولا یفعل احد ذلک بنفسہ ولا ولایۃ لاحد علیہ لیستوفیہ.(فتح القدیر ۵/۲۷۷)
’’قصاص اور مالی بدعنوانی کے علاوہ ہر ایسا قابل حد جرم جس کا ارتکاب وہ حکمران کرے جس کے اوپر کوئی حکمران نہیں، جیسا کہ زنا، شراب نوشی، قذف اور چوری، اس کا مواخذہ نہیں کیا جائے گا، کیونکہ حد، حق اللہ ہے اور حاکم اعلیٰ ہی حدود کو (رعیت پر) قائم کرنے کا مکلف ہے۔ اس کا خود اپنی ذات پر حد قائم کرنا متعذر ہے کیونکہ حد تو رسوائی اور عبرت کے طریقے پر قائم کی جاتی ہے اور کوئی شخص خود اپنے ساتھ یہ سلوک نہیں کر سکتا، جبکہ کسی دوسرے کو اس پر ولایت (قانونی اختیار) حاصل نہیں کہ وہ اس پر حد نافذ کر سکے۔‘‘
اس رائے سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، لیکن بہرحال یہ ائمہ مجتہدین میں سے ایک مسلمہ اور مستند امام کی رائے ہے جسے ظواہری اپنے سطحی قانونی فہم کے تحت چھوٹتے ہی ’کفر‘ کا عنوان دے دیا ہے۔
سربراہ ریاست کے مرد ہونے اور قاضی کے مسلمان اور عادل ہونے کی شرائط اپنی جگہ اہمیت رکھنے کے باوجود ایسی نہیں ہیں کہ دستور میں ان کو شامل نہ کیے جانے کو ’کفر‘ کے ہم معنی قرار دیا جائے۔ قاضی کے مسلمان اور عادل ہونے کی شرائط فقہا کی استنباط کردہ ہیں اور قرآن یا حدیث کی کسی نص میں واضح طور پر قاضی کے لیے ان شرائط کولازم نہیں کہا گیا۔ حکمران کے مرد ہونے کی شرط نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک تبصرے سے اخذ کی گئی ہے جو آپ نے اہل فارس کے کسریٰ کی بیٹی کو حکمران بنانے پر کیا تھا۔ اصول فقہ کی رو سے اس ارشاد کو براہ راست حرمت کا بیان نہیں کہا جا سکتا، اس لحاظ سے یہ شرط بھی بنیادی طور پر استنباطی ہے۔ مزید برآں ماضی قریب میں برصغیر کے ایک جید فقیہ اور عالم مولانا اشرف علی تھانوی یہ نقطۂ نظر پیش کر چکے ہیں کہ اس ممانعت کی اصل علت عورت کی رائے پر حتمی اور کلی انحصار ہے، اس لیے جمہوری نظام حکومت میں ، جہاں حکمران اپنے فیصلوں کے لیے اصولی طور پر پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے، عورت کے حاکم بننے پر پابندی نہیں۔ چنانچہ دستور میں مذکورہ شرائط میں سے کسی بھی شرط کو شامل نہ کرنا شریعت کے نہیں، بلکہ شریعت کی ایک خاص اجتہادی واستنباطی تعبیر کے خلاف ہے جسے کسی بھی لحاظ سے ’کفر‘ سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔
ظواہری کے پیش کردہ نکات میں سے صرف ایک نکتہ ایسا ہے جسے فی الواقع دستور میں شریعت کے ساتھ تصادم کی مثال کے طو رپر پیش کیا جا سکتا ہے ، یعنی سربراہ مملکت کے لیے کسی بھی جرم میں سزاے موت کو معاف کر دینے یا اس میں تخفیف کرنے کا اختیار ۔ قصاص کے مقدمات کے علاوہ عمومی طور پر سربراہ مملکت کے لیے یہ اختیار تو ہمارے نزدیک شریعت کے کسی صریح حکم کے ساتھ متصادم نہیں، اگرچہ اس پر بعض دیگر سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں، البتہ قصاص کے مقدمے میں سزاے موت کی معافی ازروے شریعت مقتول کے ورثا کی رضامندی کے ساتھ مشروط ہے جس کا اس دفعہ میں لحاظ نہیں رکھا گیا۔ اس اعتبار سے اس شق کو جزوی طورپر شریعت کے منافی کہا جا سکتا ہے، تاہم تکفیر کے پہلے اصول کے تحت اس کو ’کفر‘ سے تعبیر کرنا اس لیے ممکن نہیں کہ اول تو دستور وضع کرنے والوں کے نیت اور ارادے کے بارے میں یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ انھوں نے اس شق کے الفاظ کو قصداً اور ارادۃً یہ جانتے ہوئے عام رکھا ہے کہ اس کا نتیجہ شریعت کی ایک ہدایت کی خلاف ورزی کی صورت میں نکل رہا ہے۔ ایسا بالکل ممکن ہے کہ یہ شق دستور میں درج کرتے ہوئے اس کا یہ اطلاقی پہلو کہ بعض صورتوں میں یہ اختیار شریعت کے منافی ہے، سرے سے واضعین کے سامنے ہی نہ ہو۔ ظاہر ہے کہ توجہ نہ ہونے کی بنا پر نادانستہ ایسی کوئی بات کہہ دینے سے ہرگز کفر لازم نہیں آتا۔ پھر یہ کہ دستور کی اس شق کے بارے میں عدالتی سطح پر یہ باقاعدہ بحث رہی ہے کہ دستور کی ان شقوں کی موجودگی میں جو شریعت کی بالادستی کی ضمانت دیتی ہیں، زیر بحث شق قابل عمل اور قابل نفاذ بھی ہے یا نہیں۔
ظواہری نے اس ضمن میں حاکم خان کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا ہے جس میں قرار دیا گیا ہے کہ دستور کی یہ دونوں شقیں مساوی درجہ رکھتی ہیں اور کوئی ایک شق دوسری کو کالعدم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ تاہم یہ واضح ہے کہ دستور کی تعبیر کے حوالے سے یہ رائے کوئی اتنی واضح اور قطعی نہیں کہ اس سے مختلف کسی تعبیر کا امکان ہی نہ ہو اور اسی نکتے کے حوالے سے ہائی کورٹ اس کے برعکس یہ رائے دے چکی ہے کہ اسلامی شریعت کی بالادستی کی دفعہ دیگر دفعات پر بالادستی رکھتی ہے۔ اگرچہ عملی طور پر اس معاملے میں سپریم کورٹ کی تعبیر موثر ہے، لیکن ہائی کورٹ کے فیصلے سے یہ بات بہرحال واضح ہے کہ علمی طو رپر اس سے مختلف تعبیر کا امکان موجود ہے۔ پھریہ کہ اس شق کے حوالے سے تمام تر قانونی بحث کا حاصل صرف یہ ہے کہ دستور میں قرآن وسنت کی بالادستی کی جو ضمانت دی گئی ہے، اس کے حوالے سے ایک ایسی الجھن موجود ہے جو ’’تکنیکی‘‘ طور پر اس بات سے مانع ہے کہ عدالتیں دستور کی اس شق کی بنیاد پر قرآن وسنت کے منافی کسی حکم کو کالعدم قرار دیں، نہ یہ کہ اس ضمانت کی سرے سے کوئی حیثیت ہی نہیں، جیسا کہ ظواہری اس سے یہ نتیجہ اخذ کر کے دستور کو ’’کافرانہ‘‘ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حاکم خان کیس میں عدالت نے اس نکتے کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اس تکنیکی الجھن کے حل کے لیے عدالت عالیہ کی طرف نہیں، بلکہ پارلیمنٹ کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔
یہ ہے دلائل کی وہ کل کائنات جن سے ظواہری نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ پاکستان میں مسئلہ محض حکمران طبقے کا نہیں، بلکہ پاکستان کا دستور او ر نظام حکومت بھی غیر اسلامی ہے اور اس وقت ملک میں اور خاص طور پر ریاستی پالیسیوں کی سطح پر جو بگاڑ نظر آ رہا ہے، وہ غیر اسلامی دستور ہی کا نتیجہ ہے۔ ظواہری کے پہلے سے طے شدہ مقصد کے لحاظ سے ان کا یہ استدلال قابل فہم ہے، کیونکہ اگر ریاست کو نظری اساسات کی حد تک ’اسلامی‘ تسلیم کر لیا جائے جبکہ بگاڑ کا ذمہ دار صرف ارباب اقتدار کے فکری رویوں اور پالیسیوں کو سمجھا جائے تو اس کی وجہ سے پورے ریاستی نظام کے خلاف بغاوت کا جواز ثابت نہیں کیا جا سکتا، جبکہ ظواہری یہ چاہتے ہیں کہ مذہبی طبقات اور اہل علم کو ریاست کے خلاف خروج کی باقاعدہ تائید پر آمادہ کیا جائے۔ اس پہلو سے دستور کے کفریہ ہونے کی بحث کسی حد تک اس نتیجے تک پہنچا سکتی ہے جو ظواہری کو مطلوب ہے۔ تاہم ان کے اس تجزیے پر چند در چند منطقی سوالات پیدا ہوتے ہیں جن کا کوئی جواب ان کے ہاں نہیں ملتا۔
مثال کے طور پر ظواہری کے استدلال کا ایک منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انھوں نے دستور میں جن خرابیوں کی نشان دہی کی ہے، اگر انھیں درست کر لیا جائے تو پھر عملی بگاڑ کی جو صورت حال ہے، وہ باقی نہیں رہنی چاہیے۔ ظاہر ہے کہ جب ان کے تجزیے کے مطابق خرابی کا اصل منبع مقتدر طبقات کے رویے نہیں، بلکہ خود دستور ہے تو پھر اس کی اصلاح کے بعد وہ نتائج بھی باقی نہیں رہنے چاہییں جنھیں ظواہری ایک غیر اسلامی دستورکا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر دستور میں ارکان پارلیمان کو دو تہائی اکثریت سے کسی بھی ترمیم کا جو حق دیا گیا ہے، اگر اسے مطلق رہنے کے بجائے مقید کر دیا جائے، بعض اشخاص اور اداروں کو محاسبہ ومواخذہ سے حاصل استثنا ختم کر دیا جائے، صدر مملکت کا بعض سزاؤں کی معافی کا اختیار کالعدم کر دیا جائے، سربراہ مملکت کے لیے مرد ہونے جبکہ قاضی کے لیے عادل اور مسلمان ہونے کی شرط لگا دی جائے ، سود کے خاتمے کے ایک غیر معین وعدے کے بجائے اسے ایک متعین مدت میں ختم کر دینے کی پابندی عائد کر دی جائے، شریعت کی بالادستی کے ضمن میں دستور کی بعض دفعات میں پائے جانے والے تضاد کو دور کر دیا جائے اور وفاقی شرعی عدالت کے دائرۂ اختیار کو تمام قوانین تک وسیع کر دیا جائے تو ظواہری کے طرز استدلال کی رو سے نظام ریاست کا بگاڑ درست ہو جانا چاہیے، کیونکہ ان کے خیال میں بگاڑ کی اصل وجہ حکمران طبقات نہیں، بلکہ دستور کے مذکورہ نقائص ہیں۔ اب یہ استدلال منطقی لحاظ سے کتنا مضبوط ہے، اس پر شاید تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں۔
ظواہری نے اپنے موقف پر خود یہ سوال اٹھایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’صاحب کتاب کا موقف ہے کہ پاکستان کے قانونی ودستوری نظام میں اصولی اور مہلک خرابیاں پائی جاتی ہیں، لیکن پاکستان کی بہت سی دینی تحریکوں کے قائدین اور داعیان دین اس رائے سے اختلاف رکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک پاکستانی نظام اصولی اعتبار سے بالکل ٹھیک ہے اور تمام تر بگاڑ نظام پر قابض حکمران طبقے کا پیدا کردہ ہے۔ یہ لوگ پاکستان کے حالات سے زیادہ آگاہ ہیں اور اصلاح احوال کے طریقہ کار کو زیادہ بہتر طور پر جانتے ہیں ..... تو پھر مصنف ان سب حضرات کی رائے کو وزن کیوں نہیں دیتے اور اسے کیوں نہیں اپناتے؟‘‘ (ص ۱۸۱)
ظواہری اس سوال کے جواب میں دستور وقانون کی مذکورہ خرابیوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور اس کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ:
’’کتاب میں بیان کردہ موقف کا سب سے بڑا ثبوت خود پاکستان کی عملی صورت حال ہے۔ ایک فاسد دستوری وقانونی نظام پر قائم یہ ریاست اپنے قیام کے ساٹھ سال گزرنے کے بعد بھی بد سے بد تر کی طرف گام زن ہے۔ خائن ملت فوجی اور سیاسی قائدین یکے بعد دیگرے اسی بہانے کے ساتھ اقتدار پر قابض ہوتے رہے ہیں کہ وہ ملکی سیاست سے بد عنوانی ورشوت ستانی کا خاتمہ کرنے اٹھے ہیں، لیکن اقتدار سنبھالنے کے بعد ہر بار وہی مکروہ کھیل دہرایا جاتا ہے ..... یعنی پہلے سرکاری خزان سے بھاری رشوتیں دے دے کر سیاست دانوں کی وفاداریاں خریدی جاتی ہیں اور پھر ارکان پارلیمان کی غالب اکثریت کو اپنے ساتھ ملا کر ایک نئی آئینی ترمیم منظورکی جاتی ہے جس کے ذریعے حکمرانوں اور ان کے حاشیہ نشینوں کو ہر قسم کی عدالتی کارروائی اور جواب دہی سے تحفظ حاصل ہو جاتا ہے۔ یوں لوٹ مار اور فساد وبگاڑ کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جس کے خاتمے کے لیے جلد ہی کوئی دوسرا نجات دہندہ اٹھ کھڑا ہو جاتا ہے۔‘‘ (ص ۱۸۲)
لیکن بالبداہت واضح ہے کہ یہ اصل سوال کا جواب نہیں۔ سوال یہ تھا کہ اس سارے بگاڑ کی ذمہ داری حکمران طبقات پر عائد ہوتی ہے یا دستور پر؟ ظواہری کو جواب میں یہ بتانا چاہیے تھا کہ دستور کی فلاں فلاں شقیں ہیں جو حکمرانوں کے مذکورہ طرز عمل کو جواز یا تائید فراہم کرتی ہیں، جبکہ معمولی عقل رکھنے والا شخص بھی یہ سمجھ سکتاہے کہ ایسا نہیں ہے۔ ظواہری نے دستور میں جن خرابیوں کی نشان دہی کی ہے، ان کے اپنی جگہ قابل توجہ ہونے کے باوجود اس بگاڑ کے ساتھ ان کا براہ راست کوئی تعلق نہیں جس کی منظر کشی ظواہری نے کی ہے۔ ظواہری کے سارے زور بیان کے باوجود حقیقت حال یہی ہے کہ پاکستان میں اصل مسئلہ دستور یا آئین کا نقص نہیں، بلکہ قوم کا فکری ونظریاتی انتشار اور حکمران طبقات بلکہ تمام کے تمام طبقات کی غلط اور مفاد پرستانہ ترجیحات ہیں۔ ظواہری نے دستور میں جتنی خرابیوں کی نشان دہی کی ہے، اگر مقتدر طبقات کا فکری قبلہ درست ہو جائے تو ان خرابیوں کو درست کرنے کا داعیہ ازخود بیدار ہو جائے گا۔
ظواہری لکھتے ہیں:
’’دستور پاکستان کے مطالعہ سے مجھ پر یہ حقیقت بھی منکشف ہوئی کہ یہ دستور کچھ ایسے مکر وفریب کے انداز میں لکھا گیا ہے کہ مسلم عوام سے شریعت کے نفاذ کا وعدہ بھی ہو جائے ، لیکن وہ وعدہ کبھی وفا بھی نہ ہو سکے۔‘‘ (ص ۲۶)
ظواہری کی اس تنقید سے واضح ہے کہ وہ پاکستان میں دستوری اور قانونی سطح پر اسلامائزیشن کی پوری جدوجہد اور اس کے مختلف مراحل سے بالکل ناواقف ہیں۔ غالباً ان کا خیال یہ ہے کہ پاکستان بننے کے بعد اوپر بیٹھی ہوئی کسی طاقت نے عوام اور علما کو دھوکہ دینے کے لیے دستور میں کچھ اسلامی قسم کی باتیں اس انداز سے لکھ دی تھیں کہ لوگ مطمئن ہو جائیں کہ یہ ایک اسلامی مملکت ہے، لیکن عملاً اسلام نافذ نہ ہو سکے اور چونکہ دستور بنانے والوں کی نیت اور عزائم میں کھوٹ تھا، اس لیے دستور میں جان بوجھ کر ایسے نقائص رکھ دیے گئے جو اسے حقیقت کے اعتبار سے ایک ’کفریہ‘ دستور بنا دیتے ہیں۔ اب جو شخص بھی دستور کی اسلامائزیشن کی تاریخ سے واقف ہے، وہ سمجھ سکتا ہے کہ ظواہری کی اس تنقید کو (جو بالبداہت ایک سطحی اورجذباتی تنقید ہے) درست مانا جائے تو اس کی زد میں براہ راست پاکستان وہ چوٹی کی مذہبی قیادت آتی ہے جو دستور سازی کے مختلف مراحل میں شریک رہی اور ان کے اتفاق اور جدوجہد سے ہی پاکستان نے دستوری اعتبار سے ایک اسلامی مملکت کا تشخص حاصل کیا۔ یہی معاملہ قوانین کا ہے۔ ریاست پاکستان کو انگریزی دور کا قانونی ڈھانچہ وراثت میں ملا تھا اور علی الفور اس کی جگہ ایک متبادل قانونی ڈھانچہ کھڑا کر دینا نہ قابل عمل تھا اور نہ مطلوب، چنانچہ قوانین کی اصلاح کے لیے تدریج کا طریقہ اختیار کیا گیا اور مختلف مراحل پر بعض اہم شعبوں میں قوانین کی اسلامائزیشن کے میدان میں قابل لحاظ پیش رفت سامنے آئی۔ تاہم ظاہر ہے کہ اس سارے عمل میں بہت سے نقائص اب بھی موجود ہیں۔ اب اگر دستور اور قانون کی ساری غیر شرعی خامیوں پر ظواہری کی پوری تنقید کو من وعن درست مان لیا جائے تو بھی زیادہ سے زیادہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ مذہبی طبقے کی اب تک کی ساری جدوجہد کے باوجود دستور اور قانون میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو شریعت کے مکمل نفاذ کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ تنقید اس حد تک ہوتی تو وہ بجا بھی ہوتی اور اس کا وزن بھی محسوس کیا جاتا، لیکن ظواہری کا اصل مقصد چونکہ ریاست پاکستان کے خلاف خروج کا شرعی جواز ثابت کرنا ہے، اس لیے وہ مجبور ہیں کہ نہ صرف دستور کو سرے سے ایک ’کفریہ‘ دستور قرار دے دیں بلکہ اس کی ترتیب وتدوین میں شریک اعلیٰ ترین مذہبی قیادت کے خلوص اور نیک نیتی پر بھی حملہ آور ہوں اور دستور کی اسلامائزیشن کی اس ساری جدوجہد پر دھوکے او ر فریب کا لیبل چسپاں کر دیں۔
ظواہری نے افغانستان پر امریکی حملے کے حوالے سے پاکستان کی ریاستی پالیسی اور خاص طور پر پاکستانی فوج کے کردار کا بھی بالکل یک رخا اور نہایت جانب دارانہ تجزیہ کیا ہے اور چونکہ وہ ایک غیر جانب دار مبصر کی حیثیت سے نہیں، بلکہ جنگ کے ایک فریق کی حیثیت سے اپنا موقف بیان کر رہے ہیں، اس لیے ظاہر ہے کہ انھیں ایسا ہی کرنا چاہیے۔ تاہم یہ ساری صورت حال پیدا کرنے کی بنیادی ذمہ داری خود القاعدہ پر بھی عائد ہوتی ہے۔ اس ضمن میں القاعدہ کے کردار پر جو سوالات کسی بھی سوچنے سمجھنے والے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں، ظواہری نے ان سے کوئی تعرض نہیں کیا۔ مثلاً ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ امریکا کو کس کی ’حرکتوں‘ نے افغانستان میں آنے کی دعوت دی اور وہ اقدامات جن کو جواز بنا کر اس نے افغانستان پر حملہ کیا، ان کا ذمہ دار کون تھا؟ آخر شریعت اور فقہ کا یا عمومی اخلاقیات کا کون سا اصول بن لادن اور ظواہری کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ افغانستان میں بیٹھ کر وہاں کی اسلامی حکومت کی اجازت کے بغیر امریکہ پر حملوں کی منصوبہ بندی کریں جس کے نتیجے میں اپنے ان کرم فرما مہمانوں کی میزبانی کرتے ہوئے طالبان کو اپنا اقتدار قربان کرنا پڑے، پھر یہ حضرات وہاں سے بھاگ کر پاکستان کے علاقے میں پناہ لے لیں اور پاکستانی سرزمین کو اس جنگ میں استعمال کر کے ریاست پاکستان کو بھی اس مشکل سے دوچار کر دیں کہ وہ یا تو اپنی سرزمین پر امریکہ کے براہ راست حملے کا خطرہ مول لے اور یا پھر اس جنگ میں اپنی سرزمین کے استعمال کو (دنیا کی نظروں میں ہی سہی) روکنے کے لیے اپنے ہی باشندوں کے خلاف عسکری کارروائی کرے؟ جنگ کے ایک فریق، بلکہ لڑائی کا شیرہ لگانے والے کی حیثیت سے ظواہری کے لیے یہ الزام لگانا بہت آسان بھی ہے اور ان کے مفاد کا تقاضا بھی کہ پاکستانی فوج اس ’’صلیبی جنگ‘‘ میں مکمل طور پر امریکا کی آلہ کار بن چکی ہے، لیکن حالات وواقعات پر نظر رکھنے والے کوئی بھی غیر جانب دار مبصر اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کر سکتا کہ پاکستانی فوج نے امریکا کو لاجسٹک سپورٹ دینے یا قبائلی علاقوں کے آپریشن میں سے کوئی بھی فیصلہ خوش دلی اور آزادانہ اختیار کے ساتھ نہیں کیا۔ ان فیصلوں کی غلطی کتنی ہی سنگین اور نتائج کے لحاظ سے کتنی ہی تباہ کن کیوں نہ ہو، عملی محرکات کے لحاظ سے یہ صرف اور صرف حالات کے جبر کے تحت کیے گئے فیصلے تھے جس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ ہماری خفیہ ایجنسیاں شروع سے اب تک کسی نہ کسی انداز میں افغانستان میں جا کر طالبان کی حمایت میں لڑنے والوں کو سہولیات فراہم کر رہی ہے اور ایسے بہت سے قبائل کے ساتھ جو افغانستان کی جنگ میں عملاً شریک ہیں لیکن ریاست پاکستان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتے، فوج اور ریاست کے دوستانہ تعلقات قائم ہیں۔ پاکستان کی ریاستی وعسکری پالیسی کے نقائص اپنی جگہ ناقدانہ تجزیے کے مستحق ہیں اور خاص طور پر ان میں پایا جانے والا دوغلا پن اور جنگی اخلاقیات کی پامالی کسی بھی لحاظ سے تائید کی مستحق نہیں، لیکن ظواہری کو پاکستانی ریاست اور فوج کے کردار پر انگلی اٹھانے سے پہلے خود اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ انھوں نے نائن الیون جیسا تباہ کن اقدام کر کے دو مسلمان ملکوں کی ریاست، فوج اور عوام کو کشت وخون کی جس دلدل میں لا پھنسایا ہے، اس پر اسلام اور مسلمان دوستی کا آخر کون سا تمغہ ان کے سینے پر سجایا جائے؟
القاعدہ اور اس قبیل کے عناصر کی اب تک کی ساری جہد وکاوش کا خلاصہ یہی ہے کہ وہ مسلم معاشرے کی تائید اور ہمدردی حاصل کرنے کے لیے نعرہ تو بلند کرتے ہیں اسلام دشمن طاقتوں کے مقابلے کا، لیکن حکمت عملی ایسی اختیار کرتے ہیں کہ ان کی سرگرمیوں، جدوجہد اور تباہ کاریوں کا سارا رخ خود مسلم معاشروں کے داخلی نظام اور ڈھانچے کی طرف ہو جاتا ہے۔ پھر جب ایک طرف امت کی مشکلات کے حل میں کوئی کامیابی نہیں ہوتی اور دوسری طرف خود مسلم معاشرے بھی اس طرز فکر کو عمومی تائید فراہم نہیں کرتے تو اس سے ایک نفسیاتی فرسٹریشن پیدا ہوتی ہے جس کا اظہار مسلم حکمرانوں اور بارسوخ فکری طبقات کی تکفیر اور عام مسلمانوں کی کم سے کم تفسیق اور تنفیق کے فتووں کی صورت میں اور جہاں موقع ملے، ان کے خلاف مسلح جدوجہد کی شکل میں ہوتا ہے۔ جذباتی لفاظی اور الفاظ کی ملمع سازی سے صرف نظر کر لیا جائے تو القاعدہ کا اب تک کا نامہ اعمال اس کے سوا کچھ نہیں کہ اس نے ’’جہاد‘‘ کے نام پر نائن الیون اور سیون سیون جیسے غیر شرعی کارنامے انجام دیے جس کے نتیجے میں پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کی نہایت منفی تصویر ابھری اور امریکہ کو وار آن ٹیرر کے نام سے افغانستان اور عراق پر حملے کرنے کا موقع ملا۔ اسی کے براہ راست نتیجے کے طور پر افغانستان کی امارت اسلامیہ کا سقوط ہوا اور پھر افغانستان میں گھیرا تنگ ہونے پر ان عناصر نے پاکستان کے قبائلی علاقہ جات میں آ پناہ لی۔ یوں اپنے وجود اور حرکتوں سے اس علاقے کے مسلمانوں کو بھی شدید مشکلات ومصائب کا نشانہ بنا دیا۔ اور اب امت مسلمہ کے مفاد میں یہ ساری ’’خدمات‘‘ انجام دینے کے بعد ان کی نظر کرم پاکستان پر ہے اور وہ یہاں کے عوام اور اہل علم کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ وہ پاکستان کے امن و امان اور ریاستی وحکومتی ڈھانچے کو تباہ کرنے کے اس ’’کار خیر‘‘ میں ان کا ہاتھ بٹائیں تاکہ عراق اور افغانستان کی طرح امریکہ اور عالمی طاقتوں کو یہاں بھی گھس آنے کا موقع ملے اور یوں ’’مجاہدین‘‘ امت مسلمہ کی سربلندی کا ایک اور کارنامہ اپنے نامہ اعمال میں درج کرا سکیں۔
یہ طرز فکر اور حکمت عملی دراصل ایک خاص ذہنی رویے کی پیداوار ہے اور وہ یہ ہے کہ ہماری غیرت وحمیت نے اسلام کا بول بالا کرنے کے لیے جو حکمت عملی ہمیں سجھا دی ہے، وہ باقی ہر چیز سے زیادہ قیمتی اور خطا کے امکان سے کلیتاً مبرا ہے ۔ چنانچہ اگر طالبان کی حکومت کو اس کی بھینٹ چڑھایا جا سکتا ہے جو دنیا کی واحد حکومت تھی جس نے ساری دنیا کی مخالفت مول لے کر القاعدہ کی قیادت کو اپنا مہمان بنا رکھا تھا تو پاکستان کے دستور کے اسلامی تشخص کی بیک قلم نفی کر دینا کیا معنی رکھتا ہے، بھلے پاکستان کی مذہبی قیادت ساٹھ سال سے اسے قائم رکھنے کے لیے مسلسل اور ان تھک جدوجہد کر رہی ہو اور چاہے اسے پاکستان میں مذہبی طبقات کی سیاسی جدوجہد کے تنہا حاصل کی حیثیت حاصل ہو۔ کسی فر د یا گروہ نے عملاً کسی میدان میں جدوجہد کر کے کوئی مقصد حاصل نہ کیا ہو تو اسے اس کی واقعی قدر و قیمت کا احساس نہ ہونا ایک قابل فہم بات ہے، لیکن القاعدہ کی ذہنی کیفیت ’عدم احساس‘ سے کہیں آگے بڑھی ہوئی ہے اور وہ دوسرے مذہبی طبقات کی محنت اور جدوجہد کے ہر اس حاصل کو قربانی کی بھینٹ چڑھا دینے کو عین دین و شریعت کا تقاضا تصور کرتی ہے جو اس کی حکمت عملی سے ہم آہنگ نہ ہو۔
ظواہری کے بعض جملوں سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ان کا ذہن اس پہلو کی طرف کم از کم متوجہ ضرور ہو سکتا ہے ۔ چنانچہ پاکستان کو ایک کفریہ ریاست قرار دینے کے ضمن میں اپنے موقف پر، جو یہاں کے جمہور اہل علم سے مختلف ہے، انھوں نے خود یہ سوال اٹھایا ہے کہ:
’’مصنف ان سب حضرات کی رائے کو وزن کیوں نہیں دیتے اور اسے کیوں نہیں اپناتے؟ خصوصاً جبکہ پاکستانی نظام کو غیر شرعی قرار دینے کے نتیجے میں تشدد، تصادم اور فتنوں کی آگ بھڑک اٹھنے کا امکان ہے جس سے تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں حاصل ہوگا۔‘‘ (ص ۱۸۱)
تاہم سوال اٹھانے کے بعد وہ اس خاص پہلو کا براہ راست کوئی جواب نہیں دیتے اور ہمارے خیال میں خود سوال اٹھا کر جواب میں خاموشی اختیار کر لینا بڑا معنی خیز ہے بلکہ بجائے خود ایک واضح جواب کا درجہ رکھتا ہے۔ گویا وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کے فلسفے کے مطابق تو ’’تشدد، تصادم اور فتنوں کی آگ بھڑک اٹھنے‘‘ میں ہی امت کی نجات پوشیدہ ہے اور اس سے ’’تباہی وبربادی کے سوا‘‘ بھلے کچھ حاصل نہ ہو، ’’فریضہ جہاد‘‘ کا احیا تو بہرحال ہو ہی جائے گا! اس ذہنی رویے پر ان کی خدمت میں اس کے سوا کیا عرض کیا جا سکتا ہے کہ
ہوئے تم دوست جس کے، دشمن اس کا آسماں کیوں ہو!
Similar topics
» [solved]تھری جی اور فور جی ٹیکنالوجی کیا ہے، موبائل جنریشنز کا ایک جائزہ
» پاکستان کا ائی ایس پی یار
» پاکستان میں امریکی سرگرمیاں
» ترکی اور پاکستان موازنہ
» پاکستان اور بنگلہ دیش کے خلاف
» پاکستان کا ائی ایس پی یار
» پاکستان میں امریکی سرگرمیاں
» ترکی اور پاکستان موازنہ
» پاکستان اور بنگلہ دیش کے خلاف
Page 1 of 1
Permissions in this forum:
You cannot reply to topics in this forum
Tue Feb 04, 2020 6:49 pm by munsab
» گوگل کرُوم
Tue Dec 03, 2019 8:35 pm by Munsab Ali
» فوٹو شاپ
Tue Dec 03, 2019 8:33 pm by Munsab Ali
» شمشیر بے نیام قسط نمبر 2
Sat Nov 30, 2019 11:25 pm by Munsab Ali
» شمشیر بے نیام قسط نمبر 1
Sat Nov 30, 2019 9:56 pm by Munsab Ali
» متنازع سائبر کرائم بل 2015 متفقہ طور پر منظور کرلیا۔ -
Wed Jul 27, 2016 11:54 am by Munsab Ali
» All in One
Fri Dec 25, 2015 10:23 pm by RASHID KHAN
» Best Action Movies 2015 English Hollywood - TOM CRUISE - New Adventure Movies 2015
Thu Dec 10, 2015 2:05 pm by Munsab Ali
» Shinobido - Ninja
Thu Dec 10, 2015 1:53 pm by Munsab Ali